عبد النبی جزائری
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | عبدالنبی بن سعد جزائری |
آبائی شہر | جزائر کا علاقہ (بصرہ شمال غربی) |
رہائش | کربلا |
تاریخ وفات | سنہ 1021 ہجری |
مدفن | شیراز |
علمی معلومات | |
اساتذہ | صاحب مدارک، محقق کرکی |
شاگرد | سید میرزا جزائری |
تالیفات | حاوی الاقوال، المبسوط فی الامامہ |
خدمات |
عبد النّبی جزائری (وفات سنہ 1021 ھ) گیارہویں صدی کے شیعہ عالم اور رجال شناس تھے۔ ان کا شمار علمائے رجال کے بانیان، جمع آوری کرنے والے اور محققین کی تقسیم کرنے والوں کے موجد کے طور پر کیا جاتا ہے۔ راویوں کی تقسیم بندی کے اعتبار سے حدیث کی چار قسمیں (صحیح، مُوَثَّق، حَسَن اور ضعیف) بھی انہیں کی ایجاد ہیں۔
صاحب مدارک سید محمد موسوی اور محقق کرکی ان کے استاد تھے نیز علم رجال کی کتاب حاوی الاقوال اور موضوع امامت پر المبسوط فی الامامہ ان کے آثار میں سے ہیں۔
سوانح حیات
عبد النبی جزائری کی تاریخ ولادت کی صحیح اطلاع نہیں مل سکی۔ ان کے بعض اساتید اور شاگردان کے اقوال سے پتہ چلتا ہے کہ شاید ان کی ولادت تقریبا دسویں صدی کے بیچ میں ہوئی ہے۔[1] ان کے والد کا نام سعد ذکر ہوا ہے؛ [2] البتہ سوانح نگار عبداللہ بن عیسی افندی ان کے باپ کا نام سعد ہونے کے سلسلہ میں تردید کرتے ہیں۔[3]
عبدالنبی جزائری در اصل جزائر کے رہنے والے تھے۔[4] جزائر وہ علاقہ ہے جو عراق کے بصرہ شہر کے شمال غرب میں واقع ہے جسے جِبایش کہا جاتا ہے۔[5] انہوں نے نجف میں تعلیم حاصل کی[6] اور اپنی زندگی کی دو دہائی میں کربلا میں سکونت اختیار کی۔[7] وہ علمائے شیعہ جیسے صاحب معالم (وفات سنہ 1011 ھ)، صاحب مدارک (وفات سنہ 1009 ھ) اور شیخ بہائی (وفات سنہ 1031 ھ) کے ہم عصر تھے۔[8]
جزائری کا انتقال 18 جمادی الاول سنہ 1021 ھ کو اصفہان اور شیراز کے مابین ایک گاؤں میں ہوا۔ ان کی قبر شیراز میں ہے۔[9]
تعلیم و تدریس
عبد النبی جزائری نے علوم اسلامی کو حوزہ علمیہ نجف سے حاصل کیا۔ صاحب مدارک سید محمد موسوی[10] اور محقق کرکی[11] ان کے استاد تھے، البتہ عبداللہ بن عیسی افندی نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ محقق کرکی، جزائری کے استاد تھے کیونکہ دونوں کی عمر میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔[12] اس کے باوجود شیعہ عالم دین محدث نوری نے اس اجازہ کی بنا پر جسے علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں ذکر کیا ہے، محقق کرکی کو جزائری کا استاد مانتے ہیں اگرچہ شاگردی کے وقت جزائری کی عمر کم رہی ہو۔[13]
جزائری نے صاحب مدارک سید محمد موسوی سے بھی اجازہ حاصل کیا تھا۔[14]
ان کے شاگردوں نے ان کے بارے میں یوں بیان کیا ہے:
- سید میرزا محمد بن شرف الدین جزائری جو سید میرزا جزائری[15] کے نام سے معروف تھے جو محدثین شیعہ [16] کتاب جوامع الکلام فی دعائم الاسلام کے مصنف تھے۔[17]
- سید میرزا جزائری کے والد سید شرف الدین علی حسینی تھے۔[18]
- محمد بن حسین احسائی[19] جنہوں نے حدیثی کتاب لکھی تھی۔[20]
- جابر بن عباس نجفی،[21] جنہوں نے علامہ مجلسی سے روایات نقل کی ہیں۔[22]
- فضل بن محمد بن فضل عباسی[23]
- سید اسماعیل بن علی صالح فلجی جزائری[24]
علم رجال میں تبدیلی کا موجد
بعض لوگوں نے عبد النبی اور سید مصطفی حسین تفرشی کو علم رجال و راویوں کے تنقیدی دورہ کا آغازگر جانا ہے۔[25] سلیمان بن عبداللہ ماحوزی نے علمائے رجال کو چار حصوں میں بانی، تکمیل کرنے والا، جمع آوری کرنے والا اور منقحین (محققین) میں تقسیم کیا ہے نیز جزائری کو دورہ منقحین کا آغازگر جانا ہے[26] اور علم رجال کی تحقیقی طور پر چھان بین کرتے ہوئے تنقیدی نگاہ سے راویوں کو جرح و تعدیل کے اعتبار سے بیان کیا ہے۔[27] البتہ جزائری سے پہلے بعض علما جیسے شہید ثانی نے علم رجال پر تنقیدی بحث کی ہے لیکن تمام راویوں اور علم رجال کے تمام پہلؤوں کو مد نظر نہیں رکھا ہے۔[28]
عبدالنبی جزائری پہلے ایسے عالم رجال ہیں جنہوں نے راویوں کو حدیث کی چار قسموں (صحیح، مُوَثَّق، حَسَن اور ضعیف) میں تقسیم کیا ہے۔[29] ان سے پہلے راویوں کی چھان بین کے سلسلہ سے کوئی تقسیم بندی نہیں ہوئی تھی یا اگر ہوئی تھی تو فقط دو تقسیم تھی یا حدیث صحیح یا حدیث ضعیف۔[30]
تیرہویں صدی کے عالم رجال ابو علی حائری کے مطابق جزائری بھی ابن غضائری کی طرح تھے کہ جنہوں نے بہت سے ایسے راویوں کو جو تضعیف کے مستحق نہیں تھے انہیں بھی ضعیف شمار کیا تھا۔[31] اسی طرح گیارہویں صدی کے شیعہ عالم احمد بحرانی سے بھی نقل ہوا ہے کہ جزائری روایوں کی تضعیف میں بہت سختی سے کام لیتے تھے۔[32] البتہ ان کا سخت رویہ اس بات کا باعث بنا کہ وہ بعض راوی جو مورد اختلاف تھے ان کی وثاقت ثابت ہو گئی اور ان کی باتوں سے استناد کیا جانے لگا۔[33]
سید محمد باقر خوانساری کے مطابق عبدالنبی جزائری فقہ، اصول، کلام، حدیث و ۔۔۔ میں بھی مہارت رکھتے تھے۔[34]
آثار
عبد النبی جزائری نے رجال، فقہ، اصول فقہ اور کلام جیسے علوم پر کتاب لکھی ہیں:
حاوی الاقوال
حاوی الاقوال فی معرفۃ الرجال ووہ کتاب ہے جو علم رجال کے سلسلہ میں لکھی گئی اور اپنی تدوین میں نوآوری کی وجہ سے علمائے رجال کی مورد توجہ قرار پائی ہے۔[35] انہوں نے اس کتاب میں راویوں کو چار قسموں صحیح، موثق، حسن اور ضعیف کے اعتبار سے دستہ بندی کیا ہے۔[36] کتاب کے مقدمہ اور اس کے خاتمہ میں تعریف علم رجال، ائمہؑ تشیع کے القابات کی پہچان، تشیع کے ساتوں فرقوں کا بیان [37] اور اصحاب اجماع جیسے موضوعات کو بیان کیا ہے۔[38]
دوسرے آثار
- الامامۃ[39] یا المبسوط فی الامامہ:[40] جو کہ چار حصوں میں تقسیم ہوئی ہے۔ مفہوم امامت، خدا کی طرف سے امام کے منصوب ہونے کا وجوب، ائمہؑ کی خصوصیات اور ائمہؑ تشیع۔[41]
- نہایۃ التقریب فی شرح تہذیب الوصول اِلی علم الاصول: جو کہ علامہ حلی کی تہذیب الوصول پر دو جلدوں میں شرح مَزْجی[یادداشت 1] کی صورت میں ہے۔[42]
- الاقتصاد فی شرح الاِرشاد: علامہ حلی کی کتاب ارشاد الاذہان پر کتاب الزکاۃ کے آخر تک شرح مزجی ہے۔[43]
- حاشیہ: علامہ حلی کی کتاب ارشاد الاذہان میں کتاب النکاح تک کہ جس میں فتوی پر اکتفا کیا گیا ہے۔[44]
- حاشیہ: محقق حلی کی کتاب المختصر النافع فی فقہ الاِمامیہ پر۔[45]
- حاشیہ: شیخ طوسی کی حدیثی کتاب تہذیب الاَحکام پر۔[46]
- اَجْوِبَۃ مسائل الشیخ جابر بن عباس النجفی اصولیَّۃ و فقہیَّہ، کہ جو ان کے شاگرد جابر بن عباس نجفی کے علم فقہ و اصول کے سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے۔[47]
نوٹ
- ↑ ایسی شرح کہ جس کا متن اصلی سے جدا کرنا صرف معین شدہ علامات کے ذریعہ ہی ممکن ہوتا ہے۔(دہخدا، لغت نامہ دہخدا، کلمہ شرح کے زمرہ میں)
حوالہ جات
- ↑ جزائری، حاوی الاقوال، ۱۴۱۸ھ، مقدمہ، ج۱، ص۱۱۔
- ↑ برای نمونہ نگاہ کریں خوانساری، روضات الجنات، ۱۳۹۰ھ، ج۴، ص۲۶۹۔
- ↑ افندی، تعلیقۃ امل الآمل، ۱۴۱۰ھ، ص۱۸۳۔
- ↑ خوانساری، روضات الجنات، ۱۳۹۰ھ، ج۴، ص۲۶۸۔
- ↑ جزائری، حاوی الاقوال، ۱۴۱۸ھ، ج۱، مقدمہ، ص۳۹۔
- ↑ خوانساری، روضات الجنات، ۱۳۹۰ھ، ج۴، ص۲۶۸۔
- ↑ جزائری، حاوی الاقوال، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۳۶۔
- ↑ ربانی، سبک شناسی دانش رجال الحدیث، ۱۳۸۵ش، ص۱۵۹۔
- ↑ افندی، ریاض العلماء، ۱۴۳۱ھ، ج۳، ص۲۷۵۔
- ↑ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف، ۱۴۲۷ھ، ج۴، ص۲۶۱۔
- ↑ حر عاملی، امل الآمل، مکتبۃ الاندلس، ج۲، ص۱۶۵۔
- ↑ افندی، ریاض العلماء، ۱۴۳۱ھ، ج۳، ص۲۷۳۔
- ↑ محدث نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۲۹ھ، ج۲۰، ص۱۷۹۔
- ↑ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف، ۱۴۲۷ھ، ج۴، ص۲۶۱۔
- ↑ قمی، الکنی و الالقاب، ۱۳۶۸ش، ج۲، ص۳۳۱۔
- ↑ افندی، ریاض العلماء، ۱۴۳۱ھ، ج۷، ص۱۳۹۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ، ۱۴۰۳ھ، ج۵، ص۲۵۲۔
- ↑ خوانساری، روضات الجنات، ۱۳۹۰ھ، ج۴، ص۲۷۱۔
- ↑ جزائری، حاوی الاقوال، ۱۴۱۸ھ، ج۱، مقدمہ، ص۱۶۔
- ↑ حر عاملی، امل الآمل، مکتبۃ الاندلس، ج۲، ص۲۶۷۔
- ↑ اسماعیلیان، روضات الجنات، ۱۳۹۰ھ، ج۲، ص۱۷۱۔
- ↑ حر عاملی، امل الآمل، مکتبۃ الاندلس، ج۲، ص۴۸۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۲۰۷۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، ۱۴۳۰ھ، ج۸، ص۴۸۔
- ↑ ربانی، سبکشناسی دانش رجال الحدیث، ۱۳۸۵ش، ص۲۴۔
- ↑ بحرانی، معراج اہل الکمال، ۱۴۱۲ھ، مقدمہ مؤلف، ص۷-ص۲۴۔
- ↑ بحرانی، معراج اہل الکمال، ۱۴۱۲ھ، مقدمہ مؤلف، ص۱۸-ص۲۴۔
- ↑ بحرانی، معراج اہل الکمال، ۱۴۱۲ھ، مقدمہ مؤلف، ص۲۳۔
- ↑ ربانی، سبک شناسی دانش رجال الحدیث، ۱۳۸۵ش، ص۱۵۹۔
- ↑ مازندرانی حائری، منتہی المقال، ۱۴۱۶ھ، مقدمہ، ص۳۱۔
- ↑ مازندرانی حائری، منتہی المقال، ۱۴۱۶ھ، مقدمہ، ص۳۱۔
- ↑ ربانی، سبک شناسی دانش رجال الحدیث، ۱۳۸۵ش، ص۱۶۰۔
- ↑ ربانی، سبکشناسی دانش رجال الحدیث، ۱۳۸۵ش، ص۱۶۰۔
- ↑ خوانساری، روضات الجنات، ۱۳۹۰ھ، ج۴، ص۲۶۹۔
- ↑ ربانی، سبک شناسی دانش رجال الحدیث، ۱۳۸۵ش، ص۱۵۹۔
- ↑ ربانی، سبک شناسی دانش رجال الحدیث، ۱۳۸۵ش، ص۱۵۹۔
- ↑ ربانی، سبک شناسی دانش رجال الحدیث، ۱۳۸۵ش، ص۱۶۴۔
- ↑ طلاییان، مأخذ شناسی رجال شیعہ، ۱۳۸۱ش، ص۹۱۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۲، ص۳۲۹۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۱۹، ص۵۳۔
- ↑ خوانساری، روضات الجنات، ۱۳۹۰ھ، ج۴، ص۲۷۱۔
- ↑ آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، ۱۴۰۶ھ، ج۲، ص۹۰۔
- ↑ آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، ۱۴۰۶ھ، ج۲، ص۹۰۔
- ↑ آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، ۱۴۰۶ھ، ج۲، ص۹۱۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، ۱۴۳۰ھ، ج۸، ص۳۵۸۔
- ↑ خوانساری، روضات الجنات، ۱۳۹۰ھ، ج۴، ص۲۷۱۔
- ↑ آل محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، ۱۴۰۶ھ، ج۲، ص۹۱۔
مآخذ
- آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، گردآوری احمد بن محمد حسینی، بیروت، دار الاضواء، ۱۴۰۳ھ۔
- آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، طبقات اعلام الشیعۃ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۳۰ھ۔
- آل محبوبہ، جعفر بن باقر، ماضی النجف و حاضرہا، بیروت، دار الاضواء، ۱۴۰۶ھ۔
- افندی، عبداللہ بن عیسی بیگ، تعلیقۃ امل الآمل، بہ تحقیق احمد حسینی اشکوری، قم، کتابخانہ عمومی حضرت آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی، ۱۴۱۰ھ۔
- افندی، عبداللہ بن عیسی بیگ، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، بہ تحقیق احمد حسینی اشکوری، بہ اہتمام محمود مرعشی، بیروت، مؤسسۃ التاریخ العربی، ۱۴۳۱ھ۔
- بحرانی، سلیمان بن عبداللہ، معراج اہل الکمال الی معرفۃ الرجال، بہ تحقیق مہدی رجایی و عبدالزہراء عویناتی، بیجا، عبدالزہراء العویناتی، ۱۴۱۲ھ۔
- جزائری، عبد النبی بن سعد الدین، حاوی الاقوال فی معرفۃ الرجال، بہ تحقیق مؤسسہ الہدایہ لاحیاء التراث، قم، ریاض الناصری، ۱۴۱۸ھ۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، امل الآمل فی علماء جبل عامل، بہ تحقیق احمد حسینی اشکوری، بغداد، مکتبۃ الاندلس، بے تا۔
- حکیم، حسن عیسی، المفصل فی تاریخ النجف الاشرف، المکتبۃ الحیدریۃ، قم، ۱۴۲۷ھ۔
- خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، بہ تحقیق اسداللہ اسماعیلیان، قم، دہقانی (اسماعیلیان)، ۱۳۹۰ھ۔
- دہخدا، علی اکبر، لغتنامہ، زیر نظر جعفر شہیدی، بہ کوشش اکرم سلطانی و دیگران، تہران، دانشگاہ تہران، ۱۳۸۵ہجری شمسی۔
- ربانی، محمد حسن، سبک شناسی دانش رجال الحدیث، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)، ۱۳۸۵ہجری شمسی۔
- طلاییان، رسول، مأخذ شناسی رجال شیعہ، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی دار الحدیث، ۱۳۸۱ہجری شمسی۔
- قمی، شیخ عباس، الکنی و الالقاب، با مقدمہ محمد ہادی امینی، مکتبۃ الصدر، تہران، ۱۳۶۸ش
- کنتوری، اعجاز حسین بن محمد قلی، کشف الحجب و الاستار عن اسماء الکتب و الاسفار، بہ مقدمہ شہاب الدین مرعشی، قم، کتابخانہ عمومی حضرت آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی، ۱۴۰۹ھ۔
- مازندرانی حائری، محمد بن اسماعیل، منتہی المقال فی احوال الرجال، بہ تحقیق مؤسسۃ آل البیت (ع) لاحیاء التراث، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع) لاحیاء التراث، ۱۴۱۶ھ۔