مندرجات کا رخ کریں

مسودہ:سورہ صف آیت 6

ویکی شیعہ سے
سورہ صف آیت 6
آیت کی خصوصیات
سورہصف
آیت نمبر6
پارہ28
محل نزولمدینہ
مضمونحضرت عیسیؑ کی جانب سے رسالت حضرت محمدؐ کی خوشخبری
مربوط آیاتسورہ اعراف آیت 157سورہ فتح آیت29


سورہ صف کی آیت 6 حضرت عیسیٰؑ کے بنی اسرائیل سے خطاب کو بیان کرتی ہے، جس میں وہ خود کو اللہ کا نبی متعارف کراتے ہیں، تورات کی تصدیق کرتے ہیں اور اپنے بعد ایک ایسے نبی کے ظہور کی بشارت دیتے ہیں جن کا نام احمد ہوگا۔ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ آنے والے نئے نبی کی بشارت دراصل اس نئے دین کے زیادہ کامل اور برتر ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے۔

شیعہ تفاسیر میں انجیل کے بعض نسخوں میں وارد لفظ فارقلیط کو احمد کے ساتھ تطبیق دی گئی ہے اور اس کے معنی "بہت زیادہ تعریف شدہ" بیان کیے گئے ہیں۔ نیز ایک روایت میں آیا ہے کہ امام رضاؑ نے جاثلیق کے ساتھ مناظرے کے دوران انجیلِ یوحنا کے وہ حصے تلاوت کیے جو حضرت محمدؐ، آپؐ کے اہلِ بیتؑ اور آپؐ کی امت کے ظہور کی بشارت دیتے ہیں اور جاثلیق نے بھی ان کے صحیح ہونے کی تصدیق کی۔

حضرت عیسیٰؑ کی جانب سے بعثت حضرت محمدؐ کی بشارت

سورہ صف کی آیت نمبر 6 حضرت عیسیٰؑ کے اس خطاب کا حصہ ہے جو انہوں نے بنی اسرائیل سے فرمایا، جس میں وہ خود کو اللہ کا رسول متعارف کراتے ہیں، تورات کی تصدیق کرتے ہیں اور اپنے بعد آنے والے ایک ایسے نبی کی بشارت دیتے ہیں جن کا نام احمد ہوگا۔[1] آیت کے آخر میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جب پیغمبرخداؐ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تو انہوں نے اسے "سِحْرٌ مُّبِينٌ"(کھلا ہوا جادو) قرار دیا۔ اس حصے کی تفسیر میں دو آراء پائی جاتی ہیں: بعض مفسرین کے نزدیک یہ بنی اسرائیل کا حضرت عیسیٰؑ کے مقابلے میں ردِّعمل ہے، جبکہ بعض دیگر اسے رسول خڈاؐ کی دعوت کے مقابلے میں مخالفین کے رویّے اور ان کی جانب سے معجزات کے انکار سے مربوط قرار دیتے ہیں۔[2]

وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اور وہ وقت یاد کرو جب عیسیٰ(ع) بن مریم(ع) نے کہا کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا (بھیجا ہوا) رسول ہوں میں اس تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے آئی ہے (اور جو موجود ہے) اورخوشخبری دینے والا ہوں ایک رسول(ص) کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد(ص) ہوگا پھر جب وہ کھلی نشانیاں (معجزے) لے کر ان کے پاس آئے تو ان لوگوں نے کہا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔



سورہ صف آیت 6

شیعہ مفسر سید محمد تقی مدرسی کے مطابق، یہ آیت اللہ کی جانب سے نبوت و رسالت کے باہمی تسلسل کو واضح کرتی ہے؛ یعنی حضرت عیسیٰؑ اپنی رسالت کو حضرت موسیٰؑ کی رسالت کا تسلسل اور حضرت محمدؐ کی رسالت سےمتصل مانتے ہیں۔[3] حسین وحید خراسانی بھی صدرِ اسلام میں یہودی اور عیسائی علما کی جانب سے اس بشارت کے انکار نہ کیے جانے کو اس کی صحت کی دلیل سمجھتے ہیں۔[4] علامہ طباطبائی سورہ اعراف کی آیت 157 اور سورہ فتح کی آیت 29 سے استدلال کرتے ہوئے اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ رسول خداؐ کے ظہور کی بشارت انجیل کے متون میں بھی موجود رہی ہے۔[5]

ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت امام رضاؑ نے جاثلیق کے ساتھ مناظرے کے دوران انجیلِ یوحنا میں وارد ان بشارتوں کا حوالہ دیا جو حضرت محمدؐ، آپؐ کے اہل بیتؑ اور آپؐ کی امت کے ظہور سے متعلق ہیں؛ جاثلیق نے بھی انجیل میں ان مضامین کی موجودگی کی تصدیق کی۔[6]

کامل‌تر دین کی خوشخبری

علامہ طباطبائی کے نزدیک حضرت عیسیٰؑ کے بعد آنے والے نبی کی بشارت اس امر کی علامت ہے کہ بعد کی دعوت پہلے سے زیادہ کامل اور عالم گیر ہوگی۔[7] اسی طرح ناصر مکارم شیرازی بھی لفظِ بشارت کو سابقہ ادیان کے مقابلے میں دینِ اسلام کے ارتقائی اور تکمیلی مرحلے کی نشاندہی قرار دیتے ہیں۔[8]

انجیل میں احمد کی فارقلیط سے تطبیق

"احمد موعود انجیل" نامی کتاب کی جلد کی تصویر جسے جعفر سبحانی نے تحریر کی ہے

طبرسی نے مجمع البیان میں معنی کے لحاظ سے لفظ احمد کے احتمالات بیان کیے ہیں: پہلا معنی، بہت زیادہ تعریف کرنے والا؛ اور دوسرا، جس کی بہت زیادہ تعریف کی گئی ہو۔[9] تفسیر نمونہ میں موجودہ اناجیل کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ لفظ فارقلیط؛ جو سریانی متون میں "پارقلیطا" اور یونانی متون میں "پیرکلتوس" کی صورت میں آیا ہے؛ کو احمد کا ہم معنی قرار دیا جا سکتا ہے۔[10] بعض شیعہ علما نے اس لفظ کو حضرت عیسیٰؑ کی جانب سے رسولِ خداؐ کی بشارت سے مربوط قرار دیا ہے۔[11] محمد صادقی تہرا نی (متوفیٰ: 2011ء) نے اپنی "بشاراتِ عہدین" نامی کتاب میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ بعض مسیحی علما نے خاتم النبیینؐ کے ظہور کی بشارت کو تسلیم کرنے سے بچنے کے لیے لفظ "پیرکلتوس" کو "پاراکلتوس" میں تبدیل کر دیا۔[12]

شیعہ مفسر جعفر سبحانی نے اپنی کتاب "احمدِ موعودِ انجیل" میں لفظ احمد کو انجیل کے فارقلیط پر منطبق کیا ہے۔[13] تاہم بعض محققین کا کہنا ہے کہ قرآن کریم سے تو حضرت عیسیٰؑ کی جانب سے "احمد" کے نام سے ایک آنے والے نبی کی بشارت کا اصل مفہوم ثابت ہوتا ہے، لیکن خود انجیل کے متن میں اس لفظ یا اس کے ہم معنی کی صراحت ایک قابلِ بحث مسئلہ ہے۔[14]

حوالہ جات

  1. شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج9، ص593؛ طبرسی، مجمع البیان، 1367شمسی، ج9، ص419؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374شمسی، ج24، ص72۔
  2. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374شمسی، ج24، ص72 ـ 73۔
  3. مدرسی، من هدی القرآن، 1419ھ، ج28، ص345 ـ 344۔
  4. وحید خراسانی، رساله توضیح المسائل، 1428ھ، مقدمه، ص94 و 95۔
  5. طباطبایی، تفسیر المیزان، 1352شمسی، ج19، ص253۔
  6. عروسی حویزی، تفسیر نور الثقلین، 1373شمسی، ج5، ص313۔
  7. طباطبایی، تفسیر المیزان، 1352شمسی، ج19، ص252۔
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374شمسی، ج24، ص73۔
  9. طبرسی، مجمع البیان، 1367شمسی، ج9، ص420۔
  10. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374شمسی، ج24، ص74 ـ 75۔
  11. منتظری، رساله استفتائات، قم، ج2، ص55۔
  12. صادقی تهرانی، بشارات عهدین، 1392شمسی، ص13۔
  13. سلیمانی اردستانی، «قرآن کریم و بشارت‌های پیامبران»، ص56۔
  14. سلیمانی اردستانی، «قرآن کریم و بشارت‌های پیامبران»، ص56۔

مآخذ

  • سلیمانی اردستانی، عبدالرحیم، «قرآن کریم و بشارت‌های پیامبران»، فصلنامه هفت آسمان، شماره 16، زمستان 1381ہجری شمسی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • صادقی تهرانی، محمد، بشارات عهدین، قم، شکرانه، 1392ہجری شمسی۔
  • صادقی تهرانی، محمد، الفرقان فی تفسیر القرآن بالقرآن و السنة، بیروت، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، 1406ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القران، بیروت، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، 1352ہجری شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار‌المعرفه، 1367ہجری شمسی۔
  • عروسی حویزی، عبد علی، تفسیر نور الثقلین، قم، اسماعیلیان، 1373ش/1415ھ۔
  • مدرسی، سید محمدتقی، من هدی القرآن، تهران، دار محبی‌الحسین، چاپ اول، 1419ھ/1999ء۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دار الکتب الاسلامیه، 1374ہجری شمسی۔
  • منتظری، حسینعلی، رساله استفتائات، ج2، قم، بی‌نا، چاپ اول، بی‌تا۔
  • وحید خراسانی، حسین، رساله توضیح المسائل، قم، مدرسه امام باقر(ع)، چاپ نهم، 1428ھ۔