سورہ نمل کی آیت نمبر 62

ویکی شیعہ سے
سورہ نمل آیت 62
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامسورہ نمل کی آیت نمبر 62
سورہسورہ نمل
آیت نمبر62
پارہ20
شان نزولامام مہدیؑ
محل نزولمکہ
موضوعاخلاقی
مضمونخدا کی طرف سے پریشان انسان کی پریشانیوں کو رفع کرنا اور اس کی دعا کو قبول کرنا


سورہ نمل آیت نمبر 62 میں خداوند عالم کو پریشان اور مضطر لوگوں کی دعا کی استجابت کا مرجع قرار دیا گیا ہے۔ عمومی طور پر اس آیت کا ابتدائی حصہ "آیت اَمَّن یُجیب" کے نام سے بطور دعا مشہور ہے اور پریشانیوں میں کے پڑھنے کی سفارش بھی ہوئی ہے۔

بعض شیعہ علماء اہل‌ بیتؑ سے مروی احادیث کی روشنی میں اس آیت کا شأن نزول امام مہدی(عج) کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ احادیث میں امام زمانہؑ کو حقیقی مضطر قرار دیا گیا ہے اور خدا ان کی دعا کو قبول کرے گا اور انہیں زمین پر خدا کا خلیفہ قرار دے گا۔ شیعہ مفسر علامہ طباطبایی اس شأن نزول کو آیت کا مصداق قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں لفظ "مُضطَر" سے مراد تمام پریشان حال افراد ہیں۔

"خُلَفاءَ الاَرض"(یعنی زمین کا خلیفہ) کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ اکثر شیعہ اور اہل سنت مفسرین اس عبارت سے مراد یہ لیتے ہیں کہ خدا ہر زمانے میں بعض لوگوں کو زمین پر بعض لوگوں کا خلیفہ قرار دیتے ہیں؛ لیکن بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ اس سے مراد زمین پر تمام انسانوں کی خلافت ہے یعنی خدا نے انسان کو یہ صلاحیت اور قدرت دی ہے کہ وہ زمین اور جو کچھ اس زمین پر ہے پر اپنا تسلط پیدا کر سکتا ہے۔

عام لوگوں میں آیت کی اہمیت

سانچہ:اصلی سورہ نمل کی آیت نمبر 62 کا آغاز "اَمَّن یُّجیبُ المُضطَرَّ اِذا دَعاہُ وَ یَکشِفُ السُّوءَ؛ کون ہے جو مضطر و بے قرار کی دعا و پکار کو قبول کرتا ہے۔ جب وہ اسے پکارتا ہے؟ سے ہوتا ہے۔ عام طور پر اس عبارت کو دعا سے تعبیر کی جاتی ہے اور "ختم امن یجیب" کے نام سے مختلف مواقع خاص کر پریشانی کے عالم میں اس کا ورد کرتے ہیں۔[1] البتہ خود آیت دعا کے طور پر نہیں آئی اور دعا کے وقت مذکورہ عبارت کو "یا مَنْ یجیبُ الْمُضْطَرَّ إِذا دَعاہُ"[2] یا "يَا مَنْ يُجِيبُ دُعَاءَ الْمُضْطَرِّ" کی شکل میں پڑھنے کی سفارش ہوئی ہے۔[3]

میرزا جواد ملکی تبریزی نے ماہ رمضان ا میں کسی قسم کی معنوی تبدیلی محسوس نہ کرنے والے شخص کے لئے سفارش کی ہے کہ وہ سختیوں اور پریشانیوں کے دور ہونے نیز اپنی اصلاح کے لئے خدا سے درخواست کریں اور زبان سے آیت امن یجیب کا ورد کریں۔[4]

متن و ترجمہ

سورہ نمل کی آیت نمبر 62 اور اس سے پہلے اور بعد میں آنے والی چند آیتیں جو "اَمَّنْ" کے ساتھ شروع ہوتی ہیں، سوالیہ انداز میں مشرکین سے پوچھے گئے پانچ سوالوں میں سے تیسرا سوال ہے جس میں سوال ہو رہا ہے کہ: آیا جو ہستی پریشان حال کی دعا قبول کرتا ہے وہ بہتر ہے یا تہمارے معبود جو کسی کام کے نہیں ہیں؟[5]

اَمَّن یُّجیبُ المُضطَرَّ اِذا دَعاہُ وَ یَکشِفُ السُّوءَ وَ یَجعَلُکُم خُلَفاءَ الاَرضِ ءَاِلہٌ مَّعَ اللہِ قَلیلاً مَا تَذَکَّرُونَ


کون ہے جو مضطر و بے قرار کی دعا و پکار کو قبول کرتا ہے۔ جب وہ اسے پکارتا ہے؟ اور اس کی تکلیف و مصیبت کو دور کر دیتا ہے؟ اور تمہیں زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الہ ہے؟ نہیں - بلکہ یہ لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہیں۔



سورہ نمل: آیت 62


شأن نزول

شیعہ علماء من جملہ شرف‌الدین استرابادی[6] (متوفی 965ھ)، شریف لاہیجی[7] اور نُعمانی[8] (متوفی 360ھ) اہل‌ بیت سے مروی احادیث کی روشنی میں سورہ نمل کی آیت نمیر 62 کے شأن نزول کو امام مہدیؑ قرار دیتے ہیں۔ کتاب تفسیر قمی میں امام صادقؑ سے مروی ایک حدیث میں آیا ہے کہ سورہ نمل کی آیت نمبر 62 قائم آل محمدؑ کی شأن میں نازل ہوئی اور آپؑ حقیقی مضطر ہیں جو مقام ابراہیم پر نماز اور دعا کے بعد خدا ان کی دعا قبول کریں گے اور ان کی پریشانی اور اصطراب کو ختم کرنے کے بعد انہیں زمین پر خلیفہ قرار دے گا۔[9]

نُعمانی نے بھی کتاب الغیبہ میں آیت امن یجیب کی تفسیر میں محمد بن مسلم کے توسط سے امام باقرؑ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں آیا ہے کہ سورہ نمل کی آیت نمبر 62 امام مہدی(عج) کے بارے میں نازل ہوئی جن کے ظہور کے بعد خانہ کعبہ میں جبرئیل اور 313 اصحاب ان کی بیعت کریں گے۔[10]

علامہ طباطبایی (متوفی 1360ہجری شمسی) اور آیت اللہ مکارم شیرازی لکھتے ہیں کہ مذکورہ احادیث میں شأن نزول کا ذکر ہونا مصداق کو بیان کرنے کے عنوان سے ہے اور آیت تمام مضطر انسانوں کو شامل کرتی ہے۔[11] علی بن ابراہیم نیز احادیث میں آیت کے مصداق کو بیان کرنے کو آیت کی تأویل، یعنی باطن قرار دیتے ہیں۔[12]

اضطرار اور استجابت دعا میں رابطہ

سانچہ:اصلی مذکورہ آیت میں "اَمَّن یُّجیبُ المُضطَرَّ اِذا دَعاہُ وَ یَکشِفُ السُّوءَ؛ کون ہے جو مضطر و بے قرار کی دعا و پکار کو قبول کرتا ہے۔ جب وہ اسے پکارتا ہے؟ اور اس کی تکلیف و مصیبت کو دور کر دیتا ہے؟" کو مد نظر رکھتے ہوئے مفسرین ضطرار اور استجابت دعا کے درمیان موجود رابطے کے براے میں بحث کرتے ہیں، مفسرین کے مطابق مضطر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی شدید پریشانی یا مصیبت کی وجہ سے خدا سے پناہ مانگے اور غیر خدا سے مکمل نا امید ہو جائے۔[13]

بعض شیعہ علماء جیسے فضل بن حسن طَبرِسی (متوفی ۵48ھفتح‌ اللہ کاشانی (متوفی 988ھ) اور آیت اللہ مکارم شیرازی سورہ نمل کی آیت نمبر 62 کے ذیل میں ذکر کرتے ہیں کہ خدا سب کی دعائیں قبول کرتا ہے؛ لیکن چونکہ مضطر کی درخواست میں زیادہ طاقت اور خضوع و خشوع ہے اسلئے استجابت دعا کے لئے اضطرار کو شرط قرار دی گئی ہے۔[14] محمد سبزواری (متوفی 1368ہجری شمسی) اور علامہ طباطبایی نیز مذکورہ آیت میں اضطرار کو انسان کی حقیقی طلب کی نشانی قرار دیتے ہیں۔[15]

زمین پر خلیفہ اور جانشین کے بارے میں اختلاف نظر

"خُلَفاءَ الاَرض" (زمین پر خلیفہ) سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ شیعہ اور سنی اکثر علماء کہتے ہیں کہ اس عبارت سے مراد یہ ہے کہ خداوند عالم ہر دور میں زمین پر بعض لوگوں کو بعض لوگوں کا خلیفہ قرار دیتے ہیں تاکہ وہ زمین میں سکونت اختیار کریں اور زمین کے انتظامات کی ذمہ داری اپنے کاندوں پر اٹھائیں۔ شیخ طوسی،[16] طبرِسی،[17] ابوالفتوح رازی،[18] فیض کاشانی،[19] محمد بن جریر طبری،[20] ابْنِ‌کَثیر،[21] ثعلبی،[22] زمخشری،[23] اور فخر رازی[24] اسی گروه میں سے ہیں۔

ان کے مقابلے میں سید محمدحسین طباطبایی کے مطابق یہاں خلافت سے مراد انسان کو عطا کی جانے والی وہ قدرت اور صلاحیت ہے جس کے ذریعے وہ زمین اور اس پر موجود تمام اشیاء پر تصرف کرتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق اگر دنیاوی مشکلات اور پریشانیاں انسان کو مجبوری کی حد تک پہنچا دیں تو اس وقت انسان خدا سے ان مشکلات اور سختیوں کے خامتے کی درخواست کرتا ہے اس صورت میں اگر خدا اس کی دعا قبول کرتا ہے تو حقیقت میں انسان کو دی گئی خلافت تکمیل ہوتی ہے. علامہ طباطبایی کے مطابق دوسرے معانی آیت کے سیاق کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔[25]

طبرِسی ایک اور احتمال جسے ضعیف قرار دی گئی ہے میں ابن عباس سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس میں آیا ہے کہ خلافت سے مراد یہ ہے کہ خدا تمہیں کفار کا جانشین قرار دیتا ہے اور ان کی زمین اور علاقوں میں تمہیں بسا دیتا ہے تاکہ کفر اور کفار کی جگہ تم خدا کی اطاعت کریں۔[26] علامہ طباطبایی اس دوسرے احتمال کو بھی رد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس آیت میں کفار ہی مخاطب ہیں جبکہ اس احتمال کی بنا پر مؤمنین آیت کا مخاطب قرار پاتا ہے۔[27]

آیا اس آیت کے مطابق حاکم کی اطاعت واجب ہے؟

اس آیت کا ایک حصہ جی میں آیا ہے کہ: "وَ یَجعَلُکُم خُلَفاءَ الاَرضِ؛ اور تمہیں زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے" کے بارے میں اہل‌ سنت عالم دین اور مفسر سیوطی (849-911ھ) نے پیغمبر اسلامؐ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق خدا کا حکم ہے کہ خلیفہ (یعنی حاکم) کی اطاعت مطلقا واجبِ ہے۔ اگر حاکم نیک ہے تو درست ہے؛ لیکن اگر شر ہو تو خدا اس کا مؤاخذہ کرے گا۔[28]

علامہ طباطبایی سیوطی کے جواب میں اس کے نقل کردہ حدیث کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس آیت میں خلافت سے مراد حکومت نہیں؛ بلکہ اس سے مراد زمین پر انسان کی جانشینی اور زمین پر موجود اشیاء پر اس کا تسلط ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی کو خلافت اور حکومت دینا ہی اس کی اطاعت کے واجب ہونے کا سبب بنتا ہے تو بعد میں اس کی اطاعت کی طرف دعوت دینے کا معنا نہیں رکھتا کیونکہ خدا نے قرآن میں نمرود اور فرعون کو بھی بادشاہی اور حکومت کی نسبت دی ہے اس صورت میں ہمیں قبول کرنا پڑے گا کہ ان کی بھی اطاعت واجب ہے۔[29]

حوالہ جات

  1. «مصاحبہ با حضرت آیت اللہ یوسف صانعی»، ص153.
  2. نگاہ کنید بہ سید بن طاووس، مہج الدعوات، 1411ھ، ص342و346؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج92، ص103.
  3. رجوع کریں: سید بن طاووس، مہج الدعوات، 1411ھ، ص151.
  4. ملکی تبریزی، المراقبات، 1388ہجری شمسی، ص261.
  5. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371-1374ہجری شمسی، ج1۵، ص۵17.
  6. شرف الدین استرآبادى، تأويل الآيات، 1409ھ، ص399.
  7. شریف لاہیجی، تفسير شريف لاہيجى، 1373ہجری شمسی، ج3، ص435-436.
  8. النعمانی، الغيبہ،‌ 1379ھ، ص314.
  9. قمی، تفسير القمی، 1404ھ، ج2، ص129.
  10. النعمانی، الغيبہ،‌ 1379ھ، ص314.
  11. طباطبایی، المیزان، 1350-1353ھ، ج15، ص391؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371-1374ہجری شمسی، ج15، ص521-522.
  12. قمی، تفسير القمی، 1404ھ، ج2، ص129.
  13. رجوع کریں: ابو‌الفتوح رازی، روض الجنان، 1366-1378ہجری شمسی، ج15، ص65؛ کاشانی، زبدۃ التفاسير، 1381ہجری شمسی، ج5، ص116؛ فیض کاشانی، تفسير الصافی، 1373ہجری شمسی، ج4، ص71؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371-1374ہجری شمسی، ج15، ص520-521.
  14. طبرسی، مجمع البیان، 1408ھ، ج7، ص3۵8؛ کاشانی، زبدة التفاسير، 1381ہجری شمسی، ج۵، ص116؛ مکارم شیرازی، پیدایش مذاہب، 1384ہجری شمسی، ص96.
  15. سبزواری، ارشاد الاذہان، 1419ھ، ص387؛ طباطبایی، المیزان، 13۵0-13۵3ھ، ج1۵، ص381.
  16. شیخ طوسی، التبيان، دار احیاء التراث العربی، ج8، ص110.
  17. طبرسی، مجمع البیان، 1408ھ، ج7، ص358-359.
  18. ابو‌الفتوح رازی، روض الجنان، 1366-1378ہجری شمسی، ج15، ص65.
  19. فیض کاشانی، سير الصافی، 1373ہجری شمسی، ج4، ص71.
  20. طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج20، ص4.
  21. ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج6، ص185-186.
  22. ثعلبی، کشف و البیان عن تفسیر القرآن، 1422ھ، ج7، ص219.
  23. زمخشری، الکشاف، 1407-1416ھ، ج3، ص376-377.
  24. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج24، ص565.
  25. طباطبایی، المیزان، 1350-1353ھ، ج15، ص383.
  26. طبرسی، مجمع البیان، 1408ھ، ج7، ص358-359.
  27. طباطبایی، المیزان، 1350-1353ھ، ج15، ص384.
  28. سیوطی، تفسیر الدر المنثور، 1414ھ، ج6، ص372.
  29. سیوطی، تفسیر الدر المنثور، 1414ھ، ج15، ص391-392.

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمدمہدی فولادوند، تہران، دارالقرآن الکریم، 1376ہجری شمسی۔
  • ابن‌ کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، بہ تصحیح محمدحسین شمس الدین، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1419ھ۔
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، گردآورندہ محمدمہدی ناصح و محمدجعفر یاحقی، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1366-1378ہجری شمسی۔
  • ثعلبی، احمد بن محمد، کشف و البیان عن تفسیر القرآن، بہ تصحیح ابی‌محمد ابن عاشور، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1422ھ۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف، گردآورندہ مصطفی حسین احمد، بیروت، دار الکتاب العربی، 1407-1416ھ۔
  • سبزواری، محمد، ارشاد الاذہان، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1419ھ۔
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، مہج الدعوات و منہج العبادات، قم،‌ دار الذخایر، 1411ھ۔
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌‌بکر، تفسیر الدر المنثور، بیروت، دار الفکر، 1414ھ۔
  • شبر، عبداللہ، تفسیر القرآن الکریم، گردآورندہ حامد حفنی داود، قم، مؤسسۃ دار الہجرۃ، بی‌تا.
  • شرف الدین استرآبادى، على‌، تأويل الآيات، محقق حسین استاد ولی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ اول، 1409ھ۔* شریف لاہیجی، تفسير شريف لاہيجى، گردآورندہ جلال الدین محدث، تہران، دفتر نشر داد، 1373ہجری شمسی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبيان، گردآورندہ، احمد حبیب عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • طباطبایی، محمد حسین، المیزان، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1350-1353ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بہ تصحیح ہاشم رسولی و دیگران، بیروت، دار المعرفۃ، 1408ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان، بیروت، دار المعرفۃ، 1412ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1420ھ۔
  • فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، تفسير الصافی، بہ تصحیح حسین اعلمی، تہران، مکتبۃ الصدر، 1373ہجری شمسی۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسير القمی، بہ تصحیح طیب جزایری، قم، دار الکتاب، 1404ھ۔
  • کاشانی، فتح‌‌اللہ، زبدۃ التفاسير، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، 1381ہجری شمسی۔
  • نعمانی، محمد بن ابراہيم، الغيبۃ للنعمانی،‌ محقق و مصحح علی‌اکبر غفاری، تہران، نشر صدوھ، چاپ اول، 1379ھ۔
  • «مصاحبہ با حضرت آیت اللہ یوسف صانعی»، در مجلہ حوزہ، شمارہ 32، خرداد و تیر 1368ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، 1403ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1371-1374ہجری شمسی۔
  • ملکی تبریزی، جواد، المراقبات، ترجمہ کریم فیضی، قم، انتشارات قائم آل محمدؐ، 1388ہجری شمسی۔