سہل بن زیاد آدمی

ویکی شیعہ سے
سہل بن زیاد آدمی
ذاتی کوائف
نام:ابو سعید سہل بن زیاد آدمی
کنیت:ابو سعید
محل زندگی:قم، ری
وفات:سنہ 255 ہجری میں با حیات
صحابی:امام محمد تقیؑ، امام علی نقیؑ اور امام حسن عسکریؑ
حدیثی معلومات
ان کے راوی:محمد بن حسن صفار، ابن قولویہ و علی بن ابراہیم
وثاقت:اختلافی
موضوعات:کلام و فقہ
احادیث کی تعداد:2304
تألیفات:التوحید و النوادر
شہرت:نقل حدیث


سَہل بْن زیاد آدمی (حیات: سنہ 255 ھ) کا شمار تیسری ہجری کے شیعہ محدثین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے امام محمد تقیؑ، امام علی نقیؑ اور امام حسن عسکریؑ سے روایات کو نقل کیا ہے۔ ان کا نام 2300 سے زیادہ حدیثوں کی سند میں آیا ہے۔ اس کے باوجود بھی علمائے رجال شیعہ ان کی وثاقت پر اختلاف نظر رکھتے ہیں۔ شیعوں کے بعض علمائے رجال جیسے احمد بن علی نجاشی، ابن غضائری اور سید ابو القاسم خوئی نے سہل بن زیاد کو غلو کے اتہام میں قم سے اخراج کی وجہ سے ان کی تضعیف کی ہے۔ لیکن بعض علمائے رجال جیسے وحید بہبہانی، محدث نوری اور سید محمد مہدی بحر العلوم نے ان کی توثیق کی ہے۔ شیخ اجازہ ہونا، کثرت سے روایات کرنا، کتب اربعہ کے مصنفین کا اس پر اعتماد کرنا، شیخ طوسی کا اپنی کتاب رجال میں ان کی وثاقت بیان کرنا اور اسی طرح فقہا کا ان کی روایات کی بنا پر فتوی دینا ان کی وثاقت کے دلایل میں سے ہے۔

علامہ مجلسی اور سید محمد مہدی بحر العلوم کے مطابق اگر سہل کی وثاقت کو قبول نہ کیا جائے تو بھی صرف اس لئے کہ وہ مشایخ اجازہ میں سے تھے ان کی روایات صحیح ہیں۔

سہل کی رجالی اور حدیثی شخصیت اور اس کی وثاقت کو ثابت کرنے کے لئے کافی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ محمد جعفر طبسی کی کتاب مسند سہل بن زیاد الآدمی جو پانچ جلدوں پر مشتمل ہے، اس کی روایات کو ابواب فقہ کی ترتیب کے اعتبار سے جمع کیا گیا ہے۔

زندگی‌ نامہ

سہل بن زیاد آدمی تیسری ہجری میں حدیث کے راوی تھے۔ انہوں نے کچھ وقت قم میں گزارا، احمد بن محمد بن عیسی اشعری نے انہیں کذّاب (جھوٹا) کہا اور قم سے باہر نکال دیا۔ اس طرح وہ شہر ری چلے گئے۔[1] سہل نے امام حسن عسکریؑ سے 15 ربیع الثانی سنہ 255 کو خط و کتابت کیا۔[2] یہ نامہ مسئلہ توحید کے بارے میں تھا کہ جسے شیخ صدوق نے اپنی کتاب توحید میں نقل کیا ہے۔[3] سہل کی کنیت ابو سعود تھی۔[4]

شخصیت رجالی

شیعوں کے رجال کے مصنف علی نمازی شاہرودی (متوفی 1364 ش) کے مطابق سہل بن زیاد کی شخصیت کے بارے میں دو نظریات ہیں:

1 تضعیف: یہ نظر علمائے رجال جیسے نجاشی[5] ابن غضائری،[6] شیخ طوسی الفہرست میں[7] اور آیت‌ اللہ خویی[8] کی ہے۔ اس گروہ کی دلیل یہ ہے کہ سہل ابن زیاد کو احمد بن محمد بن عیسی اشعری نے غلو اور جھوٹ کی نسبت دی اور قم سے اخراج کر دیا۔[9] اس کے با وجود نمازی شاہرودی نے کہا ہے کہ اس کی احادیث میں ایسی کوئی چیز جو ضعف یا اس کے عقیدہ میں غلو کا سبب ہو، نہیں پائی جاتی اور یہ بھی احتمال دیا ہے کہ اس کی طرف غلو کی نسبت کا سبب وہ روایات ہیں جو مقام و منزلت اہلبیتؑ پر دلالت کرتی ہیں۔[10] اسی طرح سید محمد مہدی بحر العلوم کا خیال ہے کہ اگر یہ باتیں سچ ہیں تو دوسرے ضعیف راویوں کی طرح اس کی مذمت کے بارے میں بھی ائمہ معصومینؑ کی روایات ہونی چاہئے تھیں۔[11]

2 توثیق: وحید بہبہانی،[12] عبداللہ مامقانی، محدث نوری،[13] سید محمد مہدی بحر العلوم[14] اور شیخ طوسی کی کتاب رجال[15] یہ وہ علمائے رجال ہیں کہ جنہوں نے سہل بن زیاد کی توثیق کی ہے۔ کثرت سے روایات کرنا، شیخ طوسی کا اپنی کتاب رجال میں اس کی وثاقت کو درج کرنا، کتب اربعہ کے مصنفین کا اس کے اوپر اعتماد خاص طور سے شیخ کلینی کا اعتماد کرنا، [16] شیخ اجازہ ہونا، اور فقہا کا اس کی روایات کی بنا پر فتوی دینا وغیرہ یہ سب وہ دلائل ہیں جو مندرجہ بالا علمائے رجال نے پیش کئے ہیں۔[17] آیت اللہ خوئی نے یہ احتمال دیا ہے کہ شیخ طوسی کے ذریعہ جو سہل بن زیاد کی توثیق ہوئی ہے وہ نسخہ لکھنے والوں نے اضافہ کیا ہے یا خود شیخ طوسی سے سہو القلمی (دھوکے سے لکھ گیا) ہو گئی ہے۔[18]

روایات پر اعتماد

علامہ بحر العلوم اور علامہ مجلسی کے نظریہ کے مطابق اگر سہل کی وثاقت کو قبول نہ کیا جائے تب بھی اس کی روایات کا شمار حدیث صحیح میں ہوتا ہے اور وہ سب قابل اعتماد ہیں۔ اس لئے کہ وہ مشایخ اجازہ (جو بہت زیادہ روایات کو حفظ کرے، اسے لکھے اور حفظ میں دقت اور نقل حدیث میں مرجعیت کا مقام رکھے) میں سے ہے۔[19]

نقل روایت

آیت اللہ خوئی نے اپنی کتاب معجم رجال الحدیث میں فرمایا ہے کہ سہل کا نام اسناد حدیث میں 2304 بار ذکر ہوا ہے۔[20] حسن مہدوی نے اپنی کتاب «سہل بن زیاد در آیینہ علم رجال» میں کہا ہے کہ الکافی میں 1537، تہذیب میں 442، استبصار میں 139، کامل الزیارات میں 9، من لا یحضرہ الفقیہ میں 7 اور امالی صدوق میں 3 روایت سہل سے نقل ہوئی ہیں۔[21] اسی طرح کتاب التوحید اور النوادر سہل کے آثار میں شمار کی جاتی ہیں۔[22]

سہل بن زیاد نے امام محمد تقیؑ، امام علی نقیؑ اور امام حسن عسکریؑ سے روایات کو نقل کیا ہے۔[23] اس کی روایات کا موضوع اعتقادات اور فقہی زمینہ پر مشتمل ہے۔[24] محمد بن جعفر طبسی کی کتاب «مسند سہل بن زیاد آلادمی من اصحاب الامام الجواد و الہادی و العسکری علیہم‌السلام» جو سہل بن زیاد کی روایات پر پانچ جلد پر مشتمل ہے اور جس کی وسائل الشیعہ کی ترتیب کے اعتبار سے جمع آوری کی گئی ہے۔ اس کتاب میں روایات کو سند کامل اور کتاب مراۃ العقول، بحار الانوار، الوافی اور اصول کافی کی شرح کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔[25]

احمد بن فضل بن محمد ہاشمی، محمد بن احمد بن یحیی، محمد بن حسن بن صَفّار، ابن قولویہ، علی بن ابراہیم، ابوالحسین اسدی و ۔۔۔ نے سہل سے روایت کی ہے۔[26]

سہل بن زیاد کے بارے میں آثار

سہل بن زیاد کی رجالی شخصیت اور اس کی روایات کے سلسلے میں فارسی اور عربی زبان میں من جملہ کتابیں لکھی گئی ہیں:

  • «سہل بن زیاد در آیینہ علم رجال» اثر حسن مہدوی: یہ کتاب سہل کی وثاقت کے اثبات کے لئے لکھی گئی ہے۔[27] سہل کے مشایخ اور راویوں کی پہچان، اس کے بارے میں علمائے رجال کے نظریات پر گفتگو اور اس کی روایات کی تحلیل وغیرہ اس کتاب کے عناوین ہیں۔[28] مرکز فقہی ائمہ اطہارؑ نے اس کتاب کو نشر کیا ہے۔
  • دراسۃ فی شخصيۃ سہل بن زیاد و روایاتِہ اثر حیدر عبدالکریم مسجدی: اس کتاب کا محور سہل کی وہ روایات ہیں جو کتاب کافی میں نقل ہوئی ہیں اور زبان عربی میں ہے۔ سہل کی شخسیت پر گفتگو، اس کے راوی اور مشایخ وغیرہ اس کتاب کے عناوین ہیں۔۔[29]
  • سہل بن زیاد الآدمی بین الوثاقۃ و الضعف: محمد جعفر طبسی کی یہ کتاب مرکز فقہی ائمہ اطہار کے انتشارات سے نشر ہوئی ہے۔[30]


حوالہ جات

  1. نجاشی، رجال ‏النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۱۸۵۔
  2. نجاشی، رجال ‏النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۱۸۵۔
  3. شیخ صدوق، التوحید، ۱۳۹۸ھ، ص۱۰۱-۱۰۲۔
  4. طوسی، رجال، ۱۳۷۳ش، ص۳۸۷۔
  5. نجاشی، رجال ‏النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۱۸۵۔
  6. ابن ‏غضائری، الرجال، ۱۴۲۲ھ، ص۶۶-۶۷۔
  7. طوسی، فہرست، ۱۴۲۰ھ، ص۲۲۸۔
  8. خویی، معجم ‏رجال ‏الحدیث، ۱۴۱۰ھ، ج۸، ص۳۴۰۔
  9. نمازی شاہرودی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ۱۴۱۴ھ، ج۴، ص۱۷۶؛ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ھ، ج۸، ص۳۳۹۔
  10. نمازی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ۱۴۱۴ھ، ج۴، ص۱۷۶-۱۷۷۔
  11. بحرالعلوم، الفوائدالرجالیۃ، ۱۳۶۳ش، ج‌۳، ص۲۵۔
  12. دیکھئے خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ھ، ج۸، ص۳۳۹۔
  13. دیکھئے نوری، خاتمہ المستدرک، مؤسسہ آل‌ البیت، ج۵، ص۲۳۰-۲۱۳۔
  14. بحر العلوم، الفوائد الرجالیۃ، ۱۳۶۳ش، ج‌۳، ص۲۳۔
  15. طوسی، رجال الطوسی، ۱۳۷۳ش، ص۳۸۷۔
  16. بحر العلوم، الفوائد الرجالیۃ، ۱۳۶۳ش، ج‌۳، ص۲۴۔
  17. نمازی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ۱۴۱۴ھ، ج۴، ص۱۷۶-۱۷۷۔
  18. خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ھ، ج۸، ص۳۴۰۔
  19. بحر العلوم، فوائد الرجالیہ، ۱۳۶۳ش، ج۳، ص۲۵؛‌ علامہ مجلسی، الوجیزۃ فی الرجال، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ص۹۱۔
  20. خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ھ، ج۸، ص۳۴۱-۳۴۲۔
  21. مہدوی، سہل بن زیاد در آیینہ علم رجال، ۱۳۹۱ش، ص۱۵۳۔
  22. نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۱۸۵۔
  23. طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، ۱۴۰۴ھ، ج۲، ص۸۳۷۔
  24. دیکھئے مہدوی، سہل بن زیاد در آیینہ علم رجال، ۱۳۹۱ش، ص۱۵۴-۱۷۷۔
  25. طبسی، مسند سہل بن زیاد الآدمی، ۱۳۹۵ش، ص۶۰۔
  26. طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۳۶۵ش، المشیخۃ ج۱۰، ص۵۴۔
  27. دیکھئے مہدوی، سہل بن زیاد در آیینہ علم رجال، ۱۳۹۱ش، ص۱۵۰۔
  28. مہدوی، سہل بن زیاد در آیینہ علم رجال، ۱۳۹۱ش، پیشگفتار، ص۱۳۔
  29. «دراسۃ فی شخصیۃ سہل بن زیاد و روایاتہ»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حدیث شیعہ۔
  30. طبسی، «سہل بن زیاد الآدمی بین الوثاقۃ و الضعف»، مرکز فقہی ائمہ اطہار۔

مآخذ

  • ابن غضائری، احمد بن حسین، الرجال، تحقیق محمد رضا حسینی جلالی، قم، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی دارالحدیث، ۱۴۲۲ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، قم، مرکز نشر آثار شیعہ، ۱۴۱۰ق/۱۳۶۹ ہجری شمسی۔
  • «دراسۃ فی شخصیۃ سہل بن زیاد و روایاتہ»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حدیث شیعہ، تاریخ بازدید: ۲۷ اردیبہشت ۱۴۰۰ ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، التوحید، تصحیح ہاشم حسینی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۹۸ھ۔
  • طبسی، محمد جعفر، مسند سہل بن زیاد الآدمی من اصحاب الامام الجواد و الہادی و العسکری علیہم‌السلام، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار، ۱۳۹۵ ہجری شمسی۔
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تصحیح محمد آخوندی و حسن خرسان، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۳۶۵ہجری شمسی۔
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، تصحیح جواد قیومی اصفہانی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجامعۃ المدرسین بقم المقدسۃ، چاپ سوم، ۱۳۷۳ ہجری شمسی۔
  • طوسی، محمد بن حسن، فہرست کتب الشیعہ و اصولہم و اسماء المصنفین و اصحاب الرسول، تحقیق عبدالعزیز طباطبایی، قم، مکتبۃ المحقق الطباطبائی، ۱۴۲۰ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمد باقر، الوجیزۃ فی الرجال، تحقیق محمد کاظم رحمان‌ ستایش، تہران، وازرت فرہنگ و ارشاد اسلامی، بی‌تا۔
  • مہدوی، حسن، سہل بن زیاد در آیینہ رجال، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار (ع)، ۱۳۹۱ہجری شمسی۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، تحقیق موسی شبیری زنجانی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۳۶۵ ہجری شمسی۔
  • نمازی شاہرودی، علی، مستدرکات علم رجال الحدیث، تہران، ۱۴۱۴ھ۔
  • نوری، میرزا حسین، خاتمہ مستدرک الوسائل، قم، مؤسسہ آل‌البیت لاحیاء التراث، بی‌تا۔