سرجون بن منصور رومی

ویکی شیعہ سے
(سرجون ابن منصور رومی سے رجوع مکرر)
سرجون
ذاتی کوائف
نامسرجون بن منصور رومی
محل زندگیشام
وفات86ھ
واقعہ کربلا میں کردار
اقداماتعبید اللہ بن زیاد کو کوفہ کی گورنری پر بٹھانے کے لئے یزید بن معاویہ کو ابھارنا
نمایاں کردارمعاویہ اور یزید کا مشاور
دیگر فعالیتیںکاتبِ معاویہ


سرجون بن منصور رومی (متوفی ۸۶ ھ) معاویہ بن ابی سفیان اور یزید بن معاویہ کے مشیروں میں سے تھا۔ جب کوفیوں نے حضرت مسلم بن عقیل کی بیعت کی تو یزید نے اس کی رائے کے مطابق عبید اللہ بن زیاد کو ان کو کچلنے کے لیے کوفہ کا گورنر مقرر کیا۔

سرجون بن منصور شام[1] کے عیسائیوں میں سے تھا اور معاویہ کا غلام تھا[2] وہ معاویہ کے دور حکومت میں کاتب[3] اور حکومت کے کاموں[4] میں اس کا مشیر تھا اور اس کا دیوان لکھنے کی ذمہ داری بھی اس کی تھی[5]۔

معاویہ کی وفات کے بعد یزید بن معاویہ کے دربار میں بھی سرجون کا کردار اہم تھا[6] جب کوفہ کے شیعہ حضرات نے مسلم بن عقیل کی بیعت کی یزید نے سر جون سے مشورہ کیا اور اس کے مشورے سے ابن زیاد کو کوفیوں کے قیام کو کچلنے کے لئے کوفہ کی حکومت کا قلمدان سونپا[7]۔ سرجون نے معاویہ کے ایک عہدنامہ کو یزید کے سامنے پیش کیا اور کہا: معاویہ نے مرتے وقت یہ خط لکھا تھا کہ کوفہ میں شورش برپا ہوئی تو عبید اللہ بن زیاد کو وہاں کا گورنر بنایا جائے»[8]۔

یزید کے بعد سرجون عبدالملک بن مروان کی حکومت میں بیت المال کے کاتب کی حثیت سے خدمت کرتا رہا [9] اس کی وفات سنہ ۸۶ ہجری میں ہوئی۔[10]۔

حوالہ جات

  1. مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دارالصاوی، ص۲۶۵۔
  2. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۰۰ھ، ج۵، ص۱۵۹، ۲۸۸؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۳۵۶؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۴۲۔
  3. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۰۰ھ، ج۵، ص۱۵۹۔
  4. ابن‌ کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۹۸۶م، ج۸، ص۱۴۶۔
  5. خلفیہ بن خیاط، تاریخ، ۱۹۹۵م، ص۱۴۱؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دارالصاوی، ص۲۶۱۔
  6. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۳۴۸؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۰۰ھ، ج۵، ص۳۵۴، ۳۷۹۔
  7. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۳۵۶؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۴۲؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۰۰ھ، ج۵، ص۳۷۹۔
  8. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۰۰ھ، ج۵، ص۳۷۹؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۳۵۶۔
  9. خلیفہ بن خیاط، تاریخ، ۱۹۹۵م، ص۱۶۴، ۱۸۹؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۰۰ھ، ج۷، ص۲۲۲؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دارالصاوی، ص۲۷۳۔
  10. خلیفہ بن خیاط، تاریخ، ۱۹۹۵م، ص۱۸۹۔

مآخذ

  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، الاغانی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۹۹۴ش، ۱۴۱۵ھ۔
  • ابن‌ کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷ھ، ۱۹۸۶ش۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف، تحقیق احسان عباس، بیروت، جمعیۃ المستشرقین الألمانیۃ، ۱۹۷۹ش/۱۴۰۰ھ۔
  • خلیفہ بن خیاط، تاریخ، تحقیق: فواز، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ھ/۱۹۹۵ش۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمدأبوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، ۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷ش۔
  • مسعودی، علی بن حسین، التنبیہ و الإشراف، تصحیح: عبداللہ اسماعیل الصاوی، قاہره، دارالصاوی، بے ‌تا(افست قم: مؤسسۃ نشر المنابع الثقافۃ الاسلامیہ)۔
  • مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، قم، انتشارات کنگره جہانی شیخ مفید، ۱۴۱۳ھ۔