قرضہ

ویکی شیعہ سے
(قرض الحسنہ سے رجوع مکرر)

قَرْضہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو واپس کرنے کی شرط پر کسی کو دیا جاتا ہے۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے مطابق قرضہ دینا ایک مستحب عمل ہے جس پر شریعت میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور قرض دینے والے کو اس کام کے بدلے بہت زیادہ اجر و ثواب دیا جائے گا۔ اسی طرح احادیث میں خوش اسلوبی کے ساتھ قرض واپس کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

فقہی مآخذ میں بلوغ، عقل، قصد اور اختیار جیسے عمومی شرائط کے علاوہ قرض سے متعلق خصوصی احکام بھی بیان ہوئے ہیں من جملہ یہ کہ اگر قرضہ واپس کرنے کیلئے کوئی تاریخ مقرر کی گئی ہو تو قرض دینے والا اس تاریخ سے پہلے قرض واپس نہیں لے سکتا ہے۔

لغوی اور اصطلاحی معانی

قَرْضہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو واپس کرنے کی شرط پر کسی کو دیا جاتا ہے۔[1] قرآن کریم کی بعض آیتوں میں قرض الحسنہ کی تعبیر آئی ہے۔[2] اور قرض الحسنہ اس قرض کو کہا جاتا ہے جو حلال مال سے دیا جائے اور احسان جتانے کے ذریعے اسے ضایع نہ ہونے دے۔[3] البتہ فقہی اعتبار سے ربا اور سود سے پاک قرض کو بھی قرض الحسنہ کہا جاتا ہے۔[4]

قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں قرض الحسنہ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اسے خدا کیلئے قرض دینے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔[5] سورہ بقرہ آیت نمبر 245، سورہ مائدہ آیت نمبر 12، سورہ حدید آیت نمبر 11 اور 18، سورہ تغابن آیت نمبر 17 اور سورہ مزمل آیت نمبر 20 قرض الحسنہ کے بارے میں ہیں۔[6] توضیح المسائل میں مراجع نے قرض الحسنہ سے متعلق احکام بھی بیان کیئے ہیں۔[7]

اہمیت اور ضرورت

قرآن کریم اور معصومینؑ سے نقل شدہ احادیث کے مطابق قرض دینا ایک مستحب عمل ہے جس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور قرض‌ دینے والے کو قیامت کے دن بہت زیادہ اجر و ثواب دیا جائے گا۔[8] اسی طرح خوش اسلوبی کے ساتھ قرض واپس کرنا نیز قرض لینے والے کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کے بارے میں بھی احادیث میں سفارش کی گئی ہے؛ امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق جو شخص کسی ضرروت مند کو قرض دے اور اسے واپس لینے میں سختی سے پیش نہ آئے تو خدا اس کے سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔[9] اسی طرح پیغمبر اسلامؐ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ قرض دینا صدقہ دینے سے بھی افضل ہے۔[10]

قرض دینے کی اتنی سفارش ہونے کے باوجود بعض احادیث میں قرض لینے کی مذمت کی گئی ہے؛ من جملہ یہ کہ امام علیؑ سے منسوب ایک حدیث میں قرض لینے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ قرض لینے والا دن کو دوسروں(قرض دینے والا) کے سامنے ذلیل ہوتا ہے(احسان اٹھانا پڑتا ہے) اور یہ چیز رات کو اس کی پریشانی اور نگرانی کا سبب بنتی ہے۔[11]

فقہی احکام

فقہی اعتبار سے کسی مال کو واپس کرنے کی شرط پر کسی کی ملکیت قرار دینا "قرض" کہلاتا ہے۔[12]

قرض کے صحیح ہونے کیلئے بلوغ، عقل، قصد اور ارادہ و اختیار جیسے عمومی شرائط کے علاوہ بعض مخصوص شرائط کی بھی ضرورت ہوتی ہے من جملہ یہ کہ قرض دینے والی چیز قابل تملیک ہو پس شراب اور سور وغیرہ کو قرضے کے طور پر دینا صحیح نہیں ہے اسی طرح اس چیز کی مقدار بھی معین ہو مبہم نہ ہو۔[13]

قرض کے بعض احکام

شیعہ قفہ کے مطابق اگر قرض دیتے وقت اس کی واپسی کی تاریخ معین کی گئی ہو تو قرض دینے والا اس تاریخ سے پہلے قرض واپس نہیں لے سکتا لیکن اگر کوئی تاریخ معین نہ کی گئی ہو تو قرض دینے والا جب چاہے قرض کی واپسی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔[14]

اگر قرض‌ دینے والا اسے واپس کرنے کا مطالبہ کرے تو قرض لینے والے پر اس کی فوری ادائیگی واجب ہے اور قرض کی ادائیگی میں تأخیر کرنا گناہ اور معصیت شمار ہو گی۔[15]

قرض میں سود کا حکم

قرض سے مربوط مسائل میں سے ایک اہم شرعی حکم، سود اور ربا کا حکم ہے؛ قرض میں سود اور ربا، قرض کی مطلوبہ مقدار سے کچھ زیادہ ادا کرنے کی شرط رکھنے کو کہا جاتا ہے خواہ قرض دیتے وقت اس کی تصریح کی گئی ہو یا نہیں۔[16] البتہ قرض لینے واپس کرتے وقت اپنی مرضی سے کوئی اضافی چیز دے دے تو یہ چیز شیعہ اور اہل سنت تمام فقہاء کے نزدیک نہ ربا اور سود میں شامل ہے اور نہ حرام ہے۔[17]

حوالہ جات

  1. مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی،‌ فرہنگ فقہ، ج۶، ۱۳۹۵ش، ص۵۴۹۔
  2. مراجعہ کریں: سورہ بقرہ، آیہ ۲۴۵؛ سورہ مزمل، آیہ ۲۰؛ سورہ تغابن، آیہ ۱۷؛ سورہ حدید، آیہ ۱۱ و ۱۸۔
  3. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۵۰ش، ج۳، ص۷۲۔
  4. جوادی آملی، تسنیم، ۱۳۸۵ش، ج۱۱، ص۵۸۳۔
  5. مکارم شیرازی، ربا و بانکداری اسلامی، ۱۳۸۰ش، ص۱۲۷۔
  6. مکارم شیرازی، ربا و بانکداری اسلامی، ۱۳۸۰ش، ص۱۲۷۔
  7. مراجعہ کریں: صافی گلپایگانی، جامع الاحکام، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۳۰۲-۳۰۳۔
  8. فلاح‌زادہ، احکام دین، ۱۳۷۴ش، ص۱۸۶؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، ۱۳۹۰ق، ج۱، ص۶۵۲۔
  9. صدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ۱۳۸۲ش، ص۲۶۷۔
  10. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۰۔
  11. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۹۵، ح۱۱؛ آمدی، غررالحکم و دررالکلم، ۱۴۱۰ق، ص۳۶۳، ح۸۲۱۴؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۹۶۴م، ج۲۰، ص۳۰۶، ح۵۰۳۔
  12. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، ۱۳۹۰ق، ج۱، ص۶۵۱۔
  13. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، ۱۳۹۰ق، ج۱، ص۶۵۲۔
  14. اصولی، رسالہ توضیح المسایل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، ج۲، ص۳۹۱، مسئلہ ۲۲۷۵۔
  15. اصولی، رسالہ توضیح المسایل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، ج۲، ص۳۹۲، مسئلہ ۲۲۷۶۔
  16. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۲۵، ص۵-۷؛ مکارم شیرازی، بررسی طرق فرار از ربا، ۱۳۸۰ش، ص۱۷-۱۹۔
  17. شفیعی مازندرانی، وام و ربا در نگرش اسلامی، ۱۳۷۹ش، ص۷۵۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • آمدی، عبدالواحد بن محمد، غررالحکم و درر الکلم، قم، دارالکتاب الاسلامی، ۱۴۱۰ھ۔
  • ابن ابی‌الحدید، عبدالحمید، شرح نہج البلاغۃ، قم، مکتبۃ آیۃ‌اللہ المرعشی النجفی، ۱۹۶۴ء۔
  • احمدی میانجی، علی، خاطرات آیت اللہ علی احمدی میانجی، بر اساس نسخہ کتابخانہ دیجیتال نور۔
  • اصولی، احسان، و محمدحسن بنی‌ہاشمی خمینی، رسالہ توضیح المسایل (مراجع)، قم، دفتر انتشارات اسلامی۔
  • امام خمینی، تحریرالوسیلۃ، النجف الأشرف، مطبعۃ الآداب، ۱۳۹۰ھ۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، تسنیم، قم، نشر اسراء، چ اول، ۱۳۸۵ہجری شمسی۔
  • شریف رازی، محمد، گنجینہ دانشمندان، ج۹، قم، ناشر: نویسندہ، ۱۳۷۰ہجری شمسی۔
  • شفیعی مازندرانی، محمد، وام و ربا در نگرش اسلامی، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • صافی گلپایگانی، لطف اللہ، جامع الاحکام، قم، دفتر نشر آثار حضرت آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی، ۱۳۸۵ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ترجمہ محمدرضا انصاری محلاتی، قم، نسیم کوثر، ۱۳۸۲ہجری شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، ترجمہ ہاشم رسولی، تہران، انتشارات فراہانی، ۱۳۵۰ہجری شمسی۔
  • فلاح‌زادہ، محمدحسین، احکام دین: مطابق با فتاوای مراجع بزرگ تقلید، تہران، نشر مشعر، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، بررسی طرق فرار از ربا، تہیہ و تدوین ابوالقاسم علیان‌نژادی، قم، مدرسۃ الامام علی بن ابیطالب، ۱۳۸۰ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، ربا و بانکداری اسلامی،‌ تہیہ و تنظیم ابوالقاسم علیان‌نژادی، قم، مدرسۃ الامام علی بن ابی طالب، ۱۳۸۰ہجری شمسی۔
  • مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، قم، مرکز دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، ۱۳۸۲ہجری شمسی۔
  • نجفی، شیخ محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، ۱۳۶۲-۱۳۶۹ہجری شمسی۔