مندرجات کا رخ کریں

فلسفہ مشاء

ویکی شیعہ سے
(مکتب مَشاء سے رجوع مکرر)
فلسفہ مشاء
کوائف
بانیارسطو
قدمتقبل از اسلام
مبداءیونان
علمی معلومات
علمی شعبہفلسفہ
نقطہ نظرعقلی اور استدلالی
خصوصیاتاصالت وجود، عقول عشرہ، نفس کا روحانیۃ الحدوث و البقاء ہونا
متفکرینکندی، فارابی، ابن سینا، ابن رشد، خواجہ نصیرالدین طوسی
اہم کتبالشفاء، الاشارات و التنبیہات، آراء اہل المدینۃ الفاضلۃ، الفصول المنتزعۃ، المعتبر اور شرح الاشارات و التنبیہات
اعتراضاتتہافت الفلاسفۃ، مصارع الفلاسفۃ
مخالفینابوحامد غزالی، ابن تیمیہ
معروف مکاتب
مکتب کلامی قم مکتب کلامی بغداد حکمت متعالیہ فلسفہ اشراق دوسرے مکاتب

فلسفہ مشّاء اسلامی فلسفے کے مکاتب میں سے ایک ہے جو فلسفہ اشراق اور حکمت متعالیہ کے برخلاف صرف عقل اور عقلی استدلال پر مبنی ہے۔ فلسفہ مشّاء کی بنیاد اسلام سے پہلے ارسطو نے رکھی اور بعد میں نہضتِ ترجمہ کے ذریعے اسلامی تہذیب و تمدن میں داخل ہوا۔ فلسفہ مشاء کو ابونصر فارابی اور ابن سینا جیسے مسلم فلاسفہ نے وسعت دے کر تکمیل تک پہنچایا۔ ابن سینا کو فلسفہ مشّاء کے مسلم فلاسفہ کا نمائندہ اور سربراہ جبکہ خواجہ نصیر الدین طوسی کو اس فلسفی مکتب کا احیاگر کہا گیا ہے۔

فلسفہ مشّاء کو اسلامی ماحول میں پروان چڑھنے اور قرآن و سنت کے معارف سے مستفید ہونے کی بنا پر اسلامی فلسفہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فلسفہ مشاء میں حجم اور کیفیت دونوں اعتبار سے اسلام کے بعد کافی تبدیلی آئی ہے، کیونکہ مسلمان فلاسفہ نے اسے اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ کرنے اور اسلامی اصولوں کے ذریعے اس کو وسعت دینے کی کوشش کی ہیں۔

فلسفہ مشّاء کے چند اہم فلسفی اصول یہ ہیں:1۔ اصالت وجود پر یقین رکھنا۔ 2۔ عقولِ عشرہ (دس عقلیں) کا تصور۔ 3۔ موجودات کو واجب اور ممکن میں تقسیم کرنا۔ 4۔ نفس کا روحانیۃ الحدوث والبقاء (نفس کا روحانی طور پر پیدا ہونا اور باقی رہنا) کا نظریہ۔ اسی طرح وجود اور ماہیت کی تفکیک، وجوب، امکان اور امتناع کا مسئلہ، خدا کے وجود اور صفات کا اثبات، کائنات کی تخلیق اور اس کے طولی نظام کی وضاحت، علتِ فاعلی اور غائی سے متعلق مباحث فلسفہ مشّاء کی نمایاں خصوصیات میں شمار کیے گئے ہیں۔

فلسفہ مشّاء، فلسفہ اشراق اور حکمت متعالیہ کا بنیادی فرق ان کے طریقہ کار میں ہے۔ فلسفہ مشّاء صرف عقل اور عقلی استدلال کا استعمال کرتا ہے، جبکہ فلسفہ اشراق میں عقل کے ساتھ ساتھ شہود اور اشراق بھی حقائق کے کشف کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ حکمت متعالیہ میں عقل و اشراق کے ساتھ عرفانی اور وحیانی ذرائع بھی شامل کیے جاتے ہیں۔

فلسفہ مشّاء پر کئی فلاسفہ اور متکلمین جیسے ابوحامد غزالی، محمد بن عبدالکریم شہرستانی، ابوالبرکات بغدادی، فخر رازی، اور شیخ اشراق وغیرہ نے تنقید کی ہیں۔ غزالی نے اپنی کتاب تہافت الفلاسفہ کو فلسفہ مشّاء پر تنقید کے لئے تحریر کیا ہے جس میں فارابی اور ابن سینا جیسے مشائی فلاسفہ پر قدمِ عالم (عالم کی ازلیت) اور اشیاء کی جزئیات پر خدا کے علم اور معاد جسمانی کے انکار کی بنا پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے۔

تعریف اور اہمیت

فلسفہ مشاء کو اسلامی فلسفے کے تین اہم اور مشہور مکاتب میں سے ایک سمجھا جاتا ہے[1] اور اس کا مطلب ارسطو کے فلسفہ کی پیروی کرنا ہے[2] کہا گیا ہے کہ قرون وسطیٰ میں یورپ میں جو فلسفہ زیر بحث تھا، ان پر مشائی فلسفے کا رنگ غالب تھا اور وہ ابن سینا کی کتابوں سے متاثر تھے، جیسے تیرہویں صدی عیسوی کے عیسائی فلسفی اور متکلم تھامس ایکویناس (Thomas Aquinas) کا فلسفہ۔[3]

بعض کے نزدیک، مشائی ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو ارسطو کے پیروکار ہیں اور ان کا پورا فلسفہ ارسطو کے فلسفے پر مبنی ہے۔[4] بعض فلسفی محققین کے مطابق ایران اور اسلامی دنیا میں مشاء یا مشائیوں کا اطلاق ارسطو اور ان کے یونانی پیروکاروں، ابن سینا اور ان کے پیروکاروں پر ہوتا ہے اور یہ لفظ کسی حد تک فارابی اور کندی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔[5] بعض محققین کا کہنا ہے کہ اسلامی دنیا میں مشائی فلسفہ محض عقل پر مبنی نہیں ہے؛ کیونکہ مشائی پیروکاروں جیسے فارابی اور ابن سینا کے آثار اشراقیات اور کتاب و سنت کے حوالوں سے بھی خالی نہیں ہیں۔ اس بنا پر اسلامی دنیا میں مشائی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اسلامی فکر میں زیادہ تر عقل اور فکری استدلال پر انحصار کرتا ہے۔[6]

وجہ تسمیہ

کہا جاتا ہے کہ ارسطو کے فلسفے کو مشاء[یادداشت 1] کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ارسطو اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے وقت چلتا پھرتا رہتا تھا۔ اس لیے اس کے پیروکاروں کو مشائی کہا جاتا تھا۔[7] ایران کے مسلمان فلسفی غلام حسین ابراہیمی دینانی (پیدائش: 1313 ہجری شمسی) کے مطابق چونکہ ارسطو باغ میں چلتے ہوئے اپنے آپ سے بات کرتا رہتا تھا، اس لیے اس کے فلسفے کو فلسفہ مشاء کہا جاتا ہے۔[8] اس بنا پر کہا گیا ہے کہ ارسطو اور ان کے پیروکاروں کے فلسفے کو مشاء کا نام دینا ان کے طریقۂ کار کی وجہ سے نہیں تھا،[9] بلکہ ارسطو کے درس دینے کے انداز یا تدریس کی جگہ کی مناسبت سے تھا۔[10] تاہم، بعض محققین کے مطابق مسلمان دانشوروں کے یہاں مشائی کا اطلاق زیادہ تر استدلالی اور بحث و مباحثہ والے افراد (اشراق اور کشف کے مقابلے میں) کے اوپر ہوتا ہے۔[11] اسی طرح بیت الحکمۃ[یادداشت 2] کے پیروکاروں کے طریقۂ کار اور نظریے کو بھی مشائی کہا جاتا ہے۔[12] مرتضی مطہری کے مطابق لفظ مشائی فلاسفہ کے طریقۂ کار کو "استدلالی" کہنا زیادہ مناسب ہے۔ اس لیے مشائی فلسفہ کو استدلالی فلسفہ اور اس کے پیروکاروں کو استدلالیون (اشراقیون کے مقابلے میں) کہا جانا چاہیے۔[13]

فلسفہ مشاء کی تاریخ

ایران کے شیعہ فلسفی علی عابدی شاہرودی کے مطابق فلسفہ مشاء کی تاریخ اسلام سے پہلے اور ارسطو کی فلسفیانہ مکتبہ فکر کے قیام تک جا ملتی ہے۔ ارسطو(وفات 322 قبل مسیح) کا یہ فلسفہ مختلف مراحل سے گزرا؛ جن میں اس فلسفے کا اسکندریہ (مصر) کے مدرسے میں داخل ہونا اور افلاطون اور بعض اوقات ایران کے خسروانی اور پہلوی فلسفے کے ساتھ آمیزش شامل ہیں۔[14] یہ فلسفہ "نہضت ترجمہ"[یادداشت 3] کے ذریعے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور علمی ماحول میں آیا۔ پہلی مرتبہ ابو نصر فارابی (وفات 339ھ) اور بعد میں ابن سینا (وفات 428ھ) کے ذریعے اسے اسلامی فلسفہ مشاء کے طور پر پیش کیا گیا۔[15] بعض محققین یعقوب بن اسحاق کندی (وفات 252ھ) کو اسلامی ثقافت میں فلسفہ مشاء کے بانی قرار دیتے ہیں۔[16] فلسفہ مشاء کو اسلامی فلسفہ کا نقطۂ آغاز سمجھا جاتا ہے۔[17]

ابن سینا، فلسفہ مشاء کے سب سے بڑے مسلم فلسفی

کہا جاتا ہے کہ اسلامی فلسفہ کے ظہور اور فلسفہ اشراق و حکمت متعالیہ کے وجود میں آنے کے بعد ان سے پہلے (کندی سے سہروردی تک) کے فلسفیانہ رجحان کو "مشاء" کا نام دیا گیا۔[18]

ارسطو، تھیوفراسٹوس اور اسکندر افرودوسی، اسلام سے پہلے کے اہم مشائی فلسفی شمار ہوتے ہیں۔[19]

فلسفہ مشاء اور اسلام

فلسفہ مشاء کو قرآن اور اہل بیتؑ کی تعلیمات نے ایک خاص سمت دی جس کی بنیاد پر اسے اسلامی فلسفہ کا نام دیا جاتا ہے۔ یعنی یہ فلسفہ اسلامی ثقافت میں پروان چڑھا اور قرآن و سنت کے معارف سے استفادہ کیا۔[20]

علی عابدی شاہرودی کے مطابق اسلام کے بعد فلسفہ مشاء حجم (مباحث اور مسائل کی تعداد) اور کیفیت دونوں اعتبار سے اسلام سے قبل کی نسبت قابل موازنہ نہیں ہے۔ کیونکہ اسلامی ماحول میں داخل ہونے کے بعد اسے اسلامی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے یا کم از کم ان کے درمیان تضاد کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے نتیجے میں اسلامی تعلیمات سے ماخوذ اصول اس فلسفے میں شامل کیے گئے۔[21] مسلم مشائی فلاسفہ نے دو طریقوں سے فلسفہ مشاء میں تبدیلی لائی: اسلامی اصولوں کے ساتھ مخالفت سے گریز کیا اور فلسفہ کو وسعت دینے میں اسلامی اصولوں سے مدد لیا۔ یہ دونوں طریقے ابن سینا کے ذریعے تکمیل کو پہنچے۔[22]

عابدی شاہرودی کے بقول اسلامی فلسفہ مشاء دینی اور اسلامی متون سے براہ راست اخذ شدہ فلسفہ نہیں ہے، بلکہ ایسا فلسفہ ہے جسے مسلم فلاسفہ نے بحث و مباحثہ اور تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔[23]

مشہور مسلم مشائی فلاسفہ میں فارابی،[24] ابن سینا،[25] خواجہ نصیر الدین طوسی[26] و میر داماد[27] جیسے شیعہ فلاسفہ شامل ہیں۔

نامور فلاسفہ

فلسفہ مشاء کے نامور اور اہم فلاسفہ میں ارسطو، یعقوب بن اسحاق کندی، ابونصر فارابی، ابن سینا،‌ خواجہ نصیرالدین طوسی، میرداماد،‌ ابن رُشْد اَنْدَلُسی(متوفی:595ق)، اور ابن ماجِہ اندلسی[28] شامل ہیں۔ ارسطو کو فلسفہ مشاء کا بانی،[29] ابن سینا کو مسلمانوں کے مشائی فلسفیوں کا سربراہ[30] اور خواجہ نصیر الدین طوسی کو فلسفہ مشاء کا احیا کنندہ[31] کہا گیا ہے۔

غلام حسین ابراہیمی دینانی کا کہنا ہے کہ ابن سینا مشائی فلسفی نہیں تھے اور انہیں مشائی قرار دینا غلط ہے۔ کیونکہ وہ ارسطو کے فلسفے سے گریزاں تھے۔[32] بعض معاصر فلسفہ شناسوں کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان حقیقی معنوں میں کوئی مشائی فلسفی موجود نہیں ہے۔ حتیٰ کہ فارابی اور ابن سینا، جو مشائی فلسفی کہلاتے ہیں، بھی مشائی نہیں تھے کیونکہ اسلامی فلسفہ ارسطو، نوافلاطونی اور اسلامی فکر کا امتزاج ہے، جبکہ مشائی فلسفی ان فلاسفہ کو کہا جاتا ہے جن کی تمام فلسفیانہ بنیاد ارسطو کے فلسفے پر ہو۔[33]

خصوصیات اور طریقہ کار

فلسفہ مشاء اپنے مواد میں ارسطو، افلاطون اور اسلامی تعلیمات سے متاثر سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کے کئی موضوعات، جیسے جوہر و عرض، مقولات عشرہ، اور حرکت کے مباحث زیادہ تر ارسطو سے متاثر ہیں۔[34]

فلسفہ مشاء کا طریقہ عقلی اور استدلالی ہے۔ مشائی فلسفی اپنے تمام دعووں کو عقلی دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور فلسفیانہ مباحث میں نقل (روایات) یا کشف و شہود کا سہارا نہیں لیتے۔[35]

ابن‌سینا کی کتاب الاشارات و التنبیہات

فلسفی اصول اور نظریات

فلسفہ مشاء کے بعض اہم اصول اور نظریات درج ذیل ہیں:

  • وجود اور ماہیت:

فلسفہ مشاء میں وجود اور ماہیت کے تعلق کے بارے میں مختلف آراء پائے جاتے ہیں، لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ مشائی فلسفیوں کا آخری موقف "اصالتِ وجود"(وجود کا اصل ہونا) اور "اعتباریتِ ماہیت"(ماہیت کا فرع ہونا) ہے۔[36]

مشائی فلاسفہ عقول عشرہ کے طولی مراتب اور ان کی درجہ بندی کے قائل ہیں، لیکن عقول عرضی اور مُثُل افلاطون کو رد کرتے ہیں۔[37] ان کے مطابق مخلوقِ اول (صادرِ اول) اور عقلِ اول خداوند کے قریب ترین اور شبیہ ترین مخلوق ہے۔ اس کے بعد بالترتیب عقلِ دوم سے عقلِ دہم (عقلِ فعال) تک وجود کے مراتب ہیں جبکہ سب سے نچلی سطح پر عالم جسم ہے۔ مشائی فلسفیوں کے مطابق نظامِ کائنات یوں ہے: خداوند،عالمِ عقل (عقولِ عشرہ)، نفس، عالمِ جسمانی[38] عقولِ طولی کی کثرت کو "قاعدہ الواحد" (یعنی "واحد سے صرف واحد صادر ہو سکتا ہے") اور افلکیات قدیم سے متأثر ہو کر ان عقول کی تعداد کو دس قرار دینا (فلکیات قدیم کے بطلان) کی وجہ سے باطل قرار دیا گیا ہے۔[39] فارابی عقول عشرہ کو مجرد قرار دیتے ہوئے[40] ان کو فرشتوں پر تطبیق کرتے ہیں۔[41]

  • واجب اور ممکن کا تقسیم:

فلسفہ مشاء میں موجودات کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے: واجب الوجود: جس کا وجود ضروری ہے۔ ممکن الوجود: جس کا موجود ہونا اور نہ ہونا دونوں برابر ہیں، یعنی یہ موجود بھی ہو سکتا ہے اور معدوم بھی۔ مشائی فلاسفہ اسی تقسیم کے ذریعے خدا کے وجود کو ثابت کرتے ہیں۔[42]

  • جوہر اور عرض:

مشائی فلاسفہ ارسطو کی پیروی کرتے ہوئے ممکن الوجود کو جوہر و عرض اور مقولات عشر میں تقسیم کرتے ہیں۔[43] مسائی فلاسفہ کے مطابق جوہر کی مختلف اقسام ہیں جن میں:عقل، نفس، جسم، صورت، ہیولا (مادہ اولی) شامل ہیں۔[44]

  • حرکت کا مسئلہ:

فلسفہ مشاء میں صرف چار مقولات این (مکان)، وضع، کمیت اور کیفیت میں حرکت کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کے نزدیک حرکت جوہری یا دیگر مقولات میں حرکت امکان پذیر نہیں ہے۔[45]

  • علمِ خدا:

فلسفہ مشاء میں مخلوقات کے بارے میں خدا کے علمِ تفصیلی کو تو قبول کرتے ہیں، لیکن ان کے یہاں علم خدا اور ذات خدا کے ساتھ عینیت ثابت نہیں ہے۔[46] کہا جاتا ہے کہ فارابی پہلے مسلم فلسفی ہیں جنہوں نے اشیاء کے بارے میں خدا کے پیشگی علم کی کیفیت پر بحث کی ہے۔[47]

  • نفس کا روحانیۃ الحدوث و البقاء:

مشائی فلاسفہ انسانی نفس کو اپنے حدوث (پیدائش) اور بقا دونوں میں مجرد (غیرمادی) سمجھتے ہیں۔[48] ان کے نزدیک، انسانی نفس اس وقت تخلیق ہوتی ہے جب جسم مکمل طور پر تیار ہو اور نفس کو قبول کرنے کے قابل ہو۔[49]

  • اصلِ علیت:

ارسطو نے اصل علیت، اس کے چار اقسام (علت فاعلی، غائی، صوری، مادی) اور علیت کی ضرورت کا تصور پیش کیا۔ فارابی اور ابن سینا نے ان مباحث کو مزید وسعت دے کر پایہ تکمیل تک پہنچایا۔[50] مشائی فلسفیوں کے مطابق معلول کی علت پر انحصار کا معیار اس کی ماہوی امکانیت ہے۔۔[51]

فلسفہ مشاء نے بعض فلسفی موضوعات پر علمی مباحث کو فروغ دیا جن میں وجود اور ماہیت کے فرق اور ان کی خصوصیات، وجوب، امکان اور امتناع کے مسائل، خدا کے وجود اور صفات کے اثبات کے دلائل، کائنات کی تخلیق اور اس کے نظامِ طولی کی توضیح، علتِ فاعلی اور علتِ غائی کے مباحث، حرکت اور انسانی نفس کے مسائل شامل ہیں۔[52]

فلسفہ مشاء، اشراق، اور حکمت متعالیہ کے درمیان فرق

فلسفہ مشاء اور اشراق کے درمیان بنیادی فرق ان کے طریقہ کار میں ہے: فلسفہ مشاء میں صرف عقل اور عقلی استدلال پر انحصار کیا جاتا ہے جبکہ فلسفہ اشراق میں عقلی استدلال کے ساتھ ساتھ کشف و شہود اور اشراق (مکاشفہ اور باطنی تجربات) کو بھی حقائق کے انکشاف کا ذریعہ تسلیم کیا جاتا ہے۔[53] [یادداشت 4] عبدالرسول عبودیت کے مطابق اشراقی فلاسفہ کشف و شہود کو عقل کے لیے معاون اور رہنمائی کرنے والا سمجھتے ہیں تاکہ عقل غلطیوں سے بچ سکے، جبکہ مشائی فلاسفہ کشف و شہود کے لیے ایسا کوئی کردار تسلیم نہیں کرتے۔ref>عبودیت،‌ درآمدی بہ نظام حکمت صدرائی، 1390ہجری شمسی، ج1،‌ ص69۔</ref> حکمت متعالیہ میں عقل اور کشف و شہود کے علاوہ عرفانی اور کلامی اصولوں پر بھی اعتماد کیا جاتا ہے۔[54] دوسرے لفظوں میں حکمت متعالیہ میں حقائق کے ادرک کے لئے عقل اور اشراق کے ساتھ ساتھ وحیانی ذرائع کا بھی سہارا لیا جاتا ہے۔[55] عبودیت کے مطابق ملا صدرا ایک اشراقی مزاج کے فلسفی ہیں، لیکن ان کا فلسفی نظام "اصالتِ وجود" کی بنیاد پر اشراقی فلسفہ سے مختلف ہے[56]

فلسفہ مشاء، اشراق، اور حکمت متعالیہ کے درمیان کچھ فلسفی موضوعات میں اختلاف پایا جاتا ہے ان میں اصالتِ وجود و اصالتِ ماہیت، وحدت و کثرت وجود، جعل و انشاء کا مسئلہ، جسم کا ہیولا اور صورت سے مرکت ہونے اور نہ ہونے کا مسلئہ، مثل اور ارباب انواع اور قاعدہ امکان اشرف کا نام لیا جا سکتا ہے۔[57] مثلا مشائی اور متعالیہ کے فلاسفہ اصالتِ وجود کے قائل ہیں جبکہ اشراقی فلاسفہ اصالتِ ماہیت کے قائل ہیں۔[58] اسی طرح ابن سینا مثل افلاطون کے مخالف ہیں جبکہ شیخ اشراق اور ملاصدرا اس کے قائل ہیں۔[59]

علی عابدی شاہرودی نے فلسفہ مشاء اور اشراق کے درمیان فرق اور اشتراکات کو یوں بیان کیا ہے:

ردیف اختلافات اور اشتراکات توضیح
1 غایت میں اختلاف فلسفہ مشاء کا مقصد نطام کائنات پر صرف حصولی پیدا کرنا ہے، جبکہ فلسفہ اشراق کا مقصد علم حصولی کے ساتھ نظام عالم پر اشراقی اور شہودی طور پر بھی علم حاصل کرنا ہے۔
2 مبانی اور بنیاد میں اختلاف فلسفہ مشاء کی بنیاد صرف عقلی اور فلسفی علوم پر ہے، جبکہ فلسفہ اشراق میں کشف و شہود کو بھی بنیاد تسلیم کیا جاتا ہے۔
3 فلسفی اصولوں میں اختلاف ان دو فلسفی مکاتب کے درمیان بعض فلسفی اصولوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، مثال کے طور پر، مشائی فلسفہ میں مادۂ اولیٰ (ہیولا) کو اہم اصول سمجھا جاتا ہے، جبکہ اشراقی فلسفہ اسے قبول نہیں کرتا۔
4 اشتراکات ان دو فلسفی مکاتب کے درمیان بہت سارے اصولوں میں اشتراکات پائے جاتے ہیں مثلا، دونوں فلسفے اصلِ عدم تناقض، اصلِ علیت، اور تسلسل و دور کے بطلان پر متفق ہیں۔[60]

متقدین

فلسفہ مشاء پر مختلف ادوار خاص طور پر پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں کئی فلاسفہ اور متکلمین نے تنقید کی ہے۔[[61] ابوریحان بیرونی، ابوحامد غزالی، محمد بن عبدالکریم شہرستانی در مَصارَعَۃ الفلاسفۃ، ابُوالبَرَکات بغدادی، فخر رازی اپنی کتاب المباحث المَشْرِقیّہ میں، شیخ اشراق اپنی کتاب حکمۃ الاشراق میں،‌ ابن عربی اور ابن تیمیہ[یادداشت 5] کو حکمت مشاء کے اہم منتقدین میں شمار کئے جاتے ہیں۔[62]

بعض معاصر محقیقن کے مطابق فلسفہ مشاء پر سب سے پہلی تنقید دوسری صدی ہجری کے مسلمان فلسفی یعقوب بن اسحاق کندی نے کی جو امام حسن عسکریؑ کا ہم عصر تھا، ان کی تنقید فلسفی مسائل اور مباحث کا اسلامی تعلیمات کے ساتھ سازگار نہ ہونے پر تھی۔[63] اسی طرح دوسرے مسلمان متکلمین اور فلسفہ مشاء کے منتقدین نے بھی فلسفہ مشاء اور اسلامی اصولوں کے درمیان ہمخوانی کی نوعیت پر تنقید کی ہیں۔[64] مثال کے طور پر غزالی (450-505ق) جو کہ فلسفہ مشاء کے سرسخت منتقدین میں سے تھا اپنی کتاب "تہافت الفلاسفہ" میں الہیات کے مضوع پر فلسفہ مشاء کے اکثر نظریات پر اعتراض کرتے تھے۔[65] انہوں نے اپنی مذکورہ کتاب میں فلسفہ مشاء پر 20 اعتراضات کئے اور ان میں سے تین مورد کو کفر کا موجب جبکہ باقی 17 موارد کو بدعت کا مورد قرار دیا ہے۔ وہ تین موارد جو فلاسفہ کے کفر کا موجب بنتے ہیں، وہ یہ ہیں: قِدمِ عالم یعنی کائنات کی ازلیت کا نظریہ جو عدم سے تخلیق کے اسلامی نظریہ کے ساتھ ناسازگار ہے، اشیاء کی جزئیات پر علم خدا کا انکار اور تیسرا معاد جسمانی کا انکار[66]

ابن رشد(520-595ق) باوجود اس کے کہ خود عالم اسلام کے مغربی حصے کے مشائی فلاسفہ میں سے ہیں اور ارسطو کی کتابوں کی تشریح کرتے ہوئے ان کے نظریات کا دفاع اور فارابی اور ابن سینا کے نظریات پر تنقید کی ہے، نے اپنی کتاب "تہافت التہافت" میں غزالی کی کتاب تہافت الفلاسفہ پر تنقید اور ارسطو کا دفاع کرتے ہوئے فارابی اور ابن سینا پر کئے گئے غزالی کے اعتراضات کو صحیح سمجھتے ہیں۔[67]

ابوالبرکات بغدادی (480-560ق)، اگرچہ خود مشائی فلاسفہ میں سے ہیں؛ لیکن ابن سینا اور فلسفہ مشاء پر تنقید کی ہیں۔ ان کی فلسفی کتاب «المعتبر» کو فلسفہ مشاء پر ایک تنقیدی کتاب تصور کی جاتی ہے۔ یہ کتاب شیخ اشراق اور فخر رازی جیسے فلاسفہ کا مورد استفادہ قرار پائی ہے۔[68] ابوالبرکات کی تنقیدیں فلسفی نوعیت کی اور فلسفہ کی ارتقاء کے لئے ہیں نہ یہ کہ غزالی کی طرح فلسفہ کا انکار اور اسے شکست سے دوچار کرنے کی غرض سے۔[69]

شیخ اشراق نے بھی فلسفہ مشاء کے بعض طریقہ کار اور مطالب پر تنقید کی ہیں۔[70]

مشائی فلسفہ کی اہم کتب

ابن سینا کی تمام کتب جیسے الشفاء، الاشارات و التنبیہات، النجاۃ، عیون الحکمۃ اور دانشنامہ علائی[71] فارابی کی کتابیں جیسے آراء اہل المدینۃ الفاضلۃ، الفصول المنتزعۃ، بہمنیار کی کتاب التحصیل، ابوالبرکات بغدادی کی کتاب المعتبر، فخر رازی کی کتاب المباحث المشرقیہ اور خواجہ نصیرالدین طوسی کی کتاب شرح الاشارات و التنبیہات کو فلسفہ مشاء کی اہم تصنیفات میں شمار کی جاتی ہیں۔[72]

کتابیات

کتاب حکمت مشاء، تحریر: یارعلی کردفیروزجایی

فلسفہ مشاء کے بارے میں مختلف کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • حکمت مشاء، یارعلی کردفیروزجایی، قم، انتشارات حکمت اسلامی۔ یہ کتاب مجمع عالی حکمت اسلامی کی سفارش پر غلام رضا فیاضی کی نگرانی میں تحریر کی گئی ہے، جس میں فلسفہ مشاء کے نامور فلاسفہ خاص کر ابن‌سینا کے نظریات کو مابعدالطبیعہ، خداشناسی، انسان‌شناسی، فلسفہ اخلاق و فلسفہ سیاسی جیسے موضوعات میں مورد تجزیہ و تحلیل قرار دیا ہے۔[73]
  • فلسفہ مشاء با تکیہ بر اہم آراء ابن سینا، محمد ذبیحی، تہران، انتشارات سمت۔
  • فلسفہ مشاء؛ با گزیدہ جامعی از متون، یحیی یثربی، قم، بوستان کتاب۔
  • حکمت مشاء، حسن عباسی حسین‌آبادی، تہران،‌ دانشگاہ پیام نور۔
  • درسنامہ حکمت مشاء، نصر اللہ حکمت،‌ تہران، نشر علم۔
  • حکمت مشاء، حسن معلمی، قم،‌ حوزہ علمیہ خواہران۔
  • فلسفہ مشاء (1) (از ارسطو تا توماس آکوئینی)، حمید رضا خادمی، تہران، انتشارات سمت،
  • آموزش فلسفہ مشائی و اشراقی، غلام رضا رحمانی، قم، بوستان کتاب۔

متعلقہ موضوعات

حوالہ جات

  1. «میزگرد فلسفہ‌شناسی (4): مکاتب فلسفہ اسلامی»، ص11 و 12۔
  2. «فلسفہ مشاء رہاورد مطالعات ارسطو است/ابن سینا فیلسوفی مشایی نیست»، خبرگزاری مہر؛ «فلسفہ یونانی با فارابی اسلامی شد/شاخصہ‌ہای معرفت‌شناسی فارابی»، خبرگزاری مہر۔
  3. «میزگرد فلسفہ‌شناسی (4): مکاتب فلسفہ اسلامی»، ص11۔
  4. «فلسفہ یونانی با فارابی اسلامی شد/شاخصہ‌ہای معرفت‌شناسی فارابی»، خبرگزاری مہر۔
  5. دیباجی، «نسبت ابن سینا و فلسفہ مشاء»، ص12۔
  6. جمعی از نویسندگان، درآمدی بر تاریخ فلسفہ اسلامی، 1390ہجری شمسی، ج1، ص75۔
  7. فروغی، سیر حکمت در اروپا، انتشارات کتابفروشی زوار، ص28؛ مطہری، کلیات علوم اسلامی، 1388ہجری شمسی، ص115۔
  8. «فلسفہ مشاء رہاورد مطالعات ارسطو است/ابن سینا فیلسوفی مشایی نیست»، خبرگزاری مہر۔
  9. مطہری، کلیات علوم اسلامی، 1388ہجری شمسی، ص115؛ کرد فیروزجایی، حکمت مشاء، 1393ہجری شمسی، ص25و26۔
  10. کرد فیروزجایی، حکمت مشاء، 1393ہجری شمسی، ص25و26۔
  11. دیباجی، «نسبت ابن سینا و فلسفہ مشاء»، ص14۔
  12. دیباجی، «نسبت ابن سینا و فلسفہ مشاء»، ص13و20۔
  13. مطہری، کلیات علوم اسلامی، 1388ہجری شمسی، ص115۔
  14. عابدی شاہرودی، «ادوار و اصول فلسفہ مشاء»، ص6۔
  15. عابدی شاہرودی، «ادوار و اصول فلسفہ مشاء»، ص4۔
  16. معلمی، حکمت مشاء، 1389ہجری شمسی، ص26۔
  17. معلمی، حکمت مشاء، 1389ہجری شمسی، ص21۔
  18. کرد فیروزجایی، حکمت مشاء، 1393ہجری شمسی، ص26۔
  19. کرد فیروزجایی، حکمت مشاء، 1393ہجری شمسی، ص26۔
  20. معلمی، حکمت مشاء، 1389ہجری شمسی، ص34۔
  21. عابدی شاہرودی، «ادوار و اصول فلسفہ مشاء»، ص4۔
  22. عابدی شاہرودی، «ادوار و اصول فلسفہ مشاء»، ص4 و 5۔
  23. عابدی شاہرودی، «ادوار و اصول فلسفہ مشاء»، ص5۔
  24. نعمۃ، فلاسفۃ الشیعہ؛ حیاتہم و آرائہم، دار الفکر، ص576-579۔
  25. نعمۃ، فلاسفۃ الشیعہ؛ حیاتہم و آرائہم، دار الفکر، ص297-301۔
  26. نعمۃ، فلاسفۃ الشیعہ؛ حیاتہم و آرائہم، دار الفکر، ص534 و 535۔
  27. میرخندان، «زندگی‌نامہ مرحوم میرداماد»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ۔
  28. مطہری، کلیات علوم اسلامی، 1388ہجری شمسی، ص123؛ عبودیت،‌ درآمدی بہ نظام حکمت صدرائی، 1390ہجری شمسی، ج1،‌ ص68۔
  29. مطہری، کلیات علوم اسلامی، 1388ہجری شمسی، ص122۔
  30. مطہری، کلیات علوم اسلامی، 1388ہجری شمسی، ص115 و123؛ معلمی، حکمت مشاء، 1389ہجری شمسی، ص30؛ عابدی شاہرودی، «ادوار و اصول فلسفہ مشاء»، ص8۔
  31. کرد فیروزجایی، حکمت مشاء، 1393ہجری شمسی، ص30و31۔
  32. «فلسفہ مشاء رہاورد مطالعات ارسطو است/ابن سینا فیلسوفی مشایی نیست»، خبرگزاری مہر۔
  33. «فلسفہ یونانی با فارابی اسلامی شد/شاخصہ‌ہای معرفت‌شناسی فارابی»، خبرگزاری مہر۔
  34. ملاحظہ کریں: معلمی، حکمت مشاء، 1389ہجری شمسی، ص33۔
  35. معلمی، حکمت مشاء، 1389ہجری شمسی، ص25 و33۔
  36. ملاحظہ کریں: معلمی، حکمت مشاء، 1389ہجری شمسی، ص24۔
  37. معلمی، حکمت مشاء، 1389ہجری شمسی، ص24و25۔
  38. ملاحظہ کریں: فارابی، السیاسۃ المدنیۃ، 1996م، ص21؛ معلمی، حکمت مشاء، 1389ہجری شمسی، ص210-216۔
  39. معلمی، حکمت مشاء، 1389ہجری شمسی، ص209۔
  40. فارابی، السیاسۃ المدنیۃ، 1996م، ص21۔
  41. فارابی، السیاسۃ المدنیۃ، 1996م، ص22و23۔
  42. ملاحظہ کریں: طوسی، شرح الاشارات و التنبیہات، 1375ہجری شمسی، ج3، ص18-28۔
  43. ملاحظہ کریں: معلمی، حکمت مشاء، 1389ہجری شمسی، ص106 و124۔
  44. ملاحظہ کریں: معلمی، حکمت مشاء، 1389ہجری شمسی، ص118۔
  45. معلمی، حکمت مشاء، 1389ہجری شمسی، ص143 - 146۔
  46. ملاحظہ کریں: معلمی، حکمت مشاء، 1389ہجری شمسی، ص25۔
  47. حاجیہا و دیگران، «علم پیشین الہی از دیدگاہ حکمت صدرایی و سینوی و تطبیق آن با آیات و روایات»، ص49۔
  48. فیاضی، علم النفس فلسفی، 1393ہجری شمسی، ص186۔
  49. فیاضی، علم النفس فلسفی، 1393ہجری شمسی، ص186 و 295۔
  50. معلمی، حکمت مشاء، 1389ہجری شمسی، ص160-168۔
  51. ملاحظہ کریں: معلمی، حکمت مشاء، 1389ہجری شمسی، ص25۔
  52. ملاحظہ کریں: معلمی، حکمت مشاء، 1389ہجری شمسی، ص35و36۔
  53. مطہری، کلیات علوم اسلامی، 1388ہجری شمسی، ص115؛ جمعی از نویسندگان، درآمدی بر تاریخ فلسفہ اسلامی، 1390ہجری شمسی، ج1،‌ ص74۔
  54. مطہری، کلیات علوم اسلامی، 1388ہجری شمسی، ص126۔
  55. جمعی از نویسندگان، درآمدی بر تاریخ فلسفہ اسلامی، 1390ہجری شمسی، ج1،‌ ص75؛ معلمی، حکمت مشاء، 1389ہجری شمسی، ص33 و 34۔
  56. عبودیت،‌ درآمدی بہ نظام حکمت صدرائی، 1390ہجری شمسی، ج1،‌ ص69۔
  57. مطہری، کلیات علوم اسلامی، 1388ہجری شمسی، ص116۔
  58. عبودیت،‌ درآمدی بہ نظام حکمت صدرائی، 1390ہجری شمسی، ج1،‌ ص77۔
  59. مطہری، کلیات علوم اسلامی، 1388ہجری شمسی، ص119۔
  60. عابدی شاہرودی، «ادوار و اصول فلسفہ مشاء»، ص14-17۔
  61. کرد فیروزجایی، حکمت مشاء، 1393ہجری شمسی، ص31۔
  62. جمعی از نویسندگان، درآمدی بر تاریخ فلسفہ اسلامی، 1390ہجری شمسی، ج1، ص399؛ کرد فیروزجایی، حکمت مشاء، 1393ہجری شمسی، ص29-31۔
  63. عابدی شاہرودی، «ادوار و اصول فلسفہ مشاء»، ص6 و 7۔
  64. عابدی شاہرودی، «ادوار و اصول فلسفہ مشاء»، ص7۔
  65. ملاحظہ کریں: جمعی از نویسندگان، درآمدی بر تاریخ فلسفہ اسلامی، 1390ہجری شمسی، ج1، ص418و419۔
  66. ملاحظہ کریں: جمعی از نویسندگان، درآمدی بر تاریخ فلسفہ اسلامی، 1390ہجری شمسی، ج1، ص442و443۔
  67. کرد فیروزجایی، حکمت مشاء، 1393ہجری شمسی، ص30۔
  68. کرد فیروزجایی، حکمت مشاء، 1393ہجری شمسی، ص29۔
  69. جمعی از نویسندگان، درآمدی بر تاریخ فلسفہ اسلامی، 1390ہجری شمسی، ج1، ص446و447۔
  70. ملاحظہ کریں: عابدی شاہرودی، «ادوار و اصول فلسفہ مشاء»، ص22و23؛‌ معلمی، حکمت مشاء، 1389ہجری شمسی، ص21۔
  71. مطہری، کلیات علوم اسلامی، 1388ہجری شمسی، ص123۔
  72. ملاحظہ کریں: کرد فیروزجایی، حکمت مشاء، 1393ہجری شمسی، ص26-31۔
  73. «کتاب حکمت مشاء منتشر شد»، پایگاہ اطلاع‌رسانی مجمع عالی حکمت اسلامی۔

نوٹ

  1. مشّاء،‌ عربی زبان میں مبالغہ کا صیغہ ہے جو بہت زیادہ پیدل چلنے والے شخص کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔(دیباجی، «نسبت ابن سینا و فلسفہ مشاء»، ص12)
  2. بیت الحکمۃ ایک عمارت کا نام تھا جس میں کتابوں کو جمع کر کے ترجمہ کیا جاتا تھا اس عمارت کی بنیاد عباسی خلیفہ ہارون رشید یا ان کے بیٹے مامون عباسی کے حکم پر رکھی گئی تھی۔(دیباجی، «نسبت ابن سینا و فلسفہ مشاء»، ص18)
  3. نہضت ترجمہ، مغرب سے علمی آثار اور تہذیب و تمدن کا عالم اسلام میں منتقل ہونے کے عمل کو کہا جاتا ہے جس کا آغاز دوسری صدی ہجری کے وسط سے ہوا اور چودہویں صدی ہجری کے آخر تک جاری رہا۔(«نہضت ترجمہ»، دانشنامہ جہان اسلام۔)
  4. شہید مطہری کے مطابق مشاء اور اشراق کو دو علیحدہ فلسفی مکاتب تصور نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ دونوں فلسفہ کی تعریف میں علیحدہ علیحدہ تعریف کے قائل نہیں ہیں بلکہ ان کا اختلاف دو چیزوں میں ہے: ایک یہ کہ فلسفہ اشراق میں حقائق کو کشف کرنے کے لئے تحقیق کا طریقہ کار زیادہ تر عشق، تصفیہ اور سلوک نفسانی پر استوار ہے جبکہ فلسفہ مشاء عقل اور علقی استدلال پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ فلسفہ اشراق کے بانی افلاطون اور فلسفہ مشاء کے بانی ارسطو کے درمیان کچھ نظریات میں اختلاف پایا جاتا ہے جسے فارابی نے اپنی کتاب "جمع بین رأیی الحکیمین" میں ذکر کیا ہے یا بوعلی سینا اور سہروردی کے نظریات میں موجود اختلافات۔ یادداشت‌ہای استاد مطہری، ج‌12صص48-49
  5. ابن تیمیہ خود فلسفہ حتی علم کلام اور علم منطق کا بھی مخالف تھا؛ کیونکہ یہ علوم براہ راست قرآن و سنت سے سرچشمہ نہیں لیتے ہیں۔ اس بنا پر وہ تمام فلسفیوں کو قبول نہیں کرتا تھا (ملاحظہ کریں: جمعی از نویسندگان، درآمدی بر تاریخ فلسفہ اسلامی، 1390ہجری شمسی، ج1، ص474-479)

مآخذ

  • ‌ جمعی از نویسندگان، درآمدی بر تاریخ فلسفہ اسلامی، زیر نظر محمد فنایی اشکوری، تہران، سمت؛ قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ اول، 1390ہجری شمسی۔
  • دیباجی، سید محمدعلی، «نسبت ابن سینا و فلسفہ مشاء (معناشناخت تاریخی اصطلاح مشائی)»، فصلنامہ تاریخ فلسفہ، سال ششم، شمارہ سوم،‌ زمستان 1394ہجری شمسی۔
  • طوسی، خواجہ نصیرالدین، شرح الاشارات و التنبیہات،‌ قم، نشر البلاغۃ، چاپ اول، ‌1375ہجری شمسی۔
  • عابدی شاہرودی، علی (مصاحبہ شوندہ)، «ادوار و اصول فلسفہ مشاء»، کیہان اندیشہ، شمارہ 59، فروردین و اردیہبشت 1374ہجری شمسی۔
  • ‌ «فلسفہ مشاء رہاورد مطالعات ارسطو است/ابن سینا فیلسوفی مشایی نیست» (مصاحبہ با غلامحسین ابراہیمی دینانی)، خبرگزاری مہر، تاریخ درج مطلب: 1 مرداد 1392ہجری شمسی، 19 مہر 1400ہجری شمسی۔
  • ‌ فارابی، محمد بن محمد، السیاسۃ المدنیۃ، بیروت، دار و مکتب الہلال، چاپ اول، 1996ء۔
  • ‌ فروغی، محمدعلی، سیر حکمت در اروپا، تہران، انتشارات زوار، بی‌تا۔
  • «فلسفہ یونانی با فارابی اسلامی شد/شاخصہ‌ہای معرفت‌شناسی فارابی» (مصاحبہ با مہدی عباس‌زادہ)، خبرگزاری مہر، تاریخ درج مطلب: 21 مہر 1397ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 19 مہر 1400ہجری شمسی۔
  • ‌ فیاضی، غلامرضا، علم النفس فلسفی (درس‌ہای استاد غلامرض فیاضی)، تحقیق و تدوین محمدتقی یوسفی، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ سوم، 1393ہجری شمسی۔
  • «کتاب حکمت مشاء منتشر شد»، پایگاہ اطلاع‌رسانی مجمع عالی حکمت اسلامی، تاریخ درج مطلب: 23 اسفند 1393ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 11 مہر 1400ہجری شمسی۔
  • ‌ کرد فیروزجایی، یارعلی، حکمت مشاء، قم، حکمت اسلامی، چاپ اول، 1393ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، کلیات علوم اسلامی، تہران، صدرا، 1388ہجری شمسی۔
  • معلمی، حسن، حکمت مشاء، قم، مرکز مدیریت حوزہ‌ہای علمیہ خواہران؛ نشر ہاجر، چاپ اول، 1389ہجری شمسی۔
  • میرخندان، حمید، «زندگی‌نامہ مرحوم میرداماد»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ، تاریخ درج مطلب: 30 مہر 1388ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 31 اردیبہشت 1401ہجری شمسی۔
  • «میزگرد فلسفہ‌شناسی (4): مکاتب فلسفہ اسلامی»، در فصلنامہ معرفت فلسفی، شمارہ 4، تابستان 1383ہجری شمسی۔
  • نعمۃ، عبداللہ، فلاسفۃ الشیعہ؛ حیاتہم و آرائہم، بیروت، دار الفکر، بی‌تا۔