"ناصبی" کے نسخوں کے درمیان فرق
imported>Abbashashmi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
|||
سطر 16: | سطر 16: | ||
شیعہ فقہا کے نزدیک، نواصب [[نجس]]<ref>صدر، ما وراء الفقہ، 1420ھ، ج1، ص145۔</ref> اور [[کفر|کافر]]<ref> کفار کے حکم میں ہیں۔ | شیعہ فقہا کے نزدیک، نواصب [[نجس]]<ref>صدر، ما وراء الفقہ، 1420ھ، ج1، ص145۔</ref> اور [[کفر|کافر]]<ref> کفار کے حکم میں ہیں۔ | ||
بطور نمونہ ملاحظہ کیجئے: طوسی، النھایہ، 1400ھ، ص5۔</ref> ہیں۔ فقہی کتب میں [[نجاست کفار]] کے موضوع پر بحث کی گئی ہے۔<ref>بطور نمونہ ملاحظہ کیجئے: نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج6، ص63-65؛ بحرانی، الحدائق الناضرہ، 1405ھ، ج5، ص185-177۔</ref> نواصب کے کچھ احکام درج ذیل ہیں: | بطور نمونہ ملاحظہ کیجئے: طوسی، النھایہ، 1400ھ، ص5۔</ref> ہیں۔ فقہی کتب میں [[نجاست کفار]] کے موضوع پر بحث کی گئی ہے۔<ref>بطور نمونہ ملاحظہ کیجئے: نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج6، ص63-65؛ بحرانی، الحدائق الناضرہ، 1405ھ، ج5، ص185-177۔</ref> نواصب کے کچھ احکام درج ذیل ہیں: | ||
{{ستون آ|3}} | |||
* ان کے [[ذبح|ذبیحہ]] کا ناجائز ہونا<ref>طوسی، تہذیب الاحکام، ج9، ص71؛ امام خمینی، رسالۃ النجاۃ، 1385ش، ص325۔</ref> | * ان کے [[ذبح|ذبیحہ]] کا ناجائز ہونا<ref>طوسی، تہذیب الاحکام، ج9، ص71؛ امام خمینی، رسالۃ النجاۃ، 1385ش، ص325۔</ref> | ||
* ان کیساتھ [[نکاح]] کا ناجائز ہونا <ref>صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج3، ص408؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج13، ص15۔</ref> | * ان کیساتھ [[نکاح]] کا ناجائز ہونا <ref>صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج3، ص408؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج13، ص15۔</ref> | ||
سطر 23: | سطر 23: | ||
* ناصبی کی [[نیابت]] میں [[حج]] کا عدم جواز<ref>محقق حلی، المعتبر، 1407ھ، ج2، ص766۔</ref> | * ناصبی کی [[نیابت]] میں [[حج]] کا عدم جواز<ref>محقق حلی، المعتبر، 1407ھ، ج2، ص766۔</ref> | ||
* [[مسلمانوں]]سے وراثت نہ پانا<ref>بہجت، جامع المسائل، 1426ھ، ج6، ص156۔</ref> | * [[مسلمانوں]]سے وراثت نہ پانا<ref>بہجت، جامع المسائل، 1426ھ، ج6، ص156۔</ref> | ||
* نواصب کو [[صدقہ]]دینے کا عدم جواز <ref>امام خمینی، رسالۃ النجاۃ، 1385ش، ص309۔</ref> | * نواصب کو [[صدقہ]] دینے کا عدم جواز <ref>امام خمینی، رسالۃ النجاۃ، 1385ش، ص309۔</ref> | ||
* نواصب کو کفارہ دینے کا عدم جواز<ref>طوسی، النھایہ، 1400ھ، ص570۔</ref> | * نواصب کو کفارہ دینے کا عدم جواز<ref>طوسی، النھایہ، 1400ھ، ص570۔</ref> | ||
{{خاتمہ}} | |||
== ناصبیت کی پیدائش == | == ناصبیت کی پیدائش == |
نسخہ بمطابق 15:10، 16 اگست 2018ء
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم Shamsoddin (حصہ · شراکت) نے 6 سال قبل کی۔ |
ناصبی وہ ہے جو امام علیؑ یا اہل بیتؑ میں سے کسی ایک کے ساتھ دشمنی رکھتا ہو اور اپنی دشمنی کا اظہار بھی کرتا ہو ۔ اہل بیتؑ کے فضائل کا انکار، آئمہؑ پر لعنو سب اور اسی طرح اہل تشیع کیساتھ دشمنی کو ناصبیت کے مصادیق میں سے قرار دیا گیا ہے۔
شیعہ فقہا کے نزدیک، نواصب نجس اور حکم کفار میں ہیں؛ اس جہت سے ان کے ہاتھوں کا ذیبحہ کھانا، انہیں صدقہ دینا اور ان کیساتھ شادی بیاہ جائز نہیں ہے اور وہ مسلمانوں سے وراثت نہیں پا سکتے۔
بعض معاصر محققین کے بقول، ناصبیت کا آغاز قتل عثمان سے ہوا اور بنو امیہ کی حکومت میں یہ رائج ہو گئی۔ اہل بیتؑ کے فضائل کی اشاعت پر پابندی، شیعوں کا قتل اور منبروں سے امام علیؑ پر سب کو اس دور کی ناصبیت کے اثرات میں سے شمار کیا گیا ہے۔ معاویہ، خوارج، عثمانیہ اور حریز بن عثمان کو نواصب میں سے قرار دیا گیا ہے۔
شیعہ علما کی نواصب اور ناصبیت کے بارے میں کئی تصنیفات ہیں:
نصب کا مفہوم اور مصادیق
نصب، اہل بیتؑ یا ان کے چاہنے والوں کیساتھ دشمنی رکھنے اور اسے برملا اور آشکار کرنے کے معنی میں ہے۔[1] اس جہت سے اہل بیتؑ اور ان کے چاہنے والوں اور شیعوں[2] سے دشمنی[3] صرف اسی صورت میں ’’نصب‘‘ قرار پائے گی کہ جب ان سے دشمنی ان کی اہل بیتؑ سے محبت [4] اور اہل بیتؑ کی پیروی [5] کے باعث ہو۔ مشہور مسلمان علما ایسے شخص کو ناصبی قرار دیتے ہیں کہ جو اہل بیتؑ کا دشمن ہو اور اپنی دشمنی کو برملا کرتا ہو[6]۔ کچھ لوگوں کے بقول امام علیؑ سے بغض کو بھی اپنے دین کا جزو قرار دے۔[7]۔ شیعہ علما نے امام علی کے فسق یا کفر کے عقیدے[8]، آپؑ پر دوسروں کی برتری کے عقیدے،[9] اہل بیت پر سبّ و لعن کے عقیدے،[10] ان کے فضائل کے انکار [11] فضائل کے ذکر اور اشاعت کی نسبت ناپسندیدگی [12] کو نصب کے مصادیق میں سے شمار کیا ہے۔ مشہور مسلمان علما ایسے شخص کو ناصبی قرار دیتے ہیں کہ جو اہل بیت کا دشمن ہو اور اپنی دشمنی کو برملا کرتا ہو[13]۔ کچھ لوگوں کے بقول امام علیؑ سے بغض کو بھی اپنے دین کا حصہ قرار دے۔[14] انہوں نے امام علیؑ سے بغض کو بھی اپنے دین کا جزء شمار کر لیا ہے۔[15] وہ امام علی کے فسق یا کفر کے عقیدے[16]، دوسروں کی آپؑ پر برتری کے عقیدے [17] اہل بیت پر سب و لعن کے عیقدے،[18] ان کے فضائل کے انکار [19] ان کے ذکر و نشر سے کراہت [20] کو نصب کے مصادیق میں سے شمار کیا ہے۔ اہل سنت عالم حسن بن فرحان مالکی نے امام علیؑ اور اہل بیت سے ہر قسم کے انحراف کو نصب کا مصداق قرار دیا ہے۔[21] انہوں نے امام علیؑ کی مدح میں صحیح احادیث کی تضعیف، دورہ خلافت کی جنگوں میں آپ کے غلطی پر ہونے، آپؑ کے دشمنوں کی تعریف میں مبالغہ آرائی ، آپ کی خلافت میں شک اور آپؑ کی بیعت سے گریز کا نصب کے مصادیق میں اضافہ کیا ہے۔ [22] شیعہ فقیہ محدث بحرانی نے (دوسروں کی امامت کو مان کر) امامت میں دوسروں کو امام علیؑ پر مقدم کرنے کو حضرت علی کیساتھ بغض اور نصب کا مصداق قرار دیا ہے۔[23]
اہل سنت کا ناصبی نہ ہونا
مشہور شیعہ فقہا کے نزدیک ناصبی وہ ہے جو اہل بیتؑ کیساتھ دشمنی رکھتا ہو اور اپنی دشمنی کو آشکار بھی کرتا ہو۔ اس رو سے ان کے نزدیک جو اہل سنت اہل بیتؑ سے محبت پر ایمان رکھتے ہیں، ناصبی نہیں ہیں۔ [24] مگر محدث بحرانی کے نزدیک ناصبی وہ ہے جو دوسروں کو امام علیؑ پر مقدم کرے اور ان کی امامت کا قائل ہو۔ اس بنا پر ان کے نزدیک عام اہل سنت جو تینوں خلفا کی امامت کو مانتے ہیں؛ ناصبی ہیں۔ [25] ان کی دلیل وہ روایت ہے جو شیعہ آئمہ کے علاوہ کسی اور کی امامت کو ناصبیت قرار دیتی ہے۔ [26] صاحب جواہر نے اس قول کو سیرۃ اور اہل تشیع کے عمل کے برخلاف قرار دیا ہے۔ [27] اس روایت کی سند و دلالت کی صحت میں بھی تردید کی گئی ہے۔ رسالہ «مال الناصب و انہ لیس کل مخالف ناصباً» [28] جو ایک شیعہ عالم سید عبداللہ جزایری، سے منسوب ہے اس امر کی حکایت کرتا ہے کہ وہ اہل سنت کے ناصبی ہونے کے قول سے اختلاف رکھتے تھے۔[29]
ناصبی کے احکام
شیعہ فقہا کے نزدیک، نواصب نجس[30] اور کافر[31] ہیں۔ فقہی کتب میں نجاست کفار کے موضوع پر بحث کی گئی ہے۔[32] نواصب کے کچھ احکام درج ذیل ہیں:
ناصبیت کی پیدائش
بعض معاصر محققین کا خیال ہے کہ ناصبیت کا آغاز قتل عثمان سے ہوا اور یہ بنو امیہ کے دور میں رائج ہوئی۔ [41] تاریخی کتب کے مطابق معاویہ بن ابو سفیان نے 41 ھ میں جب مغیرہ بن شعبہ کو کوفہ کی امارت پر مقرر کیا تو اسے یہ حکم دیا کہ امام علیؑ کو برا بھلا کہے۔[42] اس کے بعد عمر بن عبد العزیز کے زمانے تک خلفائے بنو امیہ منبروں پر[43] حضرت علیؑ کو برا بھلا کہتے تھے۔[44] اہل سنت عالم حاکم نیشاپوری نے چوتھی صدی ہجری کو امام علیؑ کی مخالفت سے بھرپور صدی قرار دیتے ہوئے کتاب فضائل فاطمہ زہراؑ کی تالیف کا ہدف اس فکر کا مقابلہ قرار دیا ہے۔ وہ چوتھی صدی ہجری کے ماحول کی توصیف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: زمانے نے ہمیں ایسے لیڈروں کے جال میں گرفتار کر دیا ہے کہ لوگ جن کی قربت حاصل کرنے کیلئے آل رسولؑ سے بغض کا سہارا لیتے ہیں اور ان کی تحقیر کرتے ہیں۔[45]
اثرات
- بنو امیہ کے دور اقتدار میں ناصبیت کے درج ذیل نتائج شمار کیے گئے ہیں:
اہل سنت کتب میں ناصبی راویوں کے ذریعے اہل بیتؑ کی تضعیف اور ان کے فضائل کے انکار پر مبنی جعلی روایات کا شامل ہونا۔[46]
- بچوں کا نام علی رکھنے پر پابندی اور علی نام کے بچوں کا قتل عام۔[47]
- ایسے افراد کو سزا دینا اور تہ تیغ کرنا جو امام علیؑ کے فضائل بیان کرتے تھے یا انہیں گالیاں دینے سے گریز کرتے تھے اور یا معاویہ کی کوئی فضیلت نقل نہیں کرتے تھے۔ حجاج بن یوسف ثقفی [48] کے حکم پر شیعہ علیؑ عطیہ بن سعید کو کوڑے پڑنا اور اسی کے حکم سے صحاح ستہ کے ایک مولف احمد بن علی نسائی [49] کا قتل ان موارد میں سے ہے۔ [50]
معروف نواصب
منابع میں کچھ افراد کو ناصبی کا عنوان دیا گیا ہے:
- معاویہ بن ابو سفیان وہ پہلا اموی حاکم تھا کہ جس نے 20 سال تک دمشق پر حکومت کی۔[51] نہج البلاغہ کے شارح ابن ابی الحدید معتزلی، نے جاحظ سے نقل کیا ہے کہ معاویہ نماز جمعہ کے خطبوں کے آخر میں علیؑ پر لعن کرتا تھا اور کہتا تھا کہ یہ کام اس قدر پھیل جائے کہ کوئی شخص علیؑ کی فضیلت کو نقل نہ کرے۔[52]
- عثمانیہ جو یہ سمجھتے تھے کہ امام علیؑ نے عثمان کو قتل کیا ہے یا اس کیلئے مدد فراہم کی ہے۔[53] اس وجہ سے انہوں نے علیؑ سے بیعت کو توڑ ڈالا۔[54] نویں صدی کے اہل سنت رجالی ابن حجر عسقلانی نے نواصب کو وہ گروہ قرار دیا ہے کہ جن کے خیال میں امام علیؑ نے عثمان کو قتل کیا ہے یا ان کے قتل میں مدد کی ہے۔[55] عثمان کی محبت میں غلو کے نتیجے میں اس گروہ نے امام علیؑ کی تضعیف و تنقیص کا راستہ اختیار کیا ہے۔[56]
- خوارج جنگ صفین میں امام علیؑ کے لشکر میں شامل تھے۔ انہوں نے علی ابن ابی طالبؑ پر کفر کی تہمت لگائی اور آپؑ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہیں امام علیؑ کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے نواصب یا ناصبہ بھی کہا جاتا ہے۔[57]
- حجاج بن یوسف ثقفی متوفی 95 ہجری ، چوتھی صدی ہجری کے مورخ مسعودی کے بقول، اہل بیت کا دشمن تھا[58]۔ وہ امام علیؑ اور آپؑ کے اصحاب پر تبرا نہ کرنے والوں کو قتل کر دیتا تھا۔ وہ شیعوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا اور بالکل معمولی سے گمان اور تہمت کے بہانے قید میں ڈال دیتا تھا۔ غرضیکہ اگر کسی کو زندیق یا کافر کہا جاتا تھا تو یہ اس سے بہتر ہوتا کہ اس کا تعارف شیعہ کے عنوان سے کرایا جائے۔[59] حجاج، عبد الملک کی حکومت میں پہلے حجاز کا حاکم تھا اور پھر عراق کا حکمران بھی بنا دیا گیا۔[60]
- حریز بن عثمان امام علیؑ کو منبر سے سب و شتم کرتا تھا۔[61] اس نے امام علیؑ کی فضیلت میں وارد ہونے والی حدیث انت منی بمنزلة هارون من موسی میں تحریف کر کے اسے «انت منی بمنزلة قارون من موسی» سے بدل دیا۔ [62] اہل سنت رجال شناس ابن حبان کے بقول حریز ہر شب و روز میں علی بن ابی طالب پر ستر مرتبہ لعنت کرتا تھا۔[63]
- مغیرہ بن شعبہ جب معاویہ کی طرف سے کوفہ کا حاکم تھا، تو امام علیؑ اور شیعوں کو منبر سے برا بھلا کہتا تھا اور لعنت کرتا تھا۔[64] یہ ان اصحاب میں سے ہے کہ جن کے حضرت زہراؑ کے گھر پر حملے میں کردار کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔[65]
- ابن تیمیہ جو سلفی تفکر کے رہنماؤں میں سے ہے اور بعض شیعہ محققین نے ابن تیمیہ کی ناصبیت کے اثبات کیلئے اس کی جانب سے حدیث رد الشمس کے انکار ، [66] حدیث غدیر، کی تضعیف [67] اور اسی طرح اس کی شیعوں کیساتھ دشمنی سے استدلال کیا ہے۔ [68] ابن حجر عسقلانی نے کہا ہے کہ بعض لوگوں نے حضرت علیؑ کی نسبت ابن تیمیہ کے کلام کی وجہ سے اس کی طرف نفاق کی نسبت دی ہے۔ [69]
کتب
شیعہ علما و محققین نے ناصبیت کے معنی اور احکام کے بارے میں چند کتابیں تصنیف کی ہیں۔[70] منجملہ:
- النصب و النواصب، مصنف: محسن معلم؛ زبان عربی، جو کچھ مطالب منجملہ نصب کے معانی اور مصادیق پر مشتمل ہے۔[71] حکم نواصب[72] آثار درباره نصب[73] است۔ مصنف نے امام علیؑ کے بغض اور دشمنی کو ناصبی ہونے کا معیار کہا ہے۔ [74] اور 250 سے زیادہ افراد کو ناصبی یا تاصبی کی تہمت کا حامل ہونے کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔[75] اسی طرح ان علاقوں کے نام کہ جہاں پر نواصب رہتے تھے، اس کتاب میں ذکر کیے گئے ہیں۔[76] یہ کتاب انتشارات دار الهادی کی جانب سے 1418ھ میں بیروت میں شائع کی گئی۔ [77]
محدث بحرانی کی تالیف «الشهاب الثاقب فی بیان معنی النواصب»، [78] اور اسی طرح رساله وحید بهبهانی کی تالیف «اصول الاسلام و الایمان و حکم الناصب و ما یتعلق به»،[79] بھی نصب اور ناصبیت کے بارے میں دیگر تصنیفات ہیں۔ اسی طرح کچھ جواب ناموں میں کہ جنہیں شیعہ علما نے نے مخالفین کی کتب پر نقد میں لکھا ہے؛ میں نواصب کی تعبیر سے استفادہ کیا گیا ہے۔[80] قاضی نورالله شوشتری کی کتاب مصائب النواصب فی الرد علی النواقض الروافض [81] ، عبدالجلیل قزوینی کی کتاببعض مثالب النواصب فی نقض بعض فضائح الروافض ان کتابوں میں سے ہیں[82] کتاب النصب و النواصب میں بھی نصب و نواصب کے بارے میں 29 کتب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ [83]
حوالہ جات
- ↑ طریحی، مجمع البحرین، 1416ھ، ج2، ص174۔
- ↑ ابن ادریس حلی، اجوبۃ مسائل و رسائل، 1429ھ، ص227؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج6، ص64۔
- ↑ شہید ثانی، روض الجنان، 1402ھ، ج1، ص420۔
- ↑ شہید ثانی، روض الجنان، 1402ھ، ج1، ص420۔
- ↑ طریحی، مجمع البحرین، 1416ھ، ج2، ص174۔
- ↑ بطور نمونہ ملاحظہ کیجئے: شہید ثانی، روض الجنان، 1402ھ، ج1، ص420؛ بحرانی، الحدائق الناضرۃ، 1405ھ، ج5، ص186، ج24، ص60؛ سبحانی، الخمس، 1420ھ، ص60۔
- ↑ ابن تیمیہ، مجموعۃ الفتاوی، طبعۃ عبدالرحمن بن قاسم، ج4، ص429؛ فیروزآبادی، قاموس المحیط، مادہ نصب، بہ نقل از طریحی، مجمع البحرین، 1416ھ، ج2، ص173۔
- ↑ ابن تیمیہ، مجموعۃ الفتاوی، طبعۃ عبدالرحمن بن قاسم، ج4، ص429۔
- ↑ فاضل مقداد، التنقیح الرائع، 1404ھ، ج2، ص421۔
- ↑ فاضل مقداد، التنقیح الرائع، 1404ھ، ج2، ص421۔
- ↑ فاضل مقداد، التنقیح الرائع، 1404ھ، ج2، ص421۔
- ↑ شہید ثانی، روض الجنان، 1402ھ، ج1، ص420۔
- ↑ بطور نمونہ ملاحظہ کیجئے: شہید ثانی، روض الجنان، 1402ھ، ج1، ص420؛ بحرانی، الحدائق الناضرہ، 1405ھ، ج5، ص186، ج24، ص60؛ سبحانی، الخمس، 1420ھ، ص60۔
- ↑ ابن تیمیہ، مجموعۃ الفتاوی، طبعۃ عبدالرحمن بن قاسم، ج4، ص429؛ فیروزآبادی، قاموس المحیط، مادہ نصب، بہ نقل از طریحی، مجمع البحرین، 1416ھ، ج2، ص173۔
- ↑ ابن تیمیہ، مجموعۃ الفتاوی، طبعۃ عبدالرحمن بن قاسم، ج4، ص429؛ فیروزآبادی، قاموس المحیط، مادہ نصب، بہ نقل از طریحی، مجمع البحرین، 1416ھ، ج2، ص173۔
- ↑ ابن تیمیہ، مجموعۃ الفتاوی، طبعۃ عبدالرحمن بن قاسم، ج4، ص429۔
- ↑ فاضل مقداد، التنقیح الرائع، 1404ھ، ج2، ص421۔
- ↑ فاضل مقداد، التنقیح الرائع، 1404ھ، ج2، ص421۔
- ↑ فاضل مقداد، التنقیح الرائع، 1404ھ، ج2، ص421۔
- ↑ شہید ثانی، روض الجنان، 1402ھ، ج1، ص420۔
- ↑ مالکی، انقاذ التاریخ الاسلامی، 1418ھ، ص298۔
- ↑ مالکی، انقاذ التاریخ الاسلامی، 1418ھ، ص298۔
- ↑ بحرانی، الحدائق الناضرہ، 1405ھ، ج24، ص60۔
- ↑ بطور نمونہ ملاحظہ کریں: صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج3، ص408؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج6، ص64۔
- ↑ بحرانی، الحدائق الناضرہ، 1405ھ، ج24، ص60۔
- ↑ بحرانی، الحدائق الناضرہ، 1405ھ، ج18، ص157۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج6، ص64۔
- ↑ تولائی، «ملاک ناصبانگاری، احکام و آثار مترتب بر نصب در فقہ امامیہ»، ص52۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج19، ص76۔
- ↑ صدر، ما وراء الفقہ، 1420ھ، ج1، ص145۔
- ↑ کفار کے حکم میں ہیں۔ بطور نمونہ ملاحظہ کیجئے: طوسی، النھایہ، 1400ھ، ص5۔
- ↑ بطور نمونہ ملاحظہ کیجئے: نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج6، ص63-65؛ بحرانی، الحدائق الناضرہ، 1405ھ، ج5، ص185-177۔
- ↑ طوسی، تہذیب الاحکام، ج9، ص71؛ امام خمینی، رسالۃ النجاۃ، 1385ش، ص325۔
- ↑ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج3، ص408؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج13، ص15۔
- ↑ ابن براج، المھذب، 1406ھ، ج1، ص129۔
- ↑ طوسی، النھایہ، 1400ھ، ص112۔
- ↑ محقق حلی، المعتبر، 1407ھ، ج2، ص766۔
- ↑ بہجت، جامع المسائل، 1426ھ، ج6، ص156۔
- ↑ امام خمینی، رسالۃ النجاۃ، 1385ش، ص309۔
- ↑ طوسی، النھایہ، 1400ھ، ص570۔
- ↑ کوثری، «بررسی ریشههای تاریخی ناصبیگری»، ص99۔
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ج5، ص243؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک،1387ھ، ج5، ص254۔
- ↑ زمخشری، ربیع الابرار، 1412ھ، ج2، ص335۔
- ↑ ابن اثیر، الکامل، 1385ھ، ج5، ص42۔
- ↑ حاکم نیشابوری، فضائل فاطمة الزهراء، 1429ھ، ص30۔
- ↑ کوثری، «بررسی ریشههای تاریخی ناصبیگری»، ص104۔
- ↑ مزی، تهذیب الکمال، 1413ھ، ج20، ص429۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج6، ص305۔
- ↑ ابن کثیر، البدایه و النهایه، 1407ھ، ج11، ص124۔
- ↑ کوثری، «بررسی ریشههای تاریخی ناصبیگری»، ص104-105۔
- ↑ ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج3، ص1418۔
- ↑ ابن ابیالحدید، شرح نهج البلاغه، 1404ھ، ج4، ص56-57۔
- ↑ معلم، النصب و النواصب، 1418ھ، ص591۔
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج4، ص430۔
- ↑ ابن حجر، تهذیب التهذیب، دار صادر، ج8، ص458۔
- ↑ ابن حجر، فتح الباری، 1408ھ، ج7، ص13۔
- ↑ مقریزی، المواعظ و الاعتبار، 1422-1425ھ، ج4، قسم 1، ص428۔
- ↑ ملاحظہ کیجئے: مسعودی، مروج الذهب، 1409ھ، ج3، ص144۔
- ↑ ابن ابیالحدید، شرح نهج البلاغه، 1404ھ، ج11، ص44۔
- ↑ ابن کثیر، البدایه و النهایه، 1407ھ، ج9، ص117۔
- ↑ سمعانی، الانساب، 1382ھ، ج6، ص95۔
- ↑ ابن حجر، تهذیب التهذیب، دار صادر، ج2، ص239۔
- ↑ ابن حجر، تهذیب التهذیب، دار صادر، ج2، ص240۔
- ↑ ابن کثیر، البدایة و النهایة، 1407ھ، ج8، ص50۔
- ↑ مفید، الجمل، 1413ھ، ص117۔
- ↑ ابن تیمیه، منهاج السنه، 1406ھ، ج8، ص165، به نقل از آل مجدد، «نشانههای ناصبیگری ابن تیمیه»، ص17۔
- ↑ ابن تیمیه، منهاج السنه، 1406ھ، ج7، ص319-320، به نقل از «نشانههای ناصبیگری ابن تیمیه»، ص19۔
- ↑ آل مجدد، «نشانههای ناصبیگری ابن تیمیه»، ص17-25۔
- ↑ ابن حجر، الدرر الکامنه، دار الجیل، ج1، ص155۔
- ↑ معلم، النصب و النواصب، 1418ھ، ص588-590۔
- ↑ معلم، النصب و النواصب، 1418ھ، ص31-38۔
- ↑ معلم، النصب و النواصب، 1418ھ، ص605-624۔
- ↑ معلم، النصب و النواصب، 1418ھ، ص588-590۔
- ↑ معلم، النصب و النواصب، 1418ھ، ص37۔
- ↑ معلم، النصب و النواصب، 1418ھ، ص261-528۔
- ↑ معلم، النصب و النواصب، 1418ھ، ص244-229۔
- ↑ «النصب و النواصب»۔
- ↑ بحرانی، الحدائق الناضره، 1405ھ، ج3، ص405۔
- ↑ آقا بزرگ تهرانی، الذریعه، 1408ھ، ج2، ص176۔
- ↑ معلم، النصب و الناصبی، 1418ھ، ص588-590۔
- ↑ آقا بزرگ تهرانی، الذریعه، 1408ھ، ج19، ص76۔
- ↑ آقا بزرگ تهرانی، الذریعه، 1408ھ، ج3، ص130۔
- ↑ معلم، النصب و الناصبی، 1418ھ، ص588-590۔