جوہری ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے پر حرام کا فتوا

ویکی شیعہ سے

جوہری ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے پر حرام کا فتوا، آیت اللہ خامنہ ای کا ایک فقہی فتوا ہے جو اسرائیل کے اس ادعا کے جواب میں صادر ہوا کہ ایران ایٹمی اسلحہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے کو انسان کے لئے ایک خطیر خطرہ اور حرام سمجھتے ہیں۔

بعض محققین نے اس حکم کی حرمت کو قرآنی آیات اور ان روایات سے استناد کیا ہے جن میں عام شہری کو جنگ کی حالت میں مارنے کی ممانعت ہوئی ہے۔ ابو القاسم علی دوست کہتے ہیں کہ جو اسلحہ عام لوگوں کے قتل کا باعث بنتا ہے ایسے اسلحے کا استعمال حرام ہونے میں شیعہ فقہا کا ماضی میں بھی فتوا رہا ہے اور یہ کم سے کم دس صدیاں پہلے کا فتوا ہے۔

اس فتوا کو سیاسی اعتبار سے بین الاقوامی سطح پر بڑی پذیرائی ملی اور اقوام متحدہ میں ایک رسمی سند کے اعتبار سے درج ہوگئی۔ کتاب «فقہ ہستہ ای» بعض محققین کی لکھی گئی کتاب ہے۔ اسی طرح جابر سیوانی زاد کی کتاب «فتوای ہستہ ای از منظر حقوق بین الملل» میں ایٹمی اسلحے کو بنانے اور اس کے استعمال کے حرام ہونے کے دلائل کو بیان کیا ہے۔

اہمیت

اسرائیل کی حامی میڈیا کی جانب سے ایران پر جوہری ہتھیار بنانے کے الزام پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے یہ فتوا جاری کیا۔[1] یہ فتوا رسمی طور پر ایران میں 22 اپریل 2000ء کو پہلی «کنفرانس بین المللی خلع سلاح و عدم اشاعہ سلاح ہای ہستہ ای» (جوہری ہتھیار کی تخفیف اور عدم پھیلاؤ انٹرنیشنل کانفرنس تہران) میں رسمی طور پر پڑھا گیا۔[2]

ایران کی اٹامیک انرجی آرگنائزیشن کے اس وقت کے سربراہ علی اکبر صالحی سے ایران کی ایٹم بم بنانے کی کوششوں کے بارے میں کئے جانے والے بعض سوالات کے جواب میں کہا کہ ایران کی مصلحت اسی میں ہے کہ وہ ایٹمی اسلحہ بنانا حرام ہونے کے فتوے کی پیروی کرے۔[3] امریکہ کے اس وقت کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی امریکہ اور ایران کے مذاکرات کی زمینہ سازی کے دوران مارچ سنہ 2012ء کو اس فتوے کی طرف اشارہ کیا۔[4] امریکہ کے اس وقت کے صدر بارک اوباما نے بھی 25 ستمبر 2013ء کو اقوام متحدہ میں اس فتوا سے استناد کیا جو میڈیا کی توجہ کا باعث بن گیا۔[5]

رد عمل

آیت اللہ خامنہ ای کا فتوا عالَمی سطح پر مشہور ہوا[6] اور بین الاقوامی سیاسی اور تحلیلی اداروں کی طرف سے وسیع رد عمل آیا۔[7] نیوز ایجنسیز کی رپورٹ کے مطابق جوہری ہتھیار کی تخفیف اور عدم پھیلاؤ انٹرنیشنل کانفرنس تہران میں ایٹمی اسلح بنانے اور اس کا استعمال حرام ہونے کے فتوے پر مشتمل آیت اللہ خامنہ ای کا پیغام اقوام متحدہ میں ایک رسمی سند کے اعتبار سے ثبت ہوگیا۔[8]

امریکہ میں گلوبل سیکورٹی انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ جانتن گرانف نے ایک انٹرویو میں ایران کے سپریم لیڈر سے درخواست کی کہ وہ دنیا میں مذہبی سربراہوں کو ایک خط میں ایٹمی اسلحے کی ہر حال میں ممنوعیت پر ان کے ساتھ متفق ہونے کے لئے ایک خط لکھے۔[9]

سنہ 2013ء کو مسیحی پادریوں اور امریکی ماہرین کا چھ نفرہ ایک وفد ایران کے شہر قم میں شیعہ علما سے ملنے آیا اور واپسی پر شیعہ فقہ میں ایٹمی اسلحے کے استعمال کی ممنوعیت اور اپنے سفر کے نتائج سے امریکی حکومت کو آگاہ کیا تاکہ ایران اور مغربی ممالک کے مابین ہونے والے ایٹمی مذاکرات میں مدنظر رکھا جائے۔[10] سنہ 2021ء کو بی بی سی فارسی ٹی وی پر ایک مستند (ڈاکومنٹری) «ایک ایٹمی فتوا» کے نام سے نشر ہوئی جس میں آیت اللہ خامنہ ای کا یہ فتوا وقتی اور عارضی ہونے کا حتمال دیا گیا؛[11] لیکن فقہ کے ماہرین نے اس احتمال کو اور اس فتوے پر زمانی و مکانی شرائط اثر انداز ہونے کو رد کیا ہے۔[12]

تاریخی پشتوانہ

جوہری ہتھیار کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (weapon of mass destruction / WMD) میں شمار کیا جاتا ہے۔ [13] 2014ء کو ابو القاسم علی دوست کہتے ہیں کہ شیعہ فقہا نے دس صدیاں پہلے ایسے اسلحے اور وسائل کا استعمال حرام ہونے کا فتوا دیا ہے جو وسیع پیمانے پر انسانوں کے قتل، زندہ مخلوقات کی نابودی اور طبیعت کی تخریب کا باعث بنتے ہیں۔[14] آیت اللہ خامنہ ای نے بھی 19 فروری 2010ء کے بعد سے متعدد بار جوہری ہتھیار بنانے اور ان کو استعمال کرنے کی مخالفت میں اپنا فتوا بیان کیا ہے۔[15]

فتوا کا متن اور دوسرے مراجع کا ہم نظر ہونا

جوہری ہتھیار کی تخفیف اور عدم پھیلاؤ انٹرنیشنل کانفرنس تہران

مرجع تقلید اور ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے 17 اپریل 2010ء کو ایک رسمی پیغام دیا جو تہران میں پہلی جوہری ہتھیار کی تخفیف اور عدم پھیلاؤ انٹرنیشنل کانفرنس میں علی اکبر ولایتی نے پڑھا۔[16] اس پیام کا متن درج ذیل ہے:

«ہماری نظر میں ایٹمی اسلحے کہ علاوہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے؛ جیسے کیمیاوی اسلحہ اور میکروبی اسلحہ بھی بشریت کے لیے خطرے کا باعث ہے۔۔۔۔ اور ہم ان اسلحوں کے استعمال کو حرام۔۔۔۔ سمجھتے ہیں۔»[17]

کہا گیا ہے کہ 2010ء کی دہائی کے پہلے حصے میں میں مراجع تقلید مکارم شیرازی، نوری ہمدانی، جعفر سبحانی اور جوادی آملی نے بھی آیت اللہ خامنہ ای کے فقہی نظرئے کی تائید اور اس پر تاکید کی۔[18] قومی ایٹمی فقہ کانفرنس کے جنرل سیکرٹری ابو القاسم علیدوست اور مجلس خبرگان کے رکن احمد مبلغی نے اس نظرئے کے دلائل کے پیش نظر اسے حکمِ الہی اور ابَدی قرار دیا جو کبھی تبدیل نہیں ہوسکتا ہے۔[19]

دلایل

جوہری ہتھیار بنانے اور اس کا استعمال حرام ہونے کی مختلف فقہی دلائل پیش ہوئی ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای جوہری ہتھیار کی تولید اور استعمال کو، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحوں کے استعمال کے بارے میں موجود اسلامی اعتقادی مبانی کے منافی سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ہتھیاروں کا استعمال وہی زراعت اور نسل کی تباہی ہے جو سورہ بقرہ کی آیت 205 میں بیان ہوئی ہے۔[20] اس بارے میں ابو القاسم علی دوست کہتے ہیں کہ اللہ اور دیگر انسانوں سے رابطے کے لئے بندوں کی حالت کی اصلاح مقاصد شریعت میں سے ہیں اور تصریح کرتے ہین کہ یہ اصلاح کسی بھی طرح سے اِفساد اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحوں کے استعمال سے فراہم نہیں ہوتی ہے۔[21]

قرآنی آیات

شیعہ فقیہ احمد مبلغی اس فتوے کی دلائل کو متعدد سمجھتے ہیں اور تین قرآنی اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں؛[22]

  • قاعدہ وِزر[یادداشت 1] کے تحت مجرموں کی سزا میں کسی بیگناہ کو شامل نہ کیا جائے۔ اور جوہری اسلحے کا استعمال، وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے اور بےگناہوں کو سزا دینے کا باعث بنے گا یہاں تک کہ آنے والی نسلوں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
  • بگاڑ ایجاد کرنے کی کوشش حرام ہونے کے قاعدہ[یادداشت 2] کے تحت ہر ایسا عمل جس سے زمین میں تباہی پھیلے، زراعت اور حیوانات تباہ ہوجائیں وہ حرام ہے۔
  • قاعدہ اثم[یادداشت 3] کے تحت ہر وہ کام جس کی برائی اور نقصان، نفع اور فائدے سے زیادہ ہو تو حرام ہے۔ مبلغی کے مطابق جوہری ہتھیاروں کا نقصان یقنی طور پر احتمالی فائدے سے زیادہ ہے۔

ناصر قربان نیا سورہ بقرہ کی آیت 190 و 205، اور سورہ مائدہ کی آیت 8 اور 32 کو جوہری ہتھیار کے مطلق استعمال کی ممنوعیت کے معنی میں لیتے ہیں۔[23]

روایات

تصویر کتاب فقہ ہستہ ای

فقہی اعتبار سے جوہری ہتھیاروں کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے کی ایک قسم قرار دیتے ہوئے اس کے استعمال سے منع کیا گیا ہے اور اس حوالے سے بعض روایات سے بھی استناد کیا گیا ہے:

  • ابوالقاسم علیدوست اور محمد جواد فاضل لنکرانی نے ان احادیث سے استناد کیا ہے جن کے مطابق دشمن کے پانی میں زَہر ڈالنا حرام ہے۔[24]
  • بعض نے ان روایات سے استناد کیا ہے جن کے مطابق غیر نظامی عام شہریوں (خواتین، بچے، بوڑھے، دیوانے اور حیوانات) کو نقصان پہنچانا منع ہے[25]

مونوگراف

جوہری ہتھیار بنانے اور اس کا استعمال حرام ہونے کے بارے میں بعض کتابیں لکھی گئی ہیں:

  • کتاب «فتوای ہستہ ای از منظر حقوق بین الملل» بقلم جابر سیوانی زاد جو امریکی ناشر «سپریم سنچری» کی طرف سے منتشر ہوئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس کتاب میں آیت اللہ خامنہ ای کے فتوے کی اہمیت اور حقوق پہلوؤں کو بین الاقوامی حقوق کے تناظر میں بیان کیا ہے۔[26]
  • کتاب فقہ ہستہ ای بقلم ابوالقاسم علیدوست، یہ کتاب 10 مقالوں پر مشتمل ہے جو جوہری اور دیگر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے کے استعمال کے بارے میں نشر ہوئی ہے۔ یہ کتاب فقہ ہستہ ای کے نام سے منعقد ہونے والی کانفرنس میں دئے مقالات کا مجموعہ ہے۔ یہ کانفرنس سنہ 2013ء کو قم اور تہران میں منعقد ہوئی تھی۔[27]
  • مایکل آیزِنِشتات و مہدی خلجی نے «فتوائے ہستہ ای؛ سیاست و مذہب در استراتژی منع تکثیر ایران» کے عنوان سے کتاب لکھی جو امریکہ میں چھپ گئی۔ اس کتاب میں جوہری فتوے کی تحقیق ہوئی ہے۔[28]

حوالہ جات

  1. «ثبت پیام رہبر انقلاب بہ عنوان سند در سازمان ملل»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت اللہ خامنہ ای۔
  2. «آشنایی با کنفرانس بین المللی خلع سلاح و عدم اشاعہ سلاح ہای ہستہ ای»، سایت ہمشہری آنلاین۔
  3. «صالحی: تنہا رہبر انقلاب می توانند دربارہ ساخت سلاح ہستہ ای نظر صائب بدہند»، خبرگزاری فارس۔
  4. «فتوایی کہ بعد از 10سال بہ سازمان ملل رسید»، خبرگزاری مہر۔
  5. «فتوایی کہ بعد از 10سال بہ سازمان ملل رسید»، خبرگزاری مہر۔
  6. «بازنگاہی بر صدور فتوای حرمت سلاح ہای ہستہ ای از سوی رہبر معظم انقلاب»، سایت بصیرت۔
  7. محمدپور، «فتوا بہ مثابہ یک منبع حقوق بین الملل»، ص134۔
  8. «پیام رہبر انقلاب بہ کنفرانس تہران بہ عنوان سند رسمی سازمان ملل ثبت شد»، روزنامہ کیہان۔
  9. «رہبران مذہبی جہان بہ آیت اللہ خامنہ ای بپیوندند»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت اللہ خامنہ ای۔
  10. «بہ قم رفتیم تا فتوای ہستہ ای آیت اللہ خامنہ ای را بررسی کنیم/ گزارش سفرمان را بہ کاخ سفید ارسال کردیم/ مسلماً دولت آمریکا این گزارش را مدنظر قرار می دہد»، سایت مشرق۔
  11. «یک فتوای ہستہ ای - بین سطور»، سایت BBC News فارسی۔
  12. «آیا حرمت سلاح ہستہ ای قابل تغییر است؟»، خبرگزاری فارس۔
  13. «تولید و استفادہ از سلاح ہای کشتار جمعی از دیدگاہ فقہ اسلامی»، سایت مرکز فقہی ائمہ اطہار ۔
  14. «بررسی تحریم سلاح کشتار جمعی در تاریخ تشیع»، پایگاہ اطلاع رسانی آیت اللہ علیدوست۔
  15. ملاحظہ کریں؛ «بیانات در دیدار دست اندرکاران ساخت ناوشکن جماران»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت اللہ خامنہ ای؛ «بیانات رہبر معظم انقلاب اسلامی در دیدار مسؤولان و کارگزاران نظام»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت اللہ خامنہ ای؛ «فتوایی کہ بعد از 10سال بہ سازمان ملل رسید»، خبرگزاری مہر۔
  16. «پیام بہ نخستین کنفرانس بین المللی خلع سلاح ہستہ ای و عدم اشاعہ»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت اللہ خامنہ ای۔
  17. «پیام بہ نخستین کنفرانس بین المللی خلع سلاح ہستہ ای و عدم اشاعہ»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت اللہ خامنہ ای۔
  18. «تحریم سلاح کشتار جمعی در تاریخ تشیع»، خبرگزاری ایسنا۔
  19. «لوازم چہارگانہ فتوای رہبر انقلاب دربارہ حرمت داشتن سلاح ہستہ ای»، سایت تسنیم؛ «آیا حرمت سلاح ہستہ ای قابل تغییر است؟»، خبرگزاری فارس۔
  20. «بیانات در دیدار دست اندرکاران ساخت ناوشکن جماران»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت اللہ خامنہ ای۔
  21. جمعی از نویسندگان، فقہ ہستہ ای، 1397شمسی، ص113۔
  22. «دلائل فقہی تحریم سلاح ہای اتمی»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت اللہ خامنہ ای۔
  23. جمعی از نویسندگان، فقہ ہستہ ای، 1397شمسی، ص182-184۔
  24. جمعی از نویسندگان، فقہ ہستہ ای، 1397شمسی، ص87 و 112۔
  25. جمعی از نویسندگان، فقہ ہستہ ای، 1397شمسی، ص85-87 و 185 و 231 و 343۔
  26. «کتاب فتوای ہستہ ای رہبر انقلاب از منظر حقوق بین الملل در آمریکا منتشر شد»، خبرگزاری فارس۔
  27. «عرضہ کتاب فقہ ہستہ ای در نمایشگاہ کتاب سی و دوم»، سایت پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی۔
  28. محمدپور، «فتوا بہ مثابہ یک منبع حقوق بین الملل»، ص134-133۔

نوٹ

  1. یہ قاعدہ سورہ اسراء کی آیت 15 «و لا تَزِرُ وازرةٌ وزرَ أُخری» سے اخذ ہوئی ہے۔
  2. یہ قاعدہ سورہ بقرہ کی آیت 205 سے اخذ ہوئی ہے
  3. یہ قاعدہ سورہ بقرہ کی آیت 219 «إثمُہما اَکْبَرُ مِنْ نَفْعِہما» سے اخذ ہوئی ہے۔

مآخذ