تجرید الاعتقاد (کتاب)

علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
ویکی شیعہ سے
تجرید الاعتقاد
مشخصات
مصنفخواجہ نصیرالدین طوسی
موضوعفلسفہ و کلام
زبانعربی
تعداد جلد1 جلد
طباعت اور اشاعت
سنہ اشاعت1311ہجری شمسی


تَجریدُ الإعتِقاد خواجہ نصیر الدین طوسی (متوفی 672 ھ) کی ایک کتاب ہے جسے انہوں نے علم کلام میں شیعہ اعتقادات کی اثبات میں لکھی ہے۔ مصنف نے اس کتاب کو "تجرید الاعتقاد" یا بعض نسخوں کی بنا پر "تجرید العقائد" نام رکھا ہے اس کے دیگر اسامی میں "تجرید الکلام" بھی ہے۔ اس کتاب میں شیعہ کلامی مباحث کو فلسفی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں بیان ہونے والے بعض موضوعات میں خدا کے وجود اور صفات کا اثبات، پیغمبر اسلامؐ کی بعثت کا عالمگیر ہونا، قرآن کریم معجزہ ہونا، پیغمبر اکرمؐ کے بعد امام علیؑ کے علاوہ کسی اور کا خلافت کیلئے موزون نہ ہونا، امام علیؑ کا دوسروں سے افضل ہونا، عصمت ائمہ اور معاد جسمانی شامل ہیں۔

تجرید الاعتقاد علم کلام میں لکھی گئی مختصر ترین، اہم ترین اور مستدل ترین شیعہ کتابوں میں سے ہے۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے اس کتاب بہت ساری شرحیں اور تنقیدیں کی جا چکی ہیں یہاں تک کہ اس پر لکھی شروحات کی تعداد 231 تک پہنچتی ہیں جنہیں شیعہ اور سنی دونوں فریقوں کے علماء نے لکھی ہیں من جملہ ان میں علامہ حلی کی کتاب کشف المراد اور عبدالرحیم اصفہانی کی کتاب تسدید القواعد کا نام لیا جا سکتا ہے۔ شہید مطہری کے مطابق خواجہ نصیر الدین نے اس کتاب میں علم کلام کو جدلی طریقے سے نکال کر علمی اور برہانی طریقے کے نزدیک کر دیا ہے۔

مصنف

نصیر الدین محمد بن محمد طوسی، محقق طوسی یا خواجہ نصیر الدین طوسی کے نام سے معروف، برجستہ مسلمان فلسفی اور ریاضی‌ دان ہیں۔[1] آپ سنہ 597 ھ کو شہر طوس میں پیدا ہوئے۔[2] انہوں نے ہلاکو خان کے دور حکومت میں سنہ 660 ھ میں رصدخانہ مراغہ کی بنیاد رکھی۔[3] خواجہ نصیر کو سلطان محمد خدا بندہ کے مسلمان ہونے کا اصلی مسبب جانا جاتا ہے۔[4]

مختلف علوم من جملہ علوم عقلی فلسفہ، کلام اور اخلاق کے علاوہ دیگر علوم جیسے ہندسہ، ریاضیات، جبر، طبیعیات، فقہ اور تفسیر سمیت تاریخ، شعر، طب اور موسیقی[5] میں مختلف موضوعات پر آپ کے تقریبا 200 سے زیادہ تصنیف، شرح، ترجمے اور مقالات موجود ہیں۔[6] جن میں شرح اشارات، تجرید الاعتقاد اور تجرید، فصول نَصیریہ، اوصاف الاشراف، قواعد العقائد، نقد المحصل اور اساس الاقتباس کا نام خصوصیت سے لیا جا سکتا ہے۔[7] آخر کار آپ سنہ 672 ہجری کو 75 سال کی عمر میں بغداد میں وفات پائی۔[8]

مضامین

تجرید الاعتقاد یا تجرید العقائد[9] یا تجرید الکلام[10] خواجہ نصیر الدین طوسی کی تصنیف ہے[11] اور مشہور کے مطابق اس کی تصنیف سنہ 660ھ میں ختم ہوئی تھی۔[12]

یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی ہے جو فلسفہ اسلامی اور کلام شیعہ کے مسائل پر مشتمل ہے گویا مصنیف نے اس کتاب میں کلامی مسائل کو فلسفیانہ انداز میں بیان کیا ہے۔[13] یہ ساتویں صدی ہجری سے علم کلام میں اہل سنت اور شیعہ دنوں مکاتب فکر کے کلامی مباحث کی تحریر میں ایک نمونہ کے طور پر چلی آرہی ہے۔[14] یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل درج ذیل مطالب کا حامل ہے:

  1. امور عامہ: تین حصوں وجود و عدم، ماہیت اور علت و معلول پر مشتمل ہے۔
  2. جوہر اور عرض: پانج حصوں جواہر، اجسام (دو حصے)، جواہر مجرد اور اعراض پر مشتمل ہے۔
  3. خالق اور اس کی صفات کا اثبات: تین ابواب خدا کے وجود، صفات اور افعال پر مشتمل ہے۔
  4. نبوت: دس ابواب پر مشتمل ہے جس میں بعثت انبیا، بعثت کی ضرورت، انبیاء کی صفات، معجزات، کرامات، بعثت کا عالمگیر ہونا، حضرت محمدؐ کی بعثد، قرآن کریم کا معجزہ ہونا، نسخ اور حضرت محمد کے بعثت کا علمگیر ہونا جیسے موضوعات شامل ہیں۔
  5. امامت: بارہ ابواب پر مشتمل ہے جس میں امام کی تعیین کا واجب ہونا، عصمت، امام کا باقی لوگوں سے افضل ہونا، امام کے بارے میں نص کا ہونا واجب ہے، حضرت علیؑ کی امامت، امام علیؑ کے علاوہ کسی اور میں امامت کی صلاحیت نہ پانا، 12 امام، امام علیؑ کے مخالفین اور آپ سے لڑنے والے۔ اس حصے کے تین ابواب ابوبکر، عمر اور عثمان کے بارے میں ہے۔
  6. معاد: گیارہ ابواب پر مشتمل ہے جس میں کسی اور عالم کی خلقت کا ممکن ہونا، معاد جسمانی، ثواب و عقاب، غفران الہی، شفاعت اور توبہ وغیرہ پر بحث کی گئی ہے۔

اہمیت

تجرید الاعتقاد علم کلام میں شیعوں کی ایک اہم اور منفرد کتاب ہے۔[15] یہ کتاب مختصر ہونے کی باوجود بہت سارے مسلمان خاص کر شیعہ علماء نے اس پر حاشیے اور اس کی شرح لکھتے ہوئے خواجہ نصیر الدین طوسی کے نظرات کے صحیح یا غلط ہونے پر استدلال کئے ہیں۔[16] آقا بزرگ طہرانی تجرید الاعتقاد کو شیعہ عقائد میں ایک گران بہا علمی خزانہ قرار دیتے ہیں۔[17] علی صدرایی کی تحقیق کے مطابق تجرید الاعتقاد کی شروحات اور حاشیوں کی تعداد تقریبا 231 تک پہنچتی ہیں۔[18]

محققین کا کہنا ہے کہ خواجہ نصیر الدین طوسی اس کتاب میں فلسفہ مشاء اور کلام شیعہ کو جمع کرکے شیعہ علماء کے درمیان ان دو علموں کو ایک دوسرے قریب لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔[19]

شہید مطہری معتقد ہیں کہ خواجہ نصیر الدین طوسی نے اس کتاب کے ذریعے علم کلام کو حکمت جدلی سے حکمت برہانی کے نزدیک کئے ہیں۔[20] اور یہ کتاب اس حوالے سے بعد میں آنے والی کتابوں کیلئے ایک نمونہ اور مثال بن گئی اور مسلمان متکلیمن چاہے اشعری مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے ہوں یا معتزلی دونوں نے خواجہ نصیر الدین طوسی کے طریقے کی پیروی کی ہیں۔[21] خواجہ نصیر الدین خود اس کتاب کو بہترین روش پر مشتمل ایسے اعتقادات اور نظریات کا حامل قرار دیتے ہیں جو انہیں دلیل و برہان کے ساتھ ثابت ہوئے ہیں۔[22]

شرح

تجرید الاعتقاد علم کلام میں لکھی گئی مختصر ترین کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ اہم ترین اور مستدل ترین شیعہ کتابوں میں سے ایک ہے۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے یہ کتاب جب سے لکھی گئی ہے اس وقت سے ایک خاص شہرت کا حامل ہے رہی ہے اور مختلف اسلامی فرقوں کے دانشوروں نے اس پر عربی اور فارسی میں متعدد حاشیے لگائے ہیں۔[23] اس کتاب پر شرح لکھنے والوں کے نظریات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ مصنف اپنے اس اقدام میں نہایت کامیاب رہا ہے۔ [24]

ظاہراً تجرید الاعتقاد کی سب سے پہلی شرح مصنف کے معروف شاگرد علامہ حلّی نے لکھی ہے۔ یہ شرح، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد کے نام سے معروف ہے جس کے متعلق بعض کا کہنا ہے کہ اگر علامہ حلی اس کتاب کو نہ لکهتے تو شاید تجرید الاعتقاد میں مصنف کا اصلی ہدف کسی پر بھی واضح اور روشن نہ ہوتا۔[25] آقا بزرگ طہرانی[26] اور حاجی خلیفہ[27] و غیرہ[28] نے اس کتاب کی کئی شرحوں اور حاشیوں کا تعارف کرایا ہیں۔ ان میں سے بعض شرحوں اور حاشیوں میں خواجہ نصیر الدین کے نظریات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب کے قدیمی اور معروف شرحوں میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • تعرید الاعتماد فی شرح تجرید الاعتقاد، مصنف شیخ شمس الدین محمد اسفرائنی بیہقی (متوفی 746 ھ)
  • تسدید یا تشیید القواعد فی شرح تجرید العقائد، جو شرح قدیم کے نام سے معروف ہے، مصنف شمس الدین محمود بن عبد الرحمان بن احمد عامی اصفہانی (اسے فاضل قوشچی کے شرح کے مقابلے میں "قدیم" کہا جاتا ہے نہ یہ کہ یہ سب سے زیادہ قدیمی شرح ہو کیونکہ خود شارح نے مقدمہ میں علامہ حلی اور اسفرائنی بیہقی کی شرح کی طرف اشارہ کیا ہے)
  • شرح فاضل قوشچی (متوفی 879 ھ) جو شرح جدید کے نام سے مشہور ہے۔
  • متأخر شرحوں میں سے ایک شرح ملا عبد الرزاق لاہیجی (متوفی 1051 ھ) کی ہے جو دقیق، مفصل اور آراء کی تطبیق کے لحاظ سے مختلف خصوصیات کی حامل ہے۔

تجرید الاعتقاد کی قدیمی اور جدید شرحوں پر مختلف حاشیے لگائے گئے ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:

  • شرح قدیم پر محقق جرجانی (متوفی 816 ھ) کا حاشیہ جو حاشیہ تجرید کے نام سے معروف ہے۔[29]
  • شرح جدید پر جلال الدین محمد دوانی(متوفی 908 ھ) نے تین حاشیے حاشیۃ قدیم، حاشیۃ جدید اور حاشیۃ أجدّ[30] اور صدر الدین محمد دشتکی شیرازی (متوفی ۹۴۸).[31] نے دو حاشیے لکھے ہیں جن میں ان دونوں نے ایک دوسرے کے اوپر اعتراضات اور اشکالات کئے ہیں یہ شرحیں طبقات الجلالیۃ و الصدریۃ کے نام سے معروف ہیں۔ قابل توجہ نکتہ اس میں یہ ہے کہ صدر الدین کی وفات کے بعد ان کے بیٹے میر غیاث الدین منصور حسینی دشتکی (متوفی 949 ھ) نے اپنے والد کی طرف سے دوانی کے آخری اشکال کا بھی جواب تجرید الاعتقاد کی ایک اور شرح پر لکھے گئے اپنے حاشیے میں دیا ہے۔[32] شرح جدید پر لکھے گئے یہ حاشیے بہت قیمتی اور حائز اہمیت ہیں جس کی وجہ سے مختلف شیعہ اور سنی دانشوروں کی توجہ کا مرکز قرار پایا ہے اور بہت ساری کلامی اور فلسفی اشکلات اور اعتراضات کا سرچشمہ قرار بھی قرار پایا ہے اور ان پر بھی بہت ساری شرحیں اور تنقید کی گئی ہیں۔[33]

دستیاب نسخے

تجرید الاعتقاد کے بہت زیادہ نسخے دستیاب ہیں من جملہ ان میں سنہ 669 ھ کی تحریر کردہ نسخہ ایرانی پارلیمنٹ کی لائبریری میں موجود ہے۔[34] تجریدالاعتقاد علامہ حلّی کی شرح کے ساتھ پہلی بار سن 1311 ھ میں شایع ہوئی۔[35] اس کتاب کے مختلف نسخہ جات موجود ہیں من جملہ اس کے ترمیم شدہ نسخوں میں، محمد جواد حسینی جلالی کی تصحیح شدہ نسخہ جو سنہ1407 ھ کو قم میں منتشر ہوئی ہے۔[36] کشف المراد کے مختلف نسخوں میں، حسن زادہ آملی کی اشاعت کردہ نسخہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ یہ نسخہ بھی اسی سال شایع ہوا ابو الحسن شعرانی نے اس کا فارسی میں ترجمہ اور شرح لکھی ہے۔

آقا بزرگ طہرانی[37] اور حاجی خلیفہ[38] نے اس تجرید الاعتقاد کے بہت زایدہ شروحات اور حاشیوں کا ذکر کئے ہیں۔ اسی طرح علی صدرایی خویی اور سید محمود مرعشی نے "کتاب شناسی تجرید الاعتقاد" نامی کتاب میں تجرید الاعتقاد کے مختلف خطی نسخوں، اس کے شروحات اور حاشیوں کی چھان بین کے بعد کے بعد اس کتاب سے مربوط تمام آثار کا ذکر کئیے ہیں۔ اس کتاب کو آیت اللہ مرعشی نجفی کی لائبریری نے سنہ 1382 ش کو قم میں طبع کیا ہے۔[39]

حوالہ جات

  1. نصیر الدین طوسی، تنسوخ ‌نامہ ایلخانی، مقدمہ، ص چہاردہ۔
  2. نصیر الدین طوسی، تنسوخ ‌نامہ ایلخانی، مقدمہ، ص پانزدہ۔
  3. نصیر الدین طوسی، تنسوخ ‌نامہ ایلخانی، مقدمہ، ص نوزدہ
  4. نصیر الدین طوسی، تجرید الاعتقاد، مکتب الاعلام الاسلامی، ص۲۷-۲۸۔
  5. نصیر الدین طوسی، تجرید الاعتقاد، مکتب الاعلام الاسلامی، ص۳۸۔
  6. نصیرالدین طوسی، تجرید الاعتقاد، مکتب الاعلام الاسلامی، ص۳۵-۶۸۔
  7. نصیر الدین طوسی، تنسوخ‌ نامہ ایلخانی، مقدمہ، ص بیست و دو۔
  8. نصیر الدین طوسی، تنسوخ ‌نامہ ایلخانی، مقدمہ، ص بیست و یک۔
  9. نصیرالدین طوسی، تجرید الاعتقاد، مکتب الاعلام الاسلامی، ص۱۰۱۔
  10. آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، دار الأضواء، ج۳، ص۳۵۲-۳۵۴؛ شعرانی، کشف المراد، ۱۳۷۲ش، ص۱۱۔
  11. حاجی خلیفہ، کشف الظنون، دار إحیاء التراث العربی، ج۱، ص۳۴۶۔
  12. نصیرالدین طوسی، تجرید الاعتقاد، مکتب الاعلام الاسلامی، ص۷۳۔
  13. نصیر الدین طوسی، تجرید الاعتقاد، مکتب الاعلام الاسلامی، ص۷۱۔
  14. نصیر الدین طوسی، تجرید الاعتقاد، مکتب الاعلام الاسلامی، ص۷۱۔
  15. شعرانی، کشف المراد، ۱۳۷۲ش، ص۱۱.
  16. حسینی خوانساری، کشف الاستار، ۱۴۱۸ق، ج۵، ص۲۴.
  17. آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، دار الأضواء، ج۳، ص۳۵۲.
  18. صدرایی خویی، کتاب شناسی تجرید الاعتقاد، ۱۳۸۲ش، ص۱۳.
  19. احمدی، «اجمالی از سیر فلسفہ اسلامی...»، ص۲۲۴؛ داوری، «پیدایش و بسط علم کلام»، ص۱۱۹.
  20. مطہری، آشنائی با علوم اسلامی، ج ۲، ص۶۸
  21. مطہری، آشنائی با علوم اسلامی، ج ۲، ص۵۷
  22. علامہ حلّی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ۱۴۰۷ق، ص۲۰.
  23. کنتوری، کشف الحجب و الاستار عن اسماء الکتب و الاسفار، ص۹۷
  24. قوشچی، شرح تجرید العقائد، ص۲
  25. آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج ۳، ص۳۵۳؛ علامہ حلّی، مقدمہ حسن زادہ آملی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص۳
  26. آق ابزرگ طہرانی، الذریعہ، ج ۳، ص۳۵۲ـ۳۵۴، ج ۶، ص۶۴ـ۷۰
  27. حاجی خلیفہ، کشف الظنون، ج ۱، ستون ۳۴۶ـ۳۵۱
  28. انوار، فہرست نسخ خطی کتابخانہ ملی، ج ۷، ص۳۵۷، ج ۸، ص۳۶۰ـ۳۶۱، ج ۹، ص۳۰۸، ج ۱۰، ص۲۹۰ـ۲۹۱، ۲۹۷ـ ۲۹۸؛ فاضل، فہرست نسخہ‌ہای خطی...، ج ۲، ص۵۷۱، ۶۱۸ـ۶۱۹، ج ۳، ص۷۶۷، ۷۷۴، ۸۰۷ ـ ۸۰۸، ۸۱۵، ۸۶۴ ـ ۸۶۶، ۸۷۲، ۸۹۵؛ نسخہ‌ہای خطی، ج ۵، ص۳، ۲۲، ۳۷، ۲۱۱، ۲۱۳، ۲۹۹، ۵۹۴ ـ ۵۹۵؛ منزوی و دانش پژوہ، فہرست کتابخانہ مدرسہ عالی سپہ سالار، ج ۴، ص۱۷۵ـ ۱۸۵
  29. حاجی خلیفہ، کشف الظنون، ج ۱، ستون ۳۴۷
  30. فہرست نسخہ‌ہای خطی کتابخانہ دانشکدہ الہیات و معارف اسلامی مشہد، ج ۲، ص۵۷۱؛ نسخہ‌ہای خطی، ج ۵، ص۵۹۴
  31. حسینی، فہرست نسخہ‌ہای خطی ...، ج ۳، ص۲۳۸ـ۲۳۹
  32. حاجی خلیفہ، کشف الظنون، ج ۱، ستون ۳۵۰
  33. آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج ۶، ص۶۴ـ۷۱
  34. نصیر الدین طوسی، تجرید الاعتقاد، مکتب الاعلام الاسلامی، ص۷۶.
  35. ون دایک، کتاب اکتفاء القنوع بماہو مطبوع، ص۱۹۷
  36. شعرانی، کشف المراد: شرح تجرید الاعتقاد، ۱۳۷۲ش، ص۱۳.
  37. آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج۳، ص۳۵۲ـ۳۵۴، ج۶، ص۶۴ـ۷۰.
  38. حاجی خلیفہ، کشف الظنون، دار إحیاء التراث العربی، ج۱، ص۳۴۶-۳۵۱.
  39. صدرایی خویی، کتاب شناسی تجرید الاعتقاد، ۱۳۸۲ش.

منابع

  • احمد احمدی، «اجمالی از سیر فلسفہ اسلامی بعد از ابن رشد»، در فلسفہ در ایران: مجموعہ مقالات فلسفی، تہران: حکمت، ۱۳۵۸ش.
  • عبداللّہ انوار، فہرست نسخ خطی کتابخانہ ملی، تہران ۱۳۴۳ـ ۱۳۵۸ش.
  • مسعود بن عمر تفتازانی، شرح المقاصد، چاپ عبد الرحمان عمیرہ، قاہرہ ۱۴۰۹/۱۹۸۹، چاپ افست قم ۱۳۷۰ـ۱۳۷۱ش.
  • حاجی خلیفہ؛
  • احمد حسینی، فہرست نسخہ‌ہای خطی کتابخانہ عمومی حضرت آیۃ اللّہ العظمی نجفی مرعشی، قم ۱۳۵۴ـ۱۳۷۴ش.
  • رضا داوری، «پیدایش و بسط علم کلام»، در فلسفہ در ایران: مجموعہ مقالات فلسفی.
  • ہادی بن مہدی سبزواری، اسرار الحکم، چاپ ح. م. فرزاد، تہران ۱۳۶۱ش.
  • محمد بن ابراہیم صدر الدین شیرازی، شرح اصول الکافی، چاپ سنگی تہران ۱۳۹۱.
  • حسن بن یوسف علامہ حلّی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، چاپ حسن حسن زادہ آملی، قم ۱۴۰۷.
  • محمود فاضل، فہرست نسخہ‌ہای خطی کتابخانہ دانشکدہ الہیات و معارف اسلامی مشہد، تہران ۱۳۵۵ـ۱۳۶۱ش.
  • محمد آصف فکرت، فہرست الفبائی کتب خطی کتابخانہ مرکزی آستان قدس رضوی، مشہد ۱۳۶۹ش.
  • علی بن محمد قوشچی، شرح تجرید العقائد، چاپ سنگی تہران ۱۲۸۵.
  • اعجاز حسین بن محمد قلی کنتوری، کشف الحجب و الاستار عن اسماء الکتب و الاسفار، قم ۱۴۰۹.
  • مجلسی
  • محمد تقی مدرس رضوی، احوال و آثار خواجہ نصیر الدین طوسی، تہران ۱۳۵۴ش.
  • مرتضی مطہری، آشنائی با علوم اسلامی، ج ۲، تہران ۱۳۶۹ش.
  • احمد بن محمد مقدس اردبیلی، الحاشیۃ علی الہیات الشرح الجدید للتجرید، چاپ احمد عابدی، قم ۱۳۷۵ ش.
  • علی نقی منزوی و محمد تقی دانش پژوہ، فہرست کتابخانہ مدرسہ عالی سپہ سالار، ج ۳، تہران ۱۳۴۰ش، ج ۴، تہران ۱۳۴۶ش.
  • نسخہ‌ہای خطی: نشریہ کتابخانہ مرکزی دانشگاہ تہران، ج ۵، زیرنظر محمد تقی دانش پژوہ، تہران ۱۳۴۶ش.
  • محمد بن محمد نصیر الدین طوسی، تجرید الاعتقاد، ضمن کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، تألیف علامہ حلّی، چاپ حسن حسن زادہ آملی، قم ۱۴۰۷.
  • محمد بن محمد نصیر الدین طوسی، تلخیص المحصّل، چاپ عبداللّہ نورانی، تہران ۱۳۵۹ش؛
  • ادوارد ون دایک، کتاب اکتفاء القنوع بماہو مطبوع، چاپ محمد علی ببلاوی، مصر ۱۳۱۳/۱۸۹۶، چاپ افست قم ۱۴۰۹.