بلاغات النساء(کتاب)

ویکی شیعہ سے
بلاغات النساء
بلاغات النساء
بلاغات النساء
مشخصات
مصنفاحمد بن ابی طاہر معرف بہ ابن طیفور
موضوعنامدار خواتین کے کلام
طباعت اور اشاعت
ناشرشریف رضی
مقام اشاعتقم


بلاغاتُ النّساء اہل سنت مورخ ابن طَیفور (204۔280 ھ) کی عربی زبان میں لکھی گئی کتاب ہے۔ اس کتاب میں تاریخ اسلام کی پہلی تین صدیوں کی مشہور خواتین کے فصیح و بلیغ اشعار اور کلام جمع کئے گئے ہیں۔ یہ کتاب بحارالانوار اور الغدیر کے منابع میں سے ہے اور علامہ مجلسی نے خطبہ حضرت زہرا(س) اور کوفہ و شام میں اہل بیت کے مستورات کے خطبات کو بھی اسی کتاب سے نقل کیا ہے۔

بلاغات النساء کتاب "المنثور و المنظوم" کی گیارہویں جلد ہے جو مستقل طور پر بھی نشر ہوئی ہے۔

مؤلف

احمد بن ابی‌ طاہر خراسانی (204۔ 280 ھ) جو ابن طَیفور کے نام سے معروف اہل سنت کے مورخ اور قلم کار ہیں۔ خیرالدین رِزِکْلی کے مطابق ابن طیفور اصل میں مرو سے تھے لیکن بغداد میں مقیم تھے۔[1] ان کی طرف تقریبا 50 کتابوں کی نسبت دی جاتی ہے جن میں "تاریخ بغداد" اور "المنثور و المنظوم" (14 جلدوں میں) قابل ذکر ہیں۔[2]

اہمیت اور اعتبار

کتاب بلاغات النساء کتاب "المنثور و المنظوم" کی گیارہویں جلد کا ایک حصہ ہے جو مستقل طور پر نشر ہوئی ہے۔[3] اگرچہ اس کتاب کے مؤلف کا تعلق اہل سنت مذہب سے ہے لیکن شیعہ علماء نے بھی اس کتاب سے استناد کیا ہے۔[4] آقا بزرگ تہرانی کے مطابق علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں مدینے میں حضرت زہرا(س) کا خطبہ اور کوفہ و شام میں اہل بیت کے دیگر مستورات کے خطبات کو اسی کتاب سے نقل کیا ہے۔[5]

اس کتاب کا ادبی پہلو مختلف مورخین کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔[6] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اس کتاب میں مسلمان خواتین کی آزادی اور سماجی مسائل سے ان کی آگاہی کی عکاسی کی گئی ہے۔[7]

محتوا

کتاب بلاغات النساء کا آغاز سماجی اور سیاسی مسائل سے مربوط پہلی تین صدی ہجری کے نامور خواتین کے کلام سے ہوتا ہے۔[8] من جملہ ان میں درج ذیل خواتین قابل ذکر ہیں:

اسی طرح ابن طیفور نے مختلف مناسبتوں کے حوالے سے بعض خواتین کے اشعار اور مختصر کلام بھی اس کتاب میں نقل کیا ہے۔[16] اس حصے میں انہوں نے مختلف خواتین کا اپنے شوہروں کی مدح و ذم میں موجود بلیغ کلام، شادی بیاہ کے موقع پر ماؤوں کی اپنی بیٹیوں کو سفارش، بادیہ نشین خواتین کا کلام، مختلف خواتین کی وصیتیں اور اشعار بھی اس کتاب میں نقل کئے ہیں۔[17]

طبع اور نسخہ جات

کتاب بلاغات النساء سنہ 1326ھ ، میں انتشارات مدرسہ والدہ عباس کے توسط سے قاہرہ میں منظر عام پر آئی۔[18] عبداللطیف ارناؤوط کے مطابق یہ ایڈیشن دارالکتب المصریہ کے خطی نسخے کے مطابق سید احمد الفی کے تعلیقہ کے ساتھ طبع ہوا۔[19]

اسی طرح اس کتاب کا ایک نسخہ دارالکتب المصریہ میں خط علامہ شنقیطی میں موجود ہے۔[20]

حوالہ جات

  1. زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۱، ص۱۴۱۔
  2. زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۱، ص۱۴۱۔
  3. زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۱، ص۱۴۱۔
  4. نمونہ کے لئے مراجعہ کریں: علامہ امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ق، ج۱۰، ص۲۳۸۔
  5. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ق، ج۳، ص۱۴۲۔
  6. ملاحظہ کریں: ارناؤوط، «کتاب من التراث، سمات الأدب النسائی فی «بلاغات النساء» لاحمد بن طیفور»، ص۱۰۴۔
  7. «بلاغات النساء».
  8. ارناؤوط، «کتاب من التراث، سمات الأدب النسائی فی «بلاغات النساء» لاحمد بن طیفور»، ص۱۰۵.
  9. ابن طیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص۷-۲۲۔
  10. ابن طیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص۲۳-۳۴۔
  11. ابن طیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص۳۴-۳۷۔
  12. ابن طیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص۳۷-۴۰۔
  13. ابن طیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص۴۰-۴۳۔
  14. ابن طیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص۴۳-۱۱۲۔
  15. ابن طیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص۹۰-۹۵۔
  16. ارناؤوط، «کتاب من التراث، سمات الأدب النسائی فی «بلاغات النساء» لاحمد بن طیفور»، ص۱۰۵۔
  17. ابن طیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص۱۱۲-۲۸۰۔
  18. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ق، ج۳، ص۱۴۲۔
  19. ارناؤوط، «کتاب من التراث، سمات الأدب النسائی فی «بلاغات النساء» لاحمد بن طیفور»، ص۱۰۵.
  20. ارناؤوط، «کتاب من التراث، سمات الأدب النسائی فی «بلاغات النساء» لاحمد بن طیفور»، ص۱۰۵۔

مآخذ

  • ابن طیفور، احمد بن ابی‌ طاہر، بلاغات النساء، قم، الشریف الرضی، بی‌تا۔
  • ارناؤوط، عبداللطیف، «کتاب من التراث، سمات الأدب النسائی فی «بلاغات النساء» لاحمد بن طیفور»، التراث العربی، العدد ۵۰، رجب ۱۴۱۳ھ۔
  • ًآقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعہ فی تصانیف الشیعہ، تصحیح:‌ احمد بن محمد حسینی، بیروت، دارالاضواء، ۱۴۰۳ھ۔
  • «بلاغات النساء»، پایگاہ اطلاع رسانی دفتر حضرت آیۃ اللہ العظمی مکارم شیرازی، مشاہدہ ۲۸ تیر ۱۳۹۹ش۔
  • زرکلی، خیرالدین، الاعلام قاموس تراجم الاشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین، بیروت، دارالملایین، ۱۹۸۹ء۔
  • علامہ امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر، ۱۴۱۶ھ۔