مندرجات کا رخ کریں

"مسجد اقصیٰ" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 68: سطر 68:
البتہ بعض شیعہ روایات میں مسجد کوفہ کو مسجد الاقصی پر فوقیت دی گئی ہے۔<ref>عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۲، ص۲۷۹؛ محدث نوری، مستدرک وسائل الشیعه،‌ ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۴۰۹.</ref>
البتہ بعض شیعہ روایات میں مسجد کوفہ کو مسجد الاقصی پر فوقیت دی گئی ہے۔<ref>عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۲، ص۲۷۹؛ محدث نوری، مستدرک وسائل الشیعه،‌ ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۴۰۹.</ref>


== تاریخچہ ==
==تاریخچہ==
کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے [[حضرت داودؑ]] نے مسجد الاقصی کی جگہ ایک معبد بنایا اور [[حضرت سلیمان]] نے اسے پایہ تکمیل کو پہنچایا جسے معبد سلیمان، معبد یروشلم، معبد ایلیا اور بقعہ ایلیا کہا گیا۔ {{حوالہ درکار}}انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے مورخ گوسٹاولیبون (Gustave Le Bon) کا کہنا ہے کہ  بیت المقدس مسلمانوں کے توسط فتح ہونے سے پہلے مسجد الاقصی کے علاقے میں [[حضرت مریم]] کے نام سے ایک کلیسا موجود تھا۔<ref>گوستاولوبون، تمدن اسلام و عرب به نقل از حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۸۳.</ref>
کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے [[حضرت داودؑ]] نے مسجد الاقصی کی جگہ ایک معبد بنایا اور [[حضرت سلیمان]] نے اسے پایہ تکمیل کو پہنچایا جسے معبد سلیمان، معبد یروشلم، معبد ایلیا اور بقعہ ایلیا کہا گیا۔ {{حوالہ درکار}}انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے مورخ گوسٹاولیبون (Gustave Le Bon) کا کہنا ہے کہ  بیت المقدس مسلمانوں کے توسط فتح ہونے سے پہلے مسجد الاقصی کے علاقے میں [[حضرت مریم]] کے نام سے ایک کلیسا موجود تھا۔<ref>گوستاولوبون، تمدن اسلام و عرب به نقل از حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۸۳.</ref>


سطر 79: سطر 79:


==تعمیر اور مرمت==
==تعمیر اور مرمت==
<!--  
مسجد الاقصی کی عمارت مختلف ادوار میں تعمیر اور مرمت ہوئی ہے۔ [[بنی‌عباس]]، [[فاطمیون]]، ایوبیان و عثمانیوں کی حکومتوں میں تعمیر اور مرمت ہوئی ہے۔
جب صلیبیوں نے ۱۰۹۹ ء میں [[بیت المقدس]] پر ناجائز قبضہ کیا اور اس کے ایک حصے کو کلیسا بنا دیا اور باقی حصے میں کچھ کو اپنے فوجیوں کی استراحت گاہ اور کچھ کو اپنی چیزوں کو ذخیرہ کرنے کیلئے گودام بنا دیا۔ لیکن [[صلاح الدین ایوبی]] نے ان سے  بیت المقدس کو واپس لے لیا اور مسجد کی مرمت کا اقدام کیا، محراب مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا،  اسکے گنبد پر تزئین و آرائش کا کام کیا اور  معروف لکڑی کا منبر وہاں رکھوایا۔<ref>حمیدی، ص۱۸۳.</ref>
 
-->
بنی عباس کے خلفاء [[منصور دوانیقی]]، (حکومت:136-158)<ref>حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۸۳.</ref> اور [[مہدی عباسی]](126-169ھ) نے زلزلہ کی وجہ سے مسجد الاقصی کی تخریب کے بعد دوبارہ تعمیر اور مرمت کی ہے۔<ref> موسی غوشه، تاریخ مجموعه مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۱.</ref> اسی طرح ایک کتیبہ کے مطابق فاطمیوں کا خلیفہ الظاہر لاعزاز دین اللہ کے حکم سے 426ھ کو مسجد الاقصی پر ایک گنبد بنایا گیا۔<ref> موسی غوشه، تاریخ مجموعه مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۱.</ref> اور المستنصر لدین اللہ کے حکم سے 458ھ کو مسجد کے شمالی ایوان کی مرمت ہوئی۔<ref> موسی غوشه، تاریخ مجموعه مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۱.</ref>
جب صلیبیوں نے ۱۰۹۹ء بمطابق 583ھ میں [[بیت المقدس]] پر ناجائز قبضہ کیا اور مسجد کے ایک حصے کو کلیسا بنا دیا اور باقی حصے میں کچھ کو اپنے فوجیوں کی استراحت گاہ اور کچھ کو اپنی چیزوں کو ذخیرہ کرنے کیلئے گودام بنا دیا۔<ref>حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۸۳.</ref> لیکن [[صلاح الدین ایوبی]] نے 589ھ کو ان سے  بیت المقدس کو واپس لے لیا اور مسجد کی مرمت کا اقدام کیا، محراب مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا،  اسکے گنبد پر تزئین و آرائش کا کام کیا اور  معروف لکڑی کا منبر وہاں رکھوایا۔<ref>حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۸۳.</ref> ممالیک اور عثمانیوں نے بھی مسجد الاقصی کی مرمت کی ہے۔<ref> موسی غوشه، تاریخ مجموعه مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۳-۱۵.</ref>
 


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==

نسخہ بمطابق 13:49، 7 اپريل 2019ء



مسجد الاقصی
مسجد الاقصی اور قبۃالصخرہ
مسجد الاقصی اور قبۃالصخرہ
ابتدائی معلومات
بانیعبدالملک بن مروان
استعمالمسجد
محل وقوعبیت‌المقدس
دیگر اسامیمسجد بیت‌المقدس
مربوط واقعات1969ء میں آتشزدگی
عالمی یوم مسجد
مشخصات
موجودہ حالتفعال
معماری
طرز تعمیراسلامی
تعمیر نومختلف ادوار میں


مسجد الاَقصی، بیت المقدس شہر میں واقع مسلمانوں کی مقدس مساجد میں سے ایک ہے جو مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے۔ بعض روایات کی بنا پر رسول اکرمؐ اس مقام سے معراج پر گئے ہیں۔ قرآن مجید کے سورہ اسراء میں معراج کا تذکرہ کرتے ہوئے مسجد الاقصی کا ذکر کیا ہے۔ یہ مسجد مسلمان، یہودی اور مسیحیوں کے ہاں قابل احترام ہے؛ اسلامی احادیث میں مسجد الحرام اور مسجد النبی کے ساتھ ساتھ اس کو بھی بافضیلت مساجد میں سے شمار کیا گیا ہے اور اس میں نماز پڑھنا دوسری مساجد میں ہزار نمازوں کے برابر ہے۔

یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ معبد سلیمان کا باقیماندہ حصہ مسجد الاقصی کے نیچے واقع ہے۔ اور بعض مسیحیوں کے مطابق مسجد الاقصی کی ویرانی اور اس کی جگہ معبد سلیمان کی تاسیس مسیح کے ظہور کی شرائط میں سے ہے۔ اسی لیے بعض یہودی مسجد الاقصی کو مسمار کر کے اس کی جگہ معبد سلیمان کو احیاء کرنے کے درپے ہیں۔ اسی وجہ سے مسلمانوں کو اس مسجد میں آنے سے یہودی منع کرتے ہیں۔ 1969ء کو ایک یہودی نے مسجد الاقصی کو آگ لگادی اور اسی مناسبت سے 22 اگست کو بعض اسلامی ممالک میں عالمی یوم مسجد کا نام دیا گیا ہے۔ جس عمارت کو آج کل مسجد الاقصی کہا جاتا ہے، پہلی صدی ہجری کو عبدالملک بن مروان کے دور میں تعمیر ہوئی ہے اور مختلف ادوار میں اس کی مرمت ہوئی ہے۔

محل وقوع اور وجہ تسمیہ

خطا: هیچ متنی برای گفتاورد وارد نشده‌است (یا این که علامت مساوی در آرگومان اصلی به پارامتر نام‌گذاری‌نشده وارد شده‌است)

مسجد اقصی عربی زبان میں دور ترین مسجد کے معنا میں، فلسطین کے شہر بیت المقدس میں موجود اس مسجد کی طرف اشارہ ہے جو شہر کے جنوب مشرق میں مسجد الصخرہ سے 500 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[1] مسجد الاقصی نام رکھنے کے بارے میں کہا گیا ہے اس دور میں مکہ اور مسجد الحرام جو پیغمبر اکرمؐ اور مسلمانوں کا ملجا اور مسکن سمجھا جاتا تھا اس سے مسافت میں دوری کو مورد توجہ قرار دیا گیا ہے۔[2]

بعض محققین کے مطابق قرآن میں مذکور مسجد الاقصی سے مراد وہ وسیع علاقہ مراد ہے جس میں مسجد صخرہ (آنحضرت کا معراج پر جانے کی جگہ) اور اس کے دیگر حصے اور رواق بھی شامل ہیں۔[3]اسی لیے بعض شیعہ مفسروں نے سورہ اسراء کی پہلی آیت میں مذکور مسجد الاقصی سے بیت المقدس مراد لیا ہے[4]جسے حضرت داود اور حضرت سلیمان نے تعمیر کیا تھا۔[5]بعض روایات میں بھی مسحد الاقصی کو مسجد بیت المقدس کے نام سے ذکر کیا ہے۔[6]

بعض کا کہنا ہے کہ رسول اللہؐ کی معراج کے وقت مسجد الاقصی نام کی کوئی عمارت نہیں تھی اور آیہ معراج میں مسجد سے مراد عبادت اور بندگی کی جگہ ہے۔[7]

آج کل چھت والی جو عمارت عبدالملک بن مروان کے دور میں بنی ہے وہ مسجد الاقصی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اور اس عمارت میں مسجد صخرہ، مسجد عمر،[یادداشت 1] دیوار براق[یادداشت 2] اور۔۔۔ شامل ہیں۔[8]


اور اب اس مسجد کا مشہور نام بیت المقدس ہے۔ مسلمان اس جگہ رسول اکرم کے معراج پر جانے کی جگہ حوالے سے جانتے ہیں۔ یہ نام سورہ اسراء کی آیت سے لیا گیا ہے۔[9] یہ مسجد اس آیت کے نازل ہونے کے 91 سال بعد 621 ء میں بنائی گئی۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن پاک میں اس لفظ کو مسجد کے عنوان سے نہیں بلکہ مسجد کے لغوی معنا بہت زیادہ دور عبادت کرنے کی جگہ کے معنا میں استعمال کیا گیا ہے۔

ِآج کل جس مشہور مسجد کو مسجد اقصی کہا جاتا ہے یہ ایک نئی اصطلاح ہے جبکہ قدیم مؤرخین جب مسجد اقصی کا نام لیتے تو اس سے رسول اکرم کی معراج کے وقت کا مشہور اور معروف حصہ مراد لیتے تھے جو اس حصاری دیوار پر بنائے جانے والے حفاظتی برج اور اس میں بنے ہوئے دروازوں اور صحن کے کچھ حصے یا مکمل حصے کیلئے بولا جاتا تھا۔[10]

فضیلت

مسجد الاقصی، مسلمان، یہودی اور مسیحیوں کے ہاں قابل احترام ہے؛ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ معبد سلیمان کا باقیماندہ حصہ مسجد الاقصی کے نیچے واقع ہے۔[11] مسلمانوں کا کہنا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ یہیں سے معراج پر تشریف لے گئے تھے۔[12] دو ہجری کو مسلمانوں کا قبلہ بدلنے سے پہلے مسلمانوں کا پہلا قبلہ بھی یہی تھا۔[13]اسی لیے قاجار اور پہلوی دور میں بعض حاجی حج کے بعد بیت المقدس کے مذہبی مقامات خاص کر مسجد الاقصی کی زیارت بھی کرتے تھے۔[14]

اسلامی احادیث میں مسجد الحرام، مسجد النبی اور مسجد کوفہ کے ساتھ مسجد الاقصی چار بافضیلت مساجد میں شمار ہوتی ہے۔[15] بعض احادیث میں مسجد کوفہ کا ذکر نہیں اور مسجد الاقصی، مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے ساتھ سب سے بافضیلت تین مساجد میں سے ایک ہے۔[16] ان تینوں مساجد میں ایک نماز پڑھنا دوسری مساجد میں ہزار نمازوں کے برابر ہے۔[17]

البتہ بعض شیعہ روایات میں مسجد کوفہ کو مسجد الاقصی پر فوقیت دی گئی ہے۔[18]

تاریخچہ

کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے حضرت داودؑ نے مسجد الاقصی کی جگہ ایک معبد بنایا اور حضرت سلیمان نے اسے پایہ تکمیل کو پہنچایا جسے معبد سلیمان، معبد یروشلم، معبد ایلیا اور بقعہ ایلیا کہا گیا۔ [حوالہ درکار] انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے مورخ گوسٹاولیبون (Gustave Le Bon) کا کہنا ہے کہ بیت المقدس مسلمانوں کے توسط فتح ہونے سے پہلے مسجد الاقصی کے علاقے میں حضرت مریم کے نام سے ایک کلیسا موجود تھا۔[19]

پہلی صدی ہجری کے مآخذ کے مطابق موجودہ مسجد الاقصی پہلی صدی ہجری کو امویوں کے دور میں تعمیر ہوئی۔ آٹھویں صدی ہجری کے مورخ ابن کثیر کا کہنا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر 66ھ کو بنی امیہ کا خلیفہ عبد الملک بن مروان (حکومت 65-66ھ) کے دور حکومت میں شروع ہوئی اور 73ھ کو پایہ تکمیل تک پہنچی۔[20] بعض نے اس کی تاسیس کی نسبت ولید بن عبدالملک (حکومت 86-96ھ) کی طرف دی ہے۔[21]

ابن کثیر لکھتا ہے: عبدالملک نے اس لئے مسجد الاقصی اور دیگر اماکن کو تعمیر کیا تاکہ شامیوں کو حج جانے سے روک دے اور ان کو یہیں پر طواف کرنے پر مجبور کر دے؛[22]کیونکہ عبدالله بن زبیر حج کو عبدالملک کے خلاف تبلیغ کرنے اور حاجیوں سے اپنی بیعت لینے کے لیے استعمال کرتا تھا۔[23]اور روز عرفہ اور ایام مِنا میں خطبوں کے ذریعے عبد الملک اور اس کی نسل کے دادا حَکم بن عاص پر پیغمبر اکرمؐ کی لعنت کی یاد دہانی کرا کر شام والوں کو اپنی طرف مائل کرتا تھا[24]

عمارت کے مشخصات

مسجد الاقصی کی عمارت مستطیل‌ شکل میں ہے جس کی لمبائی 80 میٹر اور چوڑائی 55 میٹر ہے۔[25]مسجد کی عمارت 53 سنگ مرمر کے ستون اور 49 پائے پر بنی ہوئی ہے۔[26]اسی طرح مسجد ایک بڑے ہال پر مشتمل ہے جس کے درمیان میں ایک گنبد واقع ہے۔[27] پانچویں صدی ہجری کے سیاح ناصر خسرو(۳۹۴-۴۸۱ھ) نے 438ھ میں بیت المقدس کی سیاحت کی ہے[28]اور اپنے سفرنامے میں مسجد الاقصی کی کچھ توصیف کی ہے اور وہاں پر بعض خادموں کے ہونے کا ذکر کیا ہے۔[29]

تعمیر اور مرمت

مسجد الاقصی کی عمارت مختلف ادوار میں تعمیر اور مرمت ہوئی ہے۔ بنی‌عباس، فاطمیون، ایوبیان و عثمانیوں کی حکومتوں میں تعمیر اور مرمت ہوئی ہے۔

بنی عباس کے خلفاء منصور دوانیقی، (حکومت:136-158)[30] اور مہدی عباسی(126-169ھ) نے زلزلہ کی وجہ سے مسجد الاقصی کی تخریب کے بعد دوبارہ تعمیر اور مرمت کی ہے۔[31] اسی طرح ایک کتیبہ کے مطابق فاطمیوں کا خلیفہ الظاہر لاعزاز دین اللہ کے حکم سے 426ھ کو مسجد الاقصی پر ایک گنبد بنایا گیا۔[32] اور المستنصر لدین اللہ کے حکم سے 458ھ کو مسجد کے شمالی ایوان کی مرمت ہوئی۔[33] جب صلیبیوں نے ۱۰۹۹ء بمطابق 583ھ میں بیت المقدس پر ناجائز قبضہ کیا اور مسجد کے ایک حصے کو کلیسا بنا دیا اور باقی حصے میں کچھ کو اپنے فوجیوں کی استراحت گاہ اور کچھ کو اپنی چیزوں کو ذخیرہ کرنے کیلئے گودام بنا دیا۔[34] لیکن صلاح الدین ایوبی نے 589ھ کو ان سے بیت المقدس کو واپس لے لیا اور مسجد کی مرمت کا اقدام کیا، محراب مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا، اسکے گنبد پر تزئین و آرائش کا کام کیا اور معروف لکڑی کا منبر وہاں رکھوایا۔[35] ممالیک اور عثمانیوں نے بھی مسجد الاقصی کی مرمت کی ہے۔[36]


حوالہ جات

  1. حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۸۳
  2. علامه طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۲، ص۷؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۶۱۲.
  3. موسی غوشه، تاریخ مجموعه مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۷
  4. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۶۱۲
  5. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۶
  6. مراجعہ کریں: تفسیر امام حسن عسکری، ۱۴۰۹ق، ص۶۶۱
  7. حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۸۳-۱۸۴.
  8. موسی غوشه، تاریخ مجموعه مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۷.
  9. اسراء، ۱
  10. حمیدی، ص۱۸۴ و ۱۸۵.
  11. توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، ۱۳۸۵ش، ص۸۸.
  12. سوره اسراء، آیه۱.
  13. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۳۱.
  14. مراجعہ کریں: جعفریان، پنجاه سفرنامه حج قاجاری، ۱۳۸۹ش، ص۲۳۰.
  15. شیخ صدوق، من لایحضره الفقیه، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۹.
  16. بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۹۸.
  17. تفسیر منسوب به امام حسن عسکری، ۱۴۰۹ق، ص۶۶۱.
  18. عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۲، ص۲۷۹؛ محدث نوری، مستدرک وسائل الشیعه،‌ ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۴۰۹.
  19. گوستاولوبون، تمدن اسلام و عرب به نقل از حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۸۳.
  20. ابن کثیر، البدایة و النهایه، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۲۸۰.
  21. موسی غوشه، تاریخ مجموعه مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۰.
  22. ابن کثیر، البدایة و النهایه، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۲۸۰.
  23. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۲۶۱.
  24. ابن کثیر، البدایة و النهایه، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۲۸۰.
  25. موسی غوشه، تاریخ مجموعه مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۰.
  26. حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۸۳.
  27. موسی غوشه، تاریخ مجموعه مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۰.
  28. ناصرخسرو، سفرنامه، ۱۳۶۸ش، ص۲۶.
  29. ناصرخسرو، سفرنامه، ۱۳۶۸ش، ص۳۲.
  30. حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۸۳.
  31. موسی غوشه، تاریخ مجموعه مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۱.
  32. موسی غوشه، تاریخ مجموعه مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۱.
  33. موسی غوشه، تاریخ مجموعه مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۱.
  34. حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۸۳.
  35. حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۸۳.
  36. موسی غوشه، تاریخ مجموعه مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۱۳-۱۵.

منابع

  • دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ذیل مدخل «بیت المقدَّس».
  • حمیدی، جعفر، تاریخ اورشلیم، امیرکبیر، تہران، دوم، ۱۳۸۱ش.


خطا در حوالہ: "یادداشت" نام کے حوالے کے لیے ٹیگ <ref> ہیں، لیکن مماثل ٹیگ <references group="یادداشت"/> نہیں ملا یا پھر بند- ٹیگ </ref> ناموجود ہے