فلسطین کے حامی امریکی طلاب کے نام آیت اللہ خامنہ ای کا خط

ویکی شیعہ سے

امریکی یونیورسٹیوں کے فلسطینی حامی طلباء کے نام آیت اللہ خامنہ ای کا خط، اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے امریکہ میں فلسطینی حامی طلباء کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ہمدردی کا پیغام ہے جنہوں نے طوفان الاقصی کے بعد غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے خلاف امریکی یونیورسٹیوں میں ریلیاں نکال کر احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔

آیت‌ الله خامنہ ای نے اپنے اس خط میں امریکہ کے فلسطینی حامی جوانوں کو مقاومتی محاذ کا حصہ قرار دیا؛ جنہوں نے اپنی حکومتوں کے برعکس اسرائیلی مظالم کے خلاف شریفانہ جدوجہد کا آغاز کر کے تاریخ کے درست سمت میں قدم رکھا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اس خط میں صیہونی حکومت کی تاسیس میں برطانیہ کے کردار کی طرف اشارہ کیا۔ نیز برطانیہ اور امریکہ کو اسرائیل کا سب سے بڑا حامی قرار دیا اور فلسطینیوں کو اپنے حق کے دفاع کی تاکید کی۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خط میں لکھا کہ حق کے راستے میں استقامت دکھانا قرآن مجید کا وہ درس ہے جسے تمام مسلمانوں اور انسانیت کو سکھایا ہے۔ انہوں نے اس بات کی یاد دہانی کرائی کہ جمہوری اسلامی ایران نے مقاومتی محاذ کو مزید وسعت دینے کے ساتھ اسے طاقتور بھی کیا ہے۔ خط کے آخر میں اپنے مخاطب جوانوں کو تاکید کی کہ وہ قرآن مجید سے آشنائی حاصل کریں؛[1] اسی لیے کہا گیا ہے کہ اس خط میں بھی پہلے والے خط "لیٹر فار یو" کے مضمون کی طرح مغربی جوانوں کو دین اسلام کی درست شناخت کے لیے اسلامی اصلی متون کی طرف رجوع کرنے کی تاکید کی۔ انہوں نے مزید لکھا کہ مغربی جوانوں کو چاہیے کہ وہ شرق و غرب کی تقسیم بندیوں اور مختلف مکاتب سے متاثر نہ ہوں۔[2]

اس خط کی اشاعت پر مختلف رد عمل سامنے آئے اور عالمی میڈیا نے اس کو اجاگر کیا۔[3] متعدد خبر رساں ایجنسیوں نے 31 مئی 2024ء (خط کی اشاعت کے ایک دن بعد) تک "امریکی نوجوانوں کے نام ایک خط" کے عنوان کے ساتھ آیت اللہ خامنہ ای سے منسوب ٹویٹ کے 15 ملین ویوز کی خبر دی ہے۔[4]

اس خط کو 25 مئی 2024ء اور اس کے بعد جاری کیاگیا[5] جس وقت اسرائیل کے ہاتھوں اہالیان غزہ کی نسل کشی اور قتل کے خلاف امریکی یونیورسٹی کے طلباء کی احتجاجی ریلیوں کو امریکی پولیس نے روکنے کی کوشش کی اور طلبا پر تشدد کیاگیا۔[6] غزہ کی حمایت میں طلباء کی پرامن ریلیاں 17 اپریل 2024ء کو امریکی یونیورسٹیوں سے شروع ہوئی اور بتدریج دیگر مغربی ممالک کی یونیورسٹیوں میں پھیل گئی۔[7] اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کرنے والے طلباء کو زد و کوب کرنے، انہیں گرفتار کرنے اور امریکی و دیگر ممالک کے جامعات سے انہیں نکالے جانے پر پوری دنیا میں مختلف ردعمل سامنے آئے۔[8]

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں یہ خط ان نوجوانوں کے نام لکھ رہا ہوں جنہیں اپنے بیدار ضمیر نے غزہ کے مظلوم بچوں اور خواتین کی حمایت پر آمادہ کیا ہے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں عزیز نوجوان طلباء! یہ آپ کے ساتھ ہماری ہمدردی اور یکجہتی کا پیغام ہے۔ آپ اس وقت کروٹ لیتی تاریخ ـ جس کا صفحہ پلٹ رہا ہے ـ کی درست سمت میں کھڑے ہیں۔

آپ نے اس وقت محور مقاومت [محاذ مزاحمت] کا ایک حصہ قائم کر رکھا ہے، اور [آپ] اپنی حکومت کے سَنگدِلانَہ دباؤ کے تحت ـ جو اعلانیہ طور پر غاصب اور بے رحم صہیونی ریاست کا دفاع کر رہی ہے ـ شریفانہ جدوجہد کا آغاز کر چکے ہیں۔

مقاومت [و مزاحمت] کے عظیم محاذ آپ سے دور کے ایک علاقے میں، آپ کے آج کے فہم و ادراک اور جذبات کے ساتھ ـ برسوں سے جدوجہد کر رہا ہے۔ اس جدوجہد کا مقصد اس کھلے اور واضح ظلم و ستم کا سد باب کرنا ہے جو "صہیونیوں" کے نام سے ایک دہشت گرد اور بے رحم نیٹ ورک نے، برسوں قبل فلسطینی قوم پر ڈھانا شروع کیا ہے اور ان کے ملک پر قابض ہونے کے بعد، انہیں شدید ترین دباؤ اور تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ صہیونی اپارتھائیڈ ریاست کی آج کی نسل کُشی، عشروں سے جاری بہت ظالمانہ برتاؤ کا تسلسل ہے۔

فلسطین ایک خودمختار سرزمین ہے، ایک قوم کے ساتھ جو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں پر مشتمل ہے، اور طویل تاریخی پس منظر رکھتی ہے۔ صہیونی نیٹ ورک کے سرمایہ داروں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد، برطانوی حکومت کی مدد سے، کئی ہزار دہشت گردوں کو بتدریج اس سرزمین میں داخل کر دیا؛ اس کے شہروں اور بستیوں پر یلغار کر دی؛ لاکھوں افراد کا قتل عام کیا یا پھر پڑوسی ممالک کی طرف دھکیل دیا؛ گھروں، بازاروں اور کھیتیوں کو ان سے چھین لیا؛ اور فلسطین کی غصب شدہ سرزمین میں، "اسرائیل" نامی ریاست قائم کر دی۔

اس غاصب ریاست کا سب سے بڑا حامی، انگریزوں کی ابتدائی امداد کے بعد، ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے جس نے اس ریاست کی سیاسی، معاشی اور عسکری پشت پناہی مسلسل جاری رکھی ہے؛ حتیٰ کہ ناقابل معافی بد احتیاطی کے ساتھ، اس کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا امکان بھی فراہم کیا ہے اور اس سلسلے میں بھی اس کی مدد کی ہے۔

صہیونی ریاست نے پہلے ہی دن سے، فلسطین کے نہتے عوام کے خلاف "آہنی مکے" کی پالیسی (Iron fist policy) اپنائی، اور تمام دیانت دارانہ، انسانی اور دینی اقدار کو نظرانداز کرتے ہوئے، ہر دن، گذشتہ دن سے کہیں زیادہ، بے رحمی، دہشت گردی اور جبر میں اضافہ کیا۔

امریکی حکومت اور اس کے شرکاء، اس ریاستی دہشت گردی اور جاری ساری ظلم و ستم کے مقابلے میں ماتھے پر بل ڈالنے تک سے گریز کیا۔ آج غزہ میں ہولناک جرائم کے سلسلے میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حکومت کے بعض بیانات حقیقت سے زیادہ، ریاکارانہ [اور منافقانہ] ہیں۔

"محاذ مزاحمت" اس ظلمانی اور مایوسانہ فضا کی گہرائیوں سے نکل کر ابھرا اور ایران میں "اسلامی جمہوری" حکومت کے قیام سے اس کو وسعت اور طاقت ملی۔ بین الاقوامی صہیونیت کے سرغنوں نے ـ جو امریکہ اور یورپ میں زیادہ تر ابلاغی کمپنیوں کے مالک ہیں یا پھر یہ کمپنیاں ان کے پیسے اور رشوت کے زیر اثر ہیں، ـ اس انسانیت اور دلیرانہ مقاومت [یا مزاحمت] کو دہشت گردی کے طور پر متعارف کرایا! کیا ایک قوم، جو اپنی ہی سرزمین میں، صہیونی قابضوں کے جرائم کے مقابلے میں اپنا دفاع کر رہی ہے، دہشت گرد ہے؟ اور کیا اس قوم کی انسانی بنیادوں پر مدد کرنا، اور اس کے بازؤوں کو مضبوط بنانا، دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے؟

پرتشدد عالمی تسلط پسند نظام کے سرغنے، حتیٰ کہ انسانی تصورات تک پر بھی رحم نہیں کرتے۔ دہشت گرد اور سفاک اسرائیلی ریاست کو اپنا دفاع کرنے والی ریاست کے طور پر پیش کرتے ہیں اور فلسطینی مقاومت ـ جو اپنی آزادی، سلامتی اور حق خود ارادیت کا دفاع کر رہی ہے ـ کو "دہشت گرد" کا نام دیتے ہیں!

میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ آج، صورت حال بدل رہی ہے، نئی تقدیر مغربی ایشیا کے حساس علاقے کا انتظار کر رہی ہے۔ عالمی سطح کے بہت سے ضمیر جاگ اھے ہیں، اور حقیقت عیاں ہو رہی ہے۔ محاذ مقاومت طاقتور ہو گیا ہے اور مزید طاقتور بنے گا، تاریخ کا صفحہ پلٹ رہا ہے۔

درجنوں امریکی جامعات میں آپ طلبہ کے ساتھ ساتھ، دوسرے ممالک میں بھی جامعات اور عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

درجنوں امریکی جامعات میں آپ طلبہ کے ساتھ ساتھ، دوسرے ممالک میں بھی جامعات اور عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ آپ طلبہ کے ساتھ جامعات کے اساتذہ کی معیت اور حمایت، ایک اہم اور مؤّثر واقعہ ہے۔ یہ حکومت کی پولیس کاروائیوں کی شدت اور آپ پر ڈالے جانے والے دباؤ کے تناظر میں کسی حد تک سکون کا باعث ہو سکتی ہے۔ میں آپ نوجوانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں اور آپ کی استقامت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔

ہم مسلمانوں اور دنیا بھر کے لوگوں کے لئے قرآن کا سبق، راہ حق میں استقامت اور پامردی ہے: "فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ" (1) اور انسانی تعلقات و ارتباطات کے بارے میں قرآن کا سبق یہ ہے: نہ ستم روا رکھو، اور نہ ستم کے سامنے سر جھکاؤ: "لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ" (2) محاذ مزاحمت ان احکامات اور ان جیسے دوسرے احکامات کو سیکھ کر، اور ان پر عمل کرکے، آگے بڑھ رہا ہے اور کامیاب ہو کر رہے گا؛ اللہ کے اذن سے۔

میرا مشورہ ہے کہ آپ قرآن سے واقف ہو جائیں۔[9]

سید علی خامنہ ای

25 مئی 2024ء

حوالہ جات

  1. «نامه حضرت آیت‌الله خامنه‌ای به دانشجویان حامی مردم فلسطین در دانشگاه‌های ایالات متحده آمریکا»، وبگاه دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت‌الله العظمی خامنه‌ای۔
  2. بیابان‌ نورد سروستانی، «فرصت درک بدون پیش‌ داوری از اسلام مهیاست»، روزنامه فرهیختگان۔
  3. «بازتاب نامه رهبر انقلاب به دانشجویان آمریکا در فضای بین‌المللی»، خبرگزاری مهر۔
  4. «بازدید 15 میلیونی توییت حساب کاربری رهبر انقلاب»، مشرق‌نیوز۔
  5. «نامه حضرت آیت‌الله خامنه‌ای به دانشجویان حامی مردم فلسطین در دانشگاه‌های ایالات متحده آمریکا»، وبگاه دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت‌الله العظمی خامنه‌ای۔
  6. رجوع کیجیے: اظہری، «شکست مارپیچ سکوت در دل آمریکا»، روزنامه فرهیختگان۔
  7. «بازتاب نامه رهبر انقلاب به دانشجویان آمریکا در شبکه تی‌آرتی ترکیه»، خبرگزاری مهر۔
  8. رجوع کیجیے: «واکنش سازمان ملل به بازداشت دانشجویان حامی فلسطین در دانشگاه‌های آمریکا»، خبرگزاری ایرنا۔
  9. «نامه حضرت آیت‌الله خامنه‌ای به دانشجویان حامی مردم فلسطین در دانشگاه‌های ایالات متحده آمریکا»، وبگاه دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت‌الله العظمی خامنه‌ای۔

مآخذ