علی بن حسین بن موسی بن بابویہ

ویکی شیعہ سے
(ابن بابویہ پدر صدوق سے رجوع مکرر)
علی بن حسین بن موسی بن بابویہ
تھمب نیل بنانے کے دوران میں نقص:
کوائف
مکمل نامعلی بن حسین بن موسی بن بابویہ
تاریخ ولادتحیات 4 صدی ہجری
تاریخ وفات329 ھ، 941 ء
مدفنقم
علمی معلومات
شاگردشیخ صدوق، حسین بن علی بن بابویہ، ہارون بن موسی تلعکبری، محمد بن احمد بن داود، سلامہ بن محمد۔
تالیفاتکتاب الشرایع، کتاب الامامہ و التبصرہ من الحیره، قرب الاسناد۔
خدمات


علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی‌ (متوفی 329 ھ)، ابن بابویہ کے نام سے مشہور، شیعہ امامیہ فقیہ و محدث اور قم و اطراف کے مومنین کے مرجع دینی تھے۔ وہ شیخ صدوق کے والد ہیں اور عام طور پر ان دونوں حضرات کو صدوقین کے عنوان سے ذکر کیا جاتا ہے۔

خاندان بابویہ

بابْوَیہ یا بابُویہ، ان کے جد اعلی کا نام ہے۔[1] یہ ایک قدیم ایرانی نام ہے، ظہور اسلام کے بعد بھی بہت سے لوگوں اس نام سے موسوم تھے۔[2] ابن بابویہ اس علمی خاندان کے موسس ہیں جس میں چھٹی صدی ہجری و بارہویں صدی عیسوی کے اواخر تک مشہور شخصیتیں پائی جاتی رہیں۔ شیخ منتجب الدین اس خاندان کے آخری عالم کی کنیت بھی یہی تھی، جن کا نام ابو الحسن علی بن بابویہ تھا۔[3]

سلیمان بحرانی نے اس خاندان کے افراد کی سوانح حیات فہرست آل بابویہ و علماء البحرین کے نام سے تالیف کی ہے۔

سوانح حیات

ابن بابویہ کی زندگی کے سلسلہ میں بعض باتوں کے علاوہ کوئی معلومات دسترس میں نہیں ہے۔ یہ موارد بھی امام حسن عسکری (ع) کے ابن بابویہ کے نام خط اور ان کی حسین بن منصور حلاج (ملاقات 309 ھ، 921 ع) سے ملاقات اور ان کے سفر بغداد کے تذکرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابن بابویہ کے نام امام حسن عسکری (ع) کا خط، امام (ع) کی تاریخ شہادت کے پیش نظر، ابن بابویہ کی عمر طولانی ہونے پر دلالت رکھتا ہے۔

منصور حلاج سے ان کی ملاقات قم میں ہوئی ہے۔ اس حکایت کے مطابق، حلاج خود کو امام مہدی (ع) کا سفیر و جانشین اور صاحب کرامت تصور کرتا تھا اور اس ملاقات میں وہ ابن بابویہ کی طرف سے مورد عتاب قرار پاتا ہے اور اسے قم سے باہر نکالا جاتا ہے۔

ابن بابویہ کے سفر

تاریخی مصادر میں ابن بابویہ کے عراق کے تین سفر کا تذکرہ ملتا ہے۔ پہلا سفر احتمالا محمد بن عثمان (ولادت 304 یا 305 ھ، 916 ع) کی وفات کے کچھ بعد پیش آیا۔[4] دوسرا سفر (326 ھ، 938 ع) میں جس میں تلعکبری نے ان سے حدیث سنی[5] اور آخری سفر (328 ھ، 940 ع) میں بغداد کا تھا جس میں ابو الحسن عباس بن عمر کلوذانی معروف بہ ابن ابی مروان نے ان سے اجازہ حاصل کیا۔

وفات و مدفن

علی بن بابویہ کی ضریح

مورخین کے قول کے مطابق، علی بن بابویہ کی وفات سن 329 ھ میں قم میں ہوئی۔ ان کا مزار ان کے بیٹے حسین کے مزار کے ساتھ حرم حضرت معصومہ (ع) کے نزدیک قبرستان شیخان میں واقع ہے۔ نجاشی اور بعض دیگر حضرات کے مطابق ان کی وفات بغداد میں سن 328 ھ میں ہوئی۔[6]

علمی و سماجی منزلت

ابن ندیم نے تحریر کیا ہے کہ علی بن حسین شیعہ فقہاء اور ثقہ افراد میں سے ہیں۔[7] ابن بابویہ علمی مقام و مرتبہ کے ساتھ ساتھ تجارت پیشہ و صاحب حیثیت بھی تھے اور حجرہ و دفتر کے مالک تھے۔[8]

ان کے فرزند شیخ صدوق نے انہیں اپنے مشایخ روایات کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔[9]

ابن بابویہ ایک معتمد، جلیل فقیہ[10] اور اپنے زمانہ میں اہل قم کے شیخ و رہبر تھے۔[11] فقہ و حدیث میں ان کا مرتبہ اس قدر بلند تھا کہ جن موارد میں حدیث ذکر نہیں ہوئی تھی یا متن روایت میں شبہہ پایا جاتا تھا، علمائے شیعہ ان کی کتاب (رسالہ) الشرایع کے فتاوی کی طرف رجوع کرتے تھے۔ یعنی ان کے فتاوی کو متن حدیث کے مقام پر سمجھتے تھے۔ علماء کا ماننا تھا کہ علی القاعدہ ان کے اختیار میں کوئی روایت رہی ہوگی جسے انہوں نے اس فتوی کا ماخذ قرار دیا ہوگا۔[12]

نقل روایت

ابن بابویہ نے عبد الله بن حسن مؤدب، علی بن موسی کمیدانی،[13] سعد بن عبد الله،[14] محمد بن یحیی‌، علی بن حکم[15] جیسے افراد سے روایت نقل کی ہے۔ ان کے مشایخ کے اسماء کی فہرست بحار الانوار[16] کے مدخل میں ذکر ہوئی ہے۔

جن حضرات نے ان سے روایت نقل کی ہے ان میں ان کے دو فرزند ابو جعفر محمد صدوق و ابو عبد الله حسین کے ہمراہ محمد بن احمد بن داود و ہارون بن موسی تلعکبری و سلامہ بن محمد بھی قابل ذکر ہیں۔[17]

تالیفات

ابن بابویہ کثیر التالیف عالم تھے۔ جیسا کہ ابن ندیم[18] نے شیخ صدوق کی تحریر میں مشاہدہ کیا ہے کہ انہوں نے اس میں اپنے والد کی 100 تالیفات کا اجازہ کسی کو عنایت کیا تھا۔

نجاشی نے ان کی تالیفات کو اس طرح نقل کیا ہے:

  • الوضوء
  • الصلوه
  • الجنائز
  • الامامہ و التبصره من الحیره
  • الاملاء
  • نوادر کتاب المنطق‌
  • الاخوان‌
  • النساء و الولدان‌
  • الشرایع جسے اپنے کو فرزند ارسال کیا تھا۔
  • التفسیر
  • النکاح‌
  • مناسک الحج‌
  • قرب الاسناد
  • التسلیم‌
  • الطب‌
  • المواریث‌
  • المعراج‌

کتاب الامامہ والتبصرہ کے انتساب میں شک

کتاب الامامہ التبصرہ من الحیرہ کے ان سے انتساب پر شک و تردید کی گئی ہے۔

آقا بزرگ تہرانی تحریر کرتے ہیں کہ ابن بابوبہ کی کتاب الامامہ و التبصرہ اس کتاب کے علاوہ ہے جو اسی نام سے ہے اور جس سے علامہ مجلسی نے بحار الانوار کی جلد 16 و 17 میں استفادہ کیا ہے۔ اس لئے کہ اس میں وہ روایات ذکر ہوئی ہیں جو ان کے بعد کے راویوں سے نقل ہوئی ہیں۔[19]

منزوی لکھتے ہیں کہ اس کتاب کا ایک نسخہ اصفہان میں موجود ہے۔[20]


رسالہ الشرایع و کتاب فقہ الرضا میں شباہت

رسالہ الشرایع اور کتاب فقہ الرضا کے مطالب میں شباہت کی وجہ سے بعض افراد نے ان دونوں کو ایک ہی کتاب ذکر کیا ہے[21] اور محدث نوری نے اس کتاب کے امام علی رضا (ع) سے منتسب کرنے کا سبب کتاب شرایع کے مولف کے نام کی امام کے نام یعنی ابو الحسن علی بن موسی (ع) سے شباہت بتایا ہے۔[22]

اس کتاب کا ایک نسخہ کاظمین میں سید حسن صدر کے کتب خانہ میں محقق حلی کے شاگرد محمد بن مطرف کے قلم سے موجود تھا۔[23]

مقدس اردبیلی کے پاس مولف کے ہاتھ سے لکھا قرب الاسناد کا نسخہ موجود تھا۔[24]

ابن بابویہ کے ساتھ رکن الدولہ[25] کے مناظرہ اور محمد بن مقاتل رازی[26] کے مکالمہ کا خطی نسخہ موجود ہے۔ بحرانی نے ان کی کتاب الکر والفر کا ان سے منسوب ایک نسخہ اصفہان میں دیکھا[27] اور افندی اصفہانی لکھتے ہیں کہ الکر و الفر وہی رسالہ ہے جو ان کے محمد بن مقاتل رازی سے مناظرہ پر مشتمل ہے اور انہوں نے کازرون میں[28] اس کے ایک نسخہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ البتہ خوانساری نے اس انتساب کو رد کیا ہے اور تصریح کی ہے کہ الکر و الفر کے مولف ابن ابی طالب ہیں۔[29]

اولاد

ابن بابویہ کے تین بیٹے تھے:

محمد (صدوق) اور حسین برجستہ فقہاء میں سے ہیں اور حسن ایک عابد و زاہد انسان تھا جو عوام سے کوئی خاص رابطہ نہیں رکھتے تھے۔[30]

ابو الحسن علی بن بابویہ کو بھی صدوق کہا گیا ہے۔[31]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ابْنُ بابُویہ و ابْنُ بابِوَیہ پڑھا جاتا ہے۔ (ر.ک: لغت نامہ دہخدا، ذیل واژه ابن بابویہ). البتہ فارسی والے ابن کے نون کو زیر ساتھ تلفظ کرتے ہیں۔
  2. یوستی (Justi, Ferdinand, Iranisches Namenbuch,)، ص ۵۵
  3. نفیسی، سعید، مقدمہ مصادقة الاخوان ابن بابویہ، ج ۱، ص ۱۱-۲۸.
  4. ابن بابویہ‌، محمد، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۱، ص۲۷۶؛ نجاشی‌، احمد، رجال، ج ۱، ص ۱۸۴
  5. مامقانی‌، عبدالله‌، تنقیح المقال‌، ج۲، ص۲۸۳
  6. دائرة المعارف تشیع، ۱۳۶۶ش، ج ۱، ص ۳۰۶.
  7. ابن ندیم‌،الفہرست‌، بیروت‌، ص ۲۲۷
  8. طوسی‌، محمد بن حسن، الغیبہ، ص ۲۴۷- ۲۴۸
  9. ابن بابویہ‌، محمد بن علی، امالی‌، ص ۸۱، ۱۱۵
  10. حلی‌، حسن بن علی‌، رجال‌، ص۲۴۱
  11. نجاشی‌، احمد، رجال‌، ص ۱۸۴
  12. شہید اول‌، محمد بن مکی، ذکری الشیعہ فی احکام الشریعہ، ص ۴-۵
  13. ابن بابویہ، محمد بن علی، امالی‌، ص ۸۱، ۱۱۵
  14. ابن بابویہ، محمد، ج۱، کمال الدین و تمام النعمہ، ص ۱۹۱
  15. طوسی‌، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام‌، ج۱، ص۳۰۲، و ج۶، ص۳۸
  16. دانش نامه‌؛ ربانی‌، عبد الرحیم‌، مدخل بحار الانوار مجلسی‌، ص ۷۶-۷۸
  17. طوسی‌، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام‌، ج۱،ص۳۰۲؛ طوسی‌، محمد بن حسن، رجال‌، ص ۴۸۲؛ طوسی‌، محمد بن حسن، فہرست‌، ص ۱۵۷
  18. ابن ندیم‌،الفہرست‌، ص ۲۷۷
  19. آقا بزرگ‌، الذریعہ، ج۲، ص ۳۴۱-۳۴۲
  20. دانش نامہ
  21. افندی‌، میرزا عبدالله‌، ریاض العلماء، ج۶، ص ۴۳
  22. نوری‌، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل‌،ج۳، ص۳۳۶-۳۳۸
  23. آقا بزرگ‌، الذریعہ، ج۱۳، ص ۴۶
  24. آقا بزرگ‌، الذریعہ، ج۱۷، ص ۶۹-۷۰
  25. سید، خطی‌، ج۳، ص۱۰۹
  26. سید، خطی‌، ج۳، ص۲۱
  27. بحرانی‌، سلیمان‌، فہرست آل بابویہ و علماء البحرین‌، ص ۴۳
  28. افندی‌، میرزا عبدالله‌، ریاض العلماء، ج۴، ص۶
  29. خوانساری‌، محمد باقر بن زین العابدین، روضات الجنات‌،ج۴، ص ۲۷۵
  30. افندی‌، میرزا عبدالله‌، ریاض العلماء،ج۴، ص ۱۱
  31. قس‌: آقا بزرگ‌، الذریعہ ج۲، ص ۳۴۱

مآخذ

  • آقا بزرگ‌، الذریعہ
  • ابن بابویہ، محمد بن علی، امالی‌، بہ کوشش حسین اعلمی‌، بیروت‌، ۱۴۰۰ق‌/۱۹۸۰ء
  • ابن بابویہ، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، تہران‌، ۱۳۰۱ق‌/ ۱۸۸۴ء
  • ابن شہر آشوب‌، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب‌، بہ کوشش ہاشم رسولی محلاتی‌، قم‌، انتشارات علامہ
  • ابن ندیم‌، الفہرست‌، بیروت‌، ۱۳۹۸ق‌/۱۹۷۸ء
  • افندی‌، میرزا عبد الله‌، ریاض العلماء، بہ کوشش محمود مرعشی و احمد حسینی‌، قم‌، ۱۴۰۱ق‌/ ۱۹۸۱ء
  • بحرانی‌، سلیمان‌، فہرست آل بابویہ و علماء البحرین‌، بہ کوشش احمد حسینی‌، قم‌، ۱۴۰۴ق‌/۱۹۸۴ء
  • حلی‌، حسن بن علی‌، رجال‌، بہ کوشش جلال الدین محدث‌، تہران‌، ۱۳۴۲ش‌
  • خوانساری‌، محمد باقر بن زین العابدین، روضات الجنات‌، تہران‌، ۱۳۸۲ق‌/۱۹۶۲ء
  • دانش نامہ؛ ربانی‌، عبد الرحیم‌، مدخل بحار الانوار مجلسی‌، بیروت‌، ۱۴۰۳ق‌/۱۹۸۳ء
  • سید، خطی‌
  • شہید اول‌، محمد بن مکی، ذکری الشیعہ فی احکام الشریعہ، بہ کوشش ملا علی اکبر کرمانی‌، تہران‌، ۱۲۷۱-۱۲۷۲ھ
  • طوسی‌، محمد بن حسن ، تہذیب الاحکام‌، بیروت‌، ۱۴۰۱ق‌/۱۹۸۱ء
  • طوسی‌، محمد بن حسن، رجال‌، بہ کوشش سید کاظم کتبی‌، نجف ۱۳۸۰ق‌/ ۱۹۶۰ء
  • طوسی‌، محمد بن حسن، الغیبہ، بہ کوشش آقا بزرگ تہرانی‌، نجف‌، ۱۳۸۵ق‌/ ۱۹۶۵ء
  • طوسی‌، محمد بن حسن، الفہرست‌؛ بہ کوشش محمود رامیار، مشہد، ۱۳۵۱ش‌
  • مامقانی‌، عبد الله‌، تنقیح المقال‌، نجف‌، ۱۳۵۲ق‌/۱۹۳۳ء
  • نامہ دانشوران‌
  • نجاشی‌، احمد، رجال‌، بمبئی‌، ۱۳۱۷ق‌/ ۱۸۹۹ء
  • نفیسی‌، سعید، مقدمہ مصادقہ الاخوان ابن بابویہ، تہران‌، ۱۳۲۵ش‌
  • نوری‌، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل‌، تہران‌، ۱۳۱۸-۱۳۲۱ھ

Justi, Ferdinand, Iranisches Namenbuch, Marburg, 1895.*