نہج البلاغہ خطبہ نمبر 80

ویکی شیعہ سے
نہج البلاغہ خطبہ نمبر 80
نہج البلاغہ خطبہ نمبر 80
حدیث کے کوائف
موضوعخواتین کی مذمت اور بعض خصوصیات
صادر ازامام علیؑ
شیعہ مآخذنہج البلاغہ، اَلْمُسْتَرشَدُ فِی الاِمامَہ، کشفُ المَحَجّہ
اہل سنت مآخذتَذکِرَةُ الخَواصّ
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


نہج البلاغہ خطبہ نمبر 80 امام علی علیہ السلام کے نہج البلاغہ کے خطبوں میں سے ایک ہے جس میں خواتین کے عقل، ایمان اور معاشی مفاد میں کمی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ خواتین کے مسئلے کے بارے میں اس خطبہ کا نقطہ نظر مذہبی نظریات کے میدان میں سب سے زیادہ متنازعہ عنوانات میں سے ایک ہے، جس نے مختلف آراء کے حامل مختلف لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔

مسلمان محققین کی اس خطبہ کے بارے میں یکساں رائے نہیں ہے۔ کچھ اسے سند اور مضمون کی وجہ سے غیر معتبر سمجھتے ہیں۔ بعض دوسرے اسے مستند سمجھتے ہیں اور وہی ظاہری معنی ہی کو قبول کرتے ہیں۔ ایک گروہ اسے معتبر اور مستند سمجھتا ہے لیکن ظاہری معنی کی تاویل کرتا ہے۔

امام علیؑ کے اس خطبے میں عورتوں کی مذمت کی توجیہ میں یہ کہا گیا ہے کہ مرد اور عورت انسانی اور الہی نقطہ نظر سے برابر ہیں؛ لیکن ان میں فطری کچھ فرق پائے جاتے ہیں؛ جیسے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط جذبات اور احساسات رکھتی ہیں۔ اسی طرح سے مردوں میں عورتوں سے زیادہ ذہانت ہوتی ہے۔ نیز عورتیں اگرچہ حیض جیسے مسائل کی وجہ سے بعض عبادات کی انجام دہی سے محروم رہتی ہیں، اور یہی یہ عیب ان کے ماں بننے کا پیش خیمہ ہے اور ماں بننے سے نہ صرف یہ کمی پوری ہوجاتی ہے بلکہ عورت مزید کمال حاصل کرتی ہے۔

اہمیت

نہج البلاغہ کا خطبہ 80 امام علی علیہ السلام کے نہج البلاغہ کے خطبوں میں سے ایک ہے جس میں عورتوں کا مقام بیان کیا گیا ہے۔ اسلامی مباحث میں خواتین کے مقام کی اہمیت نے اس خطبہ کو اسلامی علوم کے ماہرین کے درمیان مسلسل بحث کا موضوع بنایا ہے۔[1] خواتین کے معاملے میں نہج البلاغہ کا نقطہ نظر مذہبی فکر کے میدان میں سب سے زیادہ متنازعہ موضوعات میں سے ایک ہے، جو مختلف عقائد رکھنے والے مختلف لوگوں کے لیے دلچسپی کا باعث بنا ہے۔[2] امام علیؑ کے اس خطبے کا ظاہری مطلب عورتوں کی مذمت پر دلالت کرتا ہے[3] اور اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ اس خطبہ نے بعض لوگوں خصوصاً بعض خواتین کو دین کے بارے میں منفی سوچ کا حامل بنادیا ہے۔[4]

محققین کے مطابق اس خطبہ میں امام علی علیہ السلام نے جنگ جمل کی آسیب شناسی[5] اور عورتوں کی بعض خصوصیات بیان کیا ہے تاکہ مستقبل میں جنگ جمل جیسے واقعات جو ایک عورت (عائشہ) کی پیروی کی وجہ سے پیش آئے، پیش نہ آئیں۔[6] نہج البلاغہ کے مفسرین میں سے ناصر مکارم شیرازی کا خیال ہے کہ یہ خطبہ جس میں خواتین کا مسئلہ بیان ہوا ہے اس کی تشریح میں کچھ زیادتیاں اور کوتاہیاں ہوئی ہیں؛ کیونکہ پوری تاریخ میں عورت کی شخصیت اور اس کے کردار کی وضاحت ہمیشہ موضوع بحث رہی ہے اور اس کے بارے میں زیادتیاں اور کوتاہیاں ہوتی رہی ہیں اور وہ زیادتیاں اور کوتاہیاں اس خطبہ تک بھی پہنچی ہیں۔[7]

اس خطبہ کے بارے میں اسلامی محققین کا نقطہ نظر ایک جیسا نہیں ہے۔ بعض لوگ اس خطبہ کو اس کی سند اور مخصوص مضمون کی وجہ سے غیر معتبر سمجھتے ہیں۔ بعض دوسرے لوگ اس خطبہ کو مستند سمجھتے ہیں اور اس کی اسی طرح وضاحت کرتے ہیں جس طرح اس کا ظاہری مفہوم ہے؛ دوسری طرف ایک اور گروہ اگرچہ اس خطبہ کے صحیح ہونے پر یقین رکھتا ہے لیکن اس کے ظاہری معنی کی تشریح اور تاویل کرتا ہے۔ یہ خطبہ صبحی صالح اور محمد دشتی کے نسخوں میں 80ویں نمبر پر ہے۔[8] جبکہ مفتی جعفر حسین کے نسخے میں 78ویں نمبر پر ہے۔


نام نسخه شمارهٔ خطبه[9]
المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ / صُبحی صالح 80
حبیب اللہ خویی / ملا صالح قزوینی / ابن ابی الحدید / فیض الاسلام 79
ابن میثم بَحرانی 77
محمد عَبدُہ 76
ملا فتح اللہ کاشانی 81
محمدجواد مَغنیّہ 78
مفتی جعفر حسین 78

اعتبار

اسلامی علوم کے ماہر عبد الحسین خسرو پناہ اس خطبہ کو صحیح سمجھتے ہیں اور اس میں کسی بھی طرح کے شک کو غلط سمجھتے ہیں۔[10] کتاب پیام امام امیر المومنین کے مصنف ناصر مکارم شیرازی نے نہج البلاغہ (بشمول خطبہ 80) کے تمام خطبات، خطوط اور حکمت کے سند کو درست جانتے ہوئے[11] صرف اس خطبے کی تشریح اور تفسیر پر اکتفاء کیا ہے؛[12] تاہم حوزہ علمیہ قم کے استاد ابو القاسم علی دوست، اس روایت کی سند کو مُرسَل اور ناقابل اعتبار سمجھتے ہیں۔[13] ان کے نزدیک اس روایت میں شامل نادرست تعلیل (عورتوں کو حیض کے ایام میں نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے ناقص الایمان سمجھنا) اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ روایت کسی معصوم نے بیان نہیں کی ہے۔[14]

کتاب مَصادِرُ نَہجُ البَلاغةِ و أسانيدُہ کے مصنف عبد الزہرا حسینی خطیب نے لکھا ہے کہ یہ خطبہ امام علیؑ کے ایک طویل خط کا ایک حصہ ہے جو نہج البلاغہ[15] کے مختلف حصوں میں بکھرا ہوا ہے اور جس میں جنگ جمل کا واقعہ مذکور ہے۔[16] یہ خط شیعہ منابع میں سے اَلْمُسْتَرشَدُ فِی الاِمامَہ[17] اور کشفُ المَحَجّہ[18] میں اور اہل سنت مصادر میں سے الغارات[19] اور الإمامَةُ و السّیاسَة[20] جیسی کتابوں ذکر ہوا ہے۔ اسی طرح اس خطبے کا ایک حصہ کتاب کافی،[21] تُحَف العُقول،[22] اور امالی شیخ صدوق[23] نیز تَذکِرَةُ الخَواص (اہل سنت ماخذ)[24] میں ذکر ہوا ہے۔

بعض محققین امام علیؑ کے اس خط کے مختلف نسخوں (جس کا یہ خطبہ بھی ایک حصہ ہے) پر تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سید رضی نے اس خطبے کو تحریف شدہ ذرائع سے لیا ہے؛ اس طرح کہ تحریف شدہ کتابوں میں بعض راویوں نے اس خطبہ کو امام علیؑ کے خط میں اہل سنت ذرائع سے شامل کیا ہے، جب کہ پرانی کتابوں جیسے الغارات، الامامۃ و السیاسۃ میں یہ حصہ ذکر نہیں ہوا ہے۔[25]

خطبے کا مضمون

نہج البلاغہ کے 80ویں خطبہ میں امام علی علیہ السلام نے عورتوں کی عقل، ایمان اور معاشی مفاد میں کمی کی نشاندہی کرتے ہوئے لوگوں کو عورتوں کی پیروی کرنے سے خبردار کیا ہے اگرچہ وہ اچھی ہی کیوں نہ ہوں۔[26] مکارم شیرازی کا عقیدہ ہے کہ مرد اور عورت انسانی اور الہی جہتوں میں برابر ہیں۔ لیکن بعض فطری فرق کی وجہ سے بعض احکام میں فرق پایا جاتا ہے، جنہیں وراثت اور قاضی کے عہدے پر فائز ہونے جیسے معاملات میں مدنظر رکھنا چاہیے۔[27] کتاب منطق فہم حدیث کے مصنف محمد کاظم طباطبائی کے مطابق، اکثر خواتین نے اس خطبہ کا ظاہری مفہوم غلط قرار دیا ہے اور اکثر مردوں نے اسے صحیح سمجھا ہے؛ جب کہ یہ دونوں اپنی جنسی خواہشات اور خواہشات کی وجہ سے حقیقت تک نہیں پہنچے ہیں۔[28]

عورتوں کا ناقص العقل ہونا

عورتوں کی عقل ناقص ہونے کو بہت سی روایات میں بیان کیا گیا ہے[29] اور اسے اس مضمون کے صحیح ہونے کی دلیل سمجھا گیا ہے۔[30] خواتین کی عقل کی کمی کو بیان کرنے میں مختلف تاویلیں پیش کی گئی ہیں۔[31] ان میں سے کچھ آراء درج ذیل ہیں:

  • مردوں اور عورتوں کے درمیان تخلیقی اختلافات: یہ خطبہ مردوں اور عورتوں کے درمیان فطری فرق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس طرح کہ عورتوں کے جذبات اور احساسات مردوں سے زیادہ ہوتے ہیں؛ اسی طرح سے مردوں میں عورتوں سے زیادہ ذہانت ہوتی ہے۔[32] شیعہ مفسرین میں سے عبد اللہ جوادی آملی کے مطابق جو عقل ایک مرد میں عورت سے زیادہ ہو سکتی ہے وہ علمِ سیاسیات اور انتظامی امور کی عقل ہے اور اگر کوئی سیاسی اور انتظامی امور میں زیادہ عقلمند اور دانشمند ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی یہ برتری اللہ سے قربت کی علامت ہو۔[33] البتہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ عورتیں مردوں کے مقابلے کم عقل اور کند ذہن ہو؛ کچھ ایسی خواتین بھی ہیں جو مردوں سے زیادہ ذہین ہیں۔[34] بہت سے محققین نے اس تشریح کو قبول کیا ہے۔[35]
  • حدیث کا زمانہ جاہلیت کے معاشرتی حقائق کی عکاسی کرنا: اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے احتمال دیا ہے کہ یہ روایت زمانہ جاہلیت کی خواتین کی خصوصیات بیان کرتی ہے، نہ کہ عورتوں کی فطرت۔ ان کا خیال ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عورتیں تعلیم و تربیت، فکری استعداد وغیرہ کے لحاظ سے مردوں سے کمتر تھیں اور اس خطبہ میں امام علی علیہ السلام نے ایک ایسی عورت کو بیان کیا ہے جو ابھی جاہلیت کی قید سے نکلی ہے۔[36]
  • عائشہ کی طرف اشارہ: نہج البلاغہ کے اہل سنت مفسرین میں سے ابن ابی الحدید ایک ابن ابی الحدید کے مطابق، یہ خطبہ عائشہ کے طرز عمل کے تناظر میں بیان کیا گیا ہے؛[37] تاہم بَہْجُ الصَّباغَہ کے مصنف محمد تقی شوشتری کا خیال ہے کہ اگرچہ امام علیؑ نے عائشہ کی مذمت میں یہ خطبہ پڑھا ہے، لیکن اس کلام کا اظہار عمومی انداز میں کیا گیا ہے اور اس میں تمام خواتین شامل ہیں۔[38]
  • جَدَل پر مبنی ایک کلام: ابو القاسم علی دوست، جو اس روایت کی سند کو ضعیف سمجھتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ چونکہ اہل سنت کی مستند کتابوں میں اس مضمون کے ساتھ روایات موجود ہیں، اور بعض شیعوں نے اس طرح کی روایت کو ذکر کر کے بعض صحابہ کا ایک عورت کی پیروی کرنے (جنگ جمل میں عائشہ کی پیروی) کو ان کی تعلیمات کے خلاف سمجھا ہے۔[39]
  • خطبہ کا جعلی ہونا: یوسف صانعی کا خیال ہے کہ وہ احادیث جو عورتوں کی ذہانت کی کمی پر دلالت کرتی ہیں وہ قرآن کے خلاف ہیں اور یہ روایتیں جو اہل سنت فقہ سے جڑی ہوئی ہیں، حضرت زہراؑ کے خلاف گھڑی اور جعل سازی کی گئی ہیں۔[40]

عورتوں کے ایمان میں کمی

اس خطبہ میں عورتوں کا حیض کے دوران نماز نہ پڑھنا اور روزہ نہ رکھنا ان کے ایمان کی کمی کی علامت سمجھا گیا ہے۔[41] نہج البلاغہ کے مفسر سید جمال الدین دین پرور کے مطابق، اگرچہ عورتیں حیض اور وضع حمل جیسے مسائل کی وجہ سے بعض عبادات سے محروم رہتی ہیں، لیکن یہ کمی ان کے ماں بننے کا پیش خیمہ ہے، اور ماں بننے کے بعد نہ فقط یہ کمی پورا ہوتی ہے بلکہ عورت مزید کامل ہو جاتی ہے۔[42] نیز عبدالحسین خسروپناہ کا خیال ہے کہ اگرچہ عبادت ایمان کو مضبوط کرنے اور اسے ترک کرنا ایمان کو کمزور کرنے میں کردار ادا کرتی ہے اور اسی وجہ سے حیض کے دوران روزہ نہ رکھنا اور نماز نہ پڑھنا لازماً ایمان میں کمی کا باعث بنتا ہے، لیکن اسلام میں اس مسئلہ کی تلافی کا راستہ بھی موجود ہے اور عورتیں حیض کے دوران جائے نماز پر بیٹھ کر ذکر پڑھ کر اس کا تلافی کرسکتی ہیں۔[43] بعض محققین کا یہ بھی خیال ہے کہ اس روایت میں ایمان کا لفظ اس کے لغوی معنی (سکون سے رہنا) میں استعمال ہوا ہے، نہ کہ اس کے اصطلاحی معنی (یعنی خدا پر عقیدن)؛ اس کا مطلب ہے کہ عورتیں حیض کی وجہ سے کمزور ہو جاتی ہیں اور ان کا ذہنی سکون کم ہو جاتا ہے۔[44]

دوسری طرف کتاب بِحارُ اَلاَنوار کے مصنف محمد باقر مجلسی کا خیال ہے کہ اگرچہ عورتیں حیض کے وقت نماز اور روزے کو خدا کے حکم سے ترک کر دیتی ہیں اور ان کا ایمان ناقص ہو جاتا ہے اور یہی بات ان کے وجود میں نقص کا سبب بنتی ہے۔[45]

عورتوں کے لئے ارث میں کمی

اس خطبہ کے مطابق چونکہ عورتیں مردوں کے حصے کے نصف حصہ ارث لیتی ہیں اس لیے ان کا مالی فائدہ کم ہوتا ہے۔[46] تاہم، خواتین کا ارث کم لینے کو اسلامی قانونی نظام میں عادلانہ قرار دیا گیا ہے؛ کیونکہ زندگی گزارنے کے اخراجات کی ذمہ داری خواتین پر نہیں ہوتی اور یہ اہم ذمہ داری مردوں کے ذمے ہے۔[47] جیسا کہ امام رضاؑ کی ایک حدیث میں عورتوں کے وراثت میں کمی کی وجہ زندگی کے اخراجات ان کے ذمے نہ ہونا اور شوہر سے مہر لینا قرار دیا ہے۔[48]

عورتوں سے احتیاط اور ان کی پیروی نہ کرنے کا حکم

اس خطبہ میں امام علیؑ نے مردوں کو تمام عورتوں، حتیٰ کہ نیک عورتوں سے، اور ان کی پیروی کرنے سے، حتیٰ کہ نیک کاموں میں بھی خبردار کیا ہے۔[49] مکارم شیرازی کے مطابق اس بیان کا یہ مطلب نہیں کہ اگر عورتیں نیک کام کا حکم دیں تو وہ کام نہ کریں؛ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کو نیک کام اس کے نیک ہونے کی خاطر انجام دینا چاہئے، نہ کہ عورتوں کی غیر مشروط تابعداری کی وجہ سے۔[50] یہ بھی کہا گیا ہے کہ اچھی عورتوں سے دور رہنے کی امام علی علیہ السلام کی نصیحت عمومی اور تمام معاملات کے لیے نہیں ہے؛ بلکہ امام علیؑ نے یہ خطبہ حضرت عائشہ کی جنگ جمل میں جنگ افروزی کی وجہ سے دیا ہے تاکہ لوگوں کو ان کی پیروی سے روک سکے۔[51]

خطبہ دینے کا وقت

خطبہ دینے کے وقت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ اور ابن جوزی[52] اور سید رضی[53] وغیرہ کا کہنا ہے کہ یہ خطبہ جنگ جمل کے بعد دیا گیا ہے۔ حسینی خطیب نے اس خطبہ کو اس خط کا حصہ سمجھا ہے جو امام علی علیہ السلام نے عمرو ابن عاص کے ہاتھوں سقوطِ مصر اور محمد ابن ابی بکر کی شہادت کے بعد لکھا اور اسے لوگوں کو سنانے کا حکم دیا۔[54] ناصر مکارم شیرازی نے اس رائے کو اس مسئلہ پر مشہور قول قرار دیا ہے۔[55] اس قول کے مطابق کہا گیا ہے کہ یہ خطبہ سنہ 36 یا 38ھ میں دیا گیا ہے۔[56] یہ بھی ممکن ہے کہ امام علیہ السلام نے اس خطبہ کو کئی بار پڑھا ہو۔[57]

متن و ترجمہ خطبہ 80 نہج البلاغہ

متن ترجمه
مَعَاشِرَ النَّاسِ، إِنَّ النِّسَاءَ نَوَاقِصُ الْإِيمَانِ، نَوَاقِصُ الْحُظُوظِ، نَوَاقِصُ الْعُقُولِ. فَأَمَّا نُقْصَانُ إِيمَانِهِنَّ فَقُعُودُهُنَّ عَنِ الصَّلَاةِ وَ الصِّيَامِ فِي أَيَّامِ حَيْضِهِنَّ، وَ أَمَّا نُقْصَانُ عُقُولِهِنَّ فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ كَشَهَادَةِ الرَّجُلِ الْوَاحِدِ، وَ أَمَّا نُقْصَانُ حُظُوظِهِنَّ فَمَوَارِيثُهُنَّ عَلَى الْأَنْصَافِ مِنْ مَوَارِيثِ الرِّجَالِ. فَاتَّقُوا شِرَارَ النِّسَاءِ وَ كُونُوا مِنْ خِيَارِهِنَّ عَلَى حَذَرٍ، وَ لَا تُطِيعُوهُنَّ فِي الْمَعْرُوفِ حَتَّى لَا يَطْمَعْنَ فِي الْمُنْكَر.[58] اے لوگو! عورتیں ایمان میں ناقص، حصوں میں ناقص اور عقل میں ناقص ہوتی ہیں:

نقصِ ایمان کا ثبوت یہ ہے کہ ایام کے دور میں نماز اور روزہ انہیں چھوڑنا پڑتا ہے اور ناقص العقل ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے اور حصہ و نصیب میں کمی یوں ہے کہ میراث میں ان کا حصہ مردوں سے آدھا ہوتا ہے۔ بُری عورتوں سے ڈرو اور اچھی عورتوں سے بھی چوکنا رہا کرو۔ تم ان کی اچھی باتیں بھی نہ مانو تاکہ آگے بڑھ کر وہ بری باتوں کے منوانے پر نہ اتر آئیں۔[59]


حوالہ جات

  1. قندہاری، و طاہرہ صالحی، «اعتبارسنجی النساء نواقص العقول در نہج البلاغہ»، ص394۔
  2. خسروی، و دیگران، «گونہ شناسی نگرش بہ زن در پژوہش ہای علمی در پرتو کلام امام علی(ع)»، ص82۔
  3. برقعی، «جایگاہ حقوقی زن در نہج البلاغہ»، ص158۔
  4. بتول، «جایگاہ زن در سیرہ امام علی(ع) با تأکید بر نہج البلاغہ»، ص10۔
  5. دین پرور، منشور جاودانہ، 1389ش، ص305۔
  6. ابن میثم، شرح نہج البلاغہ، 1404ق، ج2، ص223۔
  7. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، 1386ش، ج3، ص288-289۔
  8. دشتی، و کاظم محمدی، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، 1375ش، ص509۔
  9. دشتی، و کاظم محمدی، المعجم المفهرس لالفاظ نهج البلاغه، 1375ش، ص509.
  10. خسروپناہ، جامعۀ علوی در نہج البلاغہ، 1384ش، ص223۔
  11. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، 1386ش، ج1، ص55-59۔
  12. ملاحظہ کریں: مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، 1386ش، ج3، ص285۔
  13. علیدوست، «فقہ القضاء (شرایط قاضی)»، سلسبیل آیت اللہ علیدوست، جلسہ 115۔
  14. علیدوست، «فقہ القضاء (شرایط قاضی)»، سلسبیل آیت اللہ علیدوست، جلسہ 115۔
  15. نہج البلاغہ کے مختلف حصوں میں اس خط کو دیکھنے کے لئے ملاحظہ کریں: جعفری، «مقدمہ»، در کتاب شبہات زن در نہج البلاغہ، 1401ق، ص18۔
  16. ملاحظہ کریں: حسینی خطیب، مصادر نہج البلاغہ و أسانيدہ، 1409ق، ج1، ص409؛ و ج2، ص82-83۔
  17. ملاحظہ کریں: طبری، المسترشد، 1415ق، ص408-427۔
  18. ملاحظہ کریں: سید ابن طاووس، کشف المحجہ، 1375ش، ص235-269۔
  19. ثقفی، الغارات، 1410ق، ج1، ص199-212۔
  20. ابنِ قُتَیْبہ دینَوَری، الامامة و السیاسہ، 1410ق، ج1، ص174-179۔
  21. کلینی، کافی، 1407ق، ج5، ص517۔
  22. ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، 1404ق، ص368۔
  23. شیخ صدوق، امالی، 1376ش، ص304۔
  24. ابن جوزی، تذکر ة الخواص، 1426ق، ج1، ص391-392۔
  25. قندہاری، و طاہرہ صالحی، «اعتبارسنجی النساء نواقص العقول در نہج البلاغہ»، ص432۔
  26. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ق، خطبہ 80، ص105-106۔
  27. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، 1386ش، ج3، ص298۔
  28. طباطبایی، منطق فہم حدیث، 1390ش، ص419۔
  29. ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ق، ج5، ص39، حدیث 4؛ و ص322، حدیث 1؛ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ق، ج3، ص291، حدیث 4375۔
  30. حسینیان قمی، «دفاع از حدیث 2»، ص141-142۔
  31. ملاحظہ کریں: مہریزی، «تأملی در احادیث نقصان عقل زنان»، ص92-93۔
  32. جعفری، پرتوی از نہج البلاغہ، 1380ش، ج1، ص707؛ شویلی، الجانب الاجتماعی فی نہج البلاغہ، 1437ق، ص16۔
  33. جوادی آملی، زن در آینہ جلال و جمال، 1386ش، ص251۔
  34. منتظری، درس ہایی از نہج البلاغہ، 1395ش، ج3، ص238۔
  35. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: طباطبایی، المیزان، 1417ق، ج2، ص275؛ رشیدرضا، تفسیر المنار، 1414ق، ج5، ص69-70؛ دین پرور، منشور جاودانہ، 1389ش، ص307؛ جعفری، پرتوی از نہج البلاغہ، 1380ش، ج1، ص707؛ شویلی، الجانب الاجتماعی فی نہج البلاغہ، 1437ق، ص16؛ مخلصی، «سخن امام علی(ع) دربارہ زن و بازکاوی دیدگاہ ہا»، ص151۔
  36. حسینی خامنہ ای، «بیانات در جلسہ پرسش و پاسخ در مسجد ابوذر تہران»، سایت دفتر نشر و حفظ آثار آیت اللہ خامنہ ای۔
  37. ابن ابى الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ق، ج6، ص214۔
  38. شوشتری، بہج الصباغہ، 1376ش، ج14، ص219۔
  39. علیدوست، «فقہ القضاء (شرایط قاضی)»، سلسبیل آیت اللہ علیدوست، جلسہ 115۔
  40. صانعی، «مصاحبہ با مجلہ پیام زن»، ص12، بہ نقل از: حسینیان قمی، «دفاع از حدیث 2»، ص140-141۔
  41. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ق، خطبہ 80، ص106۔
  42. دین پرور، منشور جاودانہ، 1389ش، ص306۔
  43. خسروپناہ، جامعۀ علوی در نہج البلاغہ، 1384ش، ص223۔
  44. افسردیر، و طاہرہ سادات طباطبایی امین، «معناشناسی ایمان در روایات ان النساء نواقص الایمان»، ص67۔
  45. مجلسی، بحار الأنوار، 1403ق، ج32، ص248۔
  46. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ق، خطبہ 80، ص106۔
  47. دین پرور، منشور جاودانہ، 1389ش، 306-307۔
  48. شیخ صدوق، علل الشرایع، 1385ش، ج2، ص570۔
  49. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ق، خطبہ 80، ص106۔
  50. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، 1386ش، ج3، ص292۔
  51. گروہی از نویسندگان، شبہات زن در نہج البلاغہ، 1401ش، ص108۔
  52. ابن جوزی، تَذکر ةُ الخواص، 1426ق، ج1، ص391۔
  53. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ق، خطبہ 80، ص105۔
  54. حسینی خطیب، مصادر نہج البلاغہ و أسانيدہ، 1409ق، ج2، ص82-83۔
  55. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، 1386ش، ج3، ص288۔
  56. جعفری، پرتوی از نہج البلاغہ، 1380ش، ج1، ص705۔
  57. حسینی خطیب، مصادر نہج البلاغہ و أسانيدہ، 1409ق، ج2، ص83۔
  58. وَ مِن خُطبَةٍ لَه (علیه السّلام) بعد فراغه من حرب الجمل في ذمّ النساء ببيان نقصهنّ
  59. ترجمہ مفتی جعفر حسین

مآخذ

  • ابنِ قُتَیْبہ دینَوَری، عبداللہ بن مسلم، الاِمامة و السیاسہ، بیروت، دار الأضواء، 1410ھ۔
  • ابن ابى الحدید، عبدالحمید بن ہبةاللہ، شرح نہج البلاغہ، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی(رہ)، 1404ھ۔
  • ابن جوزی ، یوسف بن قزاوغلی ، تذکرة الخواص من الأمة بذکر خصائص الأئمہ، تصحیح حسین تقی زادہ، قم، مجمع جہانی اہل بيت(ع)، 1426ھ۔
  • ابن شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول(ص)، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1404ھ۔
  • ابن میثم، میثم بن علی، شرح نہج البلاغہ، تہران، دفتر نشر کتاب، 1404ھ۔
  • افسردیر، و طاہرہ سادات طباطبایی امین، «معناشناسی ایمان در روایات ان النساء نواقص الایمان»، در مجلہ پژوہش نامہ نہج البلاغہ، شمارہ 4، زمستان 1392ہجری شمسی
  • بتول، عفت، «جایگاہ زن در سیرہ امام علی(ع) با تأکید بر نہج البلاغہ»، در مجلہ تاریخنامہ اسلام، شمارہ 7، بہار و تابستان 1401ہجری شمسی
  • برقعی، زہرہ، «جایگاہ حقوقی زن در نہج البلاغہ»، در پژوہشنامہ نہج البلاغہ، شمارہ 9 و 10، بہار 1383ہجری شمسی
  • ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارات او الاِستنفار و الغارات، قم، دار الکتاب الاسلامی، 1410ھ۔
  • جعفری، سید محمدمہدی، «مقدمہ»، در کتاب شبہات زن در نہج البلاغہ، تألیف گروہی از نویسندگان، تہران، چاپ و نشر بین الملل، 1401ھ۔
  • جعفری، محمدمہدی، پرتوی از نہج البلاغہ، قم، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1380ہجری شمسی
  • جوادی آملی، عبداللہ، زن در آینہ جلال و جمال، قم، اسراء، 1386ہجری شمسی
  • حسینی خامنہ ای، «بیانات در جلسہ پرسش و پاسخ در مسجد ابوذر تہران»، سایت دفتر نشر و حفظ آثار آیت اللہ خامنہ ای، تاریخ سخنرانی: 6 تیر 1360ش، تاریخ بازدید: 14 آبان 1403ہجری شمسی
  • حسینی خطیب، عبدالزہراء، مصادر نہج البلاغہ و أسانيدہ، بیروت، دار الزہراء، 1409ھ۔
  • حسینیان قمی، مہدی، «دفاع از حدیث 2»، در مجلہ علوم حدیث، شمارہ 3، بہار 1376ہجری شمسی
  • خسروپناہ، عبدالحسین، جامعۀ علوی در نہج البلاغہ، قم، انتشارات مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم، 1384ہجری شمسی
  • خسروی، کبری، و دیگران، «گونہ شناسی نگرش بہ زن در پژوہش ہای علمی در پرتو کلام امام علی(ع)»، در مجلہ پژوہشنامہ نہج البلاغہ، شمارہ 32، زمستان 1399ہجری شمسی
  • دشتی، محمد، و کاظم محمدی، المعجم المفہرس لألفاظ نہج البلاغہ، قم، مؤسسہ فرہنگی تحقيقاتی اميرالمومنين(ع)، 1375ہجری شمسی
  • دین پرور، سید جمال الدین، منشور جاودانہ، تہران، بنیاد نہج البلاغہ، 1389ہجری شمسی
  • رشیدرضا، محمد، تفسیر القرآن الحکیم (المنار)، بیروت، دار المعرفہ، 1414ھ۔
  • سید ابن طاووس، علی بن موسی، کَشْفُ المَحَجَّةِ لِثَمَرَةِ المُہْجَہ، قم، بوستان کتاب، 1375ہجری شمسی
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، 1414ھ۔
  • شوشتری، محمدتقی، بہج الصباغہ، تہران، امیرکبیر، 1376ہجری شمسی
  • شویلی، علی غانم، الجانب الاجتماعی فی نہج البلاغہ، بغداد، منشورات دار الحسین(ع)، 1437ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الأمالی، تہران، کتابچی، 1376ہجری شمسی
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عِلَلُ الشَرایع، قم، داوری، 1385ہجری شمسی
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، مَنْ لا یَحْضُرُہُ الفَقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1413ھ۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1417ھ۔
  • طباطبایی، محمدکاظم، منطق فہم حدیث، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی(رہ)، 1390ہجری شمسی
  • طبری آملی، محمد بن جریر بن رستم، المسترشد فی إمامةِ علی بن ابی طالب(ع)، قم، کوشانپور، 1415ھ۔
  • علیدوست، ابوالقاسم، «فقہ القضاء (شرایط قاضی)»، سایت سلسبیل آیت اللہ علیدوست، جلسہ 115، تاریخ درج مطلب: 31 فروردین 1399ش، تاریخ بازدید: 10 اردیبہشت 1402ہجری شمسی
  • قندہاری، محمد، و طاہرہ صالحی، «اعتبارسنجی النساء نواقص العقول در نہج البلاغہ»، در مجلہ آینہ پژوہش، شمارہ 203، آذر و دی 1402ہجری شمسی
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • گروہی از نویسندگان، شبہات زن در نہج البلاغہ، تہران، شرکت چاپ و نشر بین الملل، 1401ہجری شمسی
  • مجلسی، محمدباقر، بِحارُ الاَنوار الجامِعَةُ لِدُرَرِ أخبارِ الأئمةِ الأطہار(ع)، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مخلصی، عباس، «سخن امام علی(ع) دربارہ زن و بازکاوی دیدگاہ ہا»، در مجلہ حوزہ، شمارہ 167، بہار 1392ہجری شمسی
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1386ہجری شمسی
  • مکارم شیرازی، ناصر، نہج البلاغہ با ترجمہ فارسی روان، قم، مدرسہ الامام على بن ابى طالب(ع)، 1384ہجری شمسی
  • منتظری، حسینعلی، درس ہایی از نہج البلاغہ، تہران، سرایی، 1395ہجری شمسی
  • مہریزی، مہدی، «تأملی در احادیث نقصان عقل زنان»، شمارہ 4، تابستان 1376ہجری شمسی

بیرونی روابط