الفصول الغرویۃ فی الاصول الفقهیۃ (کتاب)

ویکی شیعہ سے
(کتاب الفصول الغرویہ سے رجوع مکرر)
الفُصولُ الغَرَویَّۃ فی الاُصول الفِقہیَّۃ
کتاب فصول کی تصویر
کتاب فصول کی تصویر
مشخصات
مصنفمحمد حسین حائری اصفہانی
موضوعاصول فقہ
زبانعربی
طباعت اور اشاعت
ناشردار الاحیاء العلوم الاسلامیہ
مقام اشاعتقم
سنہ اشاعت1404ھ



الفُصولُ الغَرَویَّۃ فی الاُصول الفِقہیَّۃ اصول فقہ کے موضوع پر عربی زبان میں لکھی گئی ایک کتاب ہے جسے تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ معروف مجتہد، محمد حسین حائری اصفہانی نے تحریر کی ہے۔ یہ کتاب شیعہ دینی مدارس کے نصاب میں شامل رہی ہے۔ آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب الذریعہ میں اس کتاب پر لکھے گئے 15 حاشیوں کے نام ذکر کیے ہیں۔

کتاب الفصول الغرویہ ایک مقدمہ اور تین حصوں پر مشتمل ہے۔ مقدمہ؛ علم اصول فقہ کی تعریف، وضع، مجاز و حقیقت، حقیقت شرعیہ و متشرعہ، صحیح و اعم اور مشتق کی ابحاث پر مشتمل ہے۔ کتاب کے پہلے حصے میں صیغہ امر، واجب کی قسمیں، نہی، اجتماع امر و نہی کے احکام جیسے موضوعات زیر بحث لائے گئے ہیں۔ دوسرے حصے میں قرآن، اجماع اور خبر واحد کی حجیت کا جائزہ لیا گیا ہے؛ اس کے ساتھ فعل معصوم، تقریر اور سکوت معصوم کی حجیت پر بھی بحث کی گئی ہے۔ کتاب کے تیسرے حصے میں عقلی دلائل، اجتہاد و تقلید اور تعادل و تراجیح جیسے موضوعات پیش کیے گئے ہیں۔

کتاب فصول سنہ 1232ھ میں شائع ہوئی ہے اور مختلف ناشرین نے اسے طبع کیا ہے۔ اس کا سنہ 1249ھ میں تحریر کردہ ایک خطی نسخہ کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

کتاب کی اہمیت

الفصول الغرویہ فی الاصول الفقہیہ، اصول فقہ کے موضوع پر لکھی گئی ایک کتاب ہے جو دینی درسگاہوں کے رائج علمی نصاب کا حصہ رہی ہے اور اہل علم کے درمیان زبان زد عام ہے۔[1] کہا جاتا ہے کہ اس کی کتاب کی شہرت کے بموجب خود اس کے مولف محمد حسین حائری اصفہانی بھی معروف ہوئے۔[2]

کتاب "روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات" کے مولف سید محمد باقر خوانساری نے اس کتاب کو علم اصول کے بہترین قلمی اثر اور عمیق افکار و نظریات پر مشتمل کتاب قرار دیا ہے۔[3] شیعہ حوزات علمیہ میں اس کتاب کی تدریس کے دوران اس کتاب کے مندرجات کے سلسلے میں مختلف نظریات پیش کیے جاتے ہیں، منجملہ شیخ مرتضی انصاری نے اپنی کتاب رسائل میں بارہا صاحب فصول کی طرف سے پیش کیے گئے نظریات کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔[4]کہا جاتا ہے کہ کفایۃ الاصول کے مولف آخوند خراسانی نے اپنی کتاب کے 70 مقامات پر صاحب فصول کے اصول سے متعلق نظریات کو بیان کیا ہے۔[5]

مولف

محمد حسین بن عبد الرحیم اصفہانی حائری (وفات:1254ھ[6] یا تقریبا 1261ھ)[7]) تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ فقہاء میں سے ہیں۔[8] انہوں نے ہدایۃ المسترشدین کے مولف اور اپنے بھائی محمد تقی رازی اصفہانی اور علی بن جعفر کاشف‌الغطاء کے پاس دروس حاصل کیے۔[9] حائری اصفہانی کربلا میں فقہ اور اصول فقہ کی تدریس کرتے تھے[10] ساتھ ہی ساتھ مرجع تقلید بھی تھے۔[11]

کہا جاتا ہے کہ صاحب فصول کے بکثرت شاگرد تھے؛ سید حسین کوہ‌کمری، سید علی‌ نقی طباطبائی، سید زین‌ العابدین طباطبائی اور محمد حسین آل‌یاسین ان کے شاگردوں می شامل ہیں۔[12] صاحب فصول حرم امام حسینؑ میں نماز جماعت کی اقتداء کرتے تھے اور وفات کے بعد حرم میں ہی مدفون ہوئے۔[13]

مندرجات اور طرز تحریر

کتاب فصول میں 120 ابواب ہیں اور یہ کئی حصوں مشتمل ہیں۔[14]مصنف نے اپنی کتاب کے پہلے صفحے میں اس کی وضاحت یوں بیان کی ہے کہ یہ کتاب ایک مقدمہ، متعدد مقالہ جات اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔[15] مصنف کے مطابق اس کتاب کو اپنے ایک فاضل دوست کی درخواست پر اصول فقہ کی کتاب "قوانین الاصول" کے اصول فقہ سے متعلق نظریات و افکار کا تنقیدی جائزہ لینے کے لیے تالیف کی ہے۔[16] کتاب کے مقدمے میں تعریف علم اصول فقہ، وضع، مجاز و حقیقت، حقیقت شرعیہ و متشرعہ، صحیح و اعم اور مشتق کی بحثییں شامل ہیں۔[17]

کتاب کے پہلے مقالے میں بیان شدہ موضوعات یہ ہیں: صیغہ امر، مقدمہ واجب، ضد، واجب کی قسمیں، إجزاء، نہی، اجتماع امر و نہی، مفاہیم، عام و خاص، مطلق و مقید، مجمل و مبین اور نسخ ۔[18] دوسرے مقالے میں حجیت قرآن، اجماع، خبر واحد، حجیت فعل، سکوت اور تقریر معصوم پر بحث کی گئی ہے۔ عقلی دلائل سے مربوط مباحث جیسے حسن و قبح عقلی، اصل برائت، استصحاب، اجتہاد و تقلید اور تعادل و تراجیح تیسرے مقالے میں پیش کیے ہیں۔ کتاب میں کچھ بحثیں خاتمہ کے عنوان سے نہیں آئیں ہیں لیکن کتاب کی رائج اشاعت میں تعادل و تراجیح کی بحث کو خاتمہ کا عنوان دے کر بیان کیا ہے۔[19] محمد باقر خوانساری کے مطابق کتاب فصول میں علم اصول فقہ کی تمام بحثیں نہیں ہیں۔[20]

کتاب کی شرحیں اور حاشیے

شیعہ کتاب شناس آقا بزرگ تہرانی (1389ھ) نے اپنی کتاب الذریعہ میں کتاب فصول کے 15 حاشیوں کا نام لیا ہے۔[21] ان کے کہنے کے مطابق کتاب فصول پر لکھے گئے حاشیوں میں اس کتاب میں موجود سارے موضوعات پر حاشیے نہیں لکھے گئے ہیں۔[22] کتاب فصول کے حاشیے یہ ہیں:

  1. حاشیہ شیخ احمد شیرازی شانہ‌ساز
  2. حاشیہ میرزا محمدباقر قاضی طباطبایی
  3. حاشیہ سید اسماعیل مرندی از شاگردان شیخ مرتضی انصاری.
  4. حاشیہ محمدحسن کبّہ
  5. حاشیہ محمدرضا دزفولی
  6. حاشیہ سید صادق سنگلجی تہرانی
  7. حاشیہ سید عبدالکریم لاہیجی
  8. حاشیہ محمدعلی قراچہ‌داغی
  9. حاشیہ محمد آملی
  10. حاشیہ میرزا محمد تنکابنی
  11. حاشیہ سید محمد تبریزی
  12. حاشیہ میرزا نصراللہ شیرازی
  13. حاشیہ علی مرندی نجفی
  1. حاشیہ مولی اسماعیل قرہ‌باغی۔ البتہ آقا بزرگ نے اسے خود صاحب فصول کے نظریات شمار کیے ہیں۔[23]
  2. حاشیہ میرزا فتح‌اللہ نمازی؛ المعروف شریعت اصفہانی۔ انہوں نے کتاب فصول کی ابتدا سے بحث وضع تک پر حاشیے لکھے ہیں۔[24]

شروحات

  • مفتاح مقفلات الاصول فی توضیح معضلات الفصول، مولف: سید حسن بن سید احمد کاشانی.[25]
  • دقائق الاصول فی شرح الفصول، مولف: محمد‌ نبی بن احمد تویسرکانی (تقریبا 1319ھ).[26]

خلاصہ جات

  • «خلاصۃ الفصول فی علم الاصول» سید صدرالدین صدر(وفات: 1373ھ) نے اسے عربی میں لکھا ہے؛ کہا جاتا ہے کہ مولف نے کتاب فصول اور قوانین کا اس لیے خلاصہ پیش کیا ہے تاکہ مدارس علمیہ میں اس کی تدریس کی جائے، کیونکہ مذکورہ دو کتابیں حجیم ہونے کی وجہ سے عام طور پر طلاب ان کتابوں کے صرف کچھ حصوں کو پڑھتے تھے۔[27]

طباعت اور اشاعت

کتاب فصول کی سنہ 1232ھ میں اشاعت شروع ہوئی[28]اور اس کا خطی نسخہ کتابخانوں میں موجود ہے[29] ان کے دو نمونے یہ ہیں:

1. کتابخانہ آیت‌ اللہ مرعشی نجفی میں موجود نسخہ، سیریل نمبر 3424، اس نسخے کو عبد الوہاب بن ابو القاسم رضوی ہمدانی نے 19ربیع‌الثانی سنہ 1249ھ میں نجفدر نجف میں لکھا ہے اور اس کی تطبیق و تصحیح کاتب کے بھائی میرزا ابوتراب نے انجام دی ہے۔[30]

2. کتابخانہ کتابخانہ سید محمدرضا گلپایگانی میں موجود نسخہ، سیریل نمبر 9428، اسے محمد اسماعیل استر آبادی نے خط صفر سنہ 1252ھ کو نجف میں شکستہ نستعلیق میں تحریر کیا ہے۔[31]

اس کتاب کی مختلف اشاعتیں ہوئی ہیں۔ ان میں بعض مطبعۃ الآداب نجف، دار احیاء العلوم الاسلامیہ قم اور کارخانہ ملافضل‌اللہ ہیں.

اس کتاب کی 10 قسم کی لیتھوگرافی کا ذکر ملتا ہے۔[32] ان میں چند یہ ہیں:

  • تہران، 1261ھ، خط محمدرضا بن ابی‌القاسم، قطع رحلی.
  • تہران، 1266ھ، خط محمود بن غلامرضا قمی.
  • تہران، 1269-1270ھ، تصحیح و تطبیق: محمدحسن بن حاج علی قمی خط محمدصادق ابوالحسن گلپایگانی پہلی جلد اور علی‌اکبر بن علی گلپایگانی دوسری جلد.
  • تہران، 1274ھ، اہتمام آقاموسی طہرانی اورخط مہدی خوانساری.

حوالہ جات

  1. خوانساری، روضات الجنات، 1390ہجری شمسی، ج2، ص126.
  2. «شیخ محمد حسین حائری اصفہانی (صاحب‌فصول)»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ.
  3. خوانساری، روضات الجنات، 1390ہجری شمسی، ج2، ص126.
  4. محمدحسین حائری(صاحب فصول)، دانشنامہ پژوہہ دانشکدہ باقرالعلوم.
  5. محمد حسین حائری(صاحب فصول)، دانشنامہ پژوہہ دانشکدہ باقرالعلوم.
  6. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج6، ص164.
  7. خوانساری، روضات الجنات، 1390ہجری شمسی، ج2، ص126.
  8. امین، اعیان الشیعہ، 1421ھ، ج9، ص233.
  9. امین، اعیان الشیعہ، 1421ھ، ج9، ص233.
  10. خوانساری، روضات الجنات، 1390ہجری شمسی، ج2، ص126.
  11. ایروانی، الاصول فی علم الاصول، 1420ھ، ج1، ص97.
  12. محمدحسین حائری(صاحب فصول)، دانشنامہ پژوہہ دانشکدہ باقرالعلوم.
  13. خوانساری، روضات الجنات، 1390ہجری شمسی، ج2، ص126.
  14. محمد حسین حائری(صاحب فصول)، دانشنامہ پژوہہ دانشکدہ باقرالعلوم.
  15. حائری اصفہانی، الفصول الغرویۃ، 1404ھ، ص1.
  16. حائری اصفہانی، الفصول الغرویۃ، 1404ھ، ص1.
  17. حائری اصفہانی، الفصول الغرویۃ، 1404ھ، ص447.
  18. حائری اصفہانی، الفصول الغرویۃ، 1404ھ، ص447.
  19. حائری اصفہانی، الفصول الغرویۃ، 1404ھ، ص447.
  20. خوانساری، روضات الجنات، 1390ہجری شمسی، ج2، ص126.
  21. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج6، ص164-167.
  22. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج6، ص164.
  23. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج6، ص165.
  24. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج6، ص167.
  25. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج21، ص350.
  26. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ھ، ج8، ص234.
  27. رضایی، «سید صدرالدین صدر، قلہ تواضع»، ص58.
  28. محمد حسین حائری(صاحب فصول)، دانشنامہ پژوہہ دانشکدہ باقرالعلوم.
  29. قاسمی، احوال و آثار شیخ محمد تقی رازی نجفی اصفہانی، 1394ہجری شمسی، ص118.
  30. قاسمی، احوال و آثار شیخ محمد تقی رازی نجفی اصفہانی، 1394ہجری شمسی، ص119.
  31. قاسمی، احوال و آثار شیخ محمد تقی رازی نجفی اصفہانی، 1394ہجری شمسی، ص119.
  32. قاسمی، احوال و آثار شیخ محمد تقی رازی نجفی اصفہانی، 1394ہجری شمسی، ص119.

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ إلی تصانیف الشیعۃ، قم، اسماعیلیان، 1408ھ.
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت،‌ دار التعارف، 1421ھ.
  • ایروانی، علی، الأصول فی علم الأصول، قم، موسسہ نشر اسلامی، 1420ھ.
  • حائری اصفہانی، محمدحسین، الفصول الغرویۃ فی الأصول الفقہیۃ، قم،‌ دار احیاء العلوم الاسلامیہ، 1404ھ.
  • خوانساری، محمدباقر، روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، قم، اسماعیلیان، 1390ہجری شمسی.
  • «شیخ محمد حسین حائری اصفہانی (صاحب فصول)»، در افق حوزہ، 8 اردیبہشت 1389ہجری شمسی.
  • رضایی، محمد، «سید صدرالدین صدر، قلہ تواضع»، فرہنگ کوثر، شمارہ16، تیر 1377ہجری شمسی.
  • قاسمی، رحیم، احوال و آثار شیخ محمد تقی رازی نجفی اصفہانی و خاندانش، قم، موسسہ کتاب‌شناسی شیعہ، 1394ہجری شمسی.
  • گروہ علمی مؤسسہ امام صادق(ع)، موسوعۃ طبقات الفقہاء، ج14، زیر نظر جعفر سبحانی، قم، مؤسسۃ الإمام الصادق(ع)، 1418ھ.
  • «محمد حسین حائری(صاحب فصول)»، سایت دانشنامہ پژوہہ دانشکدہ باقرالعلوم، تاریخ انتشار: 12 مہر 1394ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 17 بہمن 1401ہجری شمسی.