گمنام صارف
"جہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>Jaravi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 30: | سطر 30: | ||
*٣.جہاد کی اقسام | *٣.جہاد کی اقسام | ||
*٤.میدان جنگ کے متعلق احکام جیسے: | *٤.میدان جنگ کے متعلق احکام جیسے: | ||
::الف) جنگ کرنے کا طریقہ اور فوج کے ساتھ اور قتل ہونے والوں اور باقی رہ جانے والوں کے ساتھ رویہ، مال غنیمت کی تقسیم، | ::الف) جنگ کرنے کا طریقہ اور فوج کے ساتھ اور قتل ہونے والوں اور باقی رہ جانے والوں کے ساتھ رویہ، [[مال غنیمت]] کی تقسیم، | ||
::ب) جہاد کا اختتام. <ref>زیدبن علی، ص۳۴۹ـ ۳۶۲؛ شافعی، ج ۴، ص۱۶۷ـ۳۱۳؛ سحنون، ج ۲، ص۲ـ ۵۰؛ مسلم بن حجاج، ج ۲، ص۱۳۵۶ـ ۱۴۵۰؛ کلینی، ج ۵، ص۲ـ ۵۵؛ طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲ـ۷۵؛ ابن حزم، المحلّی، ج ۷، ص۲۹۱ـ ۳۵۴؛ شمس الائمه سرخسی، ۱۴۰۳، ج ۱۰، ص۲ـ ۱۴۴؛ ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۶۴ ـ۶۳۵</ref> | ::ب) جہاد کا اختتام. <ref>زیدبن علی، ص۳۴۹ـ ۳۶۲؛ شافعی، ج ۴، ص۱۶۷ـ۳۱۳؛ سحنون، ج ۲، ص۲ـ ۵۰؛ مسلم بن حجاج، ج ۲، ص۱۳۵۶ـ ۱۴۵۰؛ کلینی، ج ۵، ص۲ـ ۵۵؛ طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲ـ۷۵؛ ابن حزم، المحلّی، ج ۷، ص۲۹۱ـ ۳۵۴؛ شمس الائمه سرخسی، ۱۴۰۳، ج ۱۰، ص۲ـ ۱۴۴؛ ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۶۴ ـ۶۳۵</ref> | ||
جہاد کا فتوا | جہاد کا فتوا | ||
سنہ تیرہ ہجری کو جب ایران اور روس کی جنگ ہوئی تھی تو اسلامی سرزمین کے دفاع کی خاطر شیعہ علماء نے جہاد کا حکم دیا تھا.<ref>میرزابزرگ قائم مقام، مقدمه زرگری نژاد، ص۶۲، ۷۴، ۷۶؛ رسایل و فتاوای جهادی، ص۲۰ـ۳۵۱</ref> تاریخی کتابوں میں اہل سنت کے علماء کا بھی ذکر آیا ہے جنہوں نے جہاد کا حکم دیا جیسے ابن عساکر(م٥٧١) کو صلیبی جنگوں میں تشویق کرنا، اور اس بارے میں چالیس حدیث کی جمع آوری کرنا. <ref>حلوانی، ص۱۱ـ۱۳</ref> | سنہ تیرہ ہجری کو جب [[ایران]] اور روس کی جنگ ہوئی تھی تو اسلامی سرزمین کے دفاع کی خاطر شیعہ علماء نے جہاد کا حکم دیا تھا.<ref>میرزابزرگ قائم مقام، مقدمه زرگری نژاد، ص۶۲، ۷۴، ۷۶؛ رسایل و فتاوای جهادی، ص۲۰ـ۳۵۱</ref> تاریخی کتابوں میں اہل سنت کے علماء کا بھی ذکر آیا ہے جنہوں نے جہاد کا حکم دیا جیسے ابن عساکر(م٥٧١) کو صلیبی جنگوں میں تشویق کرنا، اور اس بارے میں چالیس حدیث کی جمع آوری کرنا. <ref>حلوانی، ص۱۱ـ۱۳</ref> | ||
ابتدائی اور دفاعی جہاد | ابتدائی اور دفاعی جہاد | ||
مجتہدین نے اپنی کتابوں میں جہاد کو ابتدائی اور دفاعی حصوں میں تقسیم کیا ہے.<ref>منتظری، ج ۱، ص۱۱۵</ref> یہ تقسیم بندی فقہ کی پرانی کتابوں میں صریح طور ذکر نہیں کی گئی اور انہوں نے عام طور پر ابتدائی جہاد کے احکام کو مبسوط اور تدافعی جہاد کے احکام کو ضمنی طور پر بیان کیا ہے.<ref>شافعی، ج ۴، ص۱۷۰؛ کلینی، ج ۵</ref> | مجتہدین نے اپنی کتابوں میں جہاد کو ابتدائی اور دفاعی حصوں میں تقسیم کیا ہے.<ref>منتظری، ج ۱، ص۱۱۵</ref> یہ تقسیم بندی فقہ کی پرانی کتابوں میں صریح طور ذکر نہیں کی گئی اور انہوں نے عام طور پر ابتدائی جہاد کے احکام کو مبسوط اور تدافعی جہاد کے احکام کو ضمنی طور پر بیان کیا ہے.<ref>شافعی، ج ۴، ص۱۷۰؛ کلینی، ج ۵</ref> | ||
ابتدائی جہاد، مشرکین اور کفار کے ساتھ جنگ اور انکو اسلام اور توحید کی دعوت دینا اور عدالت کو برقرار کرنا کے معنی میں ہے. اور اس جہاد میں جس کے آغاز گر مسلمان ہیں ان کا مقصد [[کفر]] کا خاتمہ اور دین الہی کو گسترش دینا ہے. <ref>بقره : ۱۹۳؛ انفال :۳۹؛ جصاص، ج ۳، ص۶۵؛ قرطبی ؛ طباطبائی، ذیل بقره : ۱۹۳</ref> | ابتدائی جہاد، مشرکین اور کفار کے ساتھ جنگ اور انکو اسلام اور [[توحید]] کی دعوت دینا اور عدالت کو برقرار کرنا کے معنی میں ہے. اور اس جہاد میں جس کے آغاز گر مسلمان ہیں ان کا مقصد [[کفر]] کا خاتمہ اور دین الہی کو گسترش دینا ہے. <ref>بقره : ۱۹۳؛ انفال :۳۹؛ جصاص، ج ۳، ص۶۵؛ قرطبی ؛ طباطبائی، ذیل بقره : ۱۹۳</ref> | ||
دفاعی جہاد، مسلمانوں اور اسلامی سرزمین کی حفاظت کی خاطر ہے. <ref>منتظری، ج ۱، ص۱۱۵</ref> | دفاعی جہاد، مسلمانوں اور اسلامی سرزمین کی حفاظت کی خاطر ہے. <ref>منتظری، ج ۱، ص۱۱۵</ref> | ||
سطر 51: | سطر 51: | ||
٢.ذمی کفار جنہوں نے ذمہ کے شرائط کی رعایت نہ کی ہو. | ٢.ذمی کفار جنہوں نے ذمہ کے شرائط کی رعایت نہ کی ہو. | ||
٣.باغیان. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۴۶</ref> | ٣.باغیان. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۴۶</ref> | ||
غیر کتابی کے ساتھ جہاد اس کو اسلام کی دعوت کی خاطر ہے. وہ دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں: آئین اسلام کو قبول کرنا یا جنگ کے لئے تیار ہونا. | غیر کتابی کے ساتھ جہاد اس کو [[اسلام]] کی دعوت کی خاطر ہے. وہ دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں: آئین اسلام کو قبول کرنا یا جنگ کے لئے تیار ہونا. | ||
کفار کتابی غیر ذمی یا ذمی جس نے ذمہ کے پیمان کو توڑا ہو اس کے ساتھ جہاد، اسلام کو قبول کرنا یا پیمان ذمہ کو قبول کرنا اور جزیہ دینا ہے. جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان تین راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں: اسلام کو قبول کر لیں، اپنے دین پر قائم رئیں اور جزیہ دیں یا جنگ کے لئے حاضر ہوں. | کفار کتابی غیر ذمی یا ذمی جس نے ذمہ کے پیمان کو توڑا ہو اس کے ساتھ جہاد، اسلام کو قبول کرنا یا پیمان ذمہ کو قبول کرنا اور جزیہ دینا ہے. جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان تین راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں: اسلام کو قبول کر لیں، اپنے دین پر قائم رئیں اور جزیہ دیں یا جنگ کے لئے حاضر ہوں. | ||
باغیان کے ساتھ جہاد انکے پیمان میں نقض یا امام علیہ السلام سے بیعت توڑنے اور انکو دوبارہ بیعت کی لئے دعوت دینا ہے. <ref>کشف الرموز، ج۱، ص۴۱۸ ـ ۴۲۲؛ المهذّب البارع، ج ۲، ص۳۰۰ ـ ۳۱۰</ref> | باغیان کے ساتھ جہاد انکے پیمان میں نقض یا امام علیہ السلام سے بیعت توڑنے اور انکو دوبارہ بیعت کی لئے دعوت دینا ہے. <ref>کشف الرموز، ج۱، ص۴۱۸ ـ ۴۲۲؛ المهذّب البارع، ج ۲، ص۳۰۰ ـ ۳۱۰</ref> | ||
جہاد، آخری راہ حل | جہاد، آخری راہ حل | ||
بعض مسلمان مولفین کی نگاہ میں، ہمیشہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا راہ حل جہاد نہیں، بلکہ جہاد اسلام اور مسلمانوں کی مصالح کی خاطر آخری راہ حل ہے. <ref>زحیلی، ص۹۰، ۹۷</ref> جہاد شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ مد مقابل کو اسلام کی دعوت، کفر و عصیان چھوڑنے اور اور انسانی حقوق کو پایمال نہ کرنے کی دعوت دی جائے اور اس کی ابتداء ایسے علاقہ جات سے کی جائے جو اسلامی سرزمین کے نزدیک ہیں. <ref>شافعی، ج ۴، ص۱۷۷؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۸۵ـ ۲۸۷؛ فخرالمحققین، ج ۱، ص۳۵۴؛ نجفی، ج ۲۱، ص۵۱؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۹</ref> | بعض مسلمان مولفین کی نگاہ میں، ہمیشہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا راہ حل جہاد نہیں، بلکہ جہاد اسلام اور مسلمانوں کی مصالح کی خاطر آخری راہ حل ہے. <ref>زحیلی، ص۹۰، ۹۷</ref> جہاد شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ مد مقابل کو اسلام کی دعوت، کفر و عصیان چھوڑنے اور اور انسانی حقوق کو پایمال نہ کرنے کی دعوت دی جائے اور اس کی ابتداء ایسے علاقہ جات سے کی جائے جو اسلامی سرزمین کے نزدیک ہیں. <ref>شافعی، ج ۴، ص۱۷۷؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۸۵ـ ۲۸۷؛ فخرالمحققین، ج ۱، ص۳۵۴؛ نجفی، ج ۲۱، ص۵۱؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۹</ref> | ||
بعض مجتہدین کی نظر میں پیغمبر اکرم(ص) کی سیرت کے مطابق، اگر شرائط مناسب ہوں اور سپاہ اسلام بھی جہاد کے لئے تیار ہوں، تو کم از کم سال میں ایک بار واجب ہے. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۱۰؛ ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۶۷ـ۳۶۸؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۶؛ علامه حلّی، ۱۴۱۳ـ۱۴۱۹، ج ۱، ص۴۷۷؛ نجفی، ج ۲۱، ص۴۹</ref> جنگ کے میدان سے فرار جائز نہیں ہے مگر مجبوری کی حالت میں. <ref>نجفی، ج ۲۱، ص۷۳؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۷۱</ref> | بعض مجتہدین کی نظر میں [[پیغمبر اکرم(ص)]] کی سیرت کے مطابق، اگر شرائط مناسب ہوں اور سپاہ اسلام بھی جہاد کے لئے تیار ہوں، تو کم از کم سال میں ایک بار واجب ہے. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۱۰؛ ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۶۷ـ۳۶۸؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۶؛ علامه حلّی، ۱۴۱۳ـ۱۴۱۹، ج ۱، ص۴۷۷؛ نجفی، ج ۲۱، ص۴۹</ref> جنگ کے میدان سے فرار جائز نہیں ہے مگر مجبوری کی حالت میں. <ref>نجفی، ج ۲۱، ص۷۳؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۷۱</ref> | ||
جہاد واجب کفائی | جہاد واجب کفائی | ||
فقہ اسلامی میں مشہور قول کے مطابق، ابتدائی جہاد واجب کفائی ہے. یعنی اگر مجاہدین کی کچھ تعداد جو جہاد کے لئے تیار ہو، کافی ہو، تو جہاد دوسرے افراد سے ساقط ہے، لیکن اگر خاص دلائل کی وجہ سے بعض افراد کا جنگ شرکت کرنا ضروری سمجھا جائے تو ان کے لئے جہاد واجب عینی ہو گا. اور جنگ میں حاضر ہونا اور دشمن کے ساتھ مقابلہ کرتے وقت جہاد واجب عینی ہے اور اس وقت منصرف ہونا حرام ہے. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۷، ۲۷۷؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۸؛ قس ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۶۴</ref> | فقہ اسلامی میں مشہور قول کے مطابق، ابتدائی جہاد واجب کفائی ہے. یعنی اگر مجاہدین کی کچھ تعداد جو جہاد کے لئے تیار ہو، کافی ہو، تو جہاد دوسرے افراد سے ساقط ہے، لیکن اگر خاص دلائل کی وجہ سے بعض افراد کا جنگ شرکت کرنا ضروری سمجھا جائے تو ان کے لئے جہاد واجب عینی ہو گا. اور جنگ میں حاضر ہونا اور دشمن کے ساتھ مقابلہ کرتے وقت جہاد واجب عینی ہے اور اس وقت منصرف ہونا حرام ہے. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۷، ۲۷۷؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۸؛ قس ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۶۴</ref> |