مندرجات کا رخ کریں

"جہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق

58 بائٹ کا اضافہ ،  4 ستمبر 2016ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 60: سطر 60:


===جہاد واجب کفائی===
===جہاد واجب کفائی===
فقہ اسلامی میں مشہور قول کے مطابق، ابتدائی جہاد واجب کفائی ہے. یعنی اگر مجاہدین کی کچھ تعداد جو جہاد کے لئے تیار ہو، کافی ہو، تو جہاد دوسرے افراد سے ساقط ہے، لیکن اگر خاص دلائل کی وجہ سے بعض افراد کا جنگ شرکت کرنا ضروری سمجھا جائے تو ان کے لئے جہاد واجب عینی ہو گا. اور جنگ میں حاضر ہونا اور دشمن کے ساتھ مقابلہ کرتے وقت جہاد واجب عینی ہے اور اس وقت منصرف ہونا حرام ہے. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۷، ۲۷۷؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۸؛ قس ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۶۴</ref>  
فقہ اسلامی میں مشہور قول کے مطابق، ابتدائی جہاد واجب کفائی ہے. یعنی اگر مجاہدین کی کچھ تعداد جو جہاد کے لئے تیار ہو، کافی ہو، تو جہاد دوسرے افراد سے ساقط ہے، لیکن اگر خاص دلائل کی وجہ سے بعض افراد کا جنگ شرکت کرنا ضروری سمجھا جائے تو ان کے لئے جہاد واجب عینی ہو گا. اور جنگ میں حاضر ہونا اور دشمن کے ساتھ مقابلہ کرتے وقت جہاد واجب عینی ہے اور اس وقت منصرف ہونا [[حرام]] ہے. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۷، ۲۷۷؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۸؛ قس ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۶۴</ref>  


===مجاہدین کے شرائط===
===مجاہدین کے شرائط===
سطر 74: سطر 74:


===احکام اور آداب===
===احکام اور آداب===
حرام مہینوں (رجب، ذیقعد، ذوالحجہ، محرم) میں اسلام سے پہلے عرب قبائل میں جنگ حرام تھی اسلام نے بھی اس کی تصدیق  کی ہے اور مجتہدین نے آیات قرآن  کو مستند قرار دیا ہےجیسے سورہ بقرہ کی آیت ٢١٧ اور توبہ کی آیت ٥، جو کہ ان مہینوں میں جنگ کی حرمت کو بیان کرتی ہیں. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۳؛ قرطبی، ذیل بقره : ۹۰؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۸ـ ۳۶۹</ref> مگر یہ کہ دشمن ماہ حرام کی حرمت کا خیال نہ رکھے اور جنگ کا آغاز کرے اس صورت میں دفاع ضروری ہے.<ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۳۲ ـ ۳۴</ref> البتہ اہل سنت کے بعض علماء کی نظر میں جنگ کی حرمت حرام مہینوں میں نسخ کی گئی ہے اور جہاد ہر جگہ اور ہر وقت جائز ہے.<ref>جصاص، ج ۱، ص۳۹۰؛ قرطبی</ref>
حرام مہینوں (رجب، ذیقعد، ذوالحجہ، محرم) میں اسلام سے پہلے عرب قبائل میں جنگ حرام تھی اسلام نے بھی اس کی تصدیق  کی ہے اور مجتہدین نے آیات قرآن  کو مستند قرار دیا ہےجیسے [[سورہ بقرہ]] کی آیت ٢١٧ اور [[سورہ توبہ|توبہ]] کی آیت ٥، جو کہ ان مہینوں میں جنگ کی حرمت کو بیان کرتی ہیں. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۳؛ قرطبی، ذیل بقره : ۹۰؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۸ـ ۳۶۹</ref> مگر یہ کہ دشمن ماہ حرام کی حرمت کا خیال نہ رکھے اور جنگ کا آغاز کرے اس صورت میں دفاع ضروری ہے.<ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۳۲ ـ ۳۴</ref> البتہ اہل سنت کے بعض علماء کی نظر میں جنگ کی حرمت حرام مہینوں میں نسخ کی گئی ہے اور جہاد ہر جگہ اور ہر وقت جائز ہے.<ref>جصاص، ج ۱، ص۳۹۰؛ قرطبی</ref>
جنگ سے فرار کرنا حرام، بلکہ گناہ کبیرہ سے ہے، <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۵۶</ref>مگر یہ کہ مسلمانوں کی تعداد دشمن کی نصف تعداد سے بھی کم ہوں، اس صورت میں ان سے مقابلہ واجب نہیں ہے. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۶۱</ref>
جنگ سے فرار کرنا حرام، بلکہ [[گناہ کبیرہ]] سے ہے، <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۵۶</ref>مگر یہ کہ مسلمانوں کی تعداد دشمن کی نصف تعداد سے بھی کم ہوں، اس صورت میں ان سے مقابلہ واجب نہیں ہے. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۶۱</ref>
امام علیہ السلام یا آپ(ع) کے نائب پر واجب ہے کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے کفار کو اسلام (توحید، پیغمبر(ص) اور دوسرے لوازم جیسے اصول دین و فروع دین) کی دعوت دی جائے اگرچہ اس سے پہلے انکو دعوت دی جا چکی ہو لیکن پھر بھی اس دعوت کو دہرانا مستحب ہے.<ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۵۴ ـ ۵۱</ref>
امام علیہ السلام یا آپ(ع) کے نائب پر واجب ہے کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے کفار کو اسلام (توحید، پیغمبر(ص) اور دوسرے لوازم جیسے [[اصول دین]] و [[فروع دین]]) کی دعوت دی جائے اگرچہ اس سے پہلے انکو دعوت دی جا چکی ہو لیکن پھر بھی اس دعوت کو دہرانا مستحب ہے.<ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۵۴ ـ ۵۱</ref>
مستحب ہے کہ جنگ کا آغاز ظہر اور عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد کیا جائے اور زوال سے پہلے جنگ کا آغاز مکروہ ہے مگر ضرورت کی حالت میں. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۸۲ ـ ۸۱</ref>
[[مستحب]] ہے کہ جنگ کا آغاز ظہر اور عصر کی [[نماز]] ادا کرنے کے بعد کیا جائے اور زوال سے پہلے جنگ کا آغاز مکروہ ہے مگر ضرورت کی حالت میں. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۸۲ ـ ۸۱</ref>
جنگ کی ابتداء امام(ع) کی اجازت کے بغیر بعض قول کے مطابق مکروہ اور بعض نے حرام کہا ہے، لیکن امام(ع) کے منع کرنے پر اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے. اگر امام(ع) جنگ کی دعوت دیں تو شرکت کرنا مستحب ہے لیکن اگر لازمی قرار دیں تو شرکت واجب ہے. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۸۸ ـ ۸۵</ref>
جنگ کی ابتداء امام(ع) کی اجازت کے بغیر بعض قول کے مطابق مکروہ اور بعض نے حرام کہا ہے، لیکن امام(ع) کے منع کرنے پر اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے. اگر امام(ع) جنگ کی دعوت دیں تو شرکت کرنا مستحب ہے لیکن اگر لازمی قرار دیں تو شرکت واجب ہے. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۸۸ ـ ۸۵</ref>
دشمن پر سبقت حاصل کرنے کے لئے جس وسیلے کو استعمال کرنے کی ضرورت پڑھے جائز ہے، لیکن درختوں کو کاٹنا، آگ پھینکنا یا دشمن کی جانب پانی گرانا ضرورت کے علاوہ مکروہ ہے. اور اسی طرح ضرورت کے علاوہ  دشمن پر زہر پھینکنا یا اس سے کراہت کرنے میں بھی نظرات مختلف ہیں.<ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۶۶ ـ ۶۸؛اشارة السبق، ص۱۴۳؛ إصباح الشیعة، ص۱۸۹</ref> بعض درختوں کے کاٹ کر گلیل بنانا اگر ضرورت کے تحت ہو تو جائز کہتے ہیں. <ref>الروضة البهیة، ج۲، ص۳۹۲</ref>
دشمن پر سبقت حاصل کرنے کے لئے جس وسیلے کو استعمال کرنے کی ضرورت پڑھے جائز ہے، لیکن درختوں کو کاٹنا، آگ پھینکنا یا دشمن کی جانب پانی گرانا ضرورت کے علاوہ مکروہ ہے. اور اسی طرح ضرورت کے علاوہ  دشمن پر زہر پھینکنا یا اس سے کراہت کرنے میں بھی نظرات مختلف ہیں.<ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۶۶ ـ ۶۸؛اشارة السبق، ص۱۴۳؛ إصباح الشیعة، ص۱۸۹</ref> بعض درختوں کے کاٹ کر گلیل بنانا اگر ضرورت کے تحت ہو تو جائز کہتے ہیں. <ref>الروضة البهیة، ج۲، ص۳۹۲</ref>
سطر 86: سطر 86:
کسی مصلحت کی بناء پر اگر کفار سے مدد مانگنی پڑھے جب کہ اطمینان ہو کہ خیانت نہیں کرے گا اس صورت میں مدد طلب کرنا جائز ہے. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۱۹۴ ـ ۱۹۳</ref>
کسی مصلحت کی بناء پر اگر کفار سے مدد مانگنی پڑھے جب کہ اطمینان ہو کہ خیانت نہیں کرے گا اس صورت میں مدد طلب کرنا جائز ہے. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۱۹۴ ـ ۱۹۳</ref>
حرم کی حدود میں جیسے ایک خاص جگہ جہاں مکہ واقع ہے وہاں جنگ کرنا حرام ہے مگر ایسی صورت میں کہ جب دشمن ایسی جگہ پر جنگ میں پہل کر دے. <ref>ابن جوزی، ص۷۲ـ۷۴؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۹؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۹</ref>
حرم کی حدود میں جیسے ایک خاص جگہ جہاں مکہ واقع ہے وہاں جنگ کرنا حرام ہے مگر ایسی صورت میں کہ جب دشمن ایسی جگہ پر جنگ میں پہل کر دے. <ref>ابن جوزی، ص۷۲ـ۷۴؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۹؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۹</ref>
فقہ کی کتب میں، معتبر احادیث سے، جہاد میں بعض کاموں کو مستحب کہا گیا ہے جیسے: فوجی مجاہدوں کے حوصلے بلند کرنا اور انکے درمیان نظم برقرار کرنا ہر گروہ کے لئے ایک خاص پرچم یا نشانی رکھنا اور تکبیر پڑھنا یا کوئی خاص دعا وغیرہ پڑھنا. <ref>معزی ملایری، ج ۱۶، ص۱۹۰ـ ۱۹۹</ref>
فقہ کی کتب میں، معتبر احادیث سے، جہاد میں بعض کاموں کو [[مستحب]] کہا گیا ہے جیسے: فوجی مجاہدوں کے حوصلے بلند کرنا اور انکے درمیان نظم برقرار کرنا ہر گروہ کے لئے ایک خاص پرچم یا نشانی رکھنا اور تکبیر پڑھنا یا کوئی خاص دعا وغیرہ پڑھنا. <ref>معزی ملایری، ج ۱۶، ص۱۹۰ـ ۱۹۹</ref>


===جہاد کا اختتام===
===جہاد کا اختتام===
ممکن ہے جہاد ان میں سے کسی ایک وجہ سے اختتام کو پہنچے: دشمن اگر اسلام قبول کر لے اس صورت میں کہ جنگ کا آغاز اس کی ہدایت کی خاطر ہوا ہو، <ref>بخاری، ج ۱، ص۳۹؛ طبری، ذیل فتح : ۱۶</ref> اگر دشمن کے افراد مسلمانوں کو پناہ دیں، موقت قرار داد کو ختم کرنا مخاصمہ یا مصالحہ دائمی.  
ممکن ہے جہاد ان میں سے کسی ایک وجہ سے اختتام کو پہنچے: دشمن اگر [[اسلام]] قبول کر لے اس صورت میں کہ جنگ کا آغاز اس کی ہدایت کی خاطر ہوا ہو، <ref>بخاری، ج ۱، ص۳۹؛ طبری، ذیل فتح : ۱۶</ref> اگر دشمن کے افراد مسلمانوں کو پناہ دیں، موقت قرار داد کو ختم کرنا مخاصمہ یا مصالحہ دائمی.  




گمنام صارف