نحس دن

ویکی شیعہ سے
(نحوست ایام سے رجوع مکرر)

نَحْس دن یا ایام نَحِسات وہ بدشگون اور نامبارک دن ہیں جن میں بدی اور اور برے حادثات کے علاوہ کوئی اور واقعہ رونما نہیں ہوا ہے۔ قرآن کریم میں قوم عاد کے بارے میں دو دفعہ یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور روایات میں بھی بعض دنوں کو نحوست قرار دیا ہے۔ مفسروں نے نحوست کے ایام کے بارے میں اختلاف کیا ہے اور اس دن کئی ناگوار حادثات کا رونما ہونے کو اللہ تعالی سے متوسل ہونے کیلیے لوگوں کو ترغیب دینا اور انسان کے اعمال کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

مفہوم‌شناسی

نحس، نامبارک، برا انجام، بدشگون، اور سعد کے متضاد ہے۔[1]اس کا اصل معنی افق کا سروخ ہونا جیسے دھواں کے بغیر آگ کے شعلے یا آگ میں گرم کیا ہوا تانبا کے معنی میں ہے۔[2]اور منحوس ایام ان دنوں کو کہا جاتا ہے جن میں برے حادثات اور سانحوں کے علاوہ کچھ واقع نہیں ہوا ہے۔اور انسان کے کاموں میں برکت نہیں ہے۔[3]
نحس کا لفظ قرآن کریم میں دو مرتبہ قوم عاد کے بارے میں استعمال ہوا ہے۔ سورہ قمر کی آیت نمبر 19 میں ارشاد ہوتا ہےإِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ
ترجمہ: «ہم نے ان کی اوپر تیز و تند آندھی بھیج دی ایک مسلسل نحوست والے منحوس دن میں»اور سورہ فصلت کی آیت نمبر 16 میں اللہ تعالی کاارشاد ہوتا ہےفَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي أَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَىٰ ۖ وَهُمْ لَا يُنصَرُونَ۔
ترجمہ:«تو ہم نے بھی ان کے اوپر تیزوتند آندھی کو ان کی نحوست کے دنوں میں بھیج دیا تاکہ انہیں زندگانی دنیا میں بھی رسوائی کے عذاب کا مزہ چکھائیں اور آخرت کا عذاب تو زیادہ رسوا کن ہے اور وہاں ان کی کوئی مدد بھی نہیں کی جائے گی۔» اس آیت میں قوم عاد کی رسوایی کے نحس دنوں کی طرف اشارہ کرتا ہے اور آخرت کا عذاب ان کے لیے بڑا رسوا کرنے والا سمجھتا ہے۔
احادیث کی شیعہ کتابوں میں بھی ہفتے کے دنوں کی نحوست کے بارے میں بہت ساری روایات آئی ہیں جیسے: پیر، بدھ اور قمری، فارسی اور رومی مہینوں کی نحوست کے بارے میں ذکر ہوا ہے۔[4]لیکن ان میں سے اکثر روایت کو سند نہ ہونے یا مرسل ہونے،[5] یا جعلی اور خرافاتی روایات سے ملنے کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے اور ان میں سے صرف بعض روایات کی سند کو معتبر قرار دیا ہے۔[6]

نحوستِ ایام

کسی زمانے کو نحوست قرار دینے میں مفسرین کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے۔علامہ طباطبایی کا کہنا ہے کہ کسی بھی صورت میں بعض دنوں کو نحس قرار نہیں دے سکتے ہیں اور اس پر کوئی دلیل نہیں لاسکتے ہیں۔ کیونکہ زمان کے اجزا مقدار کے لحاظ سے سب ایک جیسے ہیں اور اِس دن اور اُس دن کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے تاکہ ہم کسی ایک کو سعد اور دوسرے کو نحس قرار دے سکیں۔[7]ان کے مقابلے میں تفسیر نمونہ میں کسی دن کا نحس یا سعد ہونے کو عقلی حوالے سے محال نہیں سمجھتے ہیں اگرچہ اس کو ثابت کرنے یا نفی کرنے کے لئے کسی قسم کی عقلی دلیل سے استدلال نہیں کیا ہے اور کہنا ہے کہ اگر شرعی دلیل ایسی مطلب پر موجود ہو تو اس کا قبول کرنا ضروری ہے۔[8]

نحوست ایام کی علت

ہفتے کے دن یا کسی مہینے کے دنوں کو نحسن قرار دینے کے بارے میں بعض روایات میں چند ایک علتیں ذکر کی ہیں:

  1. بہت ساری روایات میں دنوں کو نحس قرار دینے کی وجہ کو ان دنوں میں کئی بار ناگوار حوادث کا رونما ہونا ہے۔جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی رحلت، شہادت امام حسین علیہ‌السلام، حضرت ابراہیمؑ کو آتش نمرود میں ڈالنا، مختلف اقوام پر ثواب یا عقاب کا نازل ہونا۔ان روایات میں کسی دن کو نحس قرار دینے کا مقصد مخاطب کو ایسے حادثات کی طرف توجہ دینا مقصود ہے کہ جو ان دنوں میں رونما ہوے اور یوں وہ ایسے کاموں سے اجتناب کریں جو عذاب کا باعث بنتے ہیں۔[9]ان دنوں میں جن افراد پر مصیبت وارد ہوئی ہے ان کی حرمت باقی رکھنے کی تاکید ہوئی ہے اور روزمرہ کے کاموں کو ترک کرنے اور لذتوں سے دوری کرنے کا کہا گیا ہے۔[10]
  2. توسل کا سلیقہ ایجاد کرنااور اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہونا اور جن دنوں کو نحس قرار دیا ہے ان دنوں کی نحوست سے امان میں رہنے کے لیے اللہ تعالی سے مدد مانگنا،[11] بعض روایات میں صدقہ دینا، دعا اور قرآن پڑھنا، اللہ پر توکل اس کے لطف و کرم سے مدد طلب کرنا، ان دنوں میں بہت تاکید ہوئی ہے۔[12]
  3. علامہ طباطبایی امام علی النقیؑ سے ایک روایت[یادداشت 1]کو نقل کرتے ہوئے معتقد ہے کہ دنوں کی نحوست میں صرف لوگوں کی بدفالی معیار ہے۔ کیونکہ تفال یا تطیر (بدفالی) افراد کی زندگی پر موثر ہوتی ہے۔ اور یہ روایات لوگوں کو خرفات سے نجات دینے کے مقام پر ہیں[13]دوسروں کی نظر کے مطابق بھی بعض دنوں انسان کےلیے ناگوار حادثات کا رونما ہونا غلط اعمال کا کفارہ ہے اور ایسے حادثات کے رونما ہونے میں دنوں کا مستقیم کوئی رول اور کردار نہیں ہے۔[14]

عوامی رسومات

ہر ملت اور قوم کے رسومات میں سال کے بعض دنوں کو نحس شمار کئے جاتے ہیں۔ مثلا ایرانی سال میں پہلے مہینے کی تیرہ تاریخ کو نحس سمجھی جاتی ہے[15] بعض لوگ ایک حدیث نبوی سے مستند کرتے ہوئے صفر المظفر کے مہینے کو بدشگون قرار دیتے ہیں اور مہینہ ختم ہوتے ہی ایک دوسرے کو تبریک پیش کرتے ہیں اور ربیع الاول کی آمد کا جشن مناتے ہیں۔[16] جبکہ یہ روایت احادیث کی کتابوں میں مختلف عبارتوں کے ساتھ جناب ابوذر غفاریؓ کی شخصیت کی تجلیل کے لیے آئی ہے اور صفر کے مہینے کی نحوست سے اس کا کوئی ربط نہیں ہے۔[17]

نوٹ

  1. امام ہادیؑکے دوستوں میں سے ایک کہتا ہے کہ ایک دن آپؑ کی خدمت میں حاضر ہونے کا قصد رکھتا تھا لیکن ایک ناگوار حادثہ پیش آیا اور اسے میں نے دن کی نحوست اور شوم سے منسوب کیا۔ اور جب میں امامؑ کے پاس پہنچا تو آپ نے میری ملامت کی کہ کیوں اپنے کرتوت کی سزا اور اپنے کئے کا گناہ دنوں کے گردن پر ڈال دیا۔اور بدفالی کی۔ مآخذ: ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۴۰۴ق، ص۴۸۲

حوالہ جات

  1. دہخدا، لغت نامہ دہخدا، ۱۳۷۷ش، ج۱۴، لفظ نحس کے ذیل میں
  2. راغب اصفہانی، مفردات، ۱۴۱۲ق، ص۷۹۴.
  3. علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، ۱۳۹۰ق، ج۱۹، ص۷۱.
  4. مراجعہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۲۹ق، ج۸، ص۲۵۵؛ شیخ صدووق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۳۸۴؛ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۶، ص۱۸، ۲۳، ۵۴
  5. علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، ۱۳۹۰ق، ج۱۹،ص ۷۲.
  6. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۳، ص۴۲.
  7. علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، ۱۳۹۰ق، ج۱۹، ص۱۱۵-۱۱۶
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۳، ص۴۱.
  9. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۳، ص۴۴.
  10. علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، ۱۳۹۰ق، ج۱۹، ص۷۲۔
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۳، ص۴۵.
  12. شیخ طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ق، ۲۲۴.
  13. علامہ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، ۱۳۹۰ق، ج۱۹، ص۷۴.
  14. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۳، ص۴۶-۴۷.
  15. کیوان، نوروز در کردستان، ۱۳۴۹ش، ص۱۳۸.
  16. میرداماد، الرواشح السماویۃ، ۱۳۱۱ق، ص۲۰۲.
  17. صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ص۱۷۶.

مآخذ

  • ابن بابویہ، محمد بن علی، الخصال، مصحح غفاری، علی اکبر، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۶۲ش.
  • ابن باویہ، محمد بن علی، علل الشرایع، قم، کتاب فروشی داوری، ۱۳۸۵ش.
  • ابن شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول، مصحح غفاری، علی اکبر، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۶۳ش.
  • اصفہانی، حسین بن محمد راغب‌، مفردات ألفاظ القرآن‌، لبنان و سوریہ،‌ دار العلم- الدار الشامیۃ، ۱۴۱۲ق.
  • دہخدا، علی اکبر، لغت نامہ دہخدا، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، ۱۳۷۷ش.
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ق
  • طوسی، محمد بن الحسن، الامالی، قم،‌ دار الثقافۃ، ۱۴۱۴ق.
  • کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق، الکافی، مصحح غفاری علی اکبر و آخوندی، محمد، تہران،‌دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۷ق.
  • کیوان، مصطفی، نوروز در کردستان، تہران، سازمان چاپ تبریز، ۱۳۴۹ش.
  • میرداماد، محمدباقر بن محمد، الرواشح السماویۃ فی شرح الأحادیث الإمامیۃ، قم، دارالخلافۃ، ۱۳۱۱ق.
  • نیکنام، کورش، از نوروز تا نوروز، تہران، انتشارات فروہر، ۱۳۷۹ش.