"عبد اللہ بن زبیر" کے نسخوں کے درمیان فرق
imported>Mabbassi |
imported>Mabbassi |
||
سطر 59: | سطر 59: | ||
بنی امیہ کے داخلی اختلافات ،رومیوں کی دھمکیوں اور خوارج نے مروانیوں کو ابن زبیر کے خلاف سنجیدگی اور یکسوئی سے اقدام کرنے روکے رکھا <ref>الامامہ و السیاسہ، ج۲، ص۳۷؛ دولت امویان، ص۱۱۰.</ref> یہانتک کہ سال ۷۲ق. عبدالملک نے مصعب بن زبیر کے قتل ، تصرف عراق اور شکست کے بعد [[حجاج بن یوسف ثقفی|حجاج بن یوسف ثقفی]] کو ابن زبیر کی سرکوبی کیلئے حجاز بھیجا۔<ref>انساب الاشراف، ج۷، ص۹۵؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۱۵.</ref>حجاج نے ذی القعده سال ۷۲ق. میں ابن زبیر کی فوجی ناتوانی سے آگاہی اور ۵۰۰۰ اشخاص کی مدد پہنچنے کے بعد مدینہ میں داخل ہوا اور ابن زبیر کے مقرر کردہ حاکم کو باہر نکالنے <ref>تاریخ طبری، ج۶، ص۱۷۵؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۰.</ref> کے بعد مکہ کی جانب راہی ہوا اور ابن زبیر کو مسجد الحرام میں محبوس کیا ۔ یہ محاصرہ ذی الحجہ سال ۷۲ق. سے شروع ہو کر چھ مہینے اور ۱۷ روز قتل ابن زبیر کے قتل کے ساتھ منگل کے دن ۱۷ جمادی الاولی سال ۷۳ق. کو ختم ہوا ۔ بعض نے اس محاصرے کی مدت آٹھ مہینے اور ۱۷ لکھی ہے ۔<ref> تاریخ طبری، ج۶، ص۱۷۵؛ المنتظم، ج۶، ص۱۲۴.</ref> تاریخی روایات کے مطابق عبدالملک نے شروع میں حجاج کو مکہ میں فوجی حملوں سے ڈرایا اور اس سے درخواست کی کہ ابن زبیر کو اقتصادی پابندیوں کے ذریعے تسلیم کرے ۔<ref>الفتوح، ج۶، ص۳۳۸.</ref> | بنی امیہ کے داخلی اختلافات ،رومیوں کی دھمکیوں اور خوارج نے مروانیوں کو ابن زبیر کے خلاف سنجیدگی اور یکسوئی سے اقدام کرنے روکے رکھا <ref>الامامہ و السیاسہ، ج۲، ص۳۷؛ دولت امویان، ص۱۱۰.</ref> یہانتک کہ سال ۷۲ق. عبدالملک نے مصعب بن زبیر کے قتل ، تصرف عراق اور شکست کے بعد [[حجاج بن یوسف ثقفی|حجاج بن یوسف ثقفی]] کو ابن زبیر کی سرکوبی کیلئے حجاز بھیجا۔<ref>انساب الاشراف، ج۷، ص۹۵؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۱۵.</ref>حجاج نے ذی القعده سال ۷۲ق. میں ابن زبیر کی فوجی ناتوانی سے آگاہی اور ۵۰۰۰ اشخاص کی مدد پہنچنے کے بعد مدینہ میں داخل ہوا اور ابن زبیر کے مقرر کردہ حاکم کو باہر نکالنے <ref>تاریخ طبری، ج۶، ص۱۷۵؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۰.</ref> کے بعد مکہ کی جانب راہی ہوا اور ابن زبیر کو مسجد الحرام میں محبوس کیا ۔ یہ محاصرہ ذی الحجہ سال ۷۲ق. سے شروع ہو کر چھ مہینے اور ۱۷ روز قتل ابن زبیر کے قتل کے ساتھ منگل کے دن ۱۷ جمادی الاولی سال ۷۳ق. کو ختم ہوا ۔ بعض نے اس محاصرے کی مدت آٹھ مہینے اور ۱۷ لکھی ہے ۔<ref> تاریخ طبری، ج۶، ص۱۷۵؛ المنتظم، ج۶، ص۱۲۴.</ref> تاریخی روایات کے مطابق عبدالملک نے شروع میں حجاج کو مکہ میں فوجی حملوں سے ڈرایا اور اس سے درخواست کی کہ ابن زبیر کو اقتصادی پابندیوں کے ذریعے تسلیم کرے ۔<ref>الفتوح، ج۶، ص۳۳۸.</ref> | ||
سال ۷۲ق. میں ابن زبیر مسجدالحرام میں محاصره میں تھا لہذا وہ وقوف عرفات اور رمی جمرات سے رہ گیا اور اس نے حج نہیں کیا۔<ref> الاستیعاب ، ج۳، ص۹۰۷؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۰.</ref> [[عبدالله بن عمر|ابن عمر]] یا [[جابر بن عبدالله انصاری|جابر بن عبدالله انصاری]] اور [[ابوسعید خدری|ابوسعید خُدری]] جیسے اصحاب کی درخواست پر حجاج بن یوسف منا سے حاجیوں کی واپسی تک حملے سے ہاتھ کھینچا لیا ۔حاجیوں سے درخواست کی کہ وہ اپنے شہروں کو لوٹ جائیں تا کہ جنگ کو جاری رکھا جا سکے ۔ <ref>اخبار مکہ، فاکہی، ج۲، ص۳۷۲؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۰.</ref> اس نے اپنے آپ کو''' امیرالحاج''' کہا لوگوں کے ساتھ حج ادا کیا اور فوجی لباس کے ساتھ عرفات میں حاضر ہوا. <ref>تاریخ طبری، ج۶، ص۱۷۵؛ المنتظم، ج۶، ص۱۲۰.</ref>، اگرچہ ابن زبیر کے حائل ہونے کی وجہ سے اس نے طواف کعبہ اور صفا و مروہ کے درمیان سعی ادا نہیں کی تھی ۔ <ref> الکامل، ج۴، ص۳۵۰؛ الطبقات، خامسہ۲، ص۹۳.</ref> | سال ۷۲ق. میں ابن زبیر مسجدالحرام میں محاصره میں تھا لہذا وہ وقوف عرفات اور رمی جمرات سے رہ گیا اور اس نے حج نہیں کیا۔<ref> الاستیعاب ، ج۳، ص۹۰۷؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۰.</ref> [[عبدالله بن عمر|ابن عمر]] یا [[جابر بن عبدالله انصاری|جابر بن عبدالله انصاری]] اور [[ابوسعید خدری|ابوسعید خُدری]] جیسے اصحاب کی درخواست پر حجاج بن یوسف نے منا سے حاجیوں کی واپسی تک حملے سے ہاتھ کھینچا لیا ۔حاجیوں سے درخواست کی کہ وہ اپنے شہروں کو لوٹ جائیں تا کہ جنگ کو جاری رکھا جا سکے ۔ <ref>اخبار مکہ، فاکہی، ج۲، ص۳۷۲؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۰.</ref> اس نے اپنے آپ کو''' امیرالحاج''' کہا لوگوں کے ساتھ حج ادا کیا اور فوجی لباس کے ساتھ عرفات میں حاضر ہوا. <ref>تاریخ طبری، ج۶، ص۱۷۵؛ المنتظم، ج۶، ص۱۲۰.</ref>، اگرچہ ابن زبیر کے حائل ہونے کی وجہ سے اس نے طواف کعبہ اور صفا و مروہ کے درمیان سعی ادا نہیں کی تھی ۔ <ref> الکامل، ج۴، ص۳۵۰؛ الطبقات، خامسہ۲، ص۹۳.</ref> | ||
حجاج زبیریوں تک کھانے پینے کے سامان پہنچنے سے مانع ہوا وہ صرف آب زمزم تک رسائی رکھتے تھے ۔<ref> الطبقات، خامسہ۲، ص۹۴؛ اخبار مکہ، فاکہی، ج۲، ص۳۱.</ref> اس نے منجنیقوں کے ساتھ انہیں بری طرح نقصان پہنچایا اس دوران کعبہ کو بھی پتھر لگے ۔ <ref>الطبقات، خامسہ۲، ص۹۵؛ الانباء، ص۵۰.</ref> منجنیق کی سنگ باری نے چاہ زمزم کی چار دیواری کو گرا دیا اور کعبہ کے اطراف کو ویران کر دیا ۔ <ref> الفتوح، ج۶، ص۳۴۰؛ حیاة الحیوان، ج۲، ص۵۹.</ref>نیز حجرالاسود اپنی جگہ سے اکھڑ گیا ۔ <ref>تاریخ الاسلام، ج۵، ص۳۱۵.</ref> پھر اس نے دستور دیا مسجد کو اسلحہ آتشین سے ہدف قرار دیں ۔اس کی وجہ سے کعبہ کے پردوں کو آگ لگ گئی ۔ کعبہ کو اور نقصان سے بچانے کی خاطر ابن زبیر نے کچھ افراد مسجد سے باہر بھیجے ۔ <ref>اخبار مکہ، فاکہی، ج۲، ص۳۶۰؛ الفتوح، ج۶، ص۳۴۱.</ref> اس نے حجرالاسود کو دوبارہ نقصان بچانے کی خاطر وہاں محافظین مقرر کئے ۔ <ref>الوافی بالوفیات، ج۵، ص۳۹۰؛ مجمع الزوائد، ج۷، ص۵۰۳.</ref> | حجاج زبیریوں تک کھانے پینے کے سامان پہنچنے سے مانع ہوا وہ صرف آب زمزم تک رسائی رکھتے تھے ۔<ref> الطبقات، خامسہ۲، ص۹۴؛ اخبار مکہ، فاکہی، ج۲، ص۳۱.</ref> اس نے منجنیقوں کے ساتھ انہیں بری طرح نقصان پہنچایا اس دوران کعبہ کو بھی پتھر لگے ۔ <ref>الطبقات، خامسہ۲، ص۹۵؛ الانباء، ص۵۰.</ref> منجنیق کی سنگ باری نے چاہ زمزم کی چار دیواری کو گرا دیا اور کعبہ کے اطراف کو ویران کر دیا ۔ <ref> الفتوح، ج۶، ص۳۴۰؛ حیاة الحیوان، ج۲، ص۵۹.</ref>نیز حجرالاسود اپنی جگہ سے اکھڑ گیا ۔ <ref>تاریخ الاسلام، ج۵، ص۳۱۵.</ref> پھر اس نے دستور دیا مسجد کو اسلحہ آتشین سے ہدف قرار دیں ۔اس کی وجہ سے کعبہ کے پردوں کو آگ لگ گئی ۔ کعبہ کو اور نقصان سے بچانے کی خاطر ابن زبیر نے کچھ افراد مسجد سے باہر بھیجے ۔ <ref>اخبار مکہ، فاکہی، ج۲، ص۳۶۰؛ الفتوح، ج۶، ص۳۴۱.</ref> اس نے حجرالاسود کو دوبارہ نقصان بچانے کی خاطر وہاں محافظین مقرر کئے ۔ <ref>الوافی بالوفیات، ج۵، ص۳۹۰؛ مجمع الزوائد، ج۷، ص۵۰۳.</ref> |
نسخہ بمطابق 09:07، 4 جولائی 2017ء
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم [[صارف:imported>Mabbassi|imported>Mabbassi]] ([[Special:Contributions/imported>Mabbassi|حصہ]] · [[Special:Log/imported>Mabbassi|شراکت]]) نے 7 سال قبل کی۔ |
عَبْدُاللّہ بْن زُبَیْر بن عَوام مشہور بنام ابن زبیر (۱-۷۳ق) معاویہ کے مرنے کے بعد خلافت کا دعویدار تھا ۔ لہذا اس نے آل زبیر کی حکومت کی بنیاد مکہ میں رکھی ۔وہ زبیر بن عوام کا بیٹا تھا ۔پیامبر(ص) کی زندگی میں سن کم ہونے کی وجہ سے اسے صحابہ صغار میں سے قرار دیتے ہیں۔ وہ مہاجرین کا پہلا مولود ہے جو مدینہ میں پیدا ہوا ۔ یزید بن معاویہ کی بیعت نہ کرنے کی وجہ سے اسے زیادہ شہرت حاصل ہوئی ۔اس کے مکہ میں پناہ لینے کی وجہ سے یزید نے یہاں لشکر کشی کی ۔ ابن زبیر ۶۴ ہجری قمری میں اپنے آپ کو خلیفہ اعلان کیا ۔بہت سے شامیوں، حجازیوں اور مکہ و مدینہ کے لوگوں نے اسکی بیعت کی ۔ کعبہ کی ایک تعمیر نو کو اس کی طرف نسبت دی جاتی ہے ۔ ابن زبیر جنگ جمل کے فتنے کا ایک بنیادی عنصر تھا ۔اس نے امام علی سے جنگ کی اور شکست کے بعد امام علی نے اسکی معافی کو قبول کیا 72 سال کی عمر گزار کر مکہ حجاج بن یوسف ثقفی کے سپاہیوں کے ہاتھوں قتل ہوا ۔
تعارف
عبدالله بن زبیر بن عوّام بن خُوَیلد قبیلہ بنیاسد کی ایک شاخ سے ہے ۔ ابوبکر اور ابوخُبَیب اسکی کنیت ہے ۔ باپ کا نام زبیر بن عوام تھا جو رسول اللہ کا ایک مشہور صحابی اور پیامبر کا چچا زاد تھا۔ابن زبیر کی ماں کا نام اسماء بنت ابو بکر تھا۔
پیدائش
تاریخی روایات میں اس کی پیدائش میں کچھ اختلاف ذکر ہوا ہے ۔ [1] مشہور قول کی بنا پر وہ مکہ کے مہاجرین میں سے پہلا مدینہ میں پیدا ہونے والا مولود ہے اور ہجرت کے پہلے سال شوال میں پیدا ہوا ۔ [2]اسکی ولادت کی خبر مسلمانوں نے اثہار خوشی کیا کیونکہ یہودیوں نے ادعا کیا تھا کہ وہ سحر کے ذریعے مسلمانوں کے ہاں پیدائش کا سللہ روک دیں گے اور مسلمانوں کی نسل ختم کر دیں گے ۔کہتے ہیں رسول اللہ نے بھی اظہار خوشی کیا اور اسے پہلی خوراک کھجور دی نیز اسکا نام عبدالله رکھا اور ابوبکر نے اسکے کان میں اذان کہی ۔ [3]
شیعہ اور اہل سنت روایات کے مطابق زبیر کی شادی اسماء کے ساتھ متعہ کے ذریعے انجام پائی تھی ۔ [4] پس عبدالله بن زبیر اس کے ذریعے پہلی اولاد تھی ۔ [5]
ابن زبیر نے سات یا آٹھ سال کی عمر میں دوسرے مسلمان بچوں کے ہمراہ رسول اللہ کی بیعت کی ۔اس بنا پر اسے صحابہ صِغار سے شمار کرتے ہیں ۔ [6]
رحلت پیغمبر(ص) کے بعد
ابن زبیر رسول کی حیات طیبہ میں کمسن تھا لہذا اس بنا پر سیاسی اور معاشرتی حوالے سے اکے متلعق کوئی معلومات نہیں ہے ۔صرف کہا گیا کہ اس نے خلافت ابوبکر میں جنگ یرموک(سال۱۵ق./۶۳۶م.)معرکے میں روم کے خلاف اپنے باپ کے ساتھ حصہ لیا لیکن کمسنی کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لیا ۔ [7]
آہستہ آہستہ عبدالله بن زبیر کا نام خلافت عثمانت میں لیا جانے لگا اور اسکان نام مختلف جہتوں سے مذکور ہے ۔طبری(م. ۳۱۰ق.) کے مطابق ایران کے شمالی مناطق جو ابھی (خراسان قدیم) ہے ، میں ۲۹-۳۰ق. میں سعید بن العاص کے ساتھ تھا ۔[8] عثمان کے دور خلافت میں قرآنی نسخوں کی جمع آوری کے ماجرے میں قرآن کے کاتبوں میں سے تھا ۔[9] ۲۷ یا ۲۸ق. میں انلس کے حملے میں شریک تھا جو عبدالله بن سعد بن ابیسَرْح کی سربرابراہی میں ہوا تھا ۔خود اس سے نقل کرتے ہیں کہ دشمن کے سپہ سالار کا قتل مسلمانوں کی کامیابی کا باعث بنا ۔[10]ابن زبیر نے اپنے باپ اور اپنی خالہ عایشه کے بر عکس عثمان کے گھر پر لوگوں کے حملے کے ماجرے میں عثمان کی مدد کی اور اس سے دفاع کرتا رہا۔[11] مخالفین کا سامنا کرتے ہوئے اس نے عثمان کی نمائندگی کی اور اسکے گھر کے محاصرے کے دوران نماز جماعت کی امامت کے فرائض انجام دئے اس ماجرے میں زخمی بھی ہوا ۔ [12]
امام علی(ع) کی خلافت
ابن زبیر خلافت علی میں انکی مخالفت کا راستہ اختیار کیا ۔اس زمانے کا اہم ترین اقدام حضرت علی کی مخالفت ،جنگ جمل میں شرکت اور امام علی کے خلاف شورشوں کے حالات مہیا کرنا تھا ۔کہتے ہیں کہ اس جنگ میں اسے تقریبا تیس (30) زخم لگے ۔ [13] اپنے باپ کو حضرت علی کے خلاف ابھارنے میں اس کا کردار رہا ،اسطرح سے کہ امام علی سے روایت میں ابن زبیر اہل بیت سے جدائی کا سبب مذکور ہے ۔ [14] جنگ سے پہلے اسے خبر ملی کہ اسکا باپ زبیر اپنے کئے پر پشیمان ہے اور جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتا ہے اور میدان جگ میں نہ جائے لیکن زبیر اس میں کامیاب نہ ہوا ۔ [15] حضرت عائشہاور ابن زبیر کے درمیان محبت کا رابطہ تھا ۔[16]، حضرت عائشہ نے موت کے وقت اسے اپنا وصی بنایا [17] اور بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے جنگ جمل میں عائشہ اس کے تحت تاثیر تھی ۔ [18]
جنگ جمل کے موقع پر ابن زبیر کی سرکردگی میں پیادہ لشکر نے بصرے کے عثمان بن حُنَیف کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کی مخالفت کی اور ۴۰ مسلمان محافظوں کو قتل کیا اور بیت المال کو لوٹا جبکہ اس معاہدے کی رو سے حضرت امام علی کے آنے تک فریقین جنگ نہیں کریں گے ۔ [19]
قیام اور خلافت
معاویہ کے مرنے کے بعد عبدالله بن زبیر نے یزید کی بیعت نہیں کی اور امویوں کے خلاف قیام کے راستے کو اپنایا۔تاریخی منابع میں اس قیام کے مختلف نظریے بیان ہوئے ہیں ؛ان میں سے ایک خلافت کا حصول تھا۔ بعض روایات کے مطابق ابن زبیر امام حسین(ع) کے وجود کو اپنی آرزو کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھتا تھا کیونکہ جب تک امام حسین(ع) جیسے شخصیت حجاز میں موجود ہو گی لوگ اسکی رہبری کو قبول نہیں کریں گے ،جب اسے امام حسین کے کوفہ جانے کے ارادے کا پتہ چلا تو وہ انہیں کوفہ جانے کی ترغیب دیتا رہا ۔[20] ابن زبیر پیامبر(ص) اور ان کی دو زوجات خدیجہ اور حضرت عائشہ سے نزدیکی رشتہ رکھتا تھا ۔اسکا باپ صحابہ کی نسبت رسول خدا سے زیادہ نزدیک تھا اور اسے اپنے باپ کے چھ رکنی شوریٰ میں ایک ممبر ہونے کی خصوصیت بھی حاصل تھی ۔ [21] مزید یہ کہ وہ مدعی تھا کہ عثمان نے اسے خلافت دینے کا عہد کیا تھا ۔ان تمام عوامل کے پیش نظر وہ اپنے آپ کو بنی امیہ کی نسبت خلافت کا زیادہ مستحق سمجھتا تھا ۔
معاویہ امام علی کی شہادت کے بعد ابن زبیر کو دھمکانے اور لالچ کے ذریعے اپنی بیعت [22] اور قسطنتنیہ پر حملے میں اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب رہا [23] لیکن ساتھ ہی اپنے مرنے کے بعد اپنے جانشین یزید کی بیعت نہ کرنے پر اسے تہدید بھی کی ۔[24] معاویہ کی وفات کے بعد اسکی نصیحت کے مطابق یزید نے ابن زبیر سے بیعت کے حصول کیلئے دباؤ ڈالا اور اسے جان سے مار دینے کی دھمکی لہذا ابن زبیر نے اس خوف سے مکہ میں خانۂ خدا میں پناہ لی ۔[25] وہ اپنے آپ کو عائذ البیت (خانۂ خدا میں پناہ لینے والا) لے لقب سے یاد کرتا ۔[26] گویا ایک روایت کی طرف اشارہ ہے کہ جسکی بنا پر ایک شخص ستمکاروں کے ستم کی وجہ سے کعبہ کو پناہ قرار دے گا اور ستمکار نابود ہو جائیں گے ۔ [27]
ابن زبیر نے شروع میں ظاہر کیا کہ وہ یزید کی بیعت کرے گا اور کچھ مدت اسی طرح گزر گئی ۔ مکہ میں واقعہ کربلا پہنچنے کے بعد ایک نہایت جوشیلا خطبہ دیا، گریہ کیا اور کنایتی انداز میں خلافت کیلئے یزید کے غیر موزوں اور نالائق کہا۔[28] بالآخر یزید نے اسے انی بیعت کرنے کا حکم دیا اور چاندی سے بنی ہوئی زنجیریں اس کے لیے بھیجیں اور چاہا کہ وہ بیعت کے ذریعے اسکی فرمانبرداری کا اظہار کرے اور اسکے پاس آئے لیکن ابن زبیر نے قبول نہیں کیا ۔ [29]
مدینے اور مکے کے حاکم عمرو بن سعید نے یزید کے فرمان پر ایک مختصر فوجی دستہ بیعت لینے کیلئے ابن زبیر کی طرف روانہ کیا لیکن انہوں نے ابن زبیر کی سپاہ سے شکست کھائی ۔ [30] اس دستے کا سربراہ ابن زبیر کا سوتیلا بھائی تھا [31] وہ اس جنگ میں اسیر ہو کر زندان میں قتل ہوا۔ [32] اس وقت عملی طور پر مکہ ابن زبیر کے ہاتھ میں تھا [33]۔ مدینہ بھی واقعۂ کربلا اور یزید کی نالائقی کی بنا پر ابن زبیر کی طرف جھکاؤ رکھتا تھا ۔ مدینے کے جوان حاکم عثمان بن محمد بن ابی سفیان نے حج کے بعد مدینے کے نمایا شخصیات کا ایک وفد شام روانہ کیا کہ شاید انعام و اکرام یزید کے ذریعے ان کی دلجوئی شاید حالات مدینہ پر سکون ہو جائیں اور مدینے کی بے چینی کا خاتمہ ہو۔[34] لیکن اسکی وجہ سے یزید کی خلافت کیلئے نالائقی اور عیان ہو گئی ۔ اس وفد کے سامنے یزید کی غیر اسلامی رفتار نے اس وفد کو مزید ناراض اور ناراحت کیا ۔اس وفد نے مدینہ واپسی پر اسکی خلافت کی نسبت ناشائستگی کو کھل کر لوگوں کے سامنے بیان کیا اور اسے برا بھلا کہا ۔ اسکے جواب میں یزید نے ایک بہت سخت لہجے میں مدینہ کے لوگوں کو خط لکھا ۔ [35]
ابن زبیر نے اپنے خطبے میں یزید کو آڑے ہاتھوں لیا اور مسلمانوں کو یزید کے خلاف اس بات پر ابھارا کہ وہ اسے خلافت سے برطرف کر دیں ۔ [36] پھر مدینے کو لوگوں کو خط لکھا اور انہیں اپنے مسلمانوں کے خلیفے کے عنوان سے بیعت کی دعوت دی ۔لوگوں نے عبدالله بن مُطیع عَدوی کے ہاتھ ہر ابن زبیر کیلئے بیعت کی۔ [37] اس بیعت کے نتیجے میں مدینے کو لوگوں نے حاکم مدینہ عثمان بن محمد اور بنو امیہ کے ایک گروہ کو مدینے سے باہر نکال دیا ۔ [38]
اس کے جواب میں ابن زبیر اور اسکے ہواخواہوں کی سرکوبی کیلئے یزید نے حجاز پر لشکر کشی کی اور ابن زبیر کو ڈرایا دھمکایا ۔ [39] یزید کے لشکر نے پہلے مدینے کا محاصرہ کیا اور مدینے کے لوگوں سے یزید کی پیروی کا مطالبہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ ابن زبیر کی شورش کچلنے کیلئے اسکا ساتھ دیں ۔لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا ۔[40] بالآخر ۲۸ ذی الحجہ ۶۳ق میں سپاہ مدینہ اور سپاہ شام آمنے سامنے صف آرا ہوگئے ۔ [41]
ابن زبیر اور محاصرۂ مکہ
مدینے کی سپاہ سپاہ شام کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئی اور یزید کے فرمان پر لشکر یزید کیلئے مدینے کے لوگوں کی جان ومال کو مباح قرار دیا ۔ [42] اس کے نتیجے میں لشکر نے صحابہ اور لوگوں کا قتل عام کیا اور خواتین کی ناموسوں کا پائمال کیا ۔یہ واقعہ تاریخ میں فاجعہ حَرّه کے نام سے رقم ہوا ۔سپاہ شام اس کے بعد ابن زبیر کی سرکوبی کیلئے مکہ روانہ ہوا۔[43]
ابن زبیر اور اسکے ہواداران ۱۳ صفر سال ۶۴ق. سے لے کر ۴۰ دن تک محاصرے میں رہا اور یہ محاصرہ یزید کی موت کے بعد ۱۴ ربیع الاول ۶۴ ق تک سپاہ شام کے محاصرے میں رہا ۔ [44]
ابن زبیر مسجدالحرام میں مستقر ہوا شامیوں نے پہاڑوں اور مسجد الحرام سے بلند مقامات پر منجنیق نصب کیں [45] اور انہوں نے پتھروں اور آگ برسانی شروع کی جس کے نتیجے میں زبیر اور اسکے افراد کو آگ کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ منجینقوں کے پتھر کعبہ کو بھی لگے ، رکن یمانی اور حجرالاسود کے درمیان پردوں اور کعبہ پر موجود لکڑی کے جالی دار چوکھٹے کو آگ لگ گئ ۔[46]یعقوبی(م.۲۹۲ق.) نے ذکر کیا ہے کہ ابن زبیر نے آگ کو خاموش نہیں کیا تا کہ مکہ کے لوگوں کو لشکر شام کے خلاف مزید مصمم کرے ۔[47] مختلف گروہ اور دستے ابن زبیر کے ہمراہ مسجدالحرام سے دفاع کی خاطر لڑتے رہے ان میں ۲۰۰ حبشیوں کا وہ گروہ بھی شامل ہے جسے حبشہ کے بادشاہ نے کعبہ کے دفاع کیلئے بھیجا تھا ۔ [48] سپاه شام ابن زبیر اور مکہ کے لوگوں کو شکست دینے میں ناکام رہے اور جب یزید مر گیا تو چالیس دن کے بعد اسکی موت کی خبر انہیں ملی تو انہوں نے اس جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا اور شام واپس ہو گئے ۔
خلافت
تاریخی مآخذوں میں ابن زبیر کی لوگوں کو دعوت یعت کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔بعض نے نہم رجب سال ۶۴ق. ذکر کی ہے [49]بعض اس واقعہ کو یزید کی موت کے تین ماہ بعد کہتے ہیں ۔[50] کہتے ہیں کہ یزید بن معاویہ کی موت کے بعد شام کے اطراف میں ابن زبیر کے اہم طرفدار پیدا ہو گئے اور اسی وجہ سے یزید کی موت کے بعد اسکے لشکر کے سپہ سالار نے شام کی طرف جانے سے پہلے ابن زبیر سے درخواست کی کہ جو کچھ اس سے واقعہ حره جیسا ہوا اس سے چشم پوشی کرے اور اسکے ساتھ خلافت شام کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے آئے لیکن ابن زبیر نے چند وجوہات کی بنا پر اس تجویز کو قبول نہیں کیا ۔ [51][52]
جلد ہی دمشق، کوفہ، بصره، یمن اور خراسان کے مختلف علاقوں سمیت ممالک اسلامی کے اکثر لوگوں نے اسکے نمائیدوں کے ہاتھ پر ابن زبیر کی بیعت کر لی [53] ابن زبیر بنی امیہ سے وابستہ لوگوں سے سخت برتاؤ کیا اور انہیں مکہ سے باہر نکال دیا[54] نیز ان میں حرم کی احدود میں عتبہ بن ابی سفیان کے مولا سمیت پچاس افراد کا قتل بھی شامل ہے [55] جس کی وجہ سے اسے عبدالله بن عمر اور عبدالله بن عباس کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ [56]
ابن زبیر کی خلافت کے دوران بنی ہاشم کے ساتھ اسکا رابطہ اچھا نہیں ہوا ۔ ابن زبیر کی طرف سے بیعت کی درخواست پر محمد بن حنفیہ نے مثبت جواب نہیں دیا اور اپنی بیعت کو تمام مسلمانوں کے اتفاق نظر کے ساتھ مشروط کیا کہ جس کا واقع ہونا ممکن نہ تھا۔[57]ابن زبیر نے اپنے خطبے میں امام علی(ع) کی توہین کی اور اس کے اعتراض میں محمد بن حنفیہ نے خطبہ دیا نیز لوگوں اور قریش کے بزرگوں کو ردعمل ظاہر کرنے طرف دعوت دی ۔ [58]ابن زبیر کی محمد بن حنفیہ سے بیعت کا مطالبہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ یہ ماجرا جاری رہا ۔ کوفے میں اس کے گورنر عبدالله بن مطیع کے اخراج اور قیام مختار کے بعد ایک مرتبہ پھر اس نے محمد بن حنفیہ پر بیعت کیلئے دباؤ ڈالا، اس مرتبہ اس نے محمد بن حنفیہ اور اسکے ساتھیوں کو حجره زمزم میں زندانی کیا اور کہا : اس نے خدا سے عہد کیا ہے کہ اگر انہوں نے اسکی بیعت نہ کی تو وہ انہیں اسی مقام پر جلا دے گا یا قتل کر ڈالے گا۔ [59] کہتے ہیں : محمد بن حنفیہ نے خط کے ذریعے کوفہ میں مختار سے مدد کی درخواست کی [60] اس کے جواب میں مختار نے ایک دستہ اس کی مدد کیلئے مکہ روانہ کیا اس دوران محمد کے مقما قید کے اطراف میں آگ لگانے کیلئے ایندھن اکٹھا کیا ہوا تھا۔ [61] کوفے سے 150 افراد کے آنے والا گروہ یا لثارات الحسین کے شعار کے ساتھ مسجدالحرام میں وارد ہوا اور اس نے زندانیوں کو آزاد کر دیا اور وہ حرمت مسجد کی خاطر شمشیروں کی بجائے لکڑی کے ڈنڈے اٹھائے ہوئے تھے ۔ مختار نے مزید افراد مسجد الحرام بھیجے ابن زبیر کے افراد اور وہ صف آرا ہوئے ۔[62]تین دن کے بعد کوفہ سے مدد آئی اور محمد بن حنفیہ اور اسکے ساتھ مسجد سے باہر آئے اور اس نے قتل مختار (۶۷ق.)[63] تک شعب علی میں اقامت اختیار کی ۔[64] اسکے بعد ابن زبیر اور محمد بن حنفیہ کے درمیان مسلسل درگیری رہی ۔ [65]
ابن زبیر کا ابن عباس کے ساتھ بھی اہانت آمیز رویہ رہا کبھی وہ منبر اس کی توہین کرتا [66] ابن عباس نے اسکی کسی وقت بھی بیعت نہیں کی وہ اسے خلافت کا اہل نہیں سمجھتا تھا [67] اور وہ معتقد تھا کہ ابن زبیر حرمت حرم الہی کا اصل عامل تھا ۔[68] ابن عباس کی علمی و دینی حیثیت نے ابن زبیر کو نقصان پہنچایا ۔[69] مزید یہ کہ ابن عباس جنگ جمل میں حضرت علی کے ہمراہی میں جہاد کر چکا تھا ۔ابن عباس کے بعض فقہی نظریات بھی ابن زبیر کیلئے خوش آئند نہیں تھے مثلا ان میں سے ابن عباس کا جواز متعہ کا فتوا جو انکے درمیان شدید اختلافی تھا ۔ ابن عباس نے یہانتک تصریح کی تھی کہ ابن زبیر خود عقد متعہ کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا اور ابن زبیر کی والدہ نے نیز اس موضوع کی تائید کی ۔ [70] ابن عباس اور ابن عباس کا باہمی مخاصمانہ رویہ باعث بنا کہ اس نے ابن عباس مکہ سے باہر نکال دیا؛ لیکن دونوں کے درمیان سرد جنگ جاری رہی اس دوران ابن عباس طائف میں اور ابن زبیر مکہ میں سکونت پذیر تھے۔ [71]
دوسرا محاصرہ
ابن زبیر قدرت حاصل کرنے کے بعد بنی امیہ کے ضعیف اور بیمار مروان بن حَکم کو اور اسکے بیٹے کو مدینے سے باہر نکال دیا ۔یہ بات شام میں بنی امیہ کے درمیان مروان کے رقیب بننے کا باعث بنی ۔ [72] مروان نے مَرْج راهِط کی ذی الحجہ سال ۶۴ق.[73] میں ہونے والی نبرد میں ابن زبیر کے ساتھیوں پر کامیابی حاصل کی اور ضحاک بن قیس کو قتل کر دیا [74] نیز اس نے مختصر مدت میں ابن زبیر قدرت کا شام میں خاتمہ کر دیا اسی طرح مصر سال ۶۵ق. ابن زبیر کے ہاتھوں سے نکل کر مروان کے ہاتھوں آ گیا ۔ [75]
سال ۶۵ق. میں شام میں عبدالملک بن مروان کے قدرت حاصل کرنے کے بعد ابن زبیر نے حج کے دنوں میں اسکے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا اور حاجیوں سے اپنے لئے بیعت کی کوششیں شروع کیں اور عرفہ کے روز منا میں خطبہ دیتے ہوئے عبدالملک کے جد حکم بن عاص پر رسول اللہ کی لعنت کا تذکرہ کیا اور وں شامیوں کو اپنی طرف دعوت دی [76] اس کے بالمقابل عبدالملک شامیوں کو حج کرنے سے منع کیا اور اسکے درباری عالم زُہری کے فتوے کے ذریعے لوگوں کو بیت المقدس میں حج اور صخرۂ مسجدالاقصی کے طواف کے پر ابھارا ۔ شامی حج کے ایام میں اس صخرهکا طواف کرتے اور عرفہ کے روز اعمال حج اور عید قربان وہی انجام دیتے ۔[77]
بنی امیہ کے داخلی اختلافات ،رومیوں کی دھمکیوں اور خوارج نے مروانیوں کو ابن زبیر کے خلاف سنجیدگی اور یکسوئی سے اقدام کرنے روکے رکھا [78] یہانتک کہ سال ۷۲ق. عبدالملک نے مصعب بن زبیر کے قتل ، تصرف عراق اور شکست کے بعد حجاج بن یوسف ثقفی کو ابن زبیر کی سرکوبی کیلئے حجاز بھیجا۔[79]حجاج نے ذی القعده سال ۷۲ق. میں ابن زبیر کی فوجی ناتوانی سے آگاہی اور ۵۰۰۰ اشخاص کی مدد پہنچنے کے بعد مدینہ میں داخل ہوا اور ابن زبیر کے مقرر کردہ حاکم کو باہر نکالنے [80] کے بعد مکہ کی جانب راہی ہوا اور ابن زبیر کو مسجد الحرام میں محبوس کیا ۔ یہ محاصرہ ذی الحجہ سال ۷۲ق. سے شروع ہو کر چھ مہینے اور ۱۷ روز قتل ابن زبیر کے قتل کے ساتھ منگل کے دن ۱۷ جمادی الاولی سال ۷۳ق. کو ختم ہوا ۔ بعض نے اس محاصرے کی مدت آٹھ مہینے اور ۱۷ لکھی ہے ۔[81] تاریخی روایات کے مطابق عبدالملک نے شروع میں حجاج کو مکہ میں فوجی حملوں سے ڈرایا اور اس سے درخواست کی کہ ابن زبیر کو اقتصادی پابندیوں کے ذریعے تسلیم کرے ۔[82]
سال ۷۲ق. میں ابن زبیر مسجدالحرام میں محاصره میں تھا لہذا وہ وقوف عرفات اور رمی جمرات سے رہ گیا اور اس نے حج نہیں کیا۔[83] ابن عمر یا جابر بن عبدالله انصاری اور ابوسعید خُدری جیسے اصحاب کی درخواست پر حجاج بن یوسف نے منا سے حاجیوں کی واپسی تک حملے سے ہاتھ کھینچا لیا ۔حاجیوں سے درخواست کی کہ وہ اپنے شہروں کو لوٹ جائیں تا کہ جنگ کو جاری رکھا جا سکے ۔ [84] اس نے اپنے آپ کو امیرالحاج کہا لوگوں کے ساتھ حج ادا کیا اور فوجی لباس کے ساتھ عرفات میں حاضر ہوا. [85]، اگرچہ ابن زبیر کے حائل ہونے کی وجہ سے اس نے طواف کعبہ اور صفا و مروہ کے درمیان سعی ادا نہیں کی تھی ۔ [86]
حجاج زبیریوں تک کھانے پینے کے سامان پہنچنے سے مانع ہوا وہ صرف آب زمزم تک رسائی رکھتے تھے ۔[87] اس نے منجنیقوں کے ساتھ انہیں بری طرح نقصان پہنچایا اس دوران کعبہ کو بھی پتھر لگے ۔ [88] منجنیق کی سنگ باری نے چاہ زمزم کی چار دیواری کو گرا دیا اور کعبہ کے اطراف کو ویران کر دیا ۔ [89]نیز حجرالاسود اپنی جگہ سے اکھڑ گیا ۔ [90] پھر اس نے دستور دیا مسجد کو اسلحہ آتشین سے ہدف قرار دیں ۔اس کی وجہ سے کعبہ کے پردوں کو آگ لگ گئی ۔ کعبہ کو اور نقصان سے بچانے کی خاطر ابن زبیر نے کچھ افراد مسجد سے باہر بھیجے ۔ [91] اس نے حجرالاسود کو دوبارہ نقصان بچانے کی خاطر وہاں محافظین مقرر کئے ۔ [92]
عبدالله بن زبیر کے اطرافی اور اسکے خاندان کے لوگ نیز اسکے بھائی عروه نے اسے امام حسن کی پیروی میں عبدالملک سے صلح کی طرف دعوت دی لیکن اس نے اس تجویز کے جواب میں سخت ردعمل ظاہر کیا اور عروہ کی اس شان و شوکت اور حیثیت کے باوجود اسے سخت تنبیہ کی ۔ [93] دوسری طرف حجاج کی طرف سے عام معافی کے اعلان [94] کے باعث ابن زبیر کے مددگار یہانتک کہ اس کے بیٹے : خبیب اور حمزه بھی اپنی جان حفاظت کی خاطر تسلیم ہو گئے ۔ [95]
قتل ابن زبیر
حوالہ جات
- ↑ نک: الاستیعاب،ج۳،ص:۹۰۵.
- ↑ الطبقات، خامسہ۲، ص۳۱-۳۲؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۳۷؛ الاصابہ، ج۴، ص۸۰؛ تاریخ الطبری/ترجمہ،ج۳،ص:۹۲۴؛ دائرةالمعارف اسلام، ج۱، ص۵۴، ذیل مدخل “ʿAbd Allāh b. al-Zubayr”
- ↑ الطبقات، خامسہ۲، ص۳۱-۳۲؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۳۷؛ الاصابہ، ج۴، ص۸۰.
- ↑ طحاوی، شرح معانی الاثار، ج۳، ص۲۴؛ عسکری،ازدواج موقت در اسلام، ۵۲ ۵۰
- ↑ العقد الفرید، ج۴، ص۱۴
- ↑ الاصابہ، ج۴، ص۸۱؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۳۰؛ سیر اعلام النبلاء، ج۳، ص۳۶۴.
- ↑ نک: تاریخ طبری، ج۳، ص۵۷۱؛ الاصابہ، ج۳، ص۳۳۴.
- ↑ تاریخ الطبری،ج۴،ص:۲۷۰؛ اسی طرح نک: دائرةالمعارف اسلام، ج۱، ص۵۵، ذیل مدخل “ʿAbd Allāh b. al-Zubayr”
- ↑ انساب الاشراف، ج۱۰، ص۱۷۶؛ اسد الغابہ، ج۳، ص۳۲۸؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۵.
- ↑ فتوح البلدان، ص۲۲۴؛ المنتظم، ج۴، ص۳۴۴.
- ↑ تاریخ خلیفہ، ص۱۰۲؛ البدایہ و النہایہ، ج۷، ص۱۸۱.
- ↑ الطبقات، ج۲، ص۳۶؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۵۶۴.
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۲۶۵.
- ↑ الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۲۸؛ اسد الغابہ، ج۳، ص۱۳۹.
- ↑ الفتوح، ج۲، ص۴۷۰؛ مروج الذہب، ج۲، ص۳۶۳.
- ↑ در این باره نک: نجاتی، دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر»(http://hajj.ir/99/3019)
- ↑ نک: فتح الباری، ج۴، ص۴۷۶.
- ↑ نک: الاستیعاب، ج۳، ص۹۱۰؛ تاریخ الاسلام، ج۴، ص۲۴۶.
- ↑ فتوح البلدان، ص۳۶۵؛ الاستیعاب، ج۱، ص۳۶۸.
- ↑ فرزندان آل ابی طالب/ترجمہ،ج۱،ص:۱۶۴.
- ↑ درباره شورا نک: تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۶۰؛ الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۴۲.
- ↑ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۸؛ اخبار الدولۃ العباسیہ، ص۶۰.
- ↑ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۳۶؛ تاریخ ابن خلدون، ج۳، ص۱۲.
- ↑ نساب الاشراف، ج۵، ص۱۴۵؛ الاخبار الطوال، ص۲۲۶.
- ↑ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۴؛ تاریخ طبری، ج۵، ص۳۳۹.
- ↑ المصنف، ابن ابی شیبہ، ج۸، ص۶۰۸؛ صحیح مسلم، ج۸، ص۱۶۷.
- ↑ المصنف، ابن ابی شیبہ، ج۸، ص۶۰۸؛ صحیح مسلم، ج۸، ص۱۶۷.
- ↑ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۹؛ المنتظم، ج۵، ص۳۴۷.
- ↑ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۲۷-۳۲۸؛ تاریخ طبری، ج۵، ص۴۷۵.
- ↑ الطبقات، ج۵، ص۱۴۱؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۰.
- ↑ نک: الطبقات، ج۵، ص۱۴۱؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۱۹۸.
- ↑ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۱.
- ↑ حوالے کی ضرورت ہے ۔
- ↑ مسکویہ، ج۲، ص۸۵.
- ↑ تجارب الأمم، ایضا، ج ۲، ص۸۵ و تاریخ الطبری، ج ۵، ص۴۸۰.
- ↑ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۱۹، ۳۷۲؛ البدء و التاریخ، ج۶، ص۱۸.
- ↑ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۷.
- ↑ مروج الذہب، ج۳، ص۶۹.
- ↑ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۴۰؛ البدء و التاریخ، ج۶، ص۱۳-۱۴.
- ↑ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۶۲؛ تاریخ ابن خلدون، ج۲، ص۳۵۳.
- ↑ المنتظم، ج۶، ص۱۶.
- ↑ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۲۵.
- ↑ الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۲۳۱؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۲۰.
- ↑ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۵۹؛ تاریخ دمشق، ج۱۴، ص۳۸۷.
- ↑ اخبار مکہ، ازرقی، ج۱، ص۲۰۳؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۵۹.
- ↑ اخبار مکہ، ازرقی، ج۱، ص۱۹۸، ص۲۰۳؛ اخبار الکرام، ص۱۳۳.
- ↑ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۵۲.
- ↑ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۶۲، ۳۷۲.
- ↑ تاریخ خلیفہ، ص۱۶۰.
- ↑ عبدالله بن زبیر، ص۱۱۹.
- ↑ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۴۴، ۳۷۲.
- ↑ تفصیل کیلئے دیکھیں : نجاتی، دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر»(http://hajj.ir/99/3019#_ftn127)
- ↑ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۷۳-۳۷۴؛ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۵۵.
- ↑ لفتوح، ج۵، ص۱۵۶.
- ↑ الفتوح، ج۵، ص۱۵۶.
- ↑ اخبار مکہ، فاکهی، ج۳، ص۳۶۴؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۵.
- ↑ انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۲؛ الفتوح، ج۶، ص۲۴۸.
- ↑ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۶۲؛ مروج الذہب، ج۳، ص۸۰؛ شرح نہج البلاغہ، ج۴، ص۶۲.
- ↑ انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۲-۴۷۳؛ تاریخ طبری، ج۶، ص۷۶.
- ↑ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۶۱؛ تاریخ طبری، ج۶، ص۷۶؛ تجارب الامم، ج۲، ص۱۸۸.
- ↑ انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۵؛ تاریخ طبری، ج۶، ص۷۶.
- ↑ انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۶-۴۷۷؛ تاریخ طبری، ج۶، ص۷۷.
- ↑ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۸۷.
- ↑ انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۸؛ اخبار الدولۃ العباسیہ، ص۱۰۷.
- ↑ تفصیل مطلب نک: نجاتی، دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر»(http://hajj.ir/99/3019#_ftnref195)
- ↑ انساب الاشراف، ج۴، ص۵۵؛ اخبار الدولۃ العباسیہ، ص۱۱۰.
- ↑ اخبار الدولة العباسیه، ص۹۲.
- ↑ اریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۵۰؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۹.
- ↑ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۴۷.
- ↑ اخبار مکہ، فاکہی، ج۳، ص۲۰؛ انساب الاشراف، ج۴، ص۵۵-۵۶؛ الفتوح، ج۶، ص۳۲۶.
- ↑ نک: انساب الاشراف، ج۳، ص۴۸۲؛ مروج الذہب، ج۳، ص۸۰.
- ↑ الطبقات، ج۵، ص۳۱؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۴۱.
- ↑ انساب الاشراف، ج۶، ص۲۷۳؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۳۸.
- ↑ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۵۲؛ تاریخ طبری، ج۵، ص۵۳۷.
- ↑ الامامہ و السیاسہ، ج۲، ص۲۲؛ مروج الذہب، ج۳، ص۸۸.
- ↑ اخبار مکہ، فاکہی، ج۱، ص۳۵۶؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۸۰.
- ↑ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۶۱؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۸۰؛ حیاة الحیوان، ج۲، ص۵۸.
- ↑ الامامہ و السیاسہ، ج۲، ص۳۷؛ دولت امویان، ص۱۱۰.
- ↑ انساب الاشراف، ج۷، ص۹۵؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۱۵.
- ↑ تاریخ طبری، ج۶، ص۱۷۵؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۰.
- ↑ تاریخ طبری، ج۶، ص۱۷۵؛ المنتظم، ج۶، ص۱۲۴.
- ↑ الفتوح، ج۶، ص۳۳۸.
- ↑ الاستیعاب ، ج۳، ص۹۰۷؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۰.
- ↑ اخبار مکہ، فاکہی، ج۲، ص۳۷۲؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۰.
- ↑ تاریخ طبری، ج۶، ص۱۷۵؛ المنتظم، ج۶، ص۱۲۰.
- ↑ الکامل، ج۴، ص۳۵۰؛ الطبقات، خامسہ۲، ص۹۳.
- ↑ الطبقات، خامسہ۲، ص۹۴؛ اخبار مکہ، فاکہی، ج۲، ص۳۱.
- ↑ الطبقات، خامسہ۲، ص۹۵؛ الانباء، ص۵۰.
- ↑ الفتوح، ج۶، ص۳۴۰؛ حیاة الحیوان، ج۲، ص۵۹.
- ↑ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۳۱۵.
- ↑ اخبار مکہ، فاکہی، ج۲، ص۳۶۰؛ الفتوح، ج۶، ص۳۴۱.
- ↑ الوافی بالوفیات، ج۵، ص۳۹۰؛ مجمع الزوائد، ج۷، ص۵۰۳.
- ↑ الامامہ و السیاسہ، ج۲، ص۳۸.
- ↑ الطبقات، خامسہ۲، ص۹۹؛ انساب الاشراف، ج۷، ص۱۲۴؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۰.
- ↑ تاریخ طبری، ج۶، ص۱۸۸؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۲.
منابع
اس مقالے کا اکثر حصہ "دانشنامہ حج و حرمین شریفین" میں محمد سعید نجاتی کے مقالے "ابن زبیر" سے کچھ تغیر و تبدل کے ساتھ لکھا تحریر ہوا ہے ۔
- ابن ابیالحدید (م.۶۵۶ق.)، شرح نهج البلاغه: به کوشش محمد ابوالفضل،دار احیاء الکتب العربیه، ۱۳۷۸ق.
- ابن اعثم الکوفی (م.۳۱۴ق.)، الفتوح، به کوشش علی شیری، بیروت،دار الاضواء، ۱۴۱۱ق.
- ابن سعد (م.۲۳۰ق.)،الطبقات الکبری، به کوشش محمد عبدالقادر، بیروت،دار الکتب العلمیه، ۱۴۱۸ق.
- احمد بن حنبل(۲۴۱ق)، مسند أحمد،مؤسسة قرطبة، مصر.
- عبدالکریم السمعانی (م.۵۶۲ق.)، الانساب، به کوشش عبدالرحمن بن یحیی، حیدرآباد، دائرة المعارف العثمانیه، ۱۳۸۲ق.
- ابن عبدربه، احمد بن محمد بن عبد ربه(۳۲۸ق)، العقد الفرید،دار إحیاء التراث العربی، بیروت لبنان، الطبعہ الثالثة، ۱۴۲۰ق.
- فاکهی (م.۲۷۵ق.)، اخبار مکہ، به کوشش عبدالملک دهیش، بیروت،دار خضر، ۱۴۱۴ق.
- ابن داود الدینوری (م.۲۸۲ق.)، الاخبار الطوال، به کوشش عبدالمنعم، قم، الرضی، ۱۴۱۲ق.
- ابن عساکر (م.۵۷۱ق.)، تاریخ مدینہ دمشق، به کوشش علی شیری، بیروت،دار الفکر، ۱۴۱۵ق.
- احمد بن یعقوب (م.۲۹۲ق.)، تاریخ الیعقوبی، بیروت،دار صادر، ۱۴۱۵ق.
- البلاذری (م.۲۷۹ق.)،انساب الاشراف، به کوشش زکار، بیروت،دار الفکر، ۱۴۱۷ق.
- ابن اثیر علی بن محمد الجزری (م.۶۳۰ق.)، الکامل فی التاریخ، بیروت،دار صادر، ۱۳۸۵ق.
- ابن کثیر (م.۷۷۴ق.)، البدایہ و النہایہ، بیروت، مکتبة المعارف، بیتا.
- خلیفة بن خیاط (م.۲۴۰ق.)، تاریخ خلیفہ، بیروت،دار الکتب العلمیه، ۱۴۱۵ق.
- المطهر المقدسی (م.۳۵۵ق.)، البدء و التاریخ، بیروت،دار صادر، ۱۹۰۳م؛
- ابن جوزی (م.۵۹۷ق.)، المنتظم، به کوشش نعیم زرزور، بیروت،دار الکتب العلمیه، ۱۴۱۲ق.
- المسعودی (م.۳۴۶ق.)، مروج الذهب، به کوشش اسعد داغر، قم،دار الهجره، ۱۴۰۹ق.
- ابن اعثم الکوفی (م.۳۱۴ق.)، الفتوح، به کوشش علی شیری، بیروت،دار الاضواء، ۱۴۱۱ق.
- ابن ابیشیبه (م.۲۳۵ق.)،المصنّف، به کوشش سعید محمد،دار الفکر، ۱۴۰۹ق.
- عبدالرزاق الصنعانی (م.۲۱۱ق.)، المصنّف، به کوشش حبیب الرحمن، المجلس العلمی، بیتا.
- طحاوی حنفی، أحمد بن محمد(۳۲۱ق)، شرح معانی الآثار،تحقیق محمد زهری النجار، ناشردار الکتب العلمیة، بیروت، الطبعہالأولی، ۱۳۹۹م.
- زمخشری، محمود بن عمرو بن أحمد جار الله(۵۳۸ق)، المستقصی فی أمثال العرب،دار الکتب العلمیة، بیروت، الطبعہ الثانیة، ۱۹۸۷م.
- طبری، محمد بن جریر(۳۱۰ق)، تاریخ الطبری،دار الکتب العلمیہ، بیروت.
- بلاذری، احمد بن یحیی(م۲۷۹)جمل من انساب الأشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت،دار الفکر، ط الأولی، ۱۴۱۷.
- ابن عساکر، علی بن الحسن إبن ہبۃ الله(۵۷۱ق)، تاریخ مدینہ دمشق، تحقیق محب الدین أبی سعید عمر بن غرامہ العمری،دار الفکر،بیروت، ۱۹۹۵.
- محمد بن احمد المقدسی (م.۳۸۰ق.)،احسن التقاسیم، قاہره، مکتبہ مدبولی، ۱۴۱۱ق.
- شیبانی، أحمد بن عمرو(۲۸۷ق)، الآحاد والمثانی،تحقیق د. باسم فیصل أحمد الجوابرة،دار الرایة،الریاض، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۱ق.
- Gibb, H.A.R. “ʿAbd Allāh b. al-Zubayr” ,E.I. ,second ed. Leiden: E. J. Brill, 1986.