کمال الدین و تمام النعمۃ (کتاب)

ویکی شیعہ سے
(اکمال الدین سے رجوع مکرر)
کمال الدین و تمام النعمہ
مشخصات
مصنفشیخ صدوق (سنہ 381 ھ)
موضوعغیبت و علائم ظہور امام مہدی علیہ السلام
زبانعربی
طباعت اور اشاعت
ناشرمؤسسۃ الاعلمیہ للمطبوعات بیروت (لبنان)


کمال الدین و تمام النعمۃ یا اکمال الدین و اتمام النعمۃ، عربی زبان میں تالیف کی گئی شیعہ عالم محمد بن علی بن بابویہ قمی، شیخ صدوق (متوفی 381 ھ) کی کتاب ہے۔ جو ظہور امام زمانہ (عج) اور ان کی غیبت کے متعلق لکھی گئی ہے۔ شیخ صدوق نے اس میں بہت سے انبیاء کی غیبت کی مثالیں ذکر کی ہیں نیز امامت حضرت مہدی (ع)، ان کی ولادت ،ان کے ظہور سے متعلق پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ (ع) کی روایات، امام مہدی کی خدمت میں پہنچنے والے افراد اور شرائط ظہور کو مکمل طور پر بیان کیا ہے۔

وجہ تسمیہ

اس کتاب کا نام : کَمالُ الدّین و تَمامُ النّعْمَۃ، قرآن پاک کی سورہ مائدہ کی درج ذیل آیت اکمال سے لیا گیا ہے:

اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا.
آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کر لیا ہے۔[1]

دیگر اسماء

اس کتاب کے مختلف نام ذکر ہوئے ہیں مثلا اکمال الدین و اتمام النعمہ،[2] اتمام النعمۃ فی الغیبۃ،[3] و اکمال الدین؛ لیکن جو نام کتاب کے مقدمہ میں ذکر ہوا ہے اکثر نے اسے ترجیح دی ہے اور وہ کمال الدین و تمام النعمہ ہے۔

تالیف کا سبب اور اس کی حیثیت

شیخ صدوق خود اس کتاب کی تالیف کا سبب غیبت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

مشہد کے سفر میں زیارت علی بن موسی الرضا (ع) کرنے کے بعد میں نیشابور گیا۔ وہاں مجھ سے ملنے کیلئے آنے والے شیعوں نے میرے سامنے امام زمانہ کے متعلق شبہات اور اعتراضات ذکر کئے تو میں نے بہت زیادہ کوشش کے ساتھ جوابات دیئے اور پھر قم آ گیا۔ یہاں پر جب شیخ نجم الدین ابو سعید محمد بن حسن بن محمد بن احمد بن علی بن صلت قمی مجھ سے ملنے آئے تو انہوں نے مجھ سے اس موضوع کے متعلق ایک کتاب کی تالیف کی درخواست کی۔ میں نے انہیں مثبت جواب دیا یہاں تک کہ ایک رات میں نے امام زمان (ع) کو خواب میں دیکھا اور انہوں نے مجھ سے کہا: تم کیوں غیبت کے متعلق کتاب نہیں لکھتے تا کہ خداوند اس کے وسیلہ سے تمہاری حاجتوں کو پورا کرے۔ میں نے عرض کی: اے فرزند رسول میں اس موضوع کے متعلق پہلے چند کتابیں لکھی ہیں۔ امام نے فرمایا: یہ جو کتاب لکھو گے اس میں انبیاء کی غیبت کے بارے میں اشارہ کرو۔ پس اس کے بعد میں بیدار ہوا اور میں نے اس کتاب کی تالیف کا ارادہ کیا۔[4]

اس کتاب کی یہ اہمیت ہے کہ اس میں غیبت صغری کے بزرگ شیعہ عالم دین ابو جعفر محمد بن عبد الرحمن ابن قبہ رازی (متوفی قبل از 319 ھ) کے اقوال مذکور ہیں۔ کیونکہ اس شیعہ عالم دین کے متعلق ہماری معلومات کا ذخیرہ وہ نکات تھے جنہیں ابن ندیم اور نجاشی نے ذکر کیا تھا۔ دیگر علماء رجال نے ان کے متعلق کوئی چیز اضافہ نہیں کی ہے۔ نجاشی کے مطابق ابن قبہ پہلے معتزلی مکتب سے تھا اور پھر بعد میں اس نے مذہب شیعہ اختیار کیا۔

اس کتاب کی مزید خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں بعض ناحیہ مقدسہ کی جانب سے صادرہ توقیعات ذکر ہوئی ہیں۔ شیخ صدوق نے اس کتاب کے کچھ مطالب نواب اربعہ سے بلا واسطہ خود ان سے اور بعض دفعہ قدیمی کتب سے نقل کئے ہیں۔[5]

کتاب کے سبب اور روش تالیف کے پیش نظر اسے کلامی عنوان کے ذیل میں قرار دیا جا سکتا ہے لیکن تاریخ پیامبران، تاریخ جاہلیت، تاریخ پیامبر اسلام و تاریخ تشیع جیسے اکثر تاریخی مطالب کو دیکھتے ہوئے اسے تاریخی کتاب بھی کہا جا سکتا ہے۔[6]

یہ کتاب امام زمان (ع) کے متعلق قدیمی ترین اور معتبر ترین شیعہ مسلک کی بنیادی کتاب ہے۔ شیخ صدوق نے اس کتاب میں امام زمانہ کی غیبت کے متعلق بہت سے شیعہ اعتقادی مسائل کو بیان کیا ہے اور منکرین اور مخالفین کے اعتراضات کے جوابات دیئے ہیں۔[7]

کتاب کا خاکہ

اس کتاب میں مجموعی طور پر 63 ابواب میں 88 راویوں سے 621 روایات ذکر ہوئی ہیں۔ اس کتاب کے چند مورد بحث ابواب درج ذیل ہیں:

منابع کتاب

جن منبع کتابوں سے شیخ صدوق نے استفادہ کیا ان کے نام درج ذیل ہیں:

خطی نسخے

  1. کتب خانۂ مرکزی تہران یونیورسٹی کا خطی نسخہ کہ جو تاریخ 1060 ھ میں خط نسخ کے ساتھ لکھا گیا نیز تصحیح شدہ اور دوسرے نسخے سے تطبیق دیا گیا۔
  2. تصحیح شدہ دیگر نسخہ خطی کہ جسے تاریخ 1077 ھ میں لکھا گیا۔ اس پر أبو طالب الحسینی کے دستخط موجود ہیں نیز اس کی تصحیح دقیق اور اسے دوسرے نسخے سے جانچا گیا۔ یہ نسخہ کتابخانۂ آیت اللہ مرعشی نجفی میں موجود ہے۔ اس نسخہ کا اختتامی سال 1081 ھ ہے۔
  3. نسخۂ خطی کہ 1051 ھ میں لکھا گیا اور یہ نسخہ ثقۃ الاسلام سید محمّد علی صدر الحفاظ آستانہ عبد العظیم حسنی (ع) کے ذاتی کتب خانے میں موجود ہے۔

ترجمہ و طباعت

کمال الدین عربی زبان میں علی اکبر غفاری کی تحقیق کے ساتھ دو جلدوں میں انتشارات دار الکتب الاسلامیہ قم نے 1395 ھ میں طبع کی ہے۔

محمد باقر کمره ای نے اسے فارسی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ پہلی جلد (452 صفحات اور جلد دوم 400 صفحات) پر مشتمل، انتشارات اسلامیہ تہران سے چھپی ہے نیز ایک اور ترجمہ منصور پہلوان نے انتشارات دار الحدیث قم کے توسط سے طبع کیا ہے۔

حوالہ جات

  1. صدوق، کمال الدین، ۱۴۰۵ ق، مقدمہ کتاب
  2. تہرانی، الذریعہ، ج۲، ص۲۸۳. حر عاملی، امل الآمل، ج۲، ص۲۸۴.
  3. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ ق، ج۱، ص۶.
  4. صدوق، کمال الدین، ۱۴۰۵ ق، مقدمہ کتاب
  5. محمد کاظم رحمتی، چند نکتہ درباره کتاب کمال الدین و تمام النعمہ شیخ صدوق، ۱۳۸۳ش.
  6. نعمت ‌الله صفری فروشانی، بررسی دو اثر تاریخ نگاری شیخ صدوق، ۱۳۸۶ش
  7. کتابخانہ دیجیتال نور.
  8. محمدکاظم رحمتی، چند نکتہ درباره کتاب کمال الدین و تمام النعمہ شیخ صدوق، ۱۳۸۳ش.

مآخذ

  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت،‌ دار الاضواء.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسہ الوفاء، ۱۴۰۳ ق.
  • حر عاملی، محمد بن حسن، امل الآمل، تحقیق: السید أحمد الحسینی، بغداد، مکتبہ الأندلس.
  • صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، تحقیق، تصحیح و تعلیق: علی أکبر الغفاری، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۰۵ ق.
  • صفری فروشانی، نعمت اللہ، بررسی دو اثر تاریخ نگاری شیخ صدوق، تابستان ۱۳۸۶ش، شماره ۱۰.
  • رحمتی، محمد کاظم، چند نکتہ درباره کتاب کمال الدین و تمام النعمہ شیخ صدوق، شہریور و مہر ۱۳۸۳ش، شماره ۸۳ و ۸۴.
  • کتاب شناخت سیره معصومان، مرکز تحقیقات رایانہ ای علوم اسلامی نور.