مفسد فی الارض

ویکی شیعہ سے

مُفسِد فِی الاَرض (زمین میں فساد پھیلانے والا) اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بعض گناہوں اور مجرمانہ حرکتوں کے ذریعے معاشرے سے آزادی، عدالت اور امنیت کو چھین کر معاشرے کو عام حالت سے خارج کرے۔ یہ اصطلاح قرآن سے مأخوذ ہے۔ بعض فقہاء آیہ محاربہ سے استناد کرتے ہوئے مفسد فی‌الارض کو محاربہ سے مختلف سمجھتے ہوئے اس کی سزا موت قرار دیتے ہیں۔ جبکہ بعض فقہاء ان دونوں عناوین کو ایک سمجھتے ہوئے مفسد فی الارض کے لئے بھی محاربہ ہی کی سزا تجویز کرتے ہیں۔

شیعہ فقہاء اغوا، اہل ذمہ کے قتل کی عادت، کفن لوٹنے کی عادت، سِحر(جادو) اور محرمات کی تکرار کو افساد فی الارض (زمین میں فساد پھیلانے) کے مصادیق میں سے قرار دیتے ہیں۔

اہمیت

مفسد فی الارض (یعنی زمین میں فساد پھیلانے والا) قرآن کریم سے مأخوذ ایسا عنوان ہے جس کے بارے میں قرآن میں شدید عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے۔ مفسد فی الارض [1] اور فساد فی‌الارض[2] کا عنوان قرآن کی متعدد آیات میں استعمال ہوا ہے۔

شیعہ فقہی اور حدیثی مآخذ میں "مفسد فی الارض" یا "افساد فی الارض" کے عنوان سے کوئی مستقل باب موجود نہیں بلکہ اس موضوع سے مربوط احادیث، قصاص،[3] محارب[4] اور دیات[5] جیسے ابواب میں ذکر کی گئی ہیں۔ اسی طرح اس کے احکام بھی مختلف فقہی مباحث جیسے غصب، ضمان، تعزیرات، قصاص، محاربہ، حدود اور دیات کے ذیل میں بیان ہوئے ہیں۔[6]

مفسد فی الارض اور محارب میں فرق

تفصیلی مضمون: محاربہ

بعض فقہا آیہ محاربہ سے استناد کرتے ہوئے مفسد فی‌الارض کو محارب سے الگ قرار دیتے ہیں جبکہ بعض دوسرے فقہاء ان دونوں کو ایک جیسا سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں بعض فقہاء کے نظریات درج ذیل ہیں:

  • امام خمینی (۱۲۸۱-۱۳۶۸ش) شیعہ مجتہد اور ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی مفسد فی‌الارض اور محارب کو ایک جیسا قرار دیتے ہیں۔ آپ کی نظر میں محارب اس شخص کو کہا جاتا ہے جو لوگوں کو ڈرانے اور زمین میں فساد پیدا کرنے کی غرض سے اسلحہ اٹھائے۔[7]
  • محمد مؤمن قمی (۱۳۱۶-۱۳۹۷ش) شیعہ مجتہد کے مطابق مذکورہ آیت میں اصل موضوع مفسد فی‌الارض ہے اور محارب اس کا ایک مصداق ہے، اس بنا پر جب بھی "زمین میں فساد پھیلانے" کا عنوان صدق آجائے اگرچہ محاربہ کے بغیر ہی کیوں نہ ہو مذکورہ چار سزائیں (قتل، پھانسی، ہاتھ پاؤں کاٹنا اور جلا وطن) بھی لاگو ہونگی۔[8]
  • آیت اللہ فاضل لنکرانی (۱۳۱۰ش-۱۳۸۶ش) شیعہ مرجع تقلید مفسد فی‌الارض اور محارب کے درمیان عموم و خصوص مطلق کی نسبت کے قائل ہیں؛ یعنی ہر محارب مفسد فی‌الارض ہے لیکن ہر مفسد فی الارض محارب نہیں ہو سکتا اور ہر مفسد پر محاربہ کی سزائیں لاگو نہیں ہونگی۔[9]
  • آیت اللہ مکارم شیرازی (زادہ ۱۳۰۵ش) شیعہ مرجع تقلید اس بات کے معتقد ہیں کہ مفسد فی‌الارض اور محارب دو الگ الگ مفہوم ہیں؛ مثلاً جو شخص بھاری مقدار میں منشیات کی سمگلنگ کرتا ہے وہ مفسد فی‌الارض ہے لیکن اسے محارب نہیں کہا جا سکتا؛ کیونکہ اس نے کوئی اسلحہ نہیں اٹھایا ہے، دوسری طرف سے اگر کوئی شخص ایک دفعہ ہی کیوں نہ ہو اگر لوگوں کے اوپر اسلحہ اٹھائے تو یہ شخص محارب شمار ہو گا لیکن اس پر مفسد فی‌الارض کا عنوان صدق نہیں آئے گا، مگر یہ کہ وہ یہ کام بار بار انجام دے۔[10]

"مفسد فی‌الارض" اور "محارب" کی بنسبت فقہاء کے درمیان اختلاف رائ کا اثر اسلامی جمہوری ایران کے آئین پر بھی پڑا ہے؛[11] مثلا سنہ 1392 ہجری شمسی میں پاس ہونے والے اسلامی قوانین میں "مفسد فی‌الارض" اور "محاربہ" کو دو الگ الگ موضوع کے طور پر بیان کئے گئے ہیں۔[12]

مصادیق

فقہاء بعض امور کو زمین میں فساد پھیلانے کے مصادیق کے طور پر ذکر کرتے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • بعض احادیث میں مختلف جرائم کے لئے ذکر ہونے والی سزاؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض فقہاء نے دوسروں کے گھروں اور اموال کو آگ لگانا،[13] اغوا،[14] اور اہل ذمہ کو قتل کرنے کی عادت[15] جیسے بعض امور کو "افساد فی‌الارض" کے مصادیق میں شمار کی ہیں۔
  • آیت اللہ فاضل لنکرانی کے مطابق ہر وہ جرم جس کی سزا قتل ہو جیسے زنای محصنہ، محارم کے ساتھ زنا، لواط وغیرہ "افساد فی‌الارض" کا مصداق شمار ہو گا۔[16]
  • ایران کے اسلامی قوانین کے مطابق کسی کو جسمانی طور پر ناکارہ بنانا، ملکی داخلی اور خارجی سالمیت کے خلاف جرم، جھوٹ کی ترویج، ملکی اقتصادی نظام میں خلل، جلاؤ اور تخریب، فساد و فحشا کے مراکز کا قیام یا ان کے ساتھ اس طرح سے تعاون کرنا جس سے ملکی نظام میں خلل پیدا ہو تو ایسے امور کو "افساد فی‌الارض" کے مصادیق میں شمار کیا گیا ہے۔[17]
  • اسی طرح بعض فقہاء جسم فروش، شرپنسد عناصر یا ان جیسے دیگر گروہوں کی تشکیل جس سے کم از کم معاشرے کا ایک حصہ متأثر ہو زمین میں فساد پھیلانے کا مصداق شمار ہو گا۔[18]
  • ایران کے اسلامی قوانین میں معاشی بدعنوانی کو باقاعدہ جرم مانا گیا ہے[19] اور ایسے مجرموں کے مقابلے میں سخت سزاؤں کے اجراء پر تاکید کی گئی ہے جن میں پھانسی کس سزا سر فہرست ہے۔[20] بعض محققین کے مطابق معاشی بدعنوانی میں ملوث افراد کے لیے سزائے موت دینے کا حکم کسی طاقتور فقہی سند کا حامل نہیں اس بنا پر یہ سزا معاشی بدعنوانی کے روک تھام میں مؤثر واقع نہیں ہو سکتی۔[21]

سزائیں

مفسد فی‌‌الارض کی سزا کے بارے میں اختلاف‌ نظر پایا جاتا ہے جس کا منشأ اس کی تعریف اور "محارب" کے ساتھ اس کی نسبت میں پایا جانے والا اختلاف ہے۔[22] جو اشخاص ان دونوں عناوین کو ایک سمجھتے ہیں وه یہاں بھی محاربہ کے لئے تجویز کردہ سزاؤں پر اکتفاء کرتے ہیں۔[23] آیہ محاربہ کے تناظر میں فقہاء محاربہ کی سزا چار چیزیں قرار دیتے ہیں: قتل، صلیب پر چڑھانا،[24] مخالف سمت سے ہاتھ پاؤں کا کاٹنا ا ور جلاوطنی۔ اور اس حکم پر سب کا اجماع ہے۔[25] محارب کو سزا دینے کا فلسفہ بدماشوں کے شر سے لوگوں کی جان، مال اور ناموس کی حفاظت کرنا ہے۔[26]

بعض فقہا کے مطابق مفسد فی‌الارض کو اگر محارب سے الگ عنوان قرار دیا جائے تو اس کی سزا قتل ہے۔[27] اسی طرح ایران کے اسلامی قوانین کے مطابق مفسد فی‌الارض کی سزا پھانسی ہے۔[28]

پھانسی کی سزا میں اختلاف

ایران میں سپریم جوڈیشل کونسل کے ایک رکن سید محمد موسوی بجنوردی کے مطابق امام خمینی کی نظر میں مفسد فی‌الارض بذات خود کوئی ایسا جرم نہیں جس کی سزا پھانسی ہو؛ مگر یہ کہ محاربہ کا عنوان صدق آ جائے؛[29] اسی بنا پر مفسد فی الارض کو پھانسی کی سزا تجویز کرنے کی درخواست کے جواب میں امام خمینی نے اس کام میں آیت الله منتظری کے فتوے پر عمل کرنے کی اجازت دی۔[30] آیت اللہ منتظری مفسد فی‌ الارض کو پھانسی دینا جائز سمجھتے تھے۔[حوالہ درکار]


متعلقہ صحفات

حوالہ جات

  1. سورہ بقرہ، آیہ۶۰؛ سورہ اعراف، آیہ۷۴؛ سورہ ہود، آیہ۸۵، سورہ شعراء، آیہ ۱۸۳؛ سورہ عنکبوت، آیہ۳۶؛ سورہ کہف، آیہ۹۴؛ سورہ ص، آیہ ۲۸
  2. سورہ مائدہ، آیہ۳۳؛ سورہ قصص، آیات ۷۷ و ۸۳۔
  3. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۱۶ق، ج۲۹، ص۹۔
  4. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۱۶ق، ج۲۸، ص۳۰۷۔
  5. کلینی، الکافی، ۱۳۸۷ش، ج۱۴، ص۲۷۷۔
  6. دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، الموسوعۃ الفقہیۃ، ۱۴۲۳ق، ج۱۵، ص۲۹۷۔
  7. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۴۹۲۔
  8. مؤمن قمی، کلمات سدیدہ، ۱۴۱۵ق، ص۴۰۹۔
  9. لنکرانی، تفصیل الشریعۃ، ۱۴۲۲ق، ص۴۲۸۔
  10. «وجہ تفاوت افساد فی‌الارض و محاربہ»، سایت اطلاع‌رسانی دفتر آیت‌اللہ مکارم شیرازی۔
  11. فرح‌زادی و فتح‌اللہی، «مقایسہ محاربہ با مفاہیم مشابہ»، ص۱۱۶۔
  12. «قانون مجازات اسلامی مصوب ۱۳۹۲ش»، مادہ ۲۸۶۔، سایت مرکز پژوہش‌ہای مجلس شورای اسلامی۔
  13. علامہ حلی، مختلف الشیعۃ، ۱۴۱۹ق، ج۹، ص۳۵۳۔
  14. علامہ حلی، مختلف الشیعۃ، ۱۴۱۹ق، ج۹، ص۳۳۷۔
  15. محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۹۸۶؛ شہید ثانی، مسالک الافہام، ۱۴۲۳ق، ج۱۵، ص۱۴۲۔
  16. فاضل لنکرانی، تفصیل الشریعۃ: الحدود، ۱۴۲۲ق، ص۶۳۹۔
  17. «قانون مجازات اسلامی مصوب ۱۳۹۲ش»، سایت مرکز پژوہش ہای جلس شورای اسلامی۔
  18. فرح‌زادی و فتح‌اللہی، «مقایسہ محاربہ با مفاہیم مشابہ»، ص۱۱۴۔
  19. میرخلیلی و حیدری، «بررسی مبانی فقہی اعدام مجرمان اقتصادی»، ص۸۵۔
  20. «قانون مجازات اسلامی، مصوب ۱۳۹۲ش، مادہ ۴۷ و ۲۸۶»، سایت مرکز پژوہش‌ہای مجلس شورای اسلامی۔
  21. میرخلیلی و حیدری، «بررسی مبانی فقہی اعدام مجرمان اقتصادی»، ص۹۴۔
  22. شاہرودی، «محاربہ چیست و محارب کیست؟»، ص۱۸۷۔
  23. شاہرودی، «محاربہ چیست و محارب کیست؟»، ص۱۸۷۔
  24. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، ۱۴۲۷ق، ج۳، ص۶۰۹۔
  25. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، ۱۴۲۷ق، ج۳، ص۵۵۸۔
  26. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ۳۶۱۔
  27. فاضل لنکرانی، تفصیل الشریعۃ: الحدود، ۱۴۲۲ق، ص۶۳۹۔
  28. «قانون مجازات اسلامی مصوب ۱۳۹۲ش»، سایت مرکز پژوہش ہای جلس شورای اسلامی۔
  29. «امام مخالف اعدام مفسد فی الارض بود»، پرتال امام خمینی۔
  30. امام خمینی، صحیفہ امام، ۱۳۸۹ش، ج۲۰، ص۳۹۷۔

مآخذ

  • ابطحی کاشانی، سید محمد، «بحثی پیرامون مفسد فی الارض»، در فصلنامه نور علم، شماره ۴، ۱۳۶۳شمسی۔
  • ابن‌منظور، جمال الدین، لسان العرب، بیروت، دار صادر، ۱۴۱۴ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌الله، تحریر الوسیله، نجف اشرف، دار الکتب العلمیة، ۱۳۹۰ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌الله، صحیفه امام، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۹شمسی۔
  • «امام مخالف اعدام مفسد فی الارض بود»، سایت پرتال امام خمینی، تاریخ درج مطلب: ۱۲ اسفند ۱۳۹۲ش، تاریخ مشاہدہ: ۲۲ آذر ۱۴۰۰شمسی۔
  • بای، حسینعلی، «افساد فی الارض چیست؟ و مفسد فی الارض کیست؟»، فقه و حقوق، شماره ۹، ۱۳۸۵شمسی۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، قم، مؤسسة آل البیت علیهم‌السلام لإحیاء التراث، چاپ سوم، ۱۴۱۶ھ۔
  • دایرة المعارف الفقه الاسلامی، الموسوعة الفقهیة، قم، دایرة المعارف الفقه الاسلامی، ۱۴۲۳ھ۔
  • راغب اصفهانی، ابوالقاسم حسین بن محمد، مفردات عن غریب القرآن، دمشق، دار القلم، ۱۴۱۲ھ۔
  • شاهرودی، سید محمود، «محاربه چیست؟ محارب کیست؟»، مجله فقه اهل بیت، شماره ۱۱ و ۱۲، ۱۳۷۶شمسی۔
  • علامه حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعة، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، ۱۴۱۹ھ۔
  • فاضل لنکرانی، محمد، تفصیل الشریعة، قم، مرکز فقه الائمة الاطهار، ۱۴۲۲ھ۔
  • فرح‌زادی، علی‌اکبر، و سید کامران فتح‌اللهی، «مقایسه محاربه با مفاهیم مشابه»، دوفصلنامه فقه مقارن، شماره ۲، پاییز و زمستان ۱۳۹۲شمسی۔
  • «قانون مجازات اسلامی مصوب ۱۳۹۲ش»، سایت مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی، تاریخ مشاہدہ: ۵ آذر ۱۴۰۰شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، قم، دار الحدیث، چاپ اول، ۱۳۸۷شمسی۔
  • «لایحه مجازات اسلامی مصوب ۱۳۷۰ش»، سایت مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی، تاریخ مشاہدہ: ۵ آذر ۱۴۰۰شمسی۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام، تهران، استقلال، چاپ دوم، ۱۴۰۹ھ۔
  • منتظری، حسینعلی، رسالة الحقوق فی الاسلام، تهران، انتشارات سرایی، چاپ هفتم، ۱۳۹۴شمسی۔
  • موسوی اردبیلی، سیدعبدالکریم، فقه الحدود و التعزیرات‌، قم، مؤسسة النشر لجامعة المفید رحمه الله‌، چاپ دوم، ۱۴۲۷ھ۔
  • مؤمن قمی، محمد، کلمات سدیده، قم، مؤسسه النشر الاسلامی، ۱۴۱۵ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دارالکتب الاسلامیه، ۱۳۷۱شمسی۔
  • «وجه تفاوت افساد فی الارض و محاربه»، سایت اطلاع رسانی دفتر آیت الله مکارم شیرازی، تاریخ مشاہدہ: ۲ آذر ۱۴۰۰شمسی۔