حفص بن سلیمان اسدی

ویکی شیعہ سے
حَفْص بن سلیمان اسدی
کوائف
نامحَفْص بن سلیمان بن مغیره اسدی
مشہور اقاربعاصم بن ابی النجود کوفی
علمی معلومات
دیگر معلومات
تخصصعالمِ قرائت قرآن
پیشہپارچہ فروش


حَفْص بن سلیمان بن مغیره اسدی (90–180ھ)، حفص کے نام سے مشہور قاری قرآن اور فن روایاتِ قراءت میں معروف شخصیت تھے۔ فنِ قرائت قرآن کے سات روایتی طریقوں میں سے ایک طریقہ «حفص عن عاصم» کی نشر و اشاعت کرنے والے تھے۔ انہوں نے فن قرائت عاصم سے سیکھا۔ بعض نے انہیں علم قرائت میں اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم اور ماہر جانا ہے۔ حفص بن سلیمان نے حضرت امام علیؑ سے منسوب طریقہ قرائت کو کوفہ، بغداد اور مکہ میں عام کیا. آج کل اکثر اسلامی ممالک میں قرائت حفص عن عاصم کے مطابق قرآن مجید کی کتابت اور اس کی تلاوت رائج ہے۔

شیخ طوسی نے حفص کو امام جعفر صادقؑ کے اصحاب کی فہرست میں ذکر کیا ہے۔ سوانح نگاروں نے حفص کو علم قرائت میں منزلت و مقام حاصل ہونے کے باوجود انہیں متروک الحدیث اور ضعیف قرار دیا ہے۔ بعض محققین کی تحقیق کے مطابق حفص بن سلیمان کو روایت نقل کرنے کے سلسلے میں ضعیف قرار دیے جانے کی وجہ شاید یہ ہے کہ بعض دیگر راویوں کے نام بھی حفص ہیں، لہذا نام میں مماثلت کی وجہ سے انہیں ضعیف قرار دیا گیا ہے.

علم قرائت میں حفص کا مقام و منزلت

حَفْص بن سلیمان بن مُغیره اسدی اہالیان کوفہ میں سے تھا اور قراء سبعہ کے مشہور قاری عاصم بن ابی‌النَّجود کا منہ بولا بیٹا(لے پالک) تھا۔[1] حفص کو علم قرائت میں اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم جانا جاتا ہے۔[2]

انہوں نے امام علیؑ سے منسوب قرائت کو چند اسلامی ممالک منجملہ کوفہ، بغداد اور مکہ مکرمہ میں مقبول اور عام کیا۔ [3] عاصم سے ان کی قرائت کو تواتر کی حیثیت حاصل ہے اور یہی قرائت تمام مسلمانوں کے نزدیک قابل قبول ہے۔[4] اکثر اسلامی ممالک میں قرآن مجید کی طباعت اور تلاوت اسی طریقہ قرائت کے مطابق انجام پاتی ہے۔[5] بہت سے علمائے رجال کے مطابق حفص قرائت کے سلسلہ میں ثقہ تھے اور عاصم سے نقل کرنے اور حفظ و ضبط کے حوالے س بھی عمیق اور مضبوط طریقے سے کام لیتے تھے۔[6]

سنہ 90 صدی ہجری میں حَفص کی پیدائش ہوئی۔[7] سوانح نگاروں کے مطابق ان کا لقب حُفَیْص جبکہ کنیت ابو عمر تھی۔[8] کہتے ہیں کہ حفص پیشے کے لحاظ سے پارچہ فروش تھا۔[9] ان کی تاریخ وفات کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے؛[10] لیکن اکثر محققین کے مطابق حفص سنہ180صدی ہجری کو مکہ میں وفات پاگئے ہیں۔[11]

قرائت حفص عن عاصم کی تعلیم و ترویج

سنہ 1441ھ کو سعودی عرب میں طباعت شدہ قرآن مجید کا ایک نسخہ جس کے پہلے صفحے پر قرائت حفص کی پیروی کرنے کے سلسلے میں وضاحتی بیان مکتوب ہے۔

حفص، عاصم کے دو راویوں میں سے ایک ہیں۔ علوم قرآن کے بعض دانشوروں نے علم قرائت میں حفص کی قرائت کو عاصم کے دوسرے راوی ابوبکر عیاش کی قرائت پر ترجیح دیتے ہوئے[12] عاصم کے شاگردوں میں ان کو فن قرائت میں سب سے عظیم قاری جانا ہے۔[13]

شافعی مذہب کے محدث ابن‌جزری نے حفص سے یہ بات نقل کی ہے کہ حفص کے استاد عاصم نے ان سے کہا کہ میں نے حفص کو وہ قرائت تعلیم دی ہے جسے میں نے ابوعبد الرحمن سُلَّمی سے اخذ کیا ہے اور سلَّمی نے عین اسی کو امام علیؑ سے تعلیم پائی ہے۔[14]

ایک روایت کے مطابق؛ حفص نے بچپنے میں ہی قرآن کو پانچ پانچ آیتیں کر کے عاصم سے سیکھ لیا ہے۔[15] بعض علما نے اس انداز تعلم کو دوسروں کی نسبت حفص کی قرائت کی پختگی قرار دی ہے۔[16] حفص نے اپنی قرائت اہالیان کوفہ کو تعلیم دی۔ پھر بغداد روانہ ہوئے اور یہاں کچھ عرصہ اسی کام میں مصروف رہے۔[17] انہوں نے ہارون رشید کے دور میں مکہ کی جانب سفر کیا اور تا حیات یہاں قرآن اور قرائت کی تعلیم جاری رکھی۔[18]

شاگرد

حفص نے علم قرائت میں متعدد لوگوں کی تربیت کی۔ بعض لوگ بیرون شہر مکہ سے بھی حفص کے پاس علم قرائت سیکھنے کے غرض سے آتے تھے، انہی میں سے ایک فضل بن یحیٰ انباری ہے۔[19] آپ کے ایک اور شاگرد عمرو بن صباح ہے جنہوں نے اپنے استاد کے دروس کو کتابی شکل دی۔[20] حفص کے دوسرے شاگرد یہ ہیں: عثمان بن یمان، عبید بین صباح، ابوشعیف قواس، حسین بن محمد مَرْوزی و هبیرة بن حفص.[21]

علم حدیث کی رو سے حفص کا مقام

شیخ طوسی نے حفص کا نام «حفص بن سليمان ابو عمر اسدی‏» ذکر کرتے ہوئے انہیں امام جعفر صادقؑ کے اصحاب میں سے شمار کیا ہے۔[22] اسی طرح رجال طوسی میں انہیں «حفص بن سليمان» کے عنوان سے امام موسیٰ کاظمؑ کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔[23] سید ابو القاسم خوئی نے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ چونکہ رجال برقی میں حفص بن سليمان بن صدقہ کو امام موسی کاظمؑ کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے، اس لیے ان دونوں(«حفص بن سليمان ابوعمر اسدی‏» اور «حفص بن سليمان») کو ایک نفر شمار نہیں کیا ہے۔[24]

شاه‌ پسند کے مطابق احادیث کے سلسلہ اسناد میں ان کا نام کبھی حفص بن ابی‌ داود اور کبھی ابوعمر بَزّاز کے عنوان سے ذکر ہوا ہے۔[25]

حفص قرائت عاصم کو حفظ اور ضبط کرنے کے لحاظ سے نہایت توجہ سے کام لیتے تھے۔ اس سلسلے میں آپ قابل اعتماد راوی شمار ہونے کے باوجود[26] سلسلہ نقل حدیث میں آپ کو ضعیف اور متروک الحدیث شخص کے طور پر تعارف کیا گیا ہے[27] اور آپ کو ثقہ شمار نہیں کیا گیا ہے۔[28] ابن‌ حِبّان نے یہاں تک کہا ہے کہ حفص سلسلہ حدیث کو تبدیل کرتے تھے اور ابن خراش نے آپ کی طرف جعل حدیث کی نسبت دی ہے۔[29]

دوسری طرف بعض محققین نے کہا ہے کہ سلسلہ سند حدیث میں حفص کو ضعیف قرار دیے جانے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کا اور دوسرے بعض افراد منجملہ حفص بن سلیمان بن صدقہ کے ناموں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔[30]

حوالہ جات

  1. ابن‌جزری، غایة النهایة فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص254؛ ابن‌جزری، النشر فی القرائات العشر، دار الکتب العلمیة، ج1، ص156؛ معرفت، التمهید، 1428ھ، ج2، ص248.
  2. ابن‌جزری، غایة النهایة فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص254؛ ابن‌جزری، النشر فی القرائات العشر، دار الکتب العلمیة، ج1، ص156؛ معرفت، التمهید، 1428ھ، ج2، ص248.
  3. ابن‌جزری، غایة النهایة فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص254؛ معرفت، التمهید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص248.
  4. معرفت، التمهید، 1428ھ، ج2، ص246؛ باز، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایة حفص، 1425ھ، ص81.
  5. حبش، القراءات المتواترة و اثرها فی الرسم القرآنی و الاحکام الشرعیة، 1419ھ، ص66؛ اسماعیل محمد المشهدانی، القیمة الدلالیة لقرائة عاصم بروایة حفص، 1430ھ، ص26.
  6. معرفت، التمهید فی علوم القرآن، 1428ھ، ج2، ص248؛ ذهبی، میزان الاعتدال، 1382ھ، ج1، ص558؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج9، ص64.
  7. حموی، معجم الأدباء، 1414ھ، ج3، ص1180؛ ابن‌جزری، غایة النهایة فی طبقات القراء، 1429ھ، ج1، ص385؛ ابن‌جزری، النشر فی القراءات العشر، مصر، ج1، ص156.
  8. ابن‌جزری، غایة النهایة فی طبقات القراء، 1429ھ، ج1، ص385؛ الدانی، کتاب التیسیر فی القراءات السبع، 1930ء، ص6.
  9. الدانی، کتاب التیسیر فی القراءات السبع، 1930ء، ص6؛ ابن‌حجر عسقلانی، کتاب تهذیب التهذیب، 1325ھ، ج2، ص364.
  10. شاه‌پسند، «پژوهشی درباره وضعیت حفص بن سلیمان قاری»، ص124.
  11. شاه‌پسند، «پژوهشی درباره وضعیت حفص بن سلیمان قاری»، ص124؛ ابن‌جزری، غایة النهایة فی طبقات القراء، 1429ھ، ج1، ص386؛ حموی، معجم الأدباء، 1414ھ، ج3، ص1180.
  12. الدانی، کتاب التیسیر فی القراءات السبع، 1930ء، ص6؛ ابن‌جزری، غایة النهایة فی طبقات القراء، 1429ھ، ج1، ص386.
  13. ابن‌جزری، النشر فی القراءات العشر، مصر، ج1، ص156.
  14. ابن‌جزری، غایة النهایة فی طبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص348.
  15. شاه‌پسند، «پژوهشی درباره وضعیت حفص بن سلیمان قاری»، ص127.
  16. شاه‌پسند، «پژوهشی درباره وضعیت حفص بن سلیمان قاری»، ص127.
  17. شاه‌پسند، «پژوهشی درباره وضعیت حفص بن سلیمان قاری»، ص128.
  18. شاه‌پسند، «پژوهشی درباره وضعیت حفص بن سلیمان قاری»، ص128.
  19. شاه‌پسند، «پژوهشی درباره وضعیت حفص بن سلیمان قاری»، ص128.
  20. شاه‌پسند، «پژوهشی درباره وضعیت حفص بن سلیمان قاری»، ص128.
  21. شاه‌پسند، «پژوهشی درباره وضعیت حفص بن سلیمان قاری»، ص128.
  22. طوسی، رجال طوسی، 1427ھ، ص189.
  23. طوسی، رجال طوسی، 1427ھ، ص335.
  24. خوئی، معجم رجال الحدیث، 1372ہجری شمسی. ج7، ص149.
  25. شاه‌پسند، «پژوهشی درباره وضعیت حفص بن سلیمان قاری»، ص123.
  26. برای نمونه نگاه کنید به معرفت، التمهید فی علوم القرآن، 1428ق، ج2، ص248؛ ذهبی، میزان الاعتدال، 1382ق، ج1، ص558؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ق، ج9، ص64.
  27. ملاحظہ کریں: ذهبی، میزان الاعتدال، 1382ق، ج1، ص558؛ ذهبی، معرفة القراء الکبار، 1417ھ، ج1، ص84؛ ابن‌جزری، غایة النهایة فی الطبقات القراء، 1351ھ، ج1، ص254؛ الدانی، التیسیر فی القرائات السبع، 1404ھ، ص6؛ ابن‌الباذش، الاقناع فی القرائات السبع، دار الصحابة للتراث، ص34.
  28. ملاحظہ کریں: خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج9، ص64؛ خویی، البیان فی تفسیر القرآن، دار الزهراء، ص131.
  29. حلبی، الکشف الحثیث عَمّن رُمی بوضع الحدیث، 1984ء، ص154.
  30. شاه‌پسند، «پژوهشی درباره وضعیت حفص بن سلیمان قاری»، ص122.


مآخذ

  • ابن‌الباذش، احمد بن علی، الاقناع فی القرائات السبع، بی‌جا، دار الصحابة للتراث، بی‌تا.
  • ابن‌جزری، محمد بن محمد، النشر فی القرائات العشر، بیروت، دار الکتب العلمیة، بی‌تا.
  • ابن‌جزری، محمد بن محمد، غایة النهایة فی طبقات القراء، بی‌جا، مكتبة ابن‌تیمیة، 1351ھ.
  • ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، کتاب تهذیب التهذیب، بیروت، دار صادر، 1325ھ.
  • اسماعیل محمد المشهدانی، محمد، القیمة الدلالیة لقرائة عاصم بروایة حفص، عراق، مرکز البحوث و الدراسات الاسلامیة، 1430ھ.
  • الدانی، عثمان بن سعید، التیسیر فی القرائات السبع، بیروت، دار الكتاب العربی، 1404ھ.
  • باز، محمد بن عباس، مباحث فی علم القرائات مع بیان اصول روایة حفص، مصر، دار الکلمة، 1425ھ.
  • حبش، محمد، القراءات المتواترة و اثرها فی الرسم القرآنی و الاحکام الشرعیة، بیروت، 1419ھ.
  • حلبی، برهان‌الدین، الکشف الحثیث عَمّن رُمی بوضع الحدیث، محقق: صبحی سامرائی، بغداد، 1984ء.
  • حموی، شهاب‌الدین یاقوت بن عبدالله، معجم الأدباء، محقق: إحسان عباس، بیروت، دارالغرب الإسلامی، 1414ھ.
  • خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، بیروت، دار الكتب العلمیة، 1417ھ.
  • خوئی، سید ابوالقاسم، البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار الزهراء، بی‌تا.
  • خوئی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، قم، مؤسسة الخوئی الاسلامیة، 1372ہجری شمسی.
  • دارقطنی، علی بن عمر، کتاب الضُعفاء و المتروکین، بیروت 1406ھ.
  • ذهبی، شمس الدین ابوعبدالله، معرفة القراء الکبار علی الطبقات و الاعصار، بیروت، دار الكتب العلمیة، 1417ھ.
  • ذهبی، شمس الدین ابوعبدالله، میزان الاعتدال، بیروت، دار المعرفة للطباعة والنشر، 1382ھ.
  • شاه‌پسند، الهه، «پژوهشی درباره وضعیت حفص بن سلیمان قاری»، فصلنامه علوم حدیث، دوره 21، شماره 1، 1395ہجری شمسی.
  • شیخ طوسی، محمدبن حسن، رجال الطوسی، ، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، 1427ھ.
  • معرفت، محمدهادی، التمهید فی علوم القرآن، قم، مؤسسه فرهنگی انتشاراتی التمهید، 1428ھ.