الباب الحادی عشر (کتاب)

ویکی شیعہ سے
الباب الحادی عشر
مشخصات
مصنفعلامہ حلّی
سنہ تصنیفآٹھویں صدی ہجری
موضوععلم کلام
زبانعربی
مذہبشیعہ


الباب الحادي عَشَر، منہاج الصّالح فی مختصر المصباح کا گیارہواں باب اور حوزہ علمیہ میں پڑھائی جانے والی کلامی کتابوں میں سے ایک ہے جسے علامہ حلی نے شیعہ اصول عقائد کے اثبات میں لکھا ہے۔

مؤلف

تفصیلی مضمون: علامہ حلی

ابو منصور جمال‌ الدین، حسن بن یوسف بن مطہر حلّی (648-726 ھ) علامہ حلّی کے لقب سے مشہور ہیں۔ اور آپ آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ علما میں سے ہیں۔ آپ کے علمی آثار اور مناظرات کی وجہ سے سلطان محمد خدا بندہ شیعہ ہوئے اور ایران میں شیعہ مذہب پھیل گیا۔ علامہ حلی نے بہت سارے علوم؛ جیسے فقہ، اصول، عقاید، فلسفہ، منطق، دعا وغیرہ میں کتابیں تالیف کیا ہے جن میں تبصرۃ المتعلمین فی احکام الدین، کشف المراد، نہج الحق و کشف الصدق، باب حادی عشر، خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال، الجوہر النضید شامل ہیں۔ آپ وہ پہلی ہستی ہیں جنہیں علم اور فضیلت کے باعث آیت اللہ کا لقب دیا گیا۔

کتاب کا تعارف

علامہ حلی نے وزیر محمد بن محمد قوہدی کی خواہش پر کتاب منہاج الصالح فی مختصر المصباح لکھا جس میں شیخ طوسی (متوفی 460 ھ) کی دعاوں اور عبادات پر مشتمل کتاب مصباح المُتَہجِّد کا خلاصہ کیا ہے۔ آپ نے اس خلاصے کو دس باب میں ذکر کیا ہے اور اس کے بعد چونکہ دعا اور عبادت کی شناخت معبود اور پکارے جانے والے کی شناخت پر موقوف ہے اور عبادت کا صحیح ہونا عقیدہ اور ایمان کی درستگی پر موقوف ہے اس لئے ایک اور باب گیارہویں باب (الباب الحادی عشر) کے نام سے اصول دین کی شناخت کے بارے میں اضافہ کیا۔

فصل‌ اور عناوین

علامہ حلّی نے اس گیارہویں باب میں وہ اصول دین جن پر مسلمانوں کا اجماع ہے کو یوں بیان کرتا ہے:

خدا کی معرفت، صفات ثبوتیہ اور سلبیہ اور وہ چیزیں جو خدا کے بارے میں صحیح ہیں اور جو چیزیں خدا کے بارے میں ممتنع ہیں اور نبوت، امامت اور معاد۔ آپ نے اس باب کو سات فصلوں میں تقسیم کیا ہے:

  1. پہلی فصل واجب الوجود کے اثبات میں ہے؛
  2. دوسری فصل صفات ثبوتیہ کے بارے میں ہے اور صفات ثبوتیہ، قدرت اور اختیار، علم، حیات، ارادہ اور کراہت، ادراک، قدیم اور ازلی، باقی اورابدی ہونا، تکلم، صدق؛
  3. تیسری فصل صفات سلبیہ کے بارے میں ہے اور صفات سلبیہ؛ مرکب نہ ہونا، جسم، عرض اور جوہر نہیں ہونا اور لذت اور درد نہیں ہونا، کسی چیز سے نہیں ملنا، حادثات کا منبع نہ ہونا، ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھا جانا، شریک نہ ہونا اور حالات و معانی سے دور ہونا؛
  4. چوتھی فصل عدل کے بارے میں ہے اور انسان کےلیے اختیار اور اللہ کے لیے قبیح کو محال ہونا اور ان پر لطف ثابت کرتے ہیں؛
  5. پانچویں فصل نبوت کے بارے میں ہے جس میں «نبی» کے لفظ کی تعریف کرنے کے بعد پیغمبر اسلام کی نبوت انکی عصمت کے وجود اور لوگوں میں سے افضل ہونا اور اجداد کی پستیوں اور ماؤوں کی ناپاکی اور اخلاقی برائیوں اور جسمی عیوب سے پاک ہونے کو ثابت کرتے ہیں؛
  6. چھٹی فصل امامت (پیغمبر کے نائب کے عنوان سے ایک شخص کو دینی اور دنیوی امور میں عام ریاست ہونا) کے بارے میں ہے اور اسے عقلی طور پر واجب سمجھتے ہیں اور کہتا ہے کہ امام کو معصوم اور اللہ کی طرف سے منصوص ہونا چاہیے اور لوگوں میں سب سے افضل ہونا چاہیے۔ پھر عقلی اور نقلی طریقوں سے پیغمبر کے بعد علی بن ابی طالب کی بلافصل امامت کے بارے میں بیان کرتا ہے؛
  7. ساتویں فصل قیامت کے بارے میں ہے اور اسے عقلی طریقے سے ثابت کرتا ہے پھر اس بارے میں بعض آیتوں کو ذکر کر کے ان کی تشریح کرتا ہے؛ اس فصل میں ثواب اور عقاب، توبہ، امر بالمعروف اور نہی از منکر کو بیان کیا ہے۔

شرح‌ اور ترجمے

باب حادی عشر کی منفرد خصوصیت یعنی اختصار اور جامعیت کی وجہ سے قدیم الایام سے ہی علم کلام اور شیعہ اعتقادات کے شیدائیوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے اور ہمیشہ باقی دس ابواب سے الگ اس کی تدوین اور اشاعت ہوئی ہے۔ شیعہ علما نے اس پر بہت سارے شروحات اور تعلیقے لکھے ہیں اور حوزہ علمیہ میں اس کو نصابی کتاب کے عنوان سے پڑھایا گیا ہے۔ آقا بزرگ طہرانی نے الذریعَۃ میں بیس سے زیادہ شروحات کا ذکر کیا ہے۔ ان شروحات میں سے سب سے زیادہ مشہور فاضل مقداد (متوفی 826 ھ) کی لکھی ہوئی شرح بنام النافع یوم الحشر فی شرح باب حادی عشر اور اہل علم کی مورد نظر رہی ہے اور دینی مدارس میں پڑھائی گئی ہے اور کئی بار زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے۔

اسی طرح ابوالفتح بن مخدوم الخادم الحسینی العربشاہی (متوفی 976 ھ) نے مفتاح الباب کے نام سے انتقادی تصحیح اور تشریح کی ہے اور الباب الحادی عشر للعلامۃ الحلی مع شرحیہ ... کے نام سے چھپ چکی ہے۔

باب حادی عشر اور فاضل مقداد کی شرح کے کئی ترجمے فارسی زبان میں ہو چکے ہیں ان میں سے مشہور الجامع فی ترجمۃ النافع ہے جسے حاجی میرزا محمد علی حسینی شہرستانی (متوفی 1344) نے لکھا ہے۔[1] میلر نے انگلش میں ترجمہ کیا ہے جو 1928ء کو لندن سے چھپ گئی ہے۔

حوالہ جات

  1. آقا بزرگ طہرانی، ج ۵، ص۲۸

مآخذ

  • محمد محسن آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشّیعۃ، بیروت ۱۹۸۳؛
  • حسن بن یوسف علاّمہ حلّی، الباب الحادی عشر لِلعَلّامَۃ الحلّی، مع شرحَیہ النافع یوم الحشر، لِمقداد بن عبداللہ سیوری و مفتاح الباب لاِ بی‌الفتح بن مخدوم حسینی، چاپ مہدی محقق، تہران ۱۳۶۵ش.

بیرونی روابط