مسجد نبوی کے ستون

مسجد نبوی کے ستون سے مراد عہد نبوی میں مسجد نبوی میں موجود ستونوں کا مجموعہ ہے جن میں سے ہر ایک کا اپناالگ الگ نام اور تاریخی واقعہ ہے۔ ان ستونوں کو پیغمبرخداؐ کے زمانے میں کھجور کے تنوں سے بنائے گئے تھے؛ بعد میں ان کی تعمیر نو کے دوران انہی جگہوں پر انہیں پتھر سے بنائے گئے ہیں۔ ان ستونوں میں سے ایک ستون توبہ ہے۔ رسول خداؐ کے صحابی ابولبابہ نے اپنی توبہ قبول ہونے تک اس کے ساتھ اپنے آپ کو باندھ رکھا۔ تاریخی منابع میں اس ستون کے قریب توبہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ ستون حَرَسْ یا ستون امام علیؑ حجرہ نبوی کے نزدیک ایک ستون کا نام ہے؛ امام علیؑ رات کو اس کے پاس کھڑے ہوکر حضرت محمدؐ کی محافظت کیا کرتے تھے تاکہ کوئی آنحضرتؐ کو نقصان نہ پہنچائے۔ ستون وُفود وہ جگہ ہے جہاں پیغمبرخداؐ عرب قبائل کے مختلف وفود سے ملاقات کرتے تھے۔ ستون قرعہ، ستون سریر اور ستون مُخَلَّقہ مسجد نبوی میں موجود روضۃ النبی کے دیگر ستونوں میں سے ہے۔
جیسے جیسے مسجد نبوی کی توسیع ہوتی گئی ستونوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ سنہ 1404 ہجری میں آل سعود کی حکومت کے دوران مسجد نبوی کی تعمیر نو کے دوران، مسجد کو بہت وسیع کیا گیا اور مسجد میں کل 2,104 ستون تعمیر کیے گئے۔

تعارف
عہد نبوی میں مسجد نبوی میں کھجور کے درخت کے تنوں سے بنائے گئے کچھ ستون تھے ان میں سے روضۃ النبیؐ میں موجود بعض ستون مشہور ہوگئے۔[1] ان ستونوں میں سے ہر ایک کا اپنا الگ نام[2] اور تاریخی واقعہ ہے۔[3] مسجد نبوی کی تعمیر نو کے دوران یہ ستون تبدیل کیے گئے اور پرانے ستوں کی جگہ پتھر سے ستون بنائے گئے۔[4] مسجد نبوی کی متعدد دفعہ تعمیر نو کے باوجود مسجد کی اصلی حالت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی اور ان ستونوں کو اپنی پہلی والی جگہوں پر تعمیر کیا گیا۔[5]
ان ستونوں میں سے ہر ستون کا نام سبز تختی کے بیچ میں سنہرے حروف سے لکھا گیا ہے۔[6] سنہ 1404 ہجری میں آل سعود کے دور حکومت میں ان ستونوں پر سفید سنگ مر مر لگائے گئے اس سے ان ستونوں کا مجموعہ دوسرے ستونوں سے ممتاز قرار پایا۔[7] امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ مسجد نبوی کو کافی حد تک وسیع کیا گیا اس لیے ستونوں میں بھی کافی حد تک اضافہ ہوا اس طرح ستونوں کی تعداد 2104 پہنچ گئی۔[8]
ستون توبہ
اصحاب پیغمبرؐ میں سے ابولبابہ انصاری نامی ایک صحابی کسی گناہ کا مرتکب ہوا، انہوں نے مسجد نبوی کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ اپنے آپ کو باندھ لیا اور تھوڑے عرصے بعد ان کی توبہ قبول ہوگئی۔ اس کے بعد سے یہ ستون، ستون توبہ یا ستون ابولبابہ کے نام سے مشہور ہوا۔[9] معصومینؑ سے مروی احادیث میں اس ستون کے قریب میں دو رکعت نماز اور مخصوص دعائیں پڑھنے اور حاجت طلب کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔[10] ایک روایت کے مطابق پیغمبرخداؐ روزانہ کے نوافل کا اکثر حصہ اسی ستون کے قریب میں پڑھا کرتے تھے۔ صبح کی نماز کے بعد آنحضرتؐ اسی ستون کے نزدیک بیٹھ جاتے تھے؛ فقراء و مساکین اور بے گھر لوگ اسی مقام پر آپؐ کے ارد گرد جمع ہوجاتے تھے۔[11]
ستون حرس

ستون حَرَسْ (حرس کےمعنی محافظت کے ہیں)[12] یا ستون امام علیؑ[13] مسجد نبوی میں حجرہ نبوی کے نزدیک واقع ایک ستون ہے[14] جہاں امام علیؑ رات کو حضرت محمدؐ کی حفاظت کے لیے قیام کرتے تھے تاکہ کوئی شخص آنحضرتؐ کو نقصان نہ پہنچائے۔[15] پیغمبرخداؐ کی حیات کے آخری دنوں میں آپؐ کی حفاظت کے لیے کچھ لوگ مقرر کیے گئے تھے۔[16] اس ستون کے قریب حضرت علیؑ نماز پڑھا کرتے تھے اس لیے یہ جگہ مُصلائے علی بن ابی طالب کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اس مقام کی امام علیؑ کی طرف نسبت اس بات کا سبب بنی کہ ایک زمانے میں مدینہ کے سادات نماز پڑھنے کے لیے اس ستون کے پاس جمع ہوتے تھے۔[17] مسجد نبوی کی تعمیر نو کے بموجب ستون حرس روضۃ النبی کے قریب میں قرار پایا۔[18]
ستون حنانہ
ستون حَنّانہ (گریہ کرنے والا)، مسجد نبوی میں واقع ایک ستون کا نام ہے۔ یہ ستون اس کھجور کے درخت کے نزدیک ہے جس نے تاریخی نقل کے مطابق فِراق پیغمبرخداؐ میں گریہ کیا۔[19]
ستون وفود
ستون وُفود شمالی جانب ستون حرس کے پیچھے واقع ہے۔[20] عربی زبان میں وفود کسی مخصوص کام کے لیے بھیجی جانے والی نمائندہ لوگوں کی جماعت کو کہا جاتا ہے۔[21] پیغمبر اسلامؐ اسی مقام پرعرب قبائل کی نمائندہ جماعت کا استقبال کیا کرتے تھے۔[22] اس ستون کا دوسرا نام «مجلس القلادۃ» ہے۔ مذکورہ ستون کی اس نام سے شہرت پانے کی وجہ یہ ہے کہ اصحاب پیغمبر خداؐ اسی ستون کے پاس بیٹھا کرتے تھے۔[23] اس ستون کو قلادہ (گلے کا ہار) کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس بیٹھنے والے با عزت و باشرف لوگ ہوا کرتے تھے۔[24]
ستون تہجد
یہ ستون شمال کی جانب بیت الزہراء(س) کی پچھلی طرف واقع ہے۔[25] رسول خداؐ بعض اوقات یہاں آکرنماز شب پڑھا کرتے تھے۔[26] یہ جگہ عصر پیغمبرخداؐ میں مسجد نبوی میں داخل نہیں تھی۔[27] شیعہ مورخ رسول جعفریان کا کہنا ہے کہ پیغمبر خداؐ اس مقام پر کبھی کبھار نماز شب پڑھتے تھے، ہمیشہ ایسا نہیں کرتے تھے۔ [28]
ستون قرعہ
مسجد نبوی کے ستونوں میں سے ایک ستون، ستون قرعہ کہلاتا ہے جسے ستون مہاجرین کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے،[29] اس ستون کا دو ستون قبر پیغمبرؐ کی جانب جبکہ دوسری طرف سے دو ستون منبر پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ فاصلہ ہے۔[30] زوجہ رسول خداؐ عایشہ سے منقول ہے کہ پیغمبرخداؐ نے فرمایا: اس ستون کے پاس ایسی زمین ہے جس کی اہمیت سے لوگ واقف ہوتے تو یہاں نماز پڑھنے کے لیے قرعہ اندازی کرتے۔ اسی وجہ سے اس ستون کا نام ستون قرعہ پڑ گیا ہے۔[31] نیز اس ستون کو ستون عائشہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اس سلسلے میں روایت عائشہ سے منقول ہے۔[32] یہاں پر مہاجرین جمع ہواکرتے تھے اس لیے اسے ستون مہاجرین بھی کہا جاتا ہے۔[33]

ستون مُخَلَّقہ
ستون مخلقہ پیغمبر اسلامؐ کے مقامِ نماز کے قریب واقع ہے اور اس جگہ کے لیے ایک قسم کی علامت تھا۔[34] بعض تاریخی نقل کے مطابق پیغمبر خداؐ کی نماز کی جگہ اکثر یہی جگہ ہی ہوتی تھی۔[35] "مخلقہ" کا نام اس لیے دیا گیا کیونکہ اس ستون سے ایک خوشگوار بُو آتی تھی۔[36]
ستون سریر
ستون سریر ستون توبہ کےمشرق میں واقع ہے[37] اور روضۃ النبیؐ سے ملحق ہے۔[38] رسول اللہؐ مسجد میں اس ستون کے پاس کھجور کے پتوں پر آرام کرتے تھے۔[39] سریر کے معنی تخت کے ہیں۔[40]
حوالہ جات
- ↑ القرشی، «ما ہی "الأساطین" التی ارتبطت بتاریخ المسجد النبوی»، العربیہ۔
- ↑ «أساطین المسجد النبوی من شواہد السیرۃ النبویۃ»، وکالۃ الأنباء السعودیۃ۔
- ↑ «ما ہی "الأساطین" التی ارتبطت بتاریخ المسجد النبوی»، العربیہ۔
- ↑ «8 أساطین فی الروضۃ الشریفۃ»، الوطن۔
- ↑ الأنصاری، عمارۃ و توسعۃ المسجد النبوی الشریف عبر التاریخ، 1996ء، ص68۔
- ↑ الحربی، «قصص وصور لـ8 أساطین بینہا "بقعۃ من الجنۃ"»، العربیہ۔
- ↑ «ما ہی "الأساطین" التی ارتبطت بتاریخ المسجد النبوی»، العربیہ۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1387شمسی، ج1، ص223۔
- ↑ مُہری، احسن القصص، 1391شمسی، ص469۔
- ↑ گلپایگانی، آداب و احکام حج، 1413ھ، 559 تا 561۔
- ↑ شُراب، فرہنگ اعلام جغرافیایی - تاریخی در حدیث و سیرہ نبوی، 1383شمسی، ص42۔
- ↑ مُہری، احسن القصص، 1399شمسی، ج1، ص468۔
- ↑ المنقری، وفاء الوفاء، قم، ج2، ص45۔
- ↑ صبری باشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب 2004ء، ج3، ص236۔
- ↑ صبری باشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب 2004ء، ج3، ص236۔
- ↑ قرائتی، درس ہایی از قرآن، تہران ج1، ص1814۔
- ↑ صبری باشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب 2004ء، ج3، ص236۔
- ↑ «8 أساطین فی الروضۃ الشریفۃ»، الوطن۔
- ↑ اصفہانی، دلائل النبوۃ، 1950ء، ص340-345۔
- ↑ الأنصاری، عمارۃ و توسعۃ المسجد النبوی الشریف عبر التاریخ، 1996ء، ص72۔
- ↑ شُراب، فرہنگ اعلام جغرافیایی - تاریخی در حدیث و سیرہ نبوی، 1383شمسی، ج1، ص42۔
- ↑ صبری باشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب 2004ء، ج3، ص236۔
- ↑ المنقری، وفاء الوفاء، قم، ج2، ص45۔
- ↑ المنقری، وفاء الوفاء، قم، ج2، ص45۔
- ↑ الأنصاری، عمارۃ و توسعۃ المسجد النبوی الشریف عبر التاریخ، 1996ء، ص73۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1387شمسی، ج1، ص222۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1387شمسی، ج1، ص229۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1387شمسی، ج1، ص229۔
- ↑ صبری باشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب 2004ء، ج3، ص230- 231۔
- ↑ المنقری، وفاء الوفاء، قم، ج2، ص39۔
- ↑ شریعت، میعاد نور، 1384شمسی، ج1، ص76۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1387شمسی، ج1، ص226۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1387شمسی، ج1، ص226۔
- ↑ صبری باشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب 2004ء، ج3، ص230۔
- ↑ الحربی، «قصص وصور لـ8 أساطین بینہا "بقعۃ من الجنۃ"»، العربیہ۔
- ↑ صبری باشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب 2004ء، ج3، ص230۔
- ↑ الأنصاری، عمارۃ و توسعۃ المسجد النبوی الشریف عبر التاریخ، 1996ء، ص71۔
- ↑ الحربی، «قصص وصور لـ8 أساطین بینہا "بقعۃ من الجنۃ"»، العربیہ۔
- ↑ الأنصاری، عمارۃ و توسعۃ المسجد النبوی الشریف عبر التاریخ، 1996ء، ص71۔
- ↑ قرشى، قاموس قرآن، 1412ھ. ج3، ص254۔
مآخذ
- «أساطین المسجد النبوی من شواہد السیرۃ النبویۃ»، وکالۃ الأنباء السعودیۃ، تاریخ درج مطلب: 5 مارس 2021ء۔
- اصفہانی، ابونعیم، دلائل النبوۃ، حیدرآباد، دکن، 1950ء۔
- الأنصاری، ناجی محمد، عمارۃ و توسعۃ المسجد النبوی الشریف عبر التاریخ، مدینہ، نادی المدینہ المنورہ، 1996ء۔
- «8 أساطین فی الروضۃ الشریفۃ»، الوطن، تاریخ بازدید: 22 دی 1403ھ۔
- جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تہران، مشعر، 1387ہجری شمسی۔
- الحربی، محمد، «قصص وصور لـ8 أساطین بینہا "بقعۃ من الجنۃ"»، العربیہ، تاریخ درج مطلب: 13 سپتامبر 2019ء، تاریخ بازدید: 23 دی 1403ہجری شمسی۔
- شُراب، محمد محمدحسن، فرہنگ اعلام جغرافیایی - تاریخی در حدیث و سیرہ نبوی (ترجمہ المعالم الأثیرہ فی السنۃ و السیرۃ)، ترجمہ حمیدرضا شیخی، تہران، مشعر، 1383ہجری شمسی۔
- شریعت، محسن، میعاد نور، قم، نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہہا، 1384ہجری شمسی۔
- صبری باشا، ایوب، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب ترجمہ ماجدہ معروف، حسین مجیب المصری، عبدالعزیز عوض، قاہرہ، دارالآفاق العربیۃ، 2004ء۔
- قرائتی، محسن درسہایی از قرآن، تہران موسسہ فرہنگی درسہایی از قرآن بیتا۔
- قرشى، علىاكبر، قاموس قرآن، تہران، دار الكتب الاسلاميۃ، 1412ھ۔
- القرشی، حامد، «ما ہی "الأساطین" التی ارتبطت بتاریخ المسجد النبوی؟»، العربیہ، تاریخ درج مطلب: 2 مارس 2021ء، تاریخ بازدید: 23 دی 1403ہجری شمسی۔
- گلپایگانی، سید محمدرضا، آداب و احکام حج، قم، دار القرآن الکریم، چاپ اول، 1413ھ۔
- «ما ہی "الأساطین" التی ارتبطت بتاریخ المسجد النبوی»، العربیہ۔
- المنقری، نصر بن مزاحم، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی، قم، مکتبۃ آیۃاللہ المرعشی النجفی، بیتا۔
- مہری، محمدجواد، احسن القصص، قم، مکث اندیشہ، 1399ہجری شمسی۔