الشافی فی الامامۃ (کتاب)

ویکی شیعہ سے
(الشافی فی الامامہ سے رجوع مکرر)
الشافی فی ا لامامۃ
مشخصات
مصنفسید مرتضی (355-436ھ)
موضوعامامت
طرز تحریرشبہات کا جواب
زبانعربی
مذہبشیعہ
تعداد جلد4
طباعت اور اشاعت
ناشرمؤسسہ انتشاراتی الصادق
سنہ اشاعت1410ھ


الشّافی فِی الاِمامۃ امامت کے موضوع پر ایک کلامی کتاب ہے جسے سید مرتضیٰ علم الہدیٰ(355-436ھ) نے تالیف کی ہے۔ سید مرتضیٰ نے اس کتاب کو قاضی عبد الجبار معتزلی کی طرف سے امامت سے متعلق پیش کیے گئے شبہات کے رد میں لکھا ہے۔ کتاب الشافی مسلمان دانشمندوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ اس کتاب پر چند ایک نقد کیا گیا ہے اور اس کی تلخیص بھی لکھی گئی ہے۔ اس سلسلے میں شیخ طوسی کی "تلخیص الشافی" مشہور ہے۔ سید مرتضیٰ نے اپنے دیگر قلمی آثار جیسے "تنزیہ الانبیاء و الذخیرۃ فی علم الکلام" وغیرہ میں کتاب "الشافی" کا حوالہ دیا ہے۔ کتاب الشافی کی سنہ1301ہجری میں ایران میں سنگی طباعت ہوئی نیز سنہ 1410ہجری میں الصادق پبلشنگ ہاؤس نے عبد الزہرا خطیب حسینی کی تصحیح کے ساتھ چار جلدوں میں اسے شائع کیا ہے۔

مؤلف

کتاب "الشافی" کے مصنف شیعہ فقیہ اور متکلم سید مرتضیٰ علم الہدیٰ(355-436ھ) ہیں۔ شیخ مفید کی وفات کے بعد آپ شیعہ قدآور شخصیت کے طور پر سامنے آئے۔[1] شیخ مفید، شیخ صدوق کے بھائی حسین ابن علی بن بابویہ، ابن نباتہ سعدی اور علی مرز بانی آپ کے اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں؛[2] جبکہ شیخ طوسی، سلار دیلمی، ابن براج اور محمد بن علی کراجکی آپ کے شاگردوں میں شامل ہیں۔[3] سید مرتضی کلامی مباحث میں عقلیت پسندی کے نظریے پر قائم تھے۔ اسی لیے جب کبھی عقل و نقل(آیات و روایات) کے مابین تعارض پاتے تو عقل کو ترجیح دیکر نقل کی توجیہ یا تاویل کرتے تھے۔[4] سید مرتضی کےکلامی نظریات آپ کی ان کتابوں میں آئے ہیں:

  • «الذخیرة فی علم الکلام»،
  • «تنزیہ‌الانبیاء»،
  • «المُقنِع فی الغیبۃ»،
  • «جُمَلُ العِلم و العَمَل»،
  • «الفصول المختاره»۔

کتاب کا نام

سید مرتضی نے اپنی اس تصنیف کا «الشافی فی الامامۃ » نام رکھا ہے۔[5] اسی طرح احمد بن علی نجاشی[6] اور شیخ طوسی [7] نے بھی اس کتاب کو اسی نام سے یاد کی ہے لیکن آقا بزرگ تہرانی نے اسے «الشافی فی الامامۃ و ابطال حجج العامۃ»کے نام سے یاد کی ہے۔[8]

غرض تالیف

آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ (کتاب) میں اس کتاب کی تالیف کا محرک یوں بیان کیا ہےکہ جب عبد الجبار معتزلی نے اپنی کتاب المغنی میں امامیہ مذہب کے بنیادی عنصر یعنی امامت سے متعلق چند شبہات اور اعتراضات کیے تو اس کے جواب میں سید مرتضیٰ نے اس کتاب کی تالیف شروع کی۔[9] خود سید مرتضی نے اپنی اس تصنیف کی تالیف کا محرک یوں بیان کیا ہے کہ وہ قاضی عبد الجبار کی طرف سے امامت کے سلسلے میں پیش کیے گئے اعتراضات کےجواب میں ایک تفصیلی کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تھا لیکن کچھ رکاوٹیں پیش آنے کے سبب تفصیلی کتاب تصنیف نہیں کی جاسکی؛ لہذا کتاب "الشافی" لکھنے پر اکتفا کیا۔[10]

کلام اسلامی میں اس کتاب کا مقام

کتاب«الشافی فی الامامۃ» پانچویں صدی ہجری میں لکھی گئی۔ اسی صدی اور بعد میں آنے والی صدیوں میں اس کی تلخیص لکھی گئی اور اس کے تنقیدی جائزے بھی لیے گئے۔ کتاب شافی کی تلخیص کے سلسلے میں شیخ طوسی کی «تلخیص الشافی» مشہور ہے۔[11] اسی طرح کلامی کتابوں کے بعض مصنفین نے اسی کتاب سے استفادہ کیا ہے۔ چنانچہ خود سید مرتضی نے ہی اپنی بعد کی تصنیفات [12] مثلا تنزیہ الانبیاء،[13] المقنع فی الغیبہ[14] اور الذخیرة [15] میں کتاب الشافی کا حوالہ دیا ہے۔ کتاب «الذخیرہ فی علم الکلام» کے محقق اور مصحح سید احمد حسینی کے مطابق کتاب الشافی سید مرتضی کے ]]کلام|کلامی مباحث]] میں مہارت اور اسلامی فرق و مذاہب کے سلسلے میں مناظرے پر تسلط کی نشاندہی کرتی ہے۔[16] گیارہویں صدی ہجری کے عالم دین سید بہاءالدین مختاری سبزواری نے کتاب الشافی کی شان میں یہ اشعار کہے ہیں:

الجَهْلُ داءٌ وَ الدَّواءُ الكافي فكرٌ عميقٌ وَ الطَّبيبُ الشّافي‌
أنّیٰ لَنا شافٍ لَهُ كَالشّافي أو مِثله مِن كاشفٍ كَشّاف[17]

ترجمه =جہل و نادانی ایک قسم کی بیماری ہے اور گہری فکر اور سوچ اس کی دوا اور شفابخش طبیب ہے۔ کتاب الشافی اس بیماری کی واحد دوا ہے؛ جو دوا کی حیثیت رکھنے کے ساتھ کشف حقیقت کا کام بھی دیتی ہے۔

کتاب کے مضامین

کتاب الشافی 22 ابواب پر مشتمل ہے؛ جس کی تفصیل یہ ہے:

  1. وجوب امامت کے بارے میں قاضی عبد الجبار کا نظریہ
  2. وجوب امامت پر قرآنی اور روائی دلائل
  3. امامت و عصمت پر شیعوں کے دلائل پر قاضی کی مخالفت
  4. وجوب نص بر امام کے رد میں قاضی عبد الجبار کے عقلی دلائل کا رد
  5. وجوب نص بر امام کے رد میں قاضی عبد الجبار کے عقلی دلائل کا رد
  6. قاضی کی جانب سے امام کے عدم منصوص ہونے کے نظریے کا رد
  7. صفات امام کے بارے میں قاضی کے نظریے کا رد
  8. علم امام کے بارے میں قاضی کے نظریے کا رد
  9. افضلیت امام کے بارے میں قاضی کے نظریے کا رد
  10. روایت"امام سارے قریش سےہیں" اس کے بارے میں قاضی کے نظریے کا رد
  11. کیا امامت کا قریش سے عدول ممکن ہے؟ اس کے بارے میں قاضی کے نظریے کا رد
  12. امام کی بیعت کرنے والی امت کی تعداد کے بارے میں قاضی کے نظریےکا رد
  13. ابوبکر کی امامت کے بارے میں قاضی کے قول کا رد
  14. انتخاب امام کے قائل فرد کا قول نامعتبر ہونے کے بارے میں قاضی کا نظریہ
  15. قاضی کے اس قول کا رد کہ ابوبکر امامت کے لیے مناسب تھا
  16. ابوبکر پر کیے گئے اعتراضات پر قاضی کا جواب
  17. عمر بن خطاب کی امامت کے سلسلے میں قاضی کے نظریے کا تنقیدی جائزہ
  18. عمر پر کیے گئے اعتراضات پر قاضی کا جواب
  19. عثمان کی امامت کے بارے میں قاضی کے نظریے کا رد
  20. معترضین عثمان کے سلسلے میں قاضی کے نظریے کا رد
  21. امام علی کی امامت کے اثبات میں قاضی کے نظریے کا جائزہ
  22. طلحہ، زبیر اور عایشہ کے توبہ کرنے کے سلسلے میں قاضی کا شک و شبہ[18]

روش تالیف

سید مرتضیٰ نے اپنی کتاب کے مقدمے میں کتاب کی روش کے سلسلے میں لکھا ہے کہ انہوں نے قاضی عبد الجبار کی طرف سے کیے گئے اعتراضات میں سے منتخب اعتراضات کا مختصر جواب دیا ہے۔ [19] سید مرتضی نے قاضی معتزلی کی کتاب المغنی سے ہر شبہے کا صرف ابتدائی حصہ یا اس کے ایک خاص پیرایے کا ذکر کیا ہے۔[20] اس کتاب میں نقل قول کے سلسلے میں درج ذیل انداز اپنایا گیا ہے: «قال صاحب الکتاب» (صاحب کتاب نے کہا)، «قال» (اس نے کہا ہے) «فأمّا قولہ» (لیکن اس کا یہ قول کہ۔۔۔)، «و أمّا قولک» (لیکن تمہارا قول۔۔۔)۔ کتاب کے بعض مقامات پر قاضی کی جانب سے کچھ فرضی اعتراضات یا اشکالات کا جواب پیش کیا گیا ہے۔[21]

کتاب کی تلخیص اور تنقیدی جائزے

تلخیص الشافی

بعض شیعہ علما نے کتاب الشافی کے مندرجہ ذیل خلاصہ جات تحریر کیے ہیں:

  • «تلخیص‌الشافی»،‌ جسے سید مرتضیٰ کے شاگرد شیخ طوسی نے تحریر کی ہے؛[22] کہا جاتا ہے کہ کتاب الشافی تصحیف سے محفوظ رہنے کے اسباب میں سے ایک شیخ طوسی کی یہی تلخیص ہے۔
  • «اِرتِشافُ الصّافی مِن سِلافِ الشّافی»، اسے سید بہاءالدین مختاری (1080-1131ھ) نے تحریر کی ہے۔[23]
  • «صَفوَةُ الصّافی مِن رغوةِ الشّافی»، یہ کتاب الشافی کا ایک اور خلاصہ ہے؛ اسے بھی سید بہاءالدین مختاری نے لکھا ہے[24]
  • اہل سنت عالم دین ابو الحسن بصری نے کتاب الشافی کے رد میں «نقض الشافی» نام کی ایک کتاب تحریر کی ہے۔
  • سید مرتضیٰ کے شاگرد ابو یعلی سلار بن عبد العزیز نے اس کتاب کے رد میں کتاب الرّدُّ عَلیٰ اَبِی‌الحسنِ البصری تحریر کی ہے۔[25]

طباعت

کتاب الشافی کی سنہ1301ہجری میں شیخ طوسی کی تلخیص کے ساتھ سنگی طباعت ہوئی۔[26][ آقا بزرگ تہرانی نے کتاب الذریعہ میں اسی نسخے کا نام لیا ہے۔[27] کتاب الشافی کو سنہ1410ہجری میں الصادق پبلشنگ ہاؤس نے عبد الزہرا خطیب حسینی کی تصحیح کے ساتھ چار جلدوں میں شائع کیا۔ کتاب کے اس نسخے کو سید عبد الزهراء خطیب حسینی نے تصحیح کی اور سنہ 2005ء میں مذکورہ پبلشر نے دو جلدوں میں دوبارہ شائع کیا۔[28] سید عبد الزہرا خطیب حسینی نے الشافی کی تصحیح میں آیت اللہ مرعشی لائبریری اور آستان قدس رضوی لائبریری میں موجود کتاب کے دستیاب نسخوں سے استفادہ کیا ہے اوران نسخہ جات کے مابین اختلافات کو علامات کے ذریعے متعین کیا ہے۔ [29] تصحیح کے چند نمونے یہ ہیں: "المغنی" سے منقول عبارتوں کی جلد اور صفحہ نمبر کے لحاظ سے تصدیق کی گئی ہے، مشکل اور پیچیدہ الفاظ کے معانی بیان کیے گئے ہیں، ضمائر کے مرجع کو متعین کیا گیا ہے؛ نیز روایات کی شیعہ اور اہل سنت منابع سے حدیثی سند کی تحقیق کی گئی ہے۔ اسی طرح انہوں نے ان عبارات یا کلمات کو متعین کیا ہےجنہیں سید مرتضیٰ نے قاضی عبد الجبار سے نقل کیا ہے لیکن المغنی میں ان کا تذکرہ نہیں آیا ہے۔[30]

خطی نسخہ جات

کتاب الشافی کے مصحح سید عبد الزہرا خطیب حسینی نے کتاب الشافی کے مندرجہ ذیل مخطوطات اور قلمی نسخوں کا ذکر کیا ہے:

  • نسخہ کتابخانہ آیت‌الله مرعشی نجفی اس نسخے کے مطابق کتاب 476 صفحات پر مشتمل ہے اور ہر صفحے میں 26 سطریں ہیں
  • نسخہ کتابخانہ آستان قدس رضوی کتب حکمت و کلام میں 761 نمبر پر
  • نسخہ کتابخانہ آستان قدس رضوی، 171 نمبر پر، 270 صفحات، ہر صفحے میں22 سطریں، بقلم محمد ابراہیم بن محمدیعقوب
  • نسخہ کتابخانہ آستان قدس رضوی، 10020، 323 ورق ، اور ہر صفحے میں 21 سطر سے زیادہ ہیں۔ اس نسخے کو محمد بن عبداللطیف عامِلی نے اپنے دوست محمدعلی بنکا کے لیے محرم 1141ھ میں لکھ کر ختم کیا ہے۔
  • نسخہ کتابخانہ آستان قدس رضوی، 760 نمبر پر ، 265 ورق، کتب حکمت و کلام۔ اس نسخے کی تاریخ جمادی‌الاولی 1098ھ درج ہے، لیکن نسخہ نویس کا نام درج نہیں کیا گیا۔
  • نسخہ کتابخانہ مسجد گوہرشاد 317 نمبر پر، یہ نسخہ 317 ورق پر مشتمل ہے جس میں اختتام کی تاریخ 15 رمضان 1117ھ درج ہے۔[31]

حوالہ جات

  1. سید مرتضی، الذخیره، 1411ھ، مقدمہ حسینی، ص7
  2. سید مرتضی، دیوان الشریف المرتضی، 1417ھ، مقدمہ تونجی، ج1، ص10
  3. سید مرتضی، الذخیرة فی علم الکلام، 1411ھ، مقدمہ حسینی، ص47
  4. شریعتی نیاسر، «عقل و نقل در دیدگاه سید مرتضی و پی‌جویی رابطہ آن دو در آثار او»، ص76-78
  5. سید مرتضی، الذخیره، 1411ھ، ص409؛ سید مرتضی، تنزیہ الانبیا، 1250ھ، ص183؛ سید مرتضی، المقنع فی الغیبہ، 1416ھ، ص31
  6. نجاشی، رجال النجاشی، 1365شمسی، ص270
  7. طوسی، فہرست کتب الشیعہ و...، 1420ھ، ص164
  8. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج13، ص8
  9. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج13، ص8
  10. سید مرتضی، الشافی، 1410ھ، ج1، ص33
  11. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج13، ص8
  12. رجوع کریں: سید مرتضی، المقنع فی الغیبہ، 1416ھ، مقدمہ حکیم، ص16
  13. سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء، 1250ھ، ص133، 137، 140، 155، 159، 183،
  14. سید مرتضی، المقنع فی الغیبہ، 1416ھ، ص31، 36، 61
  15. رجوع کریں: سید مرتضی، الذخیره، ص409، 446، 501، 485، 488
  16. سید مرتضی، الذخیرة، 1411ھ، مقدمہ حسینی، ص8
  17. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج4، ص423
  18. خلیلی آشتیانی، «الشافی فی الامامہ»، ص135-138
  19. خلیلی آشتیانی، «الشافی فی الامامہ»، ص135-138
  20. خلیلی آشتیانی، «الشافی فی الامامہ»، ص138-139
  21. خلیلی آشتیانی، «الشافی فی الامامہ»، ص139
  22. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج13، ص8
  23. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج4، ص423
  24. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج4، ص423
  25. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج10، ص179-180
  26. سید مرتضی، الذخیره، 1411ھ، ص51؛ سید مرتضی، الشافی، 1410ھ، ج1، مقدمہ خطیب حسینی، ص14
  27. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج13، ص8
  28. خلیلی آشتیانی، «الشافی فی الامامہ»، ص141
  29. رجوع کریں: سید مرتضی، الشافی، 1410ھ، مقدمہ خطیب حسینی، ص15-16
  30. خلیلی آشتیانی، «الشافی فی الامامہ»، ص140-141
  31. رجوع کریں: سید مرتضی، الشافی، 1410ھ، ج1، مقدمہ خطیب حسینی، ص16-17

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعة، قم، اسماعيليان؛ تہران‌، كتابخانه اسلاميه، 1408ھ۔
  • آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعة، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1430ھ۔
  • ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، لسان‌الميزان، تحقیق دائرة المعرف النظامیة الهند، مؤسسه الاعلمی للمطبوعات، 1390ھ/1971ء۔
  • خلیلی آشتیانی، سمیه، «الشافی فی الامامه»، بہار و تابستان 1387ہجری شمسی۔
  • ذهبی، محمد بن احمد، میزان الاعتدال فی نقد الرجال، تحقیق علی محمد بجاوی، بیروت، دارالمعرفة للباعه و النشر، 1382ھ.1963ء۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الذخیرة فی علم الکلام، تحقیق سید احمد حسینی، قم، مؤسسه نشر اسلامی، 1411ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الشافی فی الامامة، تحقیق سید عبدالزهراء خطیب حسینی، تهران، مؤسسه الصادق، چاپ دوم، 1410ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، المقنع فی الغیبه، تحقیق سید محمدعلی حکیم، قم، مؤسسة آل البیت علیهم‌السلام لاحیاء التراث، 1416ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، تنزیه‌الانبیاء، قم، الشریف الرضی، 1250ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، دیوان الشریف المرتضی، شرح محمد تونجی، بیروت، دار الجیل، 1417ھ/1997ء۔
  • شریعتی نیاسر، حامد و دیگران، «عقل و نقل در دیدگاه سیدمرتضی و پی‌جویی رابطۀ آن دو در آثار او»، پژوهش‌های قرآن و حدیث، سال47، شماره1، بهار و تابستان 1393ہجری شمسی۔
  • طوسی، محمد بن حسن، فهرست کتب الشیعه و اصولهم و اسماء المصنفین و اصحاب الاصول، تحقیق عبدالعزیز طباطبائی، مکتبة المحقق الطباطبائی، 1420ھ۔
  • محقق، مهدی، «مقدمه‌ای بر تلخیص الشافی شیخ طوسی»(سخنرانی)، دانشکده ادبیات و علم انسانی دانشگاه تہران، شماره 123و124، فروردین و تیر 1349ہجری شمسی۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال‌النجاشی، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، 1365ہجری شمسی۔