جامعۃ الزہرا(قم)

ویکی شیعہ سے
(جامعۃ الزہرا سے رجوع مکرر)
جامعۃ الزہرا(قم)
عمومی معلومات
تاسیس1363 ش
قانونی حیثیتحوزہ علمیہ قم کے خواتین کے شعبے کی زیر نگرانی
ہدفاسلامی تعلیم و تمدن کا تعارف اور خواتین کی دینی تعلیم و تربیت
ہیڈ کوارٹرقم
سربراہسید محمود مدنی
ویب سائٹhttps://www.jz.ac.ir
ملکایران


جامعۃُ ‌الزہراء، دینی درسگاہ ہے جو شہر قم میں خواتین کے دینی تعلیم و تربیت میں مشغول ہے۔

اس کی بنیاد سنہ 1363 ش میں امام خمینی کے حکم سے رکھی گئی اور چار سطوح میں طالبات کی تربیت میں مشغول ہے۔ اس درسگاہ میں طالبات آنلائن اور آفلائن تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ غیر ایرانی طالبات کو بھی اس درسگاہ میں داخلہ دیا جاتا ہے۔ اس درسگاہ سے فارغ‌ ہونے والی طالبات ایران میں مختلف دینی اور دنیوی درسگاہوں میں استاد اور دیگر شعبوں میں فعالیت انجام دیتی ہیں۔ اس درسگاہ کے مسئولین کی مطابق سنہ 2015ء تک یہاں سے ایرانی اور غیر ایرانی 50 ہزار سے بھی زیاده طالبات فارغ ہو چکی ہیں۔ ہدی کالج اور ہائی سکول اسی درسگاہ سے وابستہ ادارے ہیں۔

تاریخ کے آئینے میں

دینی طالبات کے لئے تعلیمی مرکز کا قیام پہلی بار دار التبلیغ اسلامی میں عمل میں آیا۔[1] سنہ 1970ء میں دار الزہرا نامی ادارے نے خواتین کی دینی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اٹھائی اور مکتب توحید کی تأسیس کے بعد یہ کام اس ادارے میں انجام پانے لگے۔[2] انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد سنہ 1984ء میں امام خمینی کے حکم سے جامعۃ الزہراء کی بنیاد رکھی گئی۔[3] علی مشکینی، عبد الکریم موسوی اردبیلی، احمد جنّتی، محمد فاضل لنکرانی، محمد علی شرعی، محمد رضا توسّلی اور حسن صانعی اس ادارے کے بانیوں میں سے تھے۔ مذکورہ افراد اپنی مسئولیت کے دوران جو سنہ 2001ء تک جاری رہی جامعۃ الزہراء کے اعلی ارکان میں سے تھے۔[4]

اس مرکز کے ذیلی اداروں میں سے ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز تھا جو اس درسگاہ کے اکثر کاموں اور فیصلوں کی منظوری دیتا تھا۔ محمود محمدی عراقی، علی رازینی، محمد علی نظام ‌زادہ، مصطفی پور محمدی، کمال الدّین خدّامی، سید محمد رضا طباطبایی، فریدہ مصطفوی، مرضیہ معینی و معصومہ گلگیری بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اراکین میں سے تھے اور اس درسگاہ کے سربراہ سید محمد رضا طباطبایی تھے۔[5]

سنہ 2001ء میں جب بانی بورڈ کے اراکین نے استعفی دیا تو آیت اللہ خامنہ‌ای نے جامعۃ الزہراء کی مسئولیت بورڈ آف ڈائریکٹرز، حوزہ علمیہ قم کے سربراہ اور حوزہ علمیہ قم کے سپریم کونسل کے دو رکن علما کو ملا کر ایک "ٹرسٹ" قائم کرکے ان کے سپرد کی۔ مرتضی مقتدایی، محمد علی شرعی اور سید ہاشم حسینی بوشہری نئے قوانین کے تحت ٹرسٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ سنہ 2009ء کے ایرانی صدارتی انتخابات میں جامعۃ الزہراء کے پرنسپل اور طالبات کے درمیان سیاسی اختلافات وجود میں آگئے اور طالبات نے پرنسپل کے سیاسی نظریات کے خلاف احتجاج کیا۔[6]

جون 2013ء کو جب حوزہ علمیہ خواتین سیکشن کی پالیسی کونسل تشکیل دی گئی تو آیت اللہ خامنہ‌ای نے پرانے ٹرسٹیز کے اختیارات نئے ٹرسٹیز کو سونپ دیئے جسے مذکورہ پالیسی کونسل نے تشکیل دیا تھا۔ مارج 2014ء کو نئے ٹرسٹیز نے سید سجاد ہاشمیان کو جامعۃ الزہراء کا نیا سربراہ منتخب کیا جس کی آیت اللہ خامنہ‌ای نے تائید کی۔ سنہ 2016ء کو سید سجاد ہاشمیان کے استعفے کے بعد سید محمود مدنی پالیسی کونسل کی تأیید سے نئے سربراہ منتخب ہوئے۔[7]

موجودہ دور میں مرتضی مقتدایی، سید ہاشم حسینی بوشہری، سید محمد علی طباطبایی، مصطفی ‌پور محمدی، محمود رضا جمشیدی، محمد رضا زیبایی ‌نژاد، فریدہ مصطفوی، معصومہ گلگیری، مرضیہ معینی اور فریبا علاسوند اس درسگاہ کے ٹرسٹیز ہیں۔[8]

اس درسگاه کے قانون کے پانچویں شق میں تعلیم و تمدن اسلامی کا تعارف اور خواتین مفکرین کی دینی تعلیم و تربیت اور انہیں حقیقی اسلام سے روشناس کرانا تاکہ یہ خواتین ایران اور ایران سے باہر دیگر اسلامی خواتین کے لئے نمونہ قرار پایئں، اس درسگاه کے اہداف و مقاصد میں شمار کیا گیا ہے۔

تعلیمی کورس

جامعۃ الزہراء کی ایک تصویر

اس درسگاہ کے نصابی اور غیر نصابی پروگرامز آنلائن اور آفلائن دونوں طرز پر برگزار ہوتے ہیں۔ آفلائن جنرل کورس تین کٹیگریز "فل ٹائم"، "ہاف ٹائم" اور "پارٹ ٹائم" میں برگزار ہوتے ہیں، اسی طرح آنلائن جنرل کورس "رسمی" اور "اوپن" صورت میں مرتب کئے گئے ہیں۔ اعلی تعلیم "سطوح" اور "درس خارج" بھی اس درسگاہ میں برگزار ہوتے ہیں۔ مذکورہ تمام تعلیمی سرگرمیاں دینی تعلیم سے مربوط ہیں۔[9]

جنرل کورس

فل ٹائم طالبات 4 سال، ہاف ٹائم طالبات 6 سال کی مدت میں اس درسگاہ سے فارغ ہوتی ہیں، اور پارٹ تائم طالبات تین سالہ کورس مکمل کرنے کی پابند ہوتی ہیں۔ آنلائن کلاسیں بھی آفلائن کلاسوں کی طرح 190 یونٹ پر مشتمل ہیں جو سال کے اندر سی ڈیز، کتب اور نوٹس ارسال کرنے کے ذریعے مکمل کی جاتی ہیں۔ گذشتہ کچھ سالوں میں آنلائن اوپن کلاسیں جو پارٹ ٹائم کلاسوں کی طرح ہیں، تعلیمی اسناد سے محروم طالبات کے لئے بھی مرتب کئے گئے ہیں۔[10]

اعلی تعلیم

جنرل کورس سے فارغ ہونے والی طالبات اعلی تعلیم کے لئے مختلف تعلیمی رشتے انتخاب کرتی ہیں جن میں "تفسیر و علوم قرآنی"، "فقہ و اصول"، "ادبیات عرب"، "تاریخ اسلام" اور "فلسفہ و کلام" شامل ہیں۔ تفسیر و علوم قرآن، فقہ و اصول اور فلسفہ اسلامی جیسے رشتوں کی کلاسیں آنلائن بھی ہوتی ہیں۔[11] اس درسگاہ میں تعلیمی سال 2015-2016 میں سطح چہار کی کلاسیں تفسیر میں "تفسیر تطبیقی اور "علوم و معارف قرآن" دو رشتوں میں طالبات کو داخلہ دی ہیں۔[12]

ہُدی ہائی سکول اینڈ کالج

ہدی ہائی سکول کے کورس سرکاری تعلیمی کورس اور معارف دین سے مرکب ہے جس میں سے فارغ ہونے کے بعد طالبات باقاعدہ ڈپلومہ کی حقدار قرار پاتی ہیں۔

ہدی کالج میں عمومی داخلے کے امتحانات کے ذریعے "الاہیات و معارف اسلامی" کے رشتے میں "فقہ و مبانی حقوق اسلامی"، "علوم قرآن و حدیث" اور "فلسفہ و کلام" کے شعبوں میں داخلہ دیا جاتا ہے اور یہاں سے فارغ ہونے والی طالبات باقاعده ماسٹرز کی سند دریافت کرتی ہیں۔[13]

غیرایرانی طالبات

یہ شعبہ سنہ 1987ء میں تأسیس ہوا جس میں اس وقت چالیس ملکوں سے سینکڑوں طالبات روزانہ یا شبانہ روزی دینی تعلیم و تربیت میں مشغول ہیں۔ دورہ تمہیدی، جنرل اور اعلی تعلیم اس شعبے کے تعلیمی کورس میں شامل ہیں۔

دورہ تمہیدی میں شروع میں طالبات 6 مہینے میں فارسی زبان سیکھتی ہیں اس کے بعد 6 مہینے کے اندر قرآن کریم اور اسلامی معارف کی ابتدائی تعلیم حاصل کرتی ہیں۔

جنرل کورس میں شبانہ روزی 4 سال کے اندر جبکہ فقط روزانہ پڑھنے والی طالبات 5 سال کے اندر "دینی اور اسلامی معارف جن میں: ادبیات عرب، منطق، فقہ، عقاید، تفسیر، فلسفہ وغیرہ شامل ہیں کی تعلیم حاصل کرتی ہیں اور آخری تحقیق دینے کے بعد اس دورے کو مکمل کرتی ہیں۔

اعلی تعلیم ان طالبات کے لئے ہیں جو جنرل کورس میں کامیابی حاصل کر چکی ہیں، یہ طالبات "شیعہ ‌شناسی" اور "اخلاق و تربیت اسلامی" دو رشتوں میں دو سال کے اندر 36 یونٹس اور 16 تحقیقی مقالات کے ساتھ اس کورس کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہیں اور آخر میں تھیسس مکمل کرنے کے بعد اس کورس سے فارغ ہو جاتی ہیں۔[14]

سرگرمیاں

اس درسگاہ کے ایک مسئول کے مطابق سنہ 2015ء تک اس درسگاه سے 50 ہزار سے بھی زاید طالبات فارغ ہو چکی ہیں اور سنہ 2015ء کو 12 ہزار ایرانی اور 1500 غیر ایرانی طالبات تعلیم و تربیت میں مشغول ہیں۔[15] اس درسگاہ میں تعلیم و تربیت کے علاوہ تحقیقی اور تبلیغی امور بھی انجام دئے جاتے ہیں۔ "مجلہ نامہ جامعہ" بھی اسی درسگاہ سے شایع ہوتا ہے جس کی اشاعت ان آخری سالوں میں متوقف ہوئی ہے۔ "مطالعات اسلامی زنان و خانوادہ" نامی دو فصلنامے بھی اس مرکز کے تحقیقی ادارے کے ذریعے شایع ہوتے ہیں۔[16] اس درسگاہ سے فارغ ہونے والی بعض طالبات مختلف تعلیمی اور فرہنگی مراکز میں مشغول برسر روزگار ہیں۔ فرہنگی امور کے انچارچ کے مطابق پورے ایران میں حوزہ علمیہ کے خواتین کے شعبے کے اکثر اساتید اور مسئولین اسی درسگاہ سے فارغ ہونے والی طالبات ہیں۔ جامعۃ الزہرا سے فارغ ہونے والی طالبات کی ایک تنظیم کے ذریعے یہاں سے فارغ ہونے والی طالبات سے رابطے میں ہوتی ہیں جن کے ذریعے مختلف پروگرامز تشکیل دیئے جاتے ہیں۔[17]

حوالہ جات

  1. جعفریان، رسول، ۱۳۷۸، ص۳۴۰۔
  2. جعفریان، رسول، ۱۳۷۸، ص۳۵۹۔
  3. مہدی حاضری، امام خمینی و نہادہای انقلاب اسلامی،۱۳۸۱، ص۹۱۔
  4. گفتگو با سید محمد رضا طباطبایی، مجلہ نامہ جامعہ، شمارہ ۱، مہر ۱۳۸۳۔
  5. گفتگو با سید محمد رضا طباطبایی، مجلہ نامہ جامعہ، شمارہ ۱، مہر ۱۳۸۳۔
  6. سایت رجانیوز۔
  7. مراسم تودیع و معارفہ مدیر جامعہ الزہرا (س) آغاز شد، سایت جامعہ الزہرا۔
  8. خبرگزاری رسا۔
  9. سعیدہ غروی، گزارشی از حوزہ علمیہ جامعۃ الزہراء قم، فصلنامہ بانوان شیعہ، شمارہ ۱۔
  10. سعیدہ غروی، گزارشی از حوزہ علمیہ جامعۃ الزہراء قم، فصلنامہ بانوان شیعہ، شمارہ ۱۔
  11. سعیدہ غروی، گزارشی از حوزہ علمیہ جامعۃ الزہراء قم، فصلنامہ بانوان شیعہ، شمارہ ۱۔
  12. سایت جامعہ الزہراء
  13. سعیدہ غروی، گزارشی از حوزہ علمیہ جامعۃ الزہراء قم، فصل نامہ بانوان شیعہ، شمارہ ۱۔
  14. سعیدہ غروی، گزارشی از حوزہ علمیہ جامعۃ الزہراء قم، فصلنامہ بانوان شیعہ، شمارہ ۱۔
  15. سایت جامعہ الزہراء۔
  16. سایت جامعہ‌الزہراء
  17. جعفر یوسفیان در گفتگو با مجلہ حاشیہ۔ شمارہ ۱۴۔

مآخذ

  • جعفریان، رسول، جریان‌ ہا و سازمان ‌ہای مذہبی-سیاسی ایران (۱۳۲۰-۱۳۵۷)، تہران، انتشارات خانہ کتاب، ۱۳۷۸ش۔
  • مہدی حاضری، امام خمینی و نہادہای انقلاب اسلامی، معاونت مؤسسۀ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۱ش۔
  • سعیدہ غروی، گزارشی از حوزہ علمیہ جامعۃ الزہراء قم، فصلنامہ بانوان شیعہ، شمارہ ۱۔
  • گفتگو با سید محمد رضا طباطبایی، مجلہ نامہ جامعہ، شمارہ ۱، مہر ۱۳۸۳ش۔
  • سایت جامعہ الزہراء۔