تقریر معصوم

ویکی شیعہ سے
(معصوم کی خاموشی سے رجوع مکرر)

تقریر معصوم، کے معنی ہیں: معصوم کے سامنے کسی شخص کی جانب سے کوئی فعل انجام پائے یا کوئی بات کہے اور معصوم اس عمل کو دیکھ کر سکوت اور خاموشی اختیار کرے۔ معصوم کا یہ سکوت اس کی رضایت پر دلیل ہوتا ہے۔ معصوم کی تقریر، معصوم کے قول اور فعل کی طرح سنت کا درجہ رکھتی ہے اور احکام شرعی کے استنباط کے سلسلے میں مآخذِ اربعہ میں سے ایک ہے۔ شیعہ علماء کی نظر میں تقریر معصوم سے مراد پیغمبر اکرمؐ، حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی تقریر ہے۔

علمائے علم اصول کے مطابق تقریر معصوم کچھ خاص شرائط کے ساتھ حجیت کی حامل ہوا کرتی ہے جن میں سے پہلی شرط یہ ہے کہ اس انجام شدہ عمل کی طرف معصوم متوجہ ہو اور دوسری شرط یہ کہ اس عمل یا بات کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہو۔ تقریر کی حجیت کے سلسلہ میں اس طرح استدلال کیا جاتا ہے: چونکہ معصوم پر واجب ہے کہ اگر ان کے سامنے منکَر سرانجام پائے تو اس کے مقابلے میں اپنے رد عمل کا اظہار کرے۔ اور اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو یہ عمل اس کی عصمت کے منافی ہوگا۔

تقریر کے معنی

معصوم کے سامنے کوئی عمل انجام پائے یا کوئی بات کہی جائے اور معصوم اسے دیکھ کر یا سن کر سکوت اختیار کرے تو اسے ’’تقریر معصوم‘‘ کہتے ہیں۔[1] علم اصول فقہ کے مطابق تقریر معصوم کچھ شرائط کے ساتھ، اس عمل یا قول کےصحیح یا جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے جو اس کے سامنے انجام پائے۔[2] تقریر معصوم حجت قرار پانے کی دلیل یہ ہے کہ معصوم کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ برائی کرنے والے کو ٹوکے اور اگر وہ اس برائی کے سلسلہ میں جاہل ہے تو اسے راہ راست کی طرف ہدایت کرے۔[3]

مثال کے طور پر اگر کوئی شخص معصومؑ کے سامنے وضو کرے اور معصوم اسے وضو کرتا ہوا دیکھے اور طریقہ وضو کے سلسلہ میں کچھ نہ کہے تو اس خاموشی کو تقریر معصوم کہتے ہیں۔ چنانچہ علمائے اصول اس خاموشی کو اس شخص کا وضو صحیح ہونے کی دلیل شمار کرتے ہیں۔[4] کتب لغت میں تقریر کے معنی اقرار، توثیق یا کسی چیز پر دستخط کرنے کے ہیں۔[5]

تقریر معصوم کا مرتبہ

تقریر معصوم علیہ السلام، علم اصول کے موضوعات میں سے ایک ہے۔[6] اور قول و فعل معصوم، کی طرح سنت کا درجہ رکھتی ہے۔[7] سنت، قرآن، عقل اور اجماع کی طرح احکام دین کے استنباط اور استخراج کے چاروں مآخذ اور منابع میں سے ایک ہے۔[8]

تقریر معصوم کو صرف شیعہ ہی حجت نہیں مانتے بلکہ اہل سنت و الجماعت بھی فقہی احکام کے استنباط و استخراج میں اس سے استناد کرتے ہیں۔[9] شیعہ علماء کے زندیک پیغمبر اکرم(ص)، حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا اور بارہ اماموں کی تقریر حجت ہے۔[10] لیکن مذہب اہل سنت میں، صرف رسول خداؐ کی تقریر کو حجت مانا جاتا ہے۔[11] جبکہ بعض علمائے اہل سنت کے نظریے کے مطابق، خلیفہ اول، خلیفہ ثانی اور کچھ دیگر اہل سنت علماء کے مطابق رسول اللہؐ کے سارے اصحاب کی تقریر حجت ہے۔ [12]

تقریر معصوم کی حجیت کے دلائل

تقریر معصوم کی حجیت کے سلسلہ میں کچھ دلائل بیان کیے جاتے ہیں: بعض علماء کا نظریہ ہے کہ معصومینؑ کے فرائض منصبی اس بات کے بات کے متقاضی ہیں کہ وہ ہمیشہ دین اور اس کے مروجہ اقدار کے محافظ ہیں اور اگر ان کے سامنے دین سے متصادم کوئی فعل انجام پائے یا ایسی کوئی بات کہی جائے تو انہیں خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔[13]

جبکہ علماء کی ایک جماعت کا استدلال یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک [[واجب] عمل امر ہے اور چونکہ معصوم سے کبھی بھی کوئی واجب ترک نہیں ہوسکتا لہذا کوئی عمل معصوم کے سامنے انجام پائے حالانکہ معصوم اس سلسلے میں اپنی رائے کا اظہار کرسکتا تھا اس کے باوجود وہ سکوت اور خاموشی اختیار کرے تو یہ خاموشی دلیل ہے کہ وہ قول یا عمل صحیح یا جائز تھا۔[14]

تقریر کی قسمیں

علم اصول کی بعض کتابوں میں تقریر (اس عمل کی نسبت جس پر سکوت کیا گیا ہے) کی دو قسمیں بیان ہوئی ہیں۔ کبھی معصومؑ کی طرف سے سکوت کسی فعل کے انجام پاتے ہوئے اختیار کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی تقریر کو تقریر فعلی کہتے ہیں اور کبھی کسی قول کی نسبت سکوت اختیار کیا جاتا ہے؛ تقریر کی یہ قسم تقریر گفتاری (یا حکمی) کہلاتی ہے۔[15] جبکہ کچھ دیگر اصولی کتابوں میں تقریر کی تیسری قسم بھی بیان ہوئی ہے اسے تقریر عقیدتی کہا جاتا ہے۔[16] مثال کے طور پر کوئی شخص خدا اور قیامت سے متعلق کچھ خاص عقائد رکھتا ہے اور وہ معصومؑ کے سامنے اپنے ان عقائد کا اظہار کرے اور معصوم اس سلسلے میں خاموش رہے تو یہ تقریر عقیدتی کہلاتی ہے معصومؑ کی اس قسم کی تقریر اس شخص کا عقیدہ حق اور صحیح ہونے کی علامت ہے۔[17]

حجیت تقریر کے شرائط

علمائے اصول فقہ، معصومؑ کی تقریر کو مندرجہ ذیل شرائط کے تحت حجت قرار دیتے ہیں:

  • وہ عمل جو معصومؑ کے سامنے انجام پائے یا وہ قول جو معصوم کے سامنے کہا جائے، معصومؑ اس کی طرف متوجہ ہو۔[18]
  • معصومؑ کے لئے اپنی رائے کا اظہار کرنا ممکن ہو۔ مثال کے طور پر جس شخص نے معصومؑ کے سامنے کسی عمل کو انجام دیا ہے وہ فوراً وہاں سے چلا نہ گیا ہو۔[19]
  • معصومؑ کے سامنے اظہار رائے کے لیے کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔ مثال کے طور پر امام اپنی یا اپنے شیعوں کی جان بچانے کے خوف سے خاموشی اختیار کرنے پر مجبور نہ ہو۔[20]
  • معصومؑ نے خاموشی سے پہلے اس عمل یا قول کی تردید نہ کی ہو۔[21]

حوالہ جات

  1. اصغری، شرح فارسی اصول‌الفقہ، 1386ہجری شمسی، ج2، ص133۔
  2. اصغری، شرح فارسی اصول‌الفقہ، 1386ہجری شمسی، ج2، ص133۔
  3. شیروانی، تحریر اصول فقہ، 1385ہجری شمسی، ص210–211؛ اصغری، شرح فارسی اصول‌الفقہ، 1386ش، ج2، ص133۔
  4. اصغری، شرح فارسی اصول‌الفقہ، 1386ہجری شمسی، ج2، ص133۔
  5. اصغری، شرح فارسی اصول‌ الفقہ، 1386ش، ج2، ص133۔
  6. بحرانی، شرح‌ الاصول، 1428ھ، ج1، ص15۔
  7. اصغری، شرح فارسی اصول ‌الفقہ، 1386ہجری شمسی، ج2، ص132۔
  8. محمدی، شرح اصول فقہ، 1387ہجری شمسی، ج3، ص285؛ شہابی، تقریرات اصول، 1321ہجری شمسی، ص15۔
  9. ابوشہبۃ، الوسيط فی علوم و مصطلح الحدیث، بیروت، ج1، ص204۔
  10. محمدی، شرح اصول فقہ، 1387ہجری شمسی، ج3، ص100؛ محقق داماد، مباحثی از اصول فقہ، 1362ہجری شمسی، ج2، ص45۔
  11. ابوشہبۃ، الوسيط فی علوم و مصطلح الحدیث، بیروت، ج1، ص204۔
  12. موسوی بجنوردی، علم اصول، 1379ہجری شمسی، ص286-287۔
  13. مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، فرہنگ‌ نامہ اصول فقہ، 1389ہجری شمسی، ص399؛ شہرکانی، المفید، 1430ھ، ج2، ص91-93۔
  14. محقق داماد، مباحثی از اصول فقہ، 1362ہجری شمسی، ج2، ص48-50۔
  15. شیروانی، تحریر اصول فقہ، 1385ہجری شمسی، ص211۔
  16. محمدی، شرح اصول فقہ، 1387ہجری شمسی، ج3، ص111۔
  17. محمدی، شرح اصول فقہ، 1387ہجری شمسی، ج3، ص111۔
  18. محمدی، شرح اصول فقہ، 1387ہجری شمسی، ج3، ص111-112۔
  19. اصغری، شرح فارسی اصول‌ الفقہ، 1386ہجری شمسی، ج2، ص133۔
  20. محمدی، شرح اصول فقہ، 1387ہجری شمسی، ج3، ص112۔
  21. نراقی، انیس ‌المجتہدین، 1388ہجری شمسی، ج1، ص334؛ نراقی، تجرید الاصول، 1384ہجری شمسی، ص71؛ انصاری، خلاصۃ القوانین، 1397ھ، ص134۔

مآخذ

  • اسلامی، رضا، قواعد کلی استنباط (ترجمہ و شرح دروس فی علم الاصول)، قم، بوستان کتاب، چاپ پنجم، 1387ہجری شمسی۔
  • اصغری، عبداللہ، اصول‌الفقہ (شرح فارسی)، قم، چاپ دوم، 1386ہجری شمسی۔
  • انصاری، احمد، خلاصۃ القوانین، قم، المطبعۃ العلمیۃ، چاپ دوم، 1397ھ ۔
  • بحرانی، محمد صنقور علی، شرح الاصول من الحلقۃ الثانیۃ، قم، نشر مؤلف، چاپ سوم، 1428ھ ۔
  • شہابی، محمود، تقریرات اصول، تہران، چاپخانہ حاج محمدعلی علمی، چاپ ہفتم، 1321ہجری شمسی۔
  • شہرکانی، ابراہیم اسماعیل، المفید فی شرح اصول الفقہ، قم، نشر ذوی‌ القربی، 1430ھ ۔
  • شیروانی، علی، تحریر اصول فقہ، قم، دارالعلم، چاپ دوم، 1385ہجری شمسی۔
  • محقق داماد، مصطفی، مباحثی از اصول فقہ، تہران، مرکز نشر علوم اسلامی، 1362ہجری شمسی۔
  • محمدی، علی، شرح اصول فقہ، قم، دارالفکر، چاپ دہم، 1387ہجری شمسی۔
  • مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، فرہنگ‌ نامہ اصول فقہ، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، 1389ہجری شمسی۔
  • موسوی بجنوردی، محمد، علم اصول، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1379ہجری شمسی۔
  • نراقی، محمد مہدی بن ابی ‌ذر، انیس ‌المجتہدین، قم، بوستان کتاب، 1388ہجری شمسی۔
  • نراقی، محمد مہدی بن ابی‌ ذر، تجرید الاصول، قم، نشر سید مرتضی، 1384ہجری شمسی۔