حسن بن محمد طوسی
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | حسن بن محمد بن حسن طوسی |
لقب/کنیت | ابو علی طوسی، مفید ثانی |
نسب | فرزند شیخ الطائفہ طوسی |
تاریخ وفات | 522 ھ کے بعد |
نامور اقرباء | والد: شیخ طوسی |
علمی معلومات | |
اساتذہ | شیخ طوسی • ابو یعلی سلار دیلمی • ابن صقال • ابو طیب طبری • خلّال • تنوخی • |
شاگرد | عماد الدین طبری • ابو الفتوح احمد بن علی رازی • طبرسی صاحب مجمع البیان • حسین بن احمد بن طحال مقدادی • علی بن شہر آشوب • ابن رطبہ سوراوی • ہبة الله سقطی • الیاس بن ہشام حائری • محمد بن محمد نسفی • عبید الله بن حسن بن بابویہ • |
تالیفات | الانوار • المرشد الی السبیل المتعبد • بعض نے امالی شیخ طوسی کو بھی ان کی تالیف کہا ہے۔ |
خدمات |
حسن بن محمد بن حسن طوسی، (متوفی بعد از 511 ھ، 1117 ء) ابو علی طوسی یا مفید ثانی کے لقب سے معروف، شیخ الطائفہ شیخ طوسی کے فرزند، فقیہ، محدث اور شیعہ احادیث کے سلسلہ سند کے مہم ترین واسطوں میں سے ہیں۔
نسب و تعلیم
ان کی تاریخ ولادت و وفات واضح نہیں ہے۔ لیکن اس بات کے مد نظر کہ انہوں نے شیخ طوسی سے تقریبا سنہ 455 ھ میں اجازہ روایت حاصل کیا ہے، اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی ولادت پانچویں صدی کے نصف اول کے اواسط میں ہوئی ہوگی۔[1] ان کی حیات کے سلسلہ میں آخری معلومات 511 ھ سے مربوط ہے جس میں عماد الدین طبری نے اس سال میں نجف میں ان سے اجازہ روایت دریافت کیا ہے۔[2]
البتہ احتمال دیا جاتا ہے کہ وہ سنہ 520 ھ میں زندہ نہیں تھے اس لئے کہ ہبۃ اللہ بن نماء جو اس سال نجف میں تحصیل علم میں مشغول تھے، نے ان سے ایک واسطہ سے اور رضی اللہ عنہ کی تعبیر کے ساتھ روایت نقل کی ہے۔[3] بہرحال ان کے طبقہ رجال کے پیش نظر، صفدی[4] کا قول جنہوں نے ان کی تاریخ وفات سنہ 540 ھ کے قریب ذکر کی ہے اور اسی طرح سے ابن شاکر کتبی[5] کا قول، جنہوں نے ان کا نام صراحت کے ساتھ اس سال میں متوفی افراد میں ذکر کیا ہے، صحیح نہیں معلوم ہوتا ہے۔
ابو علی ایک مشہور خاندان کی فرد تھے۔ انہوں نے اپنے والد شیخ الطائفہ ابو جعفر طوسی سے کسب فیض کیا اور علوم دینی میں اس منزل تک پہنچے کہ انہیں مفید کا لقب دیا گیا اور شیخ مفید سے تمایز کی خاطر انہیں مفید ثانی بھی کہا جاتا تھا۔[6]
اساتید
ابو علی نے اپبے والد کے علاوہ، بعض دیگر امامیہ و غیر امامیہ بزرگان جیسے ابو یعلی سلار دیلمی، ابن صقال، ابو طیب طبری، خلّال و تنوخی[7] سے کسب علم و فیض کیا۔ اہل قلم افراد نے انہیں غالباً پارسا، زاہد، عالم اور ثقہ ذکر کیا ہے اور طلاب ہمیشہ کسب علم کے لئے ان کے پاس حاضر ہوتے تھے۔[8]
شاگرد
بہت سے افراد نے ان سے کسب علم کیا ہے جن میں سے درج ذیل حضرات قابل ذکر ہیں:[9]
- عماد الدین طبری
- ابو الفتوح احمد بن علی رازی
- طبرسی صاحب مجمع البیان
- حسین بن احمد بن طحال مقدادی
- علی بن شہر آشوب
- ابن رطبہ سوراوی
- ہبۃ الله سقطی
- الیاس بن ہشام حائری
- محمد بن محمد نسفی
- عبید اللہ بن حسن بن بابویہ
شہرت
ابو علی طوسی کے امامیہ رجال میں مورد توجہ قرار پانے کا سبب ان کی وہ روایات ہیں جو انہوں نے شیخ طوسی سے نقل کی ہیں اور اسی طرح سے اکثر شیعہ اجازات روایات میں ان کے نام کا ذکر ہونا ہے۔ شیخ طوسی سے روایات نقل کرنے والے تین افراد، ابو الصمصام ذوالفقار بن معبد، ابو الوفا عبد الجبار بن عبد اللہ رازی و ابو علی طوسی،[10] میں ان کا شامل ہے اور ان روایات میں تعداد پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر میں ان کا نام موجود ہے۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ شیخ طوسی امامیہ روایات کی سندوں کے بنیادی کڑی ہونے کے لحاظ سے اور جن کے پاس ما سبق بہت سے محدثین کے طرق روایات موجود تھے، انہوں نے ان سب کو اپنے فرزند ابو علی طوسی کی طرف منتقل کر دیا۔ یہ جو کچھ ان کے سلسلہ میں ذکر ہوا ہے اس سے امامیہ اجازات و روایات کے اسانید میں گذشتہ و آئندہ علماء کے درمیان ان کے رابط اور کڑی ہونے کا کردار بخوبی واضح و روشن ہو جاتا ہے۔
اجازات و روایات کے اسناد میں موثر
ابو علی طوسی نے بھی ان طرق کو اپنے شاگردوں خاص طور پر عماد الدین طبری، ابن رطبہ سوراوی اور الیاس بن ہشام تک منتقل کرنے میں اجازات و روایات کے سلسلہ سند میں اپنے حلقہ اصلی ہونے کا کردار ادا کیا ہے۔[11]
وہ شیخ طوسی کی فقہ کے مہم ترین مروجین میں سے ہیں۔ کتاب النہایہ پر ان کی شرح اس بات کی قوی دلیل ہے۔[12] وہ ایک فقیہ ہونے کی حیثیت سے صاحب نظر اور فقہ میں خاص آراء کے حامل تھے۔ نماز کی قرائت میں استعاذہ کے واجب ہونے کا قول وغیرہ شاذ فتاوی میں شامل اور ان سے منسوب اقوال میں سے ہیں۔[13]
آثار و تالیفات
ابو علی طوسی صاحب تصنیفات تھے۔ البتہ اس وقت ان کی تصنیفات کے محض نام باقی رہ گئے ہیں جیسے:
1۔ الانوار؛ افندی نے بحار الانوار[14] کے خاتمہ میں سند کے ذکر کے بغیر اس کے نام کا نقل کیا ہے۔
2۔المرشد الی السبیل المتعبد؛ ابن شہر آشوب نے معالم العلماء[15] میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کے شیخ حر عاملی[16] نے کتاب النہایہ پر ابو علی طوسی کی شرح کا ذکر کیا ہے جو آقا بزرگ تہرانی[17] کے قول کے مطابق وہ اور کتاب المرشد ایک ہی کتاب ہے۔ ظاہرا ان کی شرح النہایہ کے نسخے گذشتہ قریب تک باقی تھے جن سے شہید اول[18] جیسے افراد نے استفادہ کیا ہے۔
3۔ بعض نے امالی شیخ طوسی کو بھی ان کی تصنیفات میں شامل کیا ہے۔[19] البتہ گویا ابو علی فقط اس کے راوی تھے اور امالی کا ان سے منسوب ہونا اس اعتبار سے ہے کہ وہ ان کے والد کی طرف سے املا شدہ احادیث کا مجموعہ تھا۔[20]
حوالہ جات
- ↑ رکـ: آقا بزرگ، مقدمہ، ص۱۱.
- ↑ ن کـ: عماد الدین طبری، بشارة المصطفی، ص۲، ۵، جمـ.
- ↑ ن کـ: سند آغازین کتاب سلیم، ص۶۳.
- ↑ صفدی، الوافی باوفیات، ج۱۲، ص۲۵۱.
- ↑ ابن شاکر، عیون التاریخ، ج۱۲، ص۴۰۴.
- ↑ ابن فوطی، تلخیص مجمع الآداب، ص۷۱۵؛ امین، اعیان الشیعہ، ج۵، ص۲۴۴.
- ↑ ابن حجر، لسان المیزان، ج۲، ص۲۵۰؛ امین، اعیان الشیعہ، ج۵، ص۲۴۶؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۱۰۴، ص۱۶۰.
- ↑ صفدی، الوافی باوفیات، ج۱۲، ص۲۵۱؛ منتجب الدین، الفہرست، ص۲۴؛ حر عاملی، امل الآمل، ج۲، ص۷۶.
- ↑ ابن حجر، لسان المیزان، ج۲، ص۲۵۰؛ ابن شہرآشوب، مناقب، ج۱، ص۱۱-۱۲؛ منتجب الدین، الفہرست، ص۴۲، ۴۶، ۵۲؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۱۰۵، ص۱۱؛ افندی، ریاض العلماء، ج۱، ص۳۳۵-۳۳۶.
- ↑ ن کـ: مجلسی، بحار الانوار، ج۱۰۵، ص۲۵، جمـ؛ افندی، ریاض العلماء، ج۱، ص۳۳۴.
- ↑ ن کـ: کتاب سلیم، ہمانجا؛ عماد الدین طبری، بشارة المصطفی، ص۲، ۳، جمـ؛ کیذری، حدائق الحقائق، ج۱، ص۴۶۴، ج۳، ص۱۲۳۳-۱۲۳۴؛ ابن طاووس، فلاح السائل، ص۱۸۰؛ شہید اول، الاربعون، ص۲۰، ۲۲، ۲۴، ۶۵، جمـ؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۱۰۴، ص۳۳، ۵۰، ۶۹، ۱۴۴، جمـ، ج۱۰۵، ص۱۱، ۲۵، ۴۵، جمـ.
- ↑ ن کـ: مجلسی، بحار الانوار، ج۱۰۴، ص۳۳، ۶۹، ۱۴۴، ۱۵۷-۱۵۸، جمـ.
- ↑ ن کـ: افندی، ریاض العلماء، ج۱، ص۳۳۶؛ قس: طوسی، الخلاف، ج۱، ص۳۲۴-۳۲۵.
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ج۱۰۷، ص۱۶۶، ۱۶۸.
- ↑ ابن شہراشوب، معالم العلماء، ص۳۷-۳۸.
- ↑ حرعاملی، امل الآمل، ج۲، ص۷۶.
- ↑ آقا بزرگ، الذریعہ، ج۱۴، ص۱۱۰، ج۲۰، ۳۰۵.
- ↑ شہید اول، الذکری، ص۱۰.
- ↑ مثلاً رجوع کریں حرعاملی، امل الآمل، ج۲، ص۷۶.
- ↑ ن کـ: طوسی، امالی، ج۱، ص۲، ۳۱، جمـ، نیز مقدمہ.
مآخذ
- آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ
- وہی، مقدمہ الغیبہ طوسی، تہران، مکتبہ نینوی الحدیثہ
- ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، لسان المیزان، حیدر آباد دکن
- ابن شاکر کتبی، محمد، عیون التاریخ، بہ کوشش فیصل سامر، بغداد، ۱۳۹۷ق/۱۹۷۷ع
- ابن شہر آشوب، محمد بن علی، معالم العلماء، نجف، ۱۳۸۰ق/۱۹۶۱ع
- وہی، مناقب آل ابی طالب، قم، چاپخانہ علمیہ
- ابن طاووس، علی بن موسی، فلاح السائل، تہران، ۱۳۸۲ق
- ابن فوطی، عبد الرزاق بن احمد، تلخیص مجمع الآداب، بہ کوشش محمد عبد القدوی قاسمی، ۱۳۵۹ق/۱۹۴۰ع
- افندی، عبدالله، ریاض العلماء، بہ کوشش احمد حسینی، قم، ۱۴۰۱ق
- امین، محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ع
- حر عاملی، محمد بن حسن، امل الآمل، بہ کوشش احمد حسینی، بغداد، ۱۳۵۸ق
- شہید اول، محمد بن مکی، الاربعون حدیثاً، قم، ۱۴۰۷ق
- وہی، ذکری الشیعہ احکام الشریعہ، سنگی، ۱۲۷۱ق
- صفدی، خلیل بن ایبک، الوافی باوفیات، بہ کوشش رمضان عبد التواب، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۶۴ع
- طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، قم، ۱۴۰۷ق
- وہی، امالی، بغداد، ۱۳۸۲ق/۱۹۶۳ع
- عماد الدین طبری، محمد بن محمد، بشارة المصطفی، نجف، ۱۳۸۲ق/۱۹۶۳ع
- کتاب سلیم بن قیس الکوفی، بیروت، ۱۴۰۰ق/۱۹۸۰ع
- کیذری، محمد بن حسین، حدائق الحقائق، بہ کوشش عزیز الله عطاردی، حیدر آباد دکن، ۱۴۰۲ق
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ع
- منتجب الدین، علی بن عبیدالله، الفہرست، بہ کوشش عبد العزیز طباطبائی، قم، ۱۴۰۴ق