رجال ابن غضائری (کتاب)
مشخصات | |
---|---|
مصنف | احمد بن حسین غضائری |
موضوع | علم رجال |
زبان | عربی |
تعداد جلد | 1 |
طباعت اور اشاعت | |
ناشر | دار الحدیث |
مقام اشاعت | قم |
سنہ اشاعت | 1422 ھ |
رجال ابن غضائری یا الضعفاء، علم رجال کے موضوع پر لکھی گئی کتاب ہے، جو ابن غضائری سے منسوب ہے۔ وہ چوتھی و پانچویں صدی ہجری کے شیعہ ماہر رجال عالم و محدث ہیں۔ یہ کتاب شیعہ علم رجال کے بنیادی و اصلی مصادر میں شمار ہوتی ہے۔ بعض شیعہ علماء ابن غضائری کے رجال سے متعلق نظریات کو شیخ طوسی و احمد بن علی نجاشی سے زیادہ معتبر مانتے ہیں۔
اس کتاب میں ائمہ معصومین علیہم السلام سے کرامات نقل کرنے والے روات کو ضعیف شمار کیا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ علامہ مجلسی جیسے بعض شیعہ علماء نے اس سلسلہ میں ان پر اعتراض کیا ہے۔
رجال ابن غضائری میں 225 شیعہ روات حدیث کا تذکرہ حروف تہجی کی ترتیب کے ساتھ کیا گیا ہے اور ان پر تحقیق کی گئی ہے۔
نام و مطالب کتاب
کتاب رجال غضائری چوتھی و پانچویں صدی ہجری کے شیعہ رجالی و محدث احمد بن حسین غضائری جو ابن غضائری کے نام سے مشہور ہیں، سے منسوب ہے۔[1] اس کتاب کا دوسرا نام کتابُالضُّعَفاء و کتابُالجَرْح ہے۔[2] نقل ہوا ہے کہ سب سے پہلے اس کتاب کا تذکرہ اور اسے ابن غضائری سے منسوب کرنے والے احمد بن طاووس حلی (673 ھ) ہیں۔[3]
بعض افراد نے دو کتاب المَمدوحین و المَذمومین، جس کی نسبت محمد تقی شوشتری نے ابن غضائری کی طرف دی ہے،[4] کو اسی کتاب رجال کی دو فصل قرار دیا ہے۔[5]
مولف کے سلسلہ میں اختلاف نظر
مولف کتاب کے سلسلہ میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ علمائے مشہور کے مطابق اس کے مصنف ابن غضائری ہیں۔ لیکن ایک گروہ کا ماننا ہے کہ یہ ان کے والد کی تالیف ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ کتاب مخالفین شیعہ میں سے کسی کی تالیف ہے۔
- احمد بن حسین غضائری: جو لوگ اس بات کے موافق ہیں کہ یہ کتاب ابن غضائری کی تالیف ہے۔ وہ شیخ طوسی کی اس گزارش سے استناد کرتے ہیں جو انہوں نے کتاب الفہرست میں ابن غضائری کی رجال کے موضوع پر 2 کتابوں کے سلسلہ میں ذکر کی ہے۔[6] کہا گیا ہے کہ نجاشی و علامہ حلی جیسے بعض علمائے رجال کی طرف سے اس کتاب سے کثرت سے نقل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ابن غضائری کی کتاب ہے۔[7] یہ مشہور شیعہ علمائے رجال کا نظریہ ہے۔[8] علامہ مجلسی[9] اور آیت اللہ سیستانی جیسے علماء اس نظریہ کے حامیوں میں سے ہیں۔[10]
- حسین بن عبید اللہ غضائری: بعض نے اس کتاب کو ابن غضائری کے والد حسین بن عبید اللہ سے منسوب کیا ہے۔[11] اس نظریہ کے موافقین کتاب خلاصۃ الاقوال میں منقول سہل بن زیاد آدمی کی سوانح حیات کی عبارت سے استناد کرتے ہیں۔ جس میں ابن غضائری کو احمد بن حسین بن عطف کیا گیا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ دو افراد ہیں۔[12] شہید ثانی، آقا حسین خوانساری[13]، محمد بن حسین ساوجی، مقدس اردبیلی، احمد نراقی اور شیخ اسد الله کاظمی اس نظریہ کے حامیوں میں سے ہیں۔[14]
محمد تقی شوشتری نے اس بات کی توجیہ کی ہے کہ اس عبارت سے یہ مفہوم نہیں نکالا جا سکتا ہے۔[15] اسی طرح سے انہوں نے اس بات پر اعتراض کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ مصادر میں علم رجال کے موضوع کی کسی بھی کتاب کی نسبت حسین بن عبید اللہ کی طرف نہیں دی گئی ہے۔[16]
- مخالفین شیعہ: بعض علمائے رجال نے اس کتاب کو مخالفین شیعہ کی تالیف قرار دیا ہے۔ جس میں انہوں نے جھوٹے مطالب شامل کرکے شیعہ بزرگان کے چہرے کو مسخ کرنا چاہا ہے۔ ان کے مطابق چونکہ ابن غضائری احمد بن علی نجاشی کے دوست اور ساتھی تھے، اگر ابن غضائری نے رجال میں کوئی کتاب تالیف کی ہوتی تو نجاشی اس کا تذکرہ کرتے۔[17] اسی طرح سے احمد بن طاووس کے اس قول کو کہ وہ اس کتاب کی ابن غضائری تک متصل سند دریافت نہیں کر سکے ہیں،[18] اس نظریہ کے شواہد میں شمار کیا گیا ہے۔[19] آیت اللہ خوئی[20] اور آقا بزرگ تہرانی اس نظریہ کے حامیوں میں سے ہیں۔[21]
اعتبار کتاب
کتاب رجال ابن غضائری کا شمار بنیادی شیعہ مصادر میں ہوتا ہے۔[22] بعض شیعہ علمائے رجال جیسے احمد بن طاووس، علامہ حلی و ابن داوود حلی اس کتاب کے مولف کے نظریات پر اعتماد کرتے ہیں۔[23]
جیسا کہ کتاب کے مصحح کے مقدمہ میں ذکر ہوا ہے کہ فاضل تونی، وحید بہبہانی، ابو المعالی کلباسی و محمد تقی شوشتری بھی ابن غضائری کے اقوال کو معتبر مانتے ہیں۔[24] آیت اللہ سید علی سیستانی کا کہنا ہے کہ ابن غضائری جرح و تعدیل کے معاملہ میں نجاشی و شیخ طوسی سے زیادہ قابل اعتماد ہیں۔[25]
ان سب کے باوجود بعض شیعہ محدثین جیسے علامہ مجلسی[26] و محدث نوری انہیں معتبر نہیں مانتے ہیں۔[27] اس لئے کہ اس کتاب میں کچھ شیعہ راویوں کو جنہیں علمائے رجال و دیگر علماء شیعہ نیکی کے ساتھ یاد کرتے ہیں، ضعیف قرار دیا گیا ہے۔[28] اس کتاب میں ایسے راویوں کو جنہوں نے ائمہ (ع) سے کرامات نقل کی ہیں، ضعیف شمار کیا گیا ہے۔[29]
شیعہ علمائے رجال کا ایک گروہ ابن غضائری کی تضعیفات کو معتبر نہیں مانتا جبکہ ان کی توثیقات کو معتبر مانتا ہے۔[30]
خصوصیات
رجال ابن غضائری حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب کی گئی ہے۔[31] حروف تہجی میں سے ہر حرف کے ذیل میں پہلے ان راویوں کی تعداد کا ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے ان کا تذکرہ کیا ہے اور اس کے بعد راوی کے ثقہ یا عدم ثقہ ہونے کے اعتبار سے بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب میں ۲۲۵ راویوں کی سوانح حیات ذکر ہوئی ہے کہ جن میں ۱۶۵ کو انہوں نے ضعیف قرار دیا ہے۔[32]
نسخے
نقل ہوا ہے کہ سب سے پہلے احمد بن طاووس حلی نے کتاب حل الاشکال فی تراجم الرجال میں ایک متن کا ذکر کیا اور اسے الضعفاء کا نام دیا۔[33] ان کے بعد ان کے شاگرد علامہ حلی و ابن داوود حلی نے کتاب خلاصۃ الاقوال و رجال ابن داود میں احمد بن داود کی میں نقل شدہ مطالب کو نقل کیا۔[34] اس کے بعد ملا عبد اللہ شوشتری (متوفی 1021 ھ) نے کتاب رجال ابن غضائری کے مطالب کو ابن طاووس کی کتاب حل الاشکال سے استخراج کیا اور ان کے شاگرد عنایت اللہ قہپایی نے اپنے استاد کے متن کو کتاب مجمع الرجال میں ذکر کیا۔[35]
کتاب الغضعاء کے کئی مخطوطہ و مطبوعہ نسخے موجود ہیں:
نسخہ خطی
- سید محمد مشکات کی طرف سے کتب خانہ دانشگاه تہران کو ہدیہ کیا گیا نسخہ (تاریخ کتابت: 1363 ھ)
- کتب خانہ آیت اللہ مرعشی نجفی میں «الضُّعَفاء» کے نام سے موجود نسخہ (تاریخ کتابت: 1355 ھ)[36]
مطبوعہ نسخے
رجال ابن غضائری کے مطبوعہ نسخے مندرجہ ذیل ہیں:
- احمد بن طاووس حلی کی کتاب حَلُّ الاِشکال میں طبع ہونے والی 5 کتابوں میں سے ایک۔
- التحریر الطاووسی کے عنوان سے شائع شدہ نسخہ۔[37]
- عنایت الله قهپایی کی کتاب، "مجمع الرجال" میں مطبوعہ 5 کتابوں میں سے ایک مذکورہ کتاب ہے۔ سید محمد رضا جلالی نے اس نسخہ پر تحقیق انجام دی ہے اور انتشارات دار الحدیث نے اسے سنہ 1422 ھ میں الرجال لابن الغضائری کے عنوان سے شائع کیا ہے۔[38] یہ نسخہ دو حصوں میں اور شیخ عبد الله شوشتری سے متعلق ہے۔ اس کے پہلے حصے میں شیخ عبد اللہ شوشتری کا مقدمہ اور 169 راوی شامل ہیں۔ اس کے دوسرے بخش میں شوشتری کی کتاب پر جلالی کا مُستَدرَک ہے کہ جس میں منقولات علامہ حلی و ابن داوود کو جمع کیا گیا ہے اور یہ 66 راوی پر مشتمل ہے۔[39]
حوالہ جات
- ↑ ابن غضائری، الرجال، ۱۴۲۲ق، ص۱۷.
- ↑ ابن غضائری، الرجال، ۱۴۲۲ق، ص۱۷.
- ↑ رحمان ستایش، آشنایی با کتب رجالی شیعہ، ۱۳۸۵ش، ص۴۲؛ آقا بزرگ تهرانی، الذریعہ، دار الاضواء، ج۱۰، ص۸۹.
- ↑ شوشتری، قاموس الرجال، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۴۴۱.
- ↑ رحمان ستایش، آشنایی با کتب رجالی شیعہ، ۱۳۸۵ش، ص۴۲.
- ↑ شیخ طوسی، فهرست، ۱۴۲۰ق، ص۲.
- ↑ رحمان ستایش، آشنایی با کتب رجالی شیعہ، ۱۳۸۵ش، ص۴۰.
- ↑ رحمان ستایش، آشنایی با کتب رجالی شیعہ، ۱۳۸۵ش، ص۴۳.
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱، ص۴۱.
- ↑ «زندگی نامہ حضرت آیت الله سید علی حسینی سیستانی.»
- ↑ شوشتری، قاموس الرجال، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۴۵-۴۶.
- ↑ شوشتری، قاموسالرجال، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۴۵.
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۳ ق، ج۱، ص۹۵ و ۹۶
- ↑ نک: رحمان ستایش، آشنایی با کتب رجالی شیعہ، ۱۳۸۵ش، ص۴۳-۴۴.
- ↑ شوشتری، قاموس الرجال، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۴۵-۴۶.
- ↑ نگاه کریں ابن غضائری، الرجال، ۱۴۲۲ق، ص۱۷.
- ↑ آقا بزرگ تهرانی، الذریعہ، دار الاضواء، ج۱۰، ص۸۹؛ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۳ ق، ج۱، ص۹۵و۹۶.
- ↑ ابن طاووس، التحریر الطاووسی، ۱۴۱۱ق، ص۵.
- ↑ نک: رحمان ستایش، آشنایی با کتب رجالی شیعہ، ۱۳۸۵ش، ص۴۳.
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۳ ق، ج۱، ص۹۵ و ۹۶.
- ↑ آقا بزرگ تهرانی، الذریعہ، دار الاضواء، ج۱۰، ص۸۹.
- ↑ رحمان ستایش، آشنایی با کتب رجالی شیعہ، ۱۳۸۵ش، ص۳۷.
- ↑ رحمان ستایش، آشنایی با کتب رجالی شیعہ، ۱۳۸۵ش، ص۴۹-۵۰.
- ↑ ابن غضائری، رجال ابن غضائری، ۱۴۲۲ق، ص۲۰؛ رحمان ستایش، آشنایی با کتب رجالی شیعہ، ۱۳۸۵ش، ص۴۷.
- ↑ «زندگی نامہ حضرت آیت الله سید علی حسینی سیستانی.»
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱، ص۴۱.
- ↑ رحمان ستایش، آشنایی با کتب رجالی شیعہ، ۱۳۸۵ش، ص۴۷
- ↑ رحمان ستایش، آشنایی با کتب رجالی شیعہ، ۱۳۸۵ش، ص۳۸.
- ↑ رحمان ستایش، آشنایی با کتب رجالی شیعہ، ۱۳۸۵ش، ص۵۲.
- ↑ رحمان ستایش، آشنایی با کتب رجالی شیعہ، ۱۳۸۵ش، ص۴۸.
- ↑ ابن طاووس، التحریر الطاووسی، ۱۴۱۱ق، ص۵.
- ↑ رحمان ستایش، آشنایی با کتب رجالی شیعہ، ۱۳۸۵ش، ص۵۱.
- ↑ احمدی، تاریخ حدیث شیعہ، ۱۳۸۹ش، ص۳۸۶.
- ↑ احمدی، تاریخ حدیث شیعہ، ۱۳۸۹ش، ص۳۸۶.
- ↑ تهرانی، الذریعہ، ج۱۰، ص۸۸ و ۸۹.
- ↑ احمدی، تاریخ حدیث شیعہ، ۱۳۸۹ش، ص۳۸۶.
- ↑ سید علوی، ابن غضائری و رجال او، ۱۳۶۹ش.
- ↑ رحمان ستایش، آشنایی با کتب رجالی شیعہ، ۱۳۸۵ش، ص۴۶ (پانویس۵).
- ↑ رحمان ستایش، آشنایی با کتب رجالی شیعہ، ۱۳۸۵ش، ص۵۰-۵۱.
مآخذ
- ابن طاووس، احمد بن موسی، التحریر الطاووسی، تلخیص ابن شہید ثانی، تصحیح فاضل جواہری و سید محمود مرعشی، قم، کتابخانہ آیت الله مرعشی نجفی، ۱۴۱۱ ق.
- ابن غضائری، احمد بن حسین، الرجال، محمد رضا حسینی جلالی، قم، مؤسسہ علمی و فرہنگی دار الحدیث، ۱۴۲۲ ق.
- احمدی، مہدی، تاریخ حدیث شیعہ در سدههای چہارم تا ہفتم ہجری، قم، دار الحدیث، ۱۳۸۹ش.
- آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعہ، تحقیق احمد بن محمد حسینی، بیروت، دار الاضواء، بیتا.
- خویی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۳ق.
- رحمان ستایش، محمد کاظم، آشنایی با کتب رجالی شیعہ، تہران، سمت، ۱۳۸۵ش.
- «زندگی نامہ حضرت آیت الله سید علی حسینی سیستانی»، سایت رسمی دفتر آیت الله سید علی سیستانی، مشاهده ۱۷ فروردین ۱۳۹۷ش.
- سید علوی، سید ابراہیم، ابن غضائری و رجال او، مشکوة، ش۲۸، ۱۳۶۹ش.
- شوشتری، محمد تقی، قاموس الرجال، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی التابعہ لجماعت المدرسین، ۱۴۱۰ق.
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، فہرست کتب الشیعہ و اسماء المصنفین و اصحاب الاصول، تصحیح عبد العزیز طباطبایی، قم، مکتبہ المحقق الطباطبایی، ۱۴۲۰ق.
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.