تصحیح الاعتقاد (کتاب)

ویکی شیعہ سے
(شرح اعتقادات صدوق سے رجوع مکرر)
تصحیح الاعتقاد
مشخصات
مصنفشیخ مفید
موضوعاعتقادات
زبانعربی
طباعت اور اشاعت
ناشرمتعدد


تَصحیحُ اِعتقاداتِ الاِمامیّہ یا تَصحیحُ الاعتقاد، علم کلام کے موضوع پر تالیف کی گئی شیخ مفید (متوفی 413 ھ) کی کتاب ہے جو شَرح اعتقادات صَدوق کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ یہ کتاب شیخ صدوق (متوفی 381 ھ) کی کتاب الاعتقادات کی شرح و تنقید پر مشتمل ہے۔ اس میں شیخ مفید نے شیخ صدوق کے برخلاف صرف قرآنی آیات اور احادیث پر اکتفا کرنے کی بجائے عقلی اور استدلالی طریقہ کار سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔

بداء، قبر میں ہونے والے سوالات، قضا و قدر، عرش کی حقیقت، رجعت اور نزول وحی کی کیفیت اس کتاب کے عمدہ مسائل میں سے ہیں۔ تصحیح الاعتقاد میں ان کا شیخ صدوق پر کیا جانے والا عمدہ اعتراض یہ ہے کہ شیخ صدوق نے اعتقادات کے اثبات اور قرآنی آیات و احادیث کی تفسیر میں عقلانی اور استدلالی روش سے کم استفادہ کیا ہے۔

تصحیح الاعتقاد کے متعدد خطی نسخے ایرانی پارلیمنٹ اور آستان قدس رضوی کی لائبریریوں میں موجود ہیں۔ اسی طرح یہ کتاب متعدد بار نشر ہو چکی ہے اور اس کا فارسی میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔

مؤلف

اس کتاب کے مؤلف محمد بن محمد بن نعمان جو شیخ مفید کے نام سے معروف ہیں چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے شیعہ علماء میں سے ہیں۔[1] آپ شیخ صدوق کے شاگرد اور سید رضی، سید مرتضی اور شیخ طوسی کے اساتید میں سے ہیں۔[2]

شیخ طوسی علم کلام اور علم فقہ میں آپ کی عظیم علمی منزلت کے قائل ہیں۔[3] ابن ندیم آپ کو علم کلام میں شیعوں کے روح رواں سمجھتے ہیں۔[4]

فقہ میں المُقنَعَۃ، علم کلام میں اوائل المقالات اور ائمہ معصومین کی حالات زندگی پر لکھی گئی کتاب الاِرشاد آپ کی مشہور تصنیفات میں سے ہیں۔[5]

کتاب الاعتقادات کی شرح

کتاب تصحیح الاعتقادات شیخ صدوق کی کتاب الاعتقادات یا اعتقادات الامامیہ کی شرح ہے جس میں شیعوں کے اہم ترین اعتقادات بیان کئے گئے ہیں۔[6] جس طرح کتاب کے عنوان تصحیح الاعتقادات سے معلوم ہے، شیخ مفید شیعہ اعتقادات میں اپنے استاد شیخ صدوق کے نظریات پر تنقید اور ان کی تصحیح کرنا چاہتے ہیں۔[7] شیخ صدوق نے کتاب الاعتقادات میں شیعہ اعتقادات کو ثابت کرنے کیلئے قرآن کی آیات اور احادیث سے استفادہ کیا ہے؛ لیکن شیخ مفید اس کتاب میں عقلی اور استدلالی طریقے سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔[8]

کتاب تصحیح الاعتقاد کی نمایاں خصوصیات یہ ہے کہ یہ کتاب علم کلام میں شیعوں کے دو طرح کے نظریات کی عکاسی کرتی ہے: ایک میں عقلی استدلالات پر کوئی توجہ نہیں کرتے اور صرف قرآن و سنت پر اکتفا کرتے ہیں جبکہ دوسرا نظریہ قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ عقل کو بھی اہمیت دیتے ہیں اور عقل کو بھی شرعی طور پر معتبر سمجھتے ہیں۔[9]

شیخ مفید کا شیخ صدوق پر اشکالات

شیخ مفید کتاب تصحیح الاعتقادات میں بار بار شیخ صدوق پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے اہل حدیث کی طرح عقلی استدلالات پر کوئی توجہ دیئے بغیر صرف احادیث پر اکتفا کیا ہے۔[10] اس کتاب میں شیخ مفید کی طرف سے شیخ صدوق پر کئے جانے والے بعض اعتراضات یہ ہیں: قرآنی آیات کی غلط تفسیر، صحیح احادیث سے استناد نہ کرنا، قرآن و احادیث میں موجود بعض الفاظ کے حقیقی معانی پر توجہ نہ دینا، احادیث سے استناد کرنے میں اہل حدیث کے طریقہ کار کی پیروی کرنا، یعنی احادیث کے معانی و مفاہیم میں کافی غور و فکر نہ کرنا اور عقلی استدلالات پر توجہ نہ دینا۔[11]

البتہ شیخ مفید بہت سارے موارد میں شیخ صدوق کے نظریات کو قبول کرتے ہیں۔ من جملہ یہ کہ رجعت، موت کے بعد دوبارہ محشور کیا جانا، شفاعت اور قیامت کے دن دیئے گئے وعد و وعید وغیرہ ایسے مسائل ہیں جن میں ان دو بزرگواروں کے نظریات ایک جیسے ہیں۔[12]

کتاب کا ڈھانچہ

یہ کتاب 28 فصلوں میں مرتب ہوئی ہے۔ کتاب میں بیان شدہ چند مطالب:

نسخہ جات

  • کتب‏ خانۂ مجلس شورای اسلامی تہران کا نسخہ جس کی تاریخ تحریر 1354ھ ہے جو حسن بن محمد خیابانی تبریزی کا لکھا ہوا ہے۔ اس نسخے کو 1080ھ میں لکھے ہوئے نسخے سے لکھا گیا۔
  • کتب ‏خانۂ آستان قدس رضوی مشہد مقدس کا نسخہ جس کی تاریخ نگارش 1079ھ اور اسے مصطفی‌ قلی حسینی قزوینی نے تحریر کیا ہے۔
  • کتب‏ خانۂ آستان قدس رضوی کا ایک اور نسخہ کہ جس کی تاریخ کتابت 1042ھ ہے اور کاتب کا نام شاه محمد بن زین العابدین ہے۔[13]

ترجمہ اور طباعت

کتاب تصحیح الاعتقاد 1371ھ میں سید علی مدرسی یزدی کے توسط سے فارسی میں ترجمہ ہو کر شایع ہوئی ہے۔

تصحیح‌الاعتقاد کے بعض اور طباعتیں درج ذیل ہیں:

  1. منشورات رضی نے اسے سید ہبۃ الدین شہرستانی کے مقدمے اور حاشیے کے ساتھ سنہ1363ش میں شایع کیا۔
  2. کنگره جہانی ہزاره شیخ مفید نے سنہ 1413ھ میں حسین درگاہی کی تصحیح کے ساتھ شایع کیا۔
  3. مرکز فرہنگی جعفری نے شیخ محمد رضا جعفری کے مقدمے کے ساتھ 1388ش میں شایع کیا۔ اس طباعت کا مقدمہ نہایت تفصیلی ہے۔[14]

حوالہ جات

  1. شبیری، «گذری بر حیات شیخ مفید»، ۱۳۷۲ش، ص۷، ۸، ۳۹۔
  2. گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۳و۱۴۴۔
  3. طوسی، الفہرست، ۱۴۱۷ق، ص۲۳۸۔
  4. ابن ندیم،‌ الفہرست، ۱۳۵۰ش، ص۲۲۶ و ص ۲۴۷۔
  5. گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ۱۳۸۵ش، ص‌۱۴۳-۱۴۴۔
  6. اثباتی، «بررسی آرای کلامی شیخ صدوق و مقایسہ آن با آرای شیخ مفید»، ص۴۷و۴۸۔
  7. طباطبایی، «بررسی کتاب تصحیح الاعتقاد شیخ مفید»، وبگاہ امامت، ۲۶ اردیبہشت ۱۳۹۲ش، دیدہ ‌شدہ در ۲۰ مرداد ۱۳۹۷ش۔
  8. طباطبایی، «بررسی کتاب تصحیح الاعتقاد شیخ مفید»، وبگاہ امامت، ۲۶ اردیبہشت ۱۳۹۲ش، دیدہ‌شدہ در ۲۰ مرداد ۱۳۹۷ش۔
  9. طباطبایی، «بررسی کتاب تصحیح الاعتقاد شیخ مفید»، وبگاہ امامت، ۲۶ اردیبہشت ۱۳۹۲ش، دیدہ‌شدہ در ۲۰ مرداد ۱۳۹۷ش۔
  10. طباطبایی، «بررسی کتاب تصحیح الاعتقاد شیخ مفید»، وبگاہ امامت، ۲۶ اردیبہشت ۱۳۹۲ش، دیدہ‌شدہ در ۲۰ مرداد ۱۳۹۷ش۔
  11. طباطبایی، «بررسی کتاب تصحیح الاعتقاد شیخ مفید»، وبگاہ امامت، ۲۶ اردیبہشت ۱۳۹۲ش، دیدہ‌شدہ در ۲۰ مرداد ۱۳۹۷ش۔
  12. طباطبایی، «بررسی کتاب تصحیح الاعتقاد شیخ مفید»، وبگاہ امامت، ۲۶ اردیبہشت ۱۳۹۲ش، دیدہ‌شدہ در ۲۰ مرداد ۱۳۹۷ش۔
  13. نرم افزار کامپیوتری احادیث تفسیری
  14. عباس علی مردی، بررسی کتاب تصحیح الاعتقاد شیخ مفید.

مآخذ