آدم بن اسحاق

ویکی شیعہ سے
(آدم بں اسحاق اشعری سے رجوع مکرر)
قبرستان شیخان قم کا عکس۔
ذاتی کوائف
نام کاملآدم بن اسحاق بن آدم بن عبدالله بن سعد اشعری قمی
محل پیدائشقم
محل زندگیقم
نسباشعری خاندان۔قم
مشہور اقرباءاسحاق بن آدم، زکریا بن آدم
شہادت/وفاتقم
مدفنقم
صحابیامام جواد (ع)
تالیفاتکتاب الحدیث

آدم بن اسحاق بن آدم بن عبد الله بن سعد اشعری قمی، تیسری صدی ہجری کے شیعہ روات و علمائے رجال کے نزدیک مورد اعتماد افراد میں سے ہیں۔ شیخ عباس قمی انہیں امام محمد تقی (ع) کے اصحاب سے میں شمار کرتے ہیں۔ وہ کتاب الحدیث نامی کتاب کے مولف ہیں۔ احمد بن محمد بن عیسی، محمد بن خالد برقی و ابراہیم بن ہاشم نے ان سے روایت نقل کی ہے۔ ان کا مقبرہ قم کے شیخان نامی قبرستان میں ہے۔

خاندان و ںسب

آدم بن اسحاق، تیسری صدی ہجری کے اواخر میں قم میں زندگی بسر کرنے والے اشعری خاندان کے مشاہیر میں سے ہیں۔[1] کتاب اعیان الشیعہ کے مطابق، ان کے خاندان نے اسلامی فتوحات کے بعد ایران میں رہائش اختیار کر لی تھی۔[2] ان کی تاریخ ولادت و وفات، شیوہ زندگی، اساتید و شاگردوں کے بارے میں معلومات فراہم نہیں ہیں۔[3]

ان کے والد اسحاق بن آدم امام علی رضا (ع) کے معاصر تھے اور انہوں نے آپ (ع) سے روایت نقل کی ہے۔[4] ان کے جد آدم بن عبد اللہ بھی امام جعفر صادق (ع) کے اصحاب میں سے تھے۔[5] اسی طرح سے امام علی رضا (ع) اور امام محمد تقی (ع) سے روایت نقل کرنے والے زکریا بن آدم ان کے چچا ہیں۔[6]

علم رجال میں مقام و منزلت

شیخ عباس قمی آدم بن اسحاق کو امام محمد تقی (ع) کے اصحاب میں سے شمار کرتے ہیں۔[7] شیخ طوسی و آقا بزرگ تہرانی ان کا شمار شیعہ مولفین میں کرتے ہیں اور ان کی کتاب الحدیث کا نام ذکر کرتے ہیں۔[8] بعض افراد کے مطابق وہ امام موسی کاظم (ع)، امام رضا (ع) و امام محمد تقی (ع) کے ہم عصر تھے۔[9]

آیت اللہ خوئی نے ان سے نقل ہونے والی روایات کو ذکر کیا ہے۔[10] وہ روایات عقاید، اخلاق، تفسیر و فقہ جیسے موضوعات پر مشتمل ہیں۔[11]

شیعہ عالم رجال کے بقول، شیعہ علمائے رجال جن میں نجاشی، شیخ طوسی و علامہ حلی شامل ہیں، انہیں ثقہ تسلیم کرتے ہیں۔[12] اہل سنت ماہر رجال ابن حجر عسقلانی، احمد بن محمد بن خالد برقی و آدم بن اسحاق سے نقل کرتے ہوئے انہیں زاہد و متواضع تسلیم کرتے ہیں[13] اور ابن داوود حلی ان کا شمار ان لوگوں میں کرتے ہیں جن کے خلاف کوئی بات ذکر نہیں ہوئی ہے۔ [14]

حوالہ جات

  1. امین، أعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۸۵.
  2. امین، أعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۸۵.
  3. بہ عنوان نمونہ: امین، أعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۸۵؛ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ،۱۴۰۸ق، ج۶، ص۳۰۳؛ فرشچیان، پیشگامان تشیع در ایران، ۱۳۸۴ش، ص۶۷.
  4. نجاشی، رجال، ص۷۳.
  5. امین، اعیان الشیعہ، ج۲، ص۸۵.
  6. ابن داوود حلی، رجال ابن داود، ص۱۵۸.
  7. قمی، منتہی الامال، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۵۱۴.
  8. شیخ طوسی، الفہرست، ۱۴۱۷ق، ص۱۶؛ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ،۱۴۰۸ق، ج۶، ص۳۰۳؛
  9. فرشچیان، پیشگامان تشیع در ایران، ۱۳۸۴ش، ص۶۷.
  10. خوئی، معجم الرجال الحدیث، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۱۰۹.
  11. خوئی، معجم الرجال الحدیث، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۱۰۹.
  12. مامقانی، تنقیح المقال، ۱۴۳۱ق، ج۳، ص۲۵.
  13. عسقلانی، لسان المیزان، ۲۰۰۲م، ج۲، ص۱۴.
  14. حلی، کتاب الرجال، قم، ص۲۹.

مآخذ

  • آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، قم، اسماعیلیان، ۱۴۰۸ق
  • أمین، حسن، أعیان الشیعہ، بیروت، دار المعارف، ۱۴۰۶ق
  • حلی، ابن داوود، كتاب الرجال، قم، منشورات الشريف الرضی، بی‌ تا
  • خوئی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، قم، نشر الثقافہ الإسلامیہ فی العالم، ۱۳۷۲ش
  • طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، تحقیق جواد قیومی، مؤسسہ نشر فقاهت، ۱۴۱۷ق
  • فرشچیان، رضا، پیشگامان تشیع در ایران ہمراه با رویکردی تفصیلی بہ رجال اشعریان، قم، زائر، ۱۳۸۴ش
  • قمی، عباس، منتهی الامال، قم، موسسہ نشر اسلامی، ۱۴۲۲ق
  • عسقلانی، ابن حجر، لسان المیزان، بیروت، مكتب المطبوعات الإسلاميہ، ۲۰۰۲ ع
  • مامقانی، عبد لله، تنقیح المقال فی علم رجال، قم، مؤسسہ آل البیت، ۱۴۳۱ق