"استخارہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 22: | سطر 22: | ||
[[ابن ادریس حلی]] کاغذ کے ساتھ استخارہ کرنے کے بارے میں موجود احادیث کو غیر معتبر قرار دیتے ہیں؛<ref>ابنادریس حلی، السرائر، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۱۳و۳۱۴۔</ref> لیکن [[شہید اول]] ان کی بات کو یہ کہ کر رد کرتے ہیں کہ کاغذ کے ساتھ استخارہ کرنا [[امامیہ]] کے نزدیک مشہور ہے۔<ref>شہید اول، ذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۶-۲۶۷۔</ref> | [[ابن ادریس حلی]] کاغذ کے ساتھ استخارہ کرنے کے بارے میں موجود احادیث کو غیر معتبر قرار دیتے ہیں؛<ref>ابنادریس حلی، السرائر، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۱۳و۳۱۴۔</ref> لیکن [[شہید اول]] ان کی بات کو یہ کہ کر رد کرتے ہیں کہ کاغذ کے ساتھ استخارہ کرنا [[امامیہ]] کے نزدیک مشہور ہے۔<ref>شہید اول، ذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۶-۲۶۷۔</ref> | ||
تسبیح کے ساتھ استخارہ کرنا یوں انجام دیا جاتا ہے کہ [[سورہ حمد]](حداقل تین مرتبہ یا کم از کم ایک مرتبہ) اور [[سورہ قدر]] دس مرتبہ نیز مخصوص دعا {{نوٹ| تین مرتبہ: {{حدیث|اللہم إني أستخيرك لعلمك بعاقبۃ الأمور، و أستشيرك لحسن ظني بك في المأمول و المحذور۔ اللہم إن كان الأمر الفلاني مما قد نيطت بالبركۃ اعجازہ و بواديہ، و حفّت بالكرامۃ أيامہ و لياليہ، فخر لي اللہم فيہ خيرۃ ترد شموسہ ذلولا، و تقعض أيامہ سرورا۔ اللہم إما أمر فائتمر، و اما نہي فانتہي۔ اللہم إني أستخيرك برحمتك خيرۃ في عافيۃ؛|ترجمہ= خدایا میں تجھ سے خیر کی درخواست کرتا ہوں توں مجھے میرے کاموں کے انجام خیر سے مطلع فرما اور میں آپ کے ساتھ مشورت کرتا ہوں چوں مجھے تجھ پر نیک گمان ہے ان چیزوں میں جن کے بارے میں مجھ خوف اور میرے آرزو ہے۔ خدایا یہ کام اگر ان کاموں میں سے ہو جسکا آغاز اور انجام خیر اور نیکی پر ہو اور دین اور رات کرامت والی ہو تو اس کام کو میرے لئے انتخاب فرما۔ خدایا اس کام کی نیکی میں موجود سختی کو سہل اور آسان اور اس کے دنوں کو خوشگوار بنا دے۔ خدایا اگر اس میں آپ حکم کریں تو انجام دوں گا اور اگر نہی فرمائے تو اس سے دوری اختیار کروں گا۔ خدایا میں تیری رحمت کا سوالی ہوں (شہید اول، ذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۹و۲۷۰)۔}} پڑھ کر [[تسبیح (سبحہ)|تسبیح]] کے ایک حصے کو یا کچھ مقدار میں کنکریوں کو جدا کریں پھر انہیں دو دو کر کے گنا شروع کریں۔ اگر باقی ماندہ زوج ہو تو مطلوبہ کام کو ترک کریں گے اور اگر فرد ہو تو اسے انجام دیں گے۔<ref>شہید اول، ذکری لشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۹و۲۷۰۔</ref> | |||
== مشروعیت | [[شہید اول]] کے مطابق تسبیح یا کنکریوں کے ساتھ استخارہ کرنے کی سند [[رضی الدین آبی]] تک پہنچتی ہے۔<ref>شہید اول، الذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۹۔</ref> البتہ سید ابن طاووس نے اس سند کو [[ائمہ]] تک پہنچایا ہے۔<ref>شہید اول، الذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۹-۲۷۰۔</ref> اور [[صاحب جواہر]] (۱۲۰۲-۱۲۶۶ھ) کے مطابق ان کے زمانے میں علماء اسی طریقے سے استخارہ کرتے تھے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۱۶۳۔</ref> | ||
== استخارہ کی مشروعیت==<!-- | |||
پیش از اسلام، نوعی از استخارہ بہنام استقسام بہ ازلام رایج بود<ref>ابنحبیب، المحبر، دار الآفاق الجدیدہ، ص۱۹۶۔</ref> کہ بہوسیلہ تیرِ کمان انجام میشد۔<ref>جصاص، احکام القرآن، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۳۰۶۔</ref> برخی ازجملہ [[محمود شلتوت|شیخ شلتوت]] عالم اہل سنت، با استناد بہ [[آیہ]] ۳ [[سورہ مائدہ]] کہ در آن استقسام بہ ازلام حرام اعلام شدہ، استخارہ را مصداق نہی این آیہ دانستہ و آن را عملی نامشروع شمردہاند؛<ref> عباسیمقدم، «بررسی مبانی و ماہیت استخارہ»، ص۳۲۔</ref> اما [[آیتاللہ صافی گلپایگانی]] از مراجع تقلید شیعہ، میان استسقام و استخارہ تفاوت قائل شدہ، نظر شیخ شلتوت را رد کردہ<ref> گلپایگانی، بحوث حول الاستسقام (مشروعیۃ الاستخارہ)، ص۸-۱۔</ref> و برای [[استحباب]] استخارہ بہ روایات متعددی استناد کردہ است۔<ref> گلپایگانی، بحوث حول الاستسقام (مشروعیۃ الاستخارہ)، ص۷تا۹۔</ref> | پیش از اسلام، نوعی از استخارہ بہنام استقسام بہ ازلام رایج بود<ref>ابنحبیب، المحبر، دار الآفاق الجدیدہ، ص۱۹۶۔</ref> کہ بہوسیلہ تیرِ کمان انجام میشد۔<ref>جصاص، احکام القرآن، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۳۰۶۔</ref> برخی ازجملہ [[محمود شلتوت|شیخ شلتوت]] عالم اہل سنت، با استناد بہ [[آیہ]] ۳ [[سورہ مائدہ]] کہ در آن استقسام بہ ازلام حرام اعلام شدہ، استخارہ را مصداق نہی این آیہ دانستہ و آن را عملی نامشروع شمردہاند؛<ref> عباسیمقدم، «بررسی مبانی و ماہیت استخارہ»، ص۳۲۔</ref> اما [[آیتاللہ صافی گلپایگانی]] از مراجع تقلید شیعہ، میان استسقام و استخارہ تفاوت قائل شدہ، نظر شیخ شلتوت را رد کردہ<ref> گلپایگانی، بحوث حول الاستسقام (مشروعیۃ الاستخارہ)، ص۸-۱۔</ref> و برای [[استحباب]] استخارہ بہ روایات متعددی استناد کردہ است۔<ref> گلپایگانی، بحوث حول الاستسقام (مشروعیۃ الاستخارہ)، ص۷تا۹۔</ref> | ||
نسخہ بمطابق 21:18، 5 نومبر 2019ء
اِسْتِخارہ، طلب خیر اور شک و تردید کے موقع پر اپنے امور کے انتخاب کو خدا پر چھوڑنے کو کہا جاتا ہے۔ استخارہ مختلف طریقوں سے انجام پاتا ہے؛ من جملہ ان میں نماز اور دعا کے ذریعے استخارہ کرنا، قرآن کے ذریعے استخاره کرنا، استخارہ ذاتالرِّقاع (کاغذ کے ذریعے استخارہ کرنا) اور تسبیح کے ذریعے استخارہ کرنا شامل ہیں۔
علماء استخارے کی مشروعیت کو ثابت کرنے کے لئے مختلف احادیث سے استناد کرتے ہیں۔ شیخ عباس قمی نے استخارہ کے بعض طریقوں کو مفاتیح الجنان میں ذکر کئے ہیں۔ استخارہ کے بعض آداب یہ ہیں: قرآن کی بعض آیتوں یا سورتوں کی تلاوت کرنا، پیغمبر اکرمؐ اور آپ کی آل پر صلوات بھیجنا نیز بعض مخصوص اذکار کا پڑھنا۔
علامہ مجلسی کے مطابق اصل یہ ہے کہ ہر شخص خود اپنے لئے استخارہ کرے؛ لیکن بعض علماء اس کام کے لئے دوسرے کی طرف بھی رجوع کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں اور موجودہ دور میں استخارہ کے لئے لوگ علماء کی طرف مراجعہ کرتے ہیں۔
بعض مشہور استخارے نقل ہوئے ہیں؛ من جملہ ان میں عبدالکریم حائری مؤسس حوزہ علمیہ قم کی جانیت بں قم میں اقامت کے لئے استخارہ اور محمدعلی شاہ قاجار کی طرف سے مجلس شورای ملی میں شامل ہونے کے لئے استخارہ۔
بعض کتابیں جو مستقل طور پر استخارہ کے بارے میں لکھی گئی ہیں درج ذیل ہیں: فَتحُالاَبواب، تحریر سید بن طاووس، اِرشاد المُستَبصِر فی الاِستخارات، تألیف سید عبداللہ شُبَّر اور الاِثارۃ عن معانی الاِستخارہ، تحریر فیض کاشانی۔
مفہوم شناسی
استخارہ لغت میں طلب خیر،[1] دو کاموں میں سے بہترین کے انتخاب کی درخواست[2] اور دعا[3] کے معنی میں آیا ہے؛ لیکن موجودہ دور میں کسی ایسے کام کے انتخاب کو خدا پر چھوڑنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جس کے متعلق انسان تردد کا شکار ہو اور دوسروں کے ساتھ مشورت کے ذریعے اس کام میں موجود خیر و شر کی تشخیص ممکن نہ ہو۔[4]
استخارہ کے طریقے
حدیثی منابع میں استخارہ کے مختلف طریقے بیان ہوئے ہیں جن میں نماز، دعا، قرآن اور تسبیح کے ذریعے استخارہ کرنا نیز استخارہ ذاتالرِّقاع (کاغذ کے استخارہ کرنا) کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان طریقوں میں سے ہر ایک میں مختلف صورتوں میں استخارہ انجام دیا جاتا ہے۔ کتاب مفاتیحالجنان میں شیخ عباس قمی نے استخارہ کے بعض طریقوں کو ذکر کئے ہیں۔[5]
نماز کے ذریعے استخارہ کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے دو رکعت نماز ادا کی جائے پھر نماز کے بعد سجدے میں جا کر 100 دفعہ کہے : "اَستخیر اللّہ فی جمیع اُموری خيرة فی عافی" (میں تمام امور میں خدا سے طلب خیر کرتا ہوں)۔ اس کے بعد خدا اس کے دل میں جو بھی خطور کرے اسی کو انجام دے گا۔[6]
امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث میں قرآن کے ساتھ استخارہ کرنے کا ایک طریقہ یوں آیا ہے: اگر انسان کسی کام کو انجام دینے اور نہ دینے میں مردد ہو تو جب نماز کے لئے تیار ہو جائے تو قرآن کھولیں اور اس میں سب سے پہلے جس چیز کا مشاہدہ ہو اس پر عمل کرے۔[7]
کاغذ کے ساتھ استخارہ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کاغذ کے دو ٹکروں میں سے ایک پر "اِفْعَل" (انجام دے دو) اور دوسرے پر "لا تَفْعَل" (انجام مت دو) پھر خاص اعمال انجام دینے کے بعد ان میں سے کسی ایک کو اٹھا لے اور اسی کے مطابق عمل کرے۔[8]
ابن ادریس حلی کاغذ کے ساتھ استخارہ کرنے کے بارے میں موجود احادیث کو غیر معتبر قرار دیتے ہیں؛[9] لیکن شہید اول ان کی بات کو یہ کہ کر رد کرتے ہیں کہ کاغذ کے ساتھ استخارہ کرنا امامیہ کے نزدیک مشہور ہے۔[10]
تسبیح کے ساتھ استخارہ کرنا یوں انجام دیا جاتا ہے کہ سورہ حمد(حداقل تین مرتبہ یا کم از کم ایک مرتبہ) اور سورہ قدر دس مرتبہ نیز مخصوص دعا {{نوٹ| تین مرتبہ: اللہم إني أستخيرك لعلمك بعاقبۃ الأمور، و أستشيرك لحسن ظني بك في المأمول و المحذور۔ اللہم إن كان الأمر الفلاني مما قد نيطت بالبركۃ اعجازہ و بواديہ، و حفّت بالكرامۃ أيامہ و لياليہ، فخر لي اللہم فيہ خيرۃ ترد شموسہ ذلولا، و تقعض أيامہ سرورا۔ اللہم إما أمر فائتمر، و اما نہي فانتہي۔ اللہم إني أستخيرك برحمتك خيرۃ في عافيۃ؛ (ترجمہ: خدایا میں تجھ سے خیر کی درخواست کرتا ہوں توں مجھے میرے کاموں کے انجام خیر سے مطلع فرما اور میں آپ کے ساتھ مشورت کرتا ہوں چوں مجھے تجھ پر نیک گمان ہے ان چیزوں میں جن کے بارے میں مجھ خوف اور میرے آرزو ہے۔ خدایا یہ کام اگر ان کاموں میں سے ہو جسکا آغاز اور انجام خیر اور نیکی پر ہو اور دین اور رات کرامت والی ہو تو اس کام کو میرے لئے انتخاب فرما۔ خدایا اس کام کی نیکی میں موجود سختی کو سہل اور آسان اور اس کے دنوں کو خوشگوار بنا دے۔ خدایا اگر اس میں آپ حکم کریں تو انجام دوں گا اور اگر نہی فرمائے تو اس سے دوری اختیار کروں گا۔ خدایا میں تیری رحمت کا سوالی ہوں (شہید اول، ذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۹و۲۷۰)۔) پڑھ کر تسبیح کے ایک حصے کو یا کچھ مقدار میں کنکریوں کو جدا کریں پھر انہیں دو دو کر کے گنا شروع کریں۔ اگر باقی ماندہ زوج ہو تو مطلوبہ کام کو ترک کریں گے اور اگر فرد ہو تو اسے انجام دیں گے۔[11]
شہید اول کے مطابق تسبیح یا کنکریوں کے ساتھ استخارہ کرنے کی سند رضی الدین آبی تک پہنچتی ہے۔[12] البتہ سید ابن طاووس نے اس سند کو ائمہ تک پہنچایا ہے۔[13] اور صاحب جواہر (۱۲۰۲-۱۲۶۶ھ) کے مطابق ان کے زمانے میں علماء اسی طریقے سے استخارہ کرتے تھے۔[14]
استخارہ کی مشروعیت
حوالہ جات
- ↑ ابناثیر، النہایۃ، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان، ج۲، ص۹۱، ذیل واژہ «خیر»۔
- ↑ ابنفارس، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۲۳۲، ذیل واژہ «خیر»۔
- ↑ ابنادریس، السرائر، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۱۴۔
- ↑ ضميرى و حسينىزادہ، «استخارہ»۔
- ↑ رجوع کریں: قمی، مفاتیحالجنان، ۱۳۷۶ش، ص۸۴۲تا۸۵۱، حاشیہ کتاب۔
- ↑ ابنادریس، السرائر، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۱۴۔
- ↑ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۳۱۰۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۴۷۳۔
- ↑ ابنادریس حلی، السرائر، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۱۳و۳۱۴۔
- ↑ شہید اول، ذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۶-۲۶۷۔
- ↑ شہید اول، ذکری لشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۹و۲۷۰۔
- ↑ شہید اول، الذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۹۔
- ↑ شہید اول، الذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۹-۲۷۰۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۱۶۳۔
مآخذ
- ابناثیر، مبارک بن محمد، النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر، قم، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان، بیتا۔
- ابنادریس حلی، محمد بن منصور، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۰ق۔
- ابنحبیب، محمد بن حبیب، المحبر، تحقیق ایلزہ لیختن شتیتر، بیروت، دار الآفاق الجدیدہ، بیتا۔
- اسفندیاری، آمنہ، «استخارہ اینترنتی صحیح است؟!!»، تبیان، تاریخ درج مطلب: ۱۳ تیر ۱۳۹۱ش، تاریخ مشاہدہ: ۳۰ تیر ۱۳۹۸ش۔
- ابنفارس، احمد بن فارس، معجم مقائیس اللغۃ، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، ۱۴۰۴ق۔
- توکلی، احمد، ورقی از تاریخ مشروطہ: چند استخارہ از محمدعلیشاہ با جوابہای آنہا، در مجلہ یادگار، شمارہ ۴۸ و ۴۹، فروردین و اردیبہشت ۱۳۲۸ش۔
- تیموری، ابراہیم، «ناصرالدین شاہ و استخارہ برای قبول حاکمیت ایران بر ہرات»، در مجلہ بخارا، شمارہ ۱۰۰، خرداد و تیر ۱۳۹۳ش۔
- جصاص، احمد بن علی، احکامالقرآن، تحقیق محمد صادق قمحاوی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۵ق۔
- «دعانویسی و استخارہ»، دفتر حفظ و نشر آیتاللہ العظمی خامنہای، تاریخ مشاہدہ: ۳۰ تیر ۱۳۹۸ش۔
- شبیری زنجانی، سید موسی، جرعہای از دریا: مقالات و مباحث شخصیتشناسی و کتابشناسی، قم، انتشارات مؤسسہ کتابشناسی شیعہ، ۱۳۹۳ش۔
- شہید اول، محمد بن مکی، ذکریالشیعہ فی احکام الشریعہ، قم، مؤسسہ آلالبیت علیہمالسلام، ۱۴۱۹ق۔
- ضميرى و حسينىزادہ، «استخارہ»، در دایرۃ المعارف بزرگ قرآن، تاریخ مشاہدہ: ۳۰ تیر ۱۳۹۸ش۔
- طریقہدار، ابوالفضل، کندوکاوی دربارہ استخارہ و تفأل، قم، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، ۱۳۷۷ش۔
- طوسی، محمد بن حسن، تہذیبالاحکام، تصحیح حسن موسوی خرسان، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق۔
- فیض کاشانی، تقویمالمحسنین، در کتاب توضیحالمقاصد بہ ضمیمۃ تقویمالمحسنین، نوشتہ شیخ بہایی، بیجا، بینا، ۱۳۱۵ق۔
- قمی، شیخ عباس، مفاتیحالجنان، تصحیح حسین استادولی، قم، صدیق، چاپ اول، ۱۳۷۶ش
- نجفی، محمدحسن، جواہرالکلام فی شرح شرائعالاسلام، تحقیق عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ق۔
- عباسیمقدم، مصطفی، «بررسی مبانی و ماہیت استخارہ»، در مجلہ مطالعات تاریخی قرآن و حدیث، شمارہ ۴۲، بہار و تابستان ۱۳۸۷ش۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق۔