قرائت حفص از عاصم
قَرائت حَفصْ از عاصِمْ قراء سبعہ میں سے عاصم بن ابیالنَجود کوفی کی قرائت کے بارے میں مشہور روایت ہے جسے عاصم کے شاگرد حفص بن سلیمان اسدی نے نقل کیا ہے۔ ابوبکر بن عیاش جیسے قاری نے بھی عاصم کی قرائت کو روایت کیا ہے؛ لیکن حفص کی روایت زیادہ مشہور ہے۔ حفص کی روایت ان کی فصاحت اور بلاغت نیز عاصم کی قرائت سے اختلاف کم ہونے کی وجہ سے مورد قبول واقع ہوئی ہے اور اس وقت تقریبا 95 اسلامی ممالک میں یہی قرائت رائج ہے۔
قرائت کے ماہرین، عاصم کی قرائت کے بارے میں حفص کی روایت اور اس کی سند کا رسول اللہؐ سے متصل ہونے کو صحیح قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عاصم نے اپنی قرائت کو ایک ہی واسطہ یعنی ابوعبدالرحمن سُلَّمی سے امام علیؑ سے نقل کیا ہے۔ عاصم کو ایک متقی پرہیزگار اور قابل اطمینان شخص سمجھتے ہیں اور ان کی قرائت کو سب سے بہتر قرائت قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح حفص عاصم کے شاگردوں میں ان کی قرائت کے حوالے سے سب سے زیادہ دانا اور عالم جانتے ہیں اور قرائت میں مورد اطمینان اور دقیق سمجھتے ہیں۔ ابو عبدالرحمن سُلَّمی کو بھی قابل اطمینان اور «عظیمالشّأن» فرد قرار دیا گیا ہے۔
عاصم کی قرائت کے بارے میں حفص کی روایت کب اسلامی ممالک میں مشہور ہوئی اس بارے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے: محمد ہادی معرفت اس قرائت کو ابتدا ہی سے رائج شدہ قرائت سمجھتے ہیں جو سب کے لئے قابل قبول تھی۔ بعض کا کہنا ہے کہ عاصم کی قرائت دسویں صدی ہجری میں عثمانی حکومت میں رائج ہوئی ہے۔
اہمیت
قرائت حفص از عاصم وہ روایت ہے جسے حفص بن سلیمان اسدی نے اپنے استاد عاصم بن ابیالنجود کوفی سے روایت کی ہے جو قرآن کے مشہور قراء سبعہ میں سے ایک تھے۔[1] اس قرائت کو متواتر قرائتوں میں سے قرار دیا گیا ہے جسے تمام مسلمان قبول کرتے ہیں۔[2] موصل یونیورسٹی میں قرائت کے محقق اور استاد محمد اسماعیل محمد المشہدانی کا کہنا ہے کہ آج کل تقریبا اسلامی ممالک میں سے 95 فیصد ممالک میں حفص کی عاصم سے روایت شدہ قرائت رائج ہے اور 5 فیصد ممالک میں دیگر قراء سبعہ کی قرائت رائج ہے۔[3]
البتہ بہت ساروں نے عاصم کی قرائت کو بالواسطہ یا بلاواسطہ روایت کیا ہے؛[4] لیکن حفص کی روایت اور ابوبکر بن عیاش کی روایت زیادہ مشہور ہیں۔[5]
قرائت حفص از عاصم کی سند
قرائت کے ماہرین، عاصم کی قرائت کے بارے میں حفص کی روایت اور اس کی سند کا رسول اللہؐ سے متصل ہونے کو صحیح قرار دیتے ہیں۔[6] کیونکہ عاصم نے اپنی قرائت ابوعبدالرحمن سُلَّمی سے اور اس نے امام علیؑ سے اخذ کیا ہے اور امام علیؑ نے پیغمبر اکرمؐ سے نقل کیا ہے۔ اسی طرح عاصم نے اس روایت کو زَر بن حَبیش سے انہوں نے عبداللہ بن مسعود سے اور انہوں نے رسول اللہؐ سے دریافت کیا ہے۔[7] دوسری طرف اس قرائت کو عاصم کے سب سے عالم اور دانا شاگرد نے ان سے نقل کیا ہے۔[8]
قرآنیات کے ماہر اور شیعہ فقیہ محمد ہادی معرفت (متوفی2006ء) کا کہنا ہے کہ مختلف قرائتوں میں صرف عاصم کی قرائت کے بارے میں حفص کی روایت صحیح السند ہے اور شروع سے ہی مسلمان اسی قرائت کو مانتے تھے۔ اور کئی صدیوں سے اب تک نسل در نسل مسلمانوں میں یہی قرائت رائج رہی ہے۔[9]
ابنندیم کا کہنا ہے کہ عاصم نے اپنی قرائت کو ابوعبدالرحمن سُلَّمی اور زَر بن حَبیش سے سیکھا ہے؛[10] لیکن عاصم کی قرائت کے دوسرے روای ابوبکر بن عیاش کا کہنا ہے کہ: «عاصم نے مجھ سے کہا: ابو عبد الرحمن سلمی کے علاوہ کسی اور نے مجھے قرآن نہیں سکھایا ہے اور جب میں ان کے ہاں سے واپس آتا تھا تو زر بن حبیش کو پیش کرتا تھا»۔[11]
لیکن سُلَّمی نے قرآن کو کس صحابی سے دریافت کیا ہے اس بارے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے:[12] بعض کا کہنا ہے کہ انہوں نے قرآن مجید امام علیؑ، عثمان اور عبداللہ بن مسعود سے سیکھا ہے۔[13] بعض کا کہنا ہے کہ امام علیؑ سے قرآن سیکھا اور عثمان کو پیش کیا ہے۔[14] اسی طرح بعض کا کہنا ہے کہ عثمان سے سیکھا ہے اور امام علیؑ سے تائید کروائی ہے۔[15] محمدہادی معرفت ذہبی سے نقل کرتے ہیں کہ سُلَّمی نے قرآن عبداللہ بن مسعود سے سیکھا اور امام علیؑ سے تائید کروائی۔[16] بعض کا کہنا ہے کہ انہوں نے امام علیؑ سے سیکھا اور امام سے ہی تائید کروائی۔[17]
قرائت حفص از عاصم کا رائج ہونا
عاصم کی قرائت کا حفص کی روایت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عثمانی حکومت نے دسویں صدی ہجری میں اسی قرائت کے مطابق قرآن کو چھاپا اور نشر کیا گیا۔ اسی وجہ سے اسلامی معاشروں میں رائج اور ثابت ہوا۔[18] مصر کے ماہر قرائت شناسی علی محمد الضباع (درگذشت: 1380ق) لکھتے ہیں کہ حفص کی روایت کے مطابق عاصم کی قرائت کو اسلامی ممالک میں ماننا دسویں صدی ہجری کے اواسط سے شروع کیا ہے۔[19]
راویوں کی معرف
ابوعبدالرحمن سُلَّمی: کوفہ کے تابعین اور قاریوں میں سے ایک تھے جنہوں نے رسول اللہ کے بعض اصحاب سے قرآن سیکھا ہے۔[20] علماء رجال ابو عبدالرحمن سُلَّمی کو ثقہ اور «عظیمالشأن» قرار دیتے ہیں۔[21]
زَر بن حَبیش: یہ وہ شخص ہے جس کے بارے میں ابن ندیم کا کہنا ہے کہ عاصم نے اپنی قرائت ان کو سنایا۔[22] آپ کوفہ کے تابعین اور تیسرے درجے کے قاریوں میں سے ہیں۔[23] آپ نے عبداللہ بن مسعود سے قرائت سیکھی[24] ایک اور نقل کے مطابق آپ نے امام علیؑ اور عبداللہ بن مسعود سے سیکھی۔[25]
عاصم بن بَہْدَلہ ابیالنَّجُود: قراء سبعہ میں سے ایک قاری ہیں جن کا تعلق کوفہ سے ہے۔[26] علماء رجال میں سے بہت سارے عاصم کو ثقہ اور متقی[27] اور ان کی قرائت کو سب سے فصیح قرائت[28] سمجھتے ہیں۔ بعض سے منقول ہے کہ عاصم قرائت کو حفظ کرنے میں دقیق اور محتاط تھے۔[29]
حَفْص بن سلیمان: آپ کوفہ کے ہیں اور عاصم کے بیٹے۔ آپ نے اپنے باپ سے قرآئت قرآن سیکھا اور متعدد مرتبہ ان کی تائید لی اور اسلامی ممالک من جملہ بغداد اور مکہ میں نشر کیا۔[30] بعض قرائت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حفص عاصم کے شاگردوں میں سب سے زیادہ دانا اور عالم تھے۔[31] بہت سارے رجال کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حفص قرائت میں ثقہ اور قرائت کے حفظ اور ضبط کرنظ میں دقیق اور قابل اطمینان تھے۔[32]
قرائت حفص اور قرائت عاصم کے مابین فرق
کہا جاتا ہے کہ حفص کی قرائت صرف ایک مورد میں عاصم کی قرائت سے مختلف ہے اور وہ سورہ روم کی آیت 54 میں «ضعف» کا لفظ ہے عاصم نے اسے «ض» کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے جبکہ حفص نے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔[33] جبکہ حفص کی قرائت اور ابوبکر بن عیاش کی قرائت میں 500 سے زیادہ فرق پائے جاتے ہیں جبکہ ابوبکر نے بھی عاصم سے ہی روایت کی ہے اور انہی کو پیش بھی کیا ہے۔[34] ان کے مابین فرق کے بارے میں کہا گیا ہے کہ عاصم نے ایک قرائت زر بن حبیش سے سیکھا تھا جنہوں نے عبداللہ بن مسعود سے دریافت کیا تھا اسے ابن عیاش کو سکھایا ہے۔[35]
خصوصیات
روایت حفص کے مطابق عاصم کی قرائت کی بعض خصوصیات اور اصول درج ذیل ہیں:
- عاصم سورہ اَنفال اور سورہ توبہ کے مابین فاصلے کے علاوہ باقی تمام سورتوں میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو دو سورتوں کے درمیان؛ یعنی ہر سورت کے آخر اور بعد والی سورت کے ابتدا میں تلاوت کرتے تھے۔[36] ان جیسے موارد میں ان کی قرائت میں تین طرح سے وقف، وصل و سَکْت (الفاظ کے مابین مختصر ٹھہراؤ) نقل ہوئے ہیں.[37]
- پورے قرآن مجید میں قرائت حفص از عاصم کے مطابق صرف چہار جگہوں پر سَکْت روایت ہوا ہے جن میں
سورہ کہف کی پہلی آیت کا آخری لفظ (عِوَجا) اور اسی سورت کی دوسری آیت کا پہلا لفظ (قَیماً) کے مابین، سورہ یس کی آیت 52 میں «مَرقَدِنا» اور «ھذا» کے درمیان سورہ قیامت کی 27ویں آیت میں «مَنْ» اور «رَاقٍ» کے درمیان، سورہ مطففین کی 14ویں آیت میں «بَلْ» اور «رَانَ» کے درمیان سکت روایت ہوا ہے۔[38] [یادداشت 1]
- عاصم کی قرائت میں صرف ایک مورد میں اِمالہ (فتحہ کو کسرہ کی طرف اور الف کو یاء کی طرف میل دیا جاتا ہے تاکہ آسانی سے تلفظ ہوسکے) پایا جاتا ہے۔ وہ سورہ ہود کی آیت 41 میں «مَجْراھا» میں «راء» ہے جسے کسرہ کی صورت میں پڑھا جاتا ہے۔[39]
- عاصم کی قرائت کے مطابق قرآن میں موجود تمام ہمزہ «تحقیق» کے ساتھ قرائت ہوئے ہیں؛[40] «تحقیق ہمزہ» علم تجوید میں اس کا معنی یہ ہے کہ ہمزہ کو تمام صفات کے ساتھ اپنے مخرج سے ادا کرنا ہے۔[41] صرف «کُفُواً» اور «ھُزُواً» کے لفظ اس قاعدے سے استثنا ہیں۔[42] سورہ فُصِّلت کی 44ویں آیت میں «ءأعجَمیٌ» کے لفظ میں دو ہمزہ ایک ساتھ آئے ہیں اور قرائت میں آسانی کے لئے دوسرا ہمزہ آسانی اور تسہیل سے پڑھا جاتا ہے؛ یعنی نرمی سے اور ہمزہ اور الف کے مابین کی آواز نکالنی ہوتی ہے۔[43]
- عاصم کی قرائت کے طریقہ کار کو آرام اور پے درپے اور خوش الحان پڑھنا قرار دیا گیا ہے۔[44]
مونوگراف
عاصم کی قرائت بروایت حفص کے متعلق بعض کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
نوٹ
- ↑ الفاظ کے مابین سکت یا مختصر وقف اس صورت میں ضروری ہوتا ہے کہ دو الفاظ کو آپس میں ملانے سے جملے کا معنی تبدیل ہوجاتا ہے اور ایک غلط معنی سمجھ میں آتا ہے (جمعی از نویسندگان، فرہنگنامہ علوم قرآنی، 1394شمسی، ص587). مثلاً سورہ مطففین کی 14ویں آیت میں «بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِھم مَّا کَانوا یَکْسَبون[؟–؟]؛ بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زَنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کرتے ہیں۔»، قاعدے کے مطابق، حرف «لام» ساکن ہے اور «راء» ادغام ہونا چاہئے؛ اگر «بلْ» اور «رَانَ» کے درمیان سکت نہ ہو تو دونوں الفاظ ادغام ہو کر «بَرّانَ» بن جائے گا جس سے آیت کے معنی میں تبدیلی آئے گی۔ (روحانی اصفہانی، تجوید قرآن و اختلاف قرائات در نظم شاطبیہ، 1396شمسی، ص43).
حوالہ جات
- ↑ ذہبی، معرفۃ القراء الکبار، 1417ھ، ص53؛ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص195.
- ↑ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص246؛ باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ھ، ص81.
- ↑ اسماعیل محمد المشہدانی، القیمۃ الدلالیۃ لقرائۃ عاصم بروایۃ حفص، 1430ھ، ص26.
- ↑ جمعی از نویسندگان، فرہنگنامہ علوم قرآنی، 1394شمسی، ص794.
- ↑ شاطبی، متن الشاطبیۃ، 1431ھ، ص3.
- ↑ ابنجزری، النشر فی القرائات، دار الکتب العلمیۃ، ج1، ص156؛ باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ھ، ص85.
- ↑ ذہبی، معرفۃ القراء الکبار، 1417ھ، ص54؛ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص248؛ باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ھ، ص85.
- ↑ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص246؛ باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ھ، ص84-85.
- ↑ معرفت، علوم قرآنی، 1381شمسی، ص235.
- ↑ ابنندیم، الفہرست، 1417ھ، ص47.
- ↑ معرفت، التمہید من علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص246.
- ↑ ملاحظہ کریں: ذہبی، معرفہ القراء الکبار، 1417ھ، ج1، ص27؛ ابنشہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ھ، ج2، ص43؛ ابنجزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص413؛ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص189.
- ↑ ذہبی، معرفہ القراء الکبار، 1417ھ، ج1، ص27.
- ↑ ذہبی، معرفہ القراء الکبار، 1417ھ، ج1، ص27.
- ↑ ابنجزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص413.
- ↑ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص189.
- ↑ ملاحظہ کریں: ابنشہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ھ، ج2، ص43؛ ضباع، الإضائۃ فی بیان اصول القرائۃ، 1420ھ، ص72؛ جمل، المغنی فی علم التجوید بروایۃ حفص عن عاصم، مکتبۃ سمیر منصور، ص46.
- ↑ مفلح القضاۃ و دیگران، مقدمات فی علم القرائات، 1422ھ، ص63؛ جمل، المغنی فی علم التجوید بروایۃ حفص عن العاصم، مکتبۃ سمیر منصور، ص32.
- ↑ ضباع، الإضائۃ فی بیان اصول القرائۃ، 1420ھ، ص72.
- ↑ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص189.
- ↑ ملاحظہ کریں: ذہبی، معرفہ القراء الکبار، 1417ھ، ج1، ص30؛ ابنجزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص414.
- ↑ ابنندیم، الفہرست، 1417ھ، ص47.
- ↑ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص190.
- ↑ ابنمجاہد، السبعۃ فی القرائات، 1400ھ، ص70.
- ↑ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص190.
- ↑ ابنجزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص346؛ خویی، معجم رجال الحدیث، مؤسسۃ الامام الخوئی الاسلامیۃ، ج10، ص195.
- ↑ ملاحظہ کریں: ذہبی، میزان الاعتدال، 1382ھ، ج2، ص357-358؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1427ھ، ج1، ص153؛ ابنجزری، النشر فی القرائات العشر، دار الکتب العلمیۃ، ج1، ص155؛ الدانی، جامع البیان فی القرائات السبع، 1428ھ، ج1، ص196؛ خوانساری، روضات الجنات، 1390شمسی، ج5، ص4.
- ↑ ملاحظہ کریں: ذہبی، معرفۃ القراء الکبار علی الطبقات و الاعصار، 1417ھ، ج1، ص52؛ ابنجزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص347؛ ابنجزری، النشر فی القرائات العشر، دار الکتب العلمیۃ، ج1، ص155؛ الدانی، جامع البیان فی القرائات السبع، 1428ھ، ج1، ص195؛ خوانساری، روضات الجنات، 1390شمسی، ج5، ص4.
- ↑ ملاحظہ کریں: معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص246؛ ابنجزری، النشر فی القرائات العشر، دار الکتب العلمیۃ، ج1، ص155.
- ↑ ابنجزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص254؛ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص248.
- ↑ ابنجزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص254؛ ابنجزری، النشر فی القرائات العشر، دار الکتب العلمیۃ، ج1، ص156؛ معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص248.
- ↑ ملاحظہ کریں: معرفت، التمہید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص248؛ ذہبی، میزان الاعتدال، 1382ھ، ج1، ص558؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج9، ص64.
- ↑ ابنمجاہد، السبعہ في القراءات، 1400ھ، ص96.
- ↑ ابنجزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص254.
- ↑ ابنجزری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص254.
- ↑ باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ھ، ص86.
- ↑ جمعی از نویسندگان، فرہنگنامہ علوم قرآنی، 1394شمسی، ص795.
- ↑ باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ھ، ص88.
- ↑ باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ھ، ص88.
- ↑ جمعی از نویسندگان، فرہنگنامہ علوم قرآنی، 1394شمسی، ص795.
- ↑ ستودہنیا، دانش تجوید (سطح 2)، 1396شمسی، ص149.
- ↑ جمعی از نویسندگان، فرہنگنامہ علوم قرآنی، 1394شمسی، ص795.
- ↑ ضباع، الإضائۃ فی بیان اصول القرائۃ، 1420ھ، ص74؛ مرصفی، ہدایۃ القاری الی تجوید کلام الباری، مکتبۃ طیبۃ، ج2، ص579.
- ↑ جمعی از نویسندگان، فرہنگنامہ علوم قرآنی، 1394شمسی، ص795.
- ↑ خدایی اصفہانی، اہمیت قرائت عاصم بہ روایت حفص، 1378شمسی، ص115.
- ↑ باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، 1425ھ، ص14-15.
- ↑ اسماعیل محمد، القیمۃ الدلالیۃ لقرائۃ عاصم بروایۃ حفص، 1430ھ، ص19.
مآخذ
- ابنشہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، قم، انتشارات علامہ، چاپ اول، 1379ھ۔
- ابنمجاہد، احمد بن موسی، السبعۃ فی القرائات، مصر، دار المعارف، چاپ دوم، 1400ھ۔
- ابنندیم، ابوالفرج محمد بن اسحاق، الفہرست، بیروت، دار المعرفۃ، 1417ھ۔
- ابنجزری، محمد بن محمد، النشر فی القرائات العشر، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، بیتا.
- ابنجزری، محمد بن محمد، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، بیجا، مكتبۃ ابنتیمیۃ، 1351ھ۔
- اسماعیل محمد المشہدانی، محمد، القیمۃ الدلالیۃ لقرائۃ عاصم بروایۃ حفص، عراق، مرکز البحوث و الدراسات الاسلامیۃ، چاپ اول، 1430ھ۔
- الدانی، عثمان بن سعید، جامع البیان فی القرائات السبع، امارات، جامعۃ الشارقۃ، 1428ھ۔
- باز، محمد بن عباس، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایۃ حفص، مصر، دار الکلمۃ، 1425ھ۔
- جمعی از نویسندگان، فرہنگنامہ علوم قرآنی، قم، پژوہشگاہ فرہنگ و علوم اسلامی، 1394ہجری شمسی.
- جمل، عبدالرحمن یوسف، المغنی فی علم التجوید بروایۃ حفص عن العاصم، غزہ، مکتبۃ سمیر منصور، بیتا.
- خدایی اصفہانی، اکرم، اہمیت قرائت عاصم بہ روایت حفص، تہران، نشر رایزن، 1378ہجری شمسی.
- خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، بیروت، دار الكتب العلمیۃ، 1417ھ۔
- خوانساری، محمدباقر، روضات الجنات، قم، انتشارات اسماعیلیان، 1390ہجری شمسی.
- خویی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، نجف، مؤسسۃ الامام الخوئی الاسلامیۃ، بیتا.
- ذہبی، شمس الدین ابو عبداللہ، سیر اعلام النبلاء، بیجا، مؤسسۃ الرسالۃ، 1405ھ۔
- ذہبی، شمس الدین ابو عبداللہ، معرفۃ القراء الکبار علی الطبقات و الاعصار، بیروت، دار الكتب العلمیۃ، 1417ھ۔
- ذہبی، شمس الدین ابو عبداللہ، میزان الاعتدال، بیروت، دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر، چاپ اول، 1382ھ۔
- روحانی اصفہانی، سیدہاشم، تجوید قرآن و اختلاف قرائات در نظم شاطبیہ، تہران، انتشارات اسوہ، 1396ہجری شمسی.
- ستودہنیا، محمدرضا، دانش تجوید (سطح2)، قم، انتشارات دار العلم، 1396ہجری شمسی.
- شاطبی، ابومحمد قاسم بن فیرۃ، متن الشاطبیۃ، مدینہ، مکتبۃ دار الہدی، 1431ھ۔
- ضباع، محمدعلی، الإضائۃ فی بیان اصول القرائۃ، قاہرہ، المکتبۃ الازہریۃ للتراث، 1420ھ۔
- مرصفی، عبدالفتاح، ہدایۃ القاری الی تجوید کلام الباری، مدینہ، مکتبۃ طیبۃ، چاپ دوم، بیتا.
- معرفت، محمدہادی، التمہید فی علوم القرآن، قم، مؤسسہ فرہنگی انتشاراتی التمہید، 1428ھ۔
- معرفت، محمدہادی، علوم قرآنی، قم، مؤسسہ فرہنگی انتشاراتی التمہید، چاپ چہارم، 1381ہجری شمسی.
- مفلح القضاۃ، احمد محمد و دیگران، مقدمات فی علم القرائات، عمان، دار عمار، 1422ھ۔