سیرہ متشرعہ

ویکی شیعہ سے
(بنائے متشرعہ سے رجوع مکرر)

سیرہ مُتَشَرِّعہ، کسی خاص عمل پر کسی دین کے تمام یا اکثر پیروکاروں کی عملی پابندی کو کہا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں مسلمانوں کا مسلمان ہونے اور شریعت پر عمل پیرا ہونے کے ناطے انجام دینے والے عمل کو سیرہ متشرعہ کہا جاتا ہے۔ سیرہ متشرعہ ان مسائل میں سے ہے جس کی حجیت کے بارے میں علم اصول فقہ میں بحث کی جاتی ہے۔ خبر واحد اور ظواہر کی حجیت کا مسئلہ حکم شرعی کے استنباط کے راستے میں پیش آنے والے اہم اور بینادی مسائل میں سے ہیں جن کی اثبات کے لئے سیرہ متشرعہ سے بھی استناد کیا جاتا ہے۔ اسی طرح فقہاء بعض دیگر فقہی مسائل کو ثابت کرنے کے لئے بھی سیرہ متشرعہ سے مدد لیتے ہیں۔

بعض اصولیوں کا کہنا ہے کہ سیرہ متشرعہ‌ جو عصر معصومؑ میں قائم ہو اور معصوم خود بھی اس پر عمل کرنے والوں میں سے ہو یا معصوم کے نظروں اور سماعتوں سے گزرنے کے باوجود اس سے منع نہ کیا ہو تو حجت ہے۔ علمائے اصول اس قسم کی سیرتوں کو رائ معصوم یا بیان شارع کو کشف کرنے والی اجماع سے تعبیر کرتے ہیں۔

علمائے اصول کہتے ہیں کہ سیرہ متشرعہ صرف متعلقہ عمل کی مشروعیت اور عدم حرمت یا مشروعیت ترک اور عدم وجوب پر دلالت کرتی ہے اور واجب، مستحب، حرام اور مکروہ جیسے احکام کو سیرت متشرعہ کے ذریعے اثبات نہیں کیا جا سکتا ہے۔

تعریف اور اہمیت

سیرہ مُتَشَرِّعہ، کسی خاص عمل پر کسی دین کے تمام یا اکثر پیروکاروں کی عملی پابندی کو کہا جاتا ہے۔[1] دوسرے لفظوں میں کسی خاص عمل کی انجام دینے یا ترک کرنے کے سلسلے میں کسی دین یا مذہب کے پیروکاوں کے مستقل عملی طریقہ کار کو سیرہ متشرعہ کہا جاتا ہے۔[2] میرزائے نائینی کی طرف سے پیش کئے جانے والی تعریف کی بنا پر سیرہ متشرعہ مسلمانوں کا مسلمان ہونے اور شریعت پر عمل پیرا ہونے کے اعتبار سے انجام دینے والے عمل کو کہا جاتا ہے۔[3]

فقہ اور اصول فقہ میں سیرہ متشرعہ سے بہت زیادہ استناد کیا گیا ہے[4] اور اس کی حجیت کی بحث علم اصول فقہ کے اہم مسائل میں شمار ہوتی ہے یہاں تک کہ بعض اصولیوں کے قلمی آثار میں اس کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔[5]

سیرہ متشرعہ کی دلالت کے دائرہ کار کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ صرف کسی عمل کی مشروعیت اور عدم حرمت یا مشروعیت ترک اور عدم وجوب پر دلالت کرتی ہے اور وجوب، استحباب، حرمت اور کراہت جیسے احکام کی اثبات میں سیرہ متشرعہ کا کوئی کردار نہیں ہے۔[6]

سیرہ متشرعہ اور سیرہ عقلاء میں فرق

سیرہ متشرعہ سیرہ عقلاء کی نسبت خاص ہے اور کسی خاص عمل کی انجام دہی یا ترک کے بارے میں صرف مسلمانوں یا کسی خاص دین یا مذہب کے پیروکاروں کی سیرت کو کہا جاتا ہے؛[7] جبکہ سیرہ عقلاء کسی کام کی انجام دہی یا ترک پر تمام عقلاء کے اتفاق اور توافق کو کہا جاتا ہے۔[8] ان دونوں کے معتبر ہونے اور حجت ہونے کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ سیرہ متشرعہ اگر ثابت ہو جائے تو یہ حکم شرعی پر دلیل بھی بن جاتی ہے؛ لیکن سیرہ عقلاء حجت ہی نہیں جب تک معصوم کی طرف سے اس کی تائید اور تصدیق نہ ہو یعنی شارع کی طرف سے اس سے منع یا ممانعت نہیں کی گئی ہو۔[9]

کہا جاتا ہے کہ سیرہ متشرعہ میں یہ صلاحیت بھی موجود ہے کہ یہ کسی حکم شرعی کے اثبات میں سیرہ عقلاء کو مؤثر ہونے سے منع بھی کر سکتی ہے؛ لیکن سیرہ عقلاء میں سیرہ متشرعہ کی نسبت ایسی صلاحیت موجود نہیں ہے۔[10]

سیرہ متشرعہ اور اجماع کے درمیان نسبت

بعض اصولیوں کے مطابق سیرہ متشرعہ ایک طرح کا اجماع ہے۔[11] شیعہ عالم دین محمد رضا مظفر سیرہ متشرعہ کو اجماع کا سب سے اعلی مرتبہ قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ یہ ایک طرح سے کسی کام کی انجام دہی یا ترک پر علماء اور غیر علماء سب کا عملی اجماع ہے، جبکہ اجماع کے دیگر اقسام سب کے سب کلامی اجماع ہیں اور وہ بھی صرف علماء کے ساتھ مختص ہے۔[12]

سیرہ متشرعہ کے اقسام اور ان کی حجیت

علم اصول فقہ میں سیرہ متشرعہ کے کچھ اقسام کا ذکر ملتا ہے جو درج ذیل ہے:

  • عصر معصومؑ میں قائم سیرت جس پر معصوم نے بھی عمل کیا ہو؛[13] جیسے مسلمانوں کی یہ سیرت تھی کہ وہ باوثوق راویوں کے ذریعے معصومینؑ سے نقل ہونے والی احادیث پر اعتماد کرتے تھے اور ان راویوں کو معصومین اور لوگوں کے درمیان رابط کے طور پر قبول کرتے تھے۔[14] اصولیوں کے مطابق اس طرح کی سیرت کے حجت ہونے میں کوئی شک و تردید نہیں ہے اور یہ سیرت حکم شرعی پر دلیل بھی ہے؛ کیونکہ یہ اجماع کی مانند شرعی حکم اور معصوم کے رائ کو کشف کرتی ہے۔[15]
  • عصر معصومؑ میں قائم سیرت جس پر خود معصوم نے عمل تو نہیں کیا، تاہم اسے معصوم کی تائید اور رضایت حاصل ہو۔ مثلا شیخ انصاری سیرت متشرعہ کی اس قسم سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شریعت کی ابتداء سے مسلمانوں یا دوسرے ادیان کے پیروکاروں کی یہ سیرت رہی ہے کہ جب کسی کام کے بارے میں شارع کی طرف سے ممانعت ثابت نہ ہو تو اس کام کو ترک کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔[16] سیرہ متشرعہ کی اس قسم کو بھی حجت اور اجماع کی طرح اسے بھی کاشف قول معصوم سمجھتے ہیں۔[17]
  • سیرہ مستحدثہ جس کے بارے میں یقین ہو کہ عصر معصومؑ میں یہ سیرت قائم نہیں تھی اور نہ عصر معصوم سے متصل ہو:[18] بعض اصولی اس قسم کی سیرت کو حجت نہیں سمجھتے ہیں۔[19]
  • جس سیرت کے بارے میں عصر معصوم سے متصل ہونے اور نہ ہونے یا معصوم کی طرف سے تائید ہونے یا نہ ہونے میں شک ہو۔[20] بعض اصولی اس قسم کی سیرت کو بھی حجت نہیں سمجھتے ہیں۔[21]

فقہی مسائل میں سیرہ متشرعہ کا استعمال

فقہی مسائل میں سیرہ متشرعہ کے بعض استعمالات درج ذیل ہیں:

  • فقہاء کے مطابق سیرہ متشرعہ قائم ہے کہ اگر کوئی شخص کسی منقول اور مباح چیز کو حیازت یعنی جمع کرے تو یہ اس کا مالک بن جاتا ہے۔ یہ سیرت معصوم کی نظروں یا سماعتوں سے گزری ہے اس کے باوجود معصوم کی طرف سے اس سے ممانعت نہیں کی گئی ہے۔[22]
  • امام خمینی بیع معاطاتی میں سیرہ متشرعہ کے ذریعے ملکیت کو ثابت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ علماء اور صلحا سے لے کر عام عوام تک کی یہ سیرت رہی ہے کہ جب ایجاب و قبول کے بغیر بازار سے روٹی یا گوشت وغیرہ کی خرید و فروخت ہوتی ہے تو ان کے مطابق یہاں صرف اباحہ تصرف نہیں بلکہ ملکیت بھی آتی ہے۔[23]
  • فقہاء کے مطابق مُطہِّرات کی ایک قسم حیوان کے بدن سے عین نجاست کا ازالۂ ہے۔[24]آقا رضا ہمدانی کے مطابق اس فتوا کی ایک دلیل حیوانات کے حوالے سے سیرہ اور بنائے متشرعہ ہے، باوجود اس کے کہ جانتے تھے کہ حیوان کا بدن ولادت کے وقت خون سے نجس ہوا ہے لیکن جیسے ہی عین نجاست کا ازالہ ہو جائے تو اسے پاک سمجھتے ہیں۔[25]
  • آیت اللہ جعفر سبحانی میت کی تقلید پر باقی رہنے کے فتوا کی ایک دلیل سیرہ متشرعہ کو قرار دیتے ہیں[26] اور کہتے ہیں کہ ان تمام شہروں خاص کر جن شہروں کے مواصلاتی نظام کمزور ہو میں یہ سیرہ متشرعہ قائم تھی کہ جس مجتہد کی زندگی میں اس کی تقلید کی جاتی تھی وفات کے بعد بھی اس کی تقلید کرتے تھے یہاں تک کہ ان کی طرح یا ان سے افضل کوئی دوسرا مجتہد پیدا نہ ہو۔[27]

علم اصول فقہ میں سیرہ متشرعہ کا استعمال

علم اصول فقہ میں اس کے دو بنیادی مسائل یعنی حجیت خبر واحد اور حجیت ظواہر کی بحث میں سیرہ متشرعہ سے استدلال کرتے ہیں۔[28] مثلا کہا گیا ہے کہ مسلمانوں اور ہر زمانے کے متشرعین حتی پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کے زمانے میں بھی ان کے اصحاب کے درمیان خبر ثقہ پر اعتماد کرنے کی سیرت چلی آرہی ہے اور پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ میں سے کسی کی طرف سے بھی اس سے منع کرنے کے حوالے سے کوئی حدیث ہم تک نہیں پہنچی ہے۔[29] اسی طرح ظواہر کی حجیت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ تمام مسلمانوں یہاں تک کہ ائمہ معصومینؑ کے اصحاب تک میں یہ سیرت جاری تھی کہ وہ متکلم کے مقصود اور مراد تک رسائی حاصل کرنے کے لئے اس کے کلام کے ظواہر پر اعتماد کرتے تھے اور کسی معصوم کی طرف سے اس سے منع کئے جانے کی کوئی چیز ہم تک نہیں پہنچی ہے۔[30]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص131۔
  2. جمعی از نویسندگان، فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، 1389ہجری شمسی، ص496۔
  3. کاظمی خراسانی، فوائد الاصول، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج3، ص192۔
  4. جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، 1444ھ، ص131۔
  5. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص155؛ ہاشمی شاہرودی، بحوث فی علم الاصول (تقریرات درس سید محمدباقر صدر)، 1417ھ، ج4، ص233؛ سیفی مازندرانی، بدایع البحوث فی علم الاصول، 1429ھ، ج9، ص267۔
  6. مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص158۔
  7. مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص155۔
  8. سیفی مازندرانی، بدایع البحوث، 1429ھ، ج9، ص268۔
  9. ملاحظہ کریں: اصفہانی، حاشیۃ المکاسب، 1418ھ، ج1، ص104۔
  10. سیفی مازندرانی، بدایع البحوث، 1429ھ، ج9، ص273۔
  11. ملاحظہ کریں: مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص155۔
  12. مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص155۔
  13. مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص155۔
  14. شیخ انصاری، فرائد الاصول، ج1، ص343۔
  15. کاظمی خراسانی، فوائد الاصول، مؤسسۃ الفکر الاسلامی، ج3، ص192؛ مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص155؛ ہاشمی شاہرودی، بحوث فی علم الاصول، 1417ھ، ج4، ص247۔
  16. شیخ انصاری، فرائد الاصول، ج2، ص55۔
  17. شیخ انصاری، فرائد الاصول، ج2، ص55؛ کاظمی خراسانی، فوائد الاصول، مؤسسۃ الفکر الاسلامی، ج3، ص192؛ مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص155؛
  18. مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص155۔
  19. مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص155۔
  20. مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص155۔
  21. مظفر، اصول الفقہ، 1405ھ، ج2، ص156۔
  22. ہاشمی شاہرودی، بحوث فی علم الاصول (تقریرات درس سید محمدباقر صدر)، 1417ھ، ج4، ص236۔
  23. امام خمینی، کتاب البیع، 1410ھ، ج1، ص55۔
  24. ملاحظہ کریں: طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص287۔
  25. ہمدانی، مصباح الفقیہ، 1417ھ، ج1، ص363۔
  26. سبحانی، المبسوط فی اصول الفقہ، 1432ھ، ج4، ص701۔
  27. سبحانی، المبسوط فی اصول الفقہ، 1432ھ، ج4، ص702۔
  28. ملاحظہ کریں: شیخ انصاری، فرائد الاصول، ج1، ص343؛ ہاشمی شاہرودی، بحوث فی علم الاصول (تقریرات درس سید محمدباقر صدر)، 1417ھ، ج4، ص249۔
  29. شیخ انصاری، فرائد الاصول، ج1، ص343؛ ہاشمی شاہرودی، بحوث فی علم الاصول (تقریرات درس سید محمدباقر صدر)، 1417ھ، ج4، ص421۔
  30. ہاشمی شاہرودی، بحوث فی علم الاصول (تقریرات درس سید محمدباقر صدر)، 1417ھ، ج4، ص249۔

مآخذ

  • اصفہانی، محمدحسین، حاشیۃ المکاسب، قم، دار المصطفی لاحیاء التراث، چاپ اول، 1418ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، کتاب البیع، قم، نشر اسماعیلیان، 1410ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، الفائق فی الاصول، قم، مؤسسۃ النشر للحوزات العلمیۃ، 1444ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامى، 1389ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، المبسوط فی اصول الفقہ، قم، موسسہ امام صادقؑ، چاپ اول، 1431ھ۔
  • سیفی مازندرانی، علی‌اکبر، بدایع البحوث فی علم الاصول، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ سوم، 1436ھ۔
  • شیخ انصاری، مرتضی، فرائد الاصول، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1419ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ اول، 1417ھ۔
  • کاظمی خراسانی، محمدعلی، فوائد الاصول (تقریرات خارج اصول میرزای نائینی)، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1376ہجری شمسی۔
  • مظفر، محمدرضا، اصول الفقہ، قم، نشر دانش اسلامی، 1405ھ۔
  • ہاشمی شاہرودی، سیدمحمود، بحوث فی علم الاصول (تقریرات درس اصول سید محمدباقر صدر)، قم، مرکز الغدیر للدراسات الإسلامیۃ، چاپ دوم، 1417ھ۔
  • ہمدانی، رضا، مصباح الفقیہ، قم، المؤسسۃ الجعفریۃ لإحیاء التراث، 1376ہجری شمسی۔