قیام صاحب زنج

ویکی شیعہ سے
(قیام زنج سے رجوع مکرر)
صاحب زنج کا قیام
تاریخ۲۵۵ہجری سے ۲۷۰ہجری تک
مقامجنوبی عراق اور خوزستان ، ایران کے کچھ حصے میں
نتیجہزنگیوں کی پندرہ سالہ حکومت
فریق 1خلیفہ عباسی
فریق 2صاحب زنج
سپہ سالار 1موفق خلیفہ کا بھائی
سپہ سالار 2صاحب زنج، سلیمان بن جامع


قیام صاحب زَنْج، بنی عباس کے خلاف غلاموں اور غریبوں کی بغاوت جو ۲۵۵ھ سے ۲۷۰ھ تک جاری رہا۔ اس قیام کی وجہ اشراف اور غلاموں کے درمیان طبقاتی فرق کو جانا گیا ہے۔

اس قیام میں نمایاں کردار زنگیوں یعنی سیاہ فارم افریقی غلاموں کا تھا جن کی قیادت علی بن محمد نے کی جو «صاحب زنج» کے نام سے مشہور تھے۔ زنگیان عراق کے جنوبی حصے اور خوزستان ایران کے ایک وسیع حصے پر حکومت کرتے تھے۔ یہ قیام پندرہ سال کی حکومت اور کچھ سال جنگ کے بعد ختم ہوا۔

صاحب زنج خود علوی ہونے کا دعوی کرتے تھے لیکن مورخین اور محققین نے ان کو اهل بیت سے دور جانا ہے اور ان کے علوی ہونے کو رد کیا ہے۔ امام حسن عسکریؑ بھی ان کو اہل بیتؑ کا پیروکار نہیں جانتے تھے۔ صاحب زنج کی حکومت میں علوی اور شیعہ خواتین کو کنیزی میں لئے جاتے تھے۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ امام علیؑ نے بصره کا تصرف صاحب زنج کے توسط سے ہونے کی پیش‌بینی کی تھی۔

صاحب زنج

علی بن محمد بن عبدالرحیم[1] قبیلہ عبدالقیس سے[2] ایران میں، شهر ری کے اطراف میں ورزنین نامی گاوں میں پیدا ہوئے۔[3] ان کو ورزنینی بھی کہا جاتا تھا۔[4] اسی طرح زنگیوں(عربی میں: زنج[5]) کے قیام کی رہبری کرنے کی وجہ سے ان کو «صاحب زنج» بھی کہا جاتا تھا۔[5]

صاحب زنج اپنے آپ کو علوی اور امام سجادؑ کے فرزند زید کی نسل سے قرار دیتے تھے۔[6] بعض لوگوں نے ان کے نسب علوی ہونے کو قبول کیا ہے۔[7] لیکن اکثر مورخین اور محققین ان کے اہل‌ بیتؑ کے نسل سے ہونے کو نہیں مانتے[8] اور کہتے ہیں اس زمانے میں اکثر قیام زیدیوں کے توسط سے وقوع پزیر ہوا کرتے تھے اس لئے اس طرح کا دعوی کیا ہے۔[9]

قیام کا پس منظر اور آغاز

زنگی کالے غلام تھے جو زیادہ تر شرقی آفریقا کے مناطق سے لائے جاتے تھے۔[5] زنگیوں کی بغاوت زیادہ تر انہیں کالے غلاموں کے ذریعہ سے ہوئی جو زمینوں میں کھیتی کیا کرتے تھے۔[10] کالے غلام ،سفید غلاموں کے مقابلے میں زیادہ سخت اور مشقت بھر زندگی گزارتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی سخت زندگی، صاحب زنج کی طرف جذب ہونے کا سبب بنی۔[11]

بعض محققین کا یہ خیال ہے کہ منابع و مآخذ میں ایک مقصد کے تحت قیام صاحب زنج کے سلسلے میں گفتگو ہوئی ہے[12] جرجی زیدان مسیحی محقق نے زنگیوں کے کالے لوگوں کو وحشی اور خوفناک مخلوق کے عنوان سے معرفی کیا ہے کہ جو انسانوں کا گوشت اور مردار کو بہت شوق سے کھاتے تھے۔ اور انہیں اس کام کے لئے جتنی بھی سزا دی جاتی تھی پھر بھی یہ لوگ اس برے کام کو نہیں چھوڑتے تھے۔[13]

صاحب زنج نے ماه رمضان[14] سال ۲۵۵ھ میں اپنا قیام شروع کیا۔۔[1] نماز عید فطر میں، ۱۵ ہزار سے زیادہ لوگوں نے ان سے بیعت کیا۔[15] ان کے قیام کا آغاز «المهتدی بالله» کے خلافت کے زمانے میں ہوا تھا۔[16] ان کے فوجی دستوں کی فرمانروائی سلیمان بن جامع کے ذمہ تھی۔[17]

پندره سال کی حکمرانی

زنگیوں کا قیام سال ۲۵۵ھ میں شروع ہوا، ان لوگوں نے سال ۲۵۷ھ میں شهر بصره پر قبضہ کر لیا اور اس کو اپنے قیام کا مرکز بنایا۔ [18] صاحب زنج نے بصرہ کے اطراف میں دس شہروں کی بنیاد رکھی۔[19] زنگیوں نے ۲۶۱ھ میں اہواز پر قبضہ کر لیا۔[20] اور آبادان کے لوگ بھی ان کے سامنے تسلیم ہو گئے۔[21] قیام صاحب زنج کے ابتدائی سالوں میں، خلیفہ عباسی مختلف قیام اور بغاوتوں سے بھی روبرو ہوئے تھے اور یہ چیز سبب بنی کہ حکومت کے اندر صاحب زنج کے قیام کو شکست دینے کی طاقت نہیں تھی۔[22]

اس قیام میں دونوں طرف سے مارے جانے والوں کی تعداد ذکر ہوئی ہے[23] اور بعض مآخذ نے مرنے والوں کی تعداد دو میلین پانچ لاکھ بیان کی ہے۔[24] محققین نے اس تعداد کے صحیح ہونے کے سلسلے میں شک کیا ہے۔[25]

صاحب زنج کا قیام تقریبا ۱۵ سال تک جاری رہا[14] اور اس مدت میں زنگیوں نے ایک بڑے حصے پر قابض ہو گئے تھے۔[26] موفق عباسی «المعتمد» کا بھائی، جو اس وقت خلیفہ تھا،[27] نے ۲۶۷ہجری میں زنگیوں سے جنگ کے لئے نکلا اور صفر کے مہینے[28] ۲۷۰ھ میں صاحب زنج کو شکست ملی اور وہ اسی جنگ میں مارا گیا۔[29]

قیام کی نوعیت

محققین نے زنگیوں کی قیام کو سماجی اور معاشی قیام قرار دیا ہے۔[15] اور ان کا ماننا ہے کہ یہ قیام صرف اشراف اور غلاموں کے درمیان طبقاتی اختلافات کی بنیاد پر وجود میں آیا۔[30]

صاحب زنج کا یہ دعوی تھا کہ وہ علوی تھے[31] اس کے باوجود ان کے قیام کو ایک شیعی قیام نہیں شمار کیا ہے۔[15] ایک روایت کی بنا پر جسے ابن شهر آشوب نے امام حسن عسکریؑ سے نقل کیا ہے، انہوں نے صاحب زنج کو اہل بیت کا مطیع نہیں جانا ہے۔[32] علامہ مجلسی نے بھی صاحب زنج کو نَسَب، اعتقاد اور عمل کے اعتبار سے اہل بیت ع سے دور جانا ہے۔[31] صاحب زنج کی حکومت میں شیعہ اور علوی عورتیں بہت ناچیز قیمت پر کنیز کے عنوان سے بیچی جاتی تھیں۔[23]

سید رضی شیعہ عالم چوتھی صدی اس بات کے معتقد ہیں کہ امام علیؑ نے صاحب زنج کے ذریعہ بصرہ پر قبضے کی پیشین گوئی کی تھی : « گویا میں اسے ایک ایسی فوج کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں جس میں نہ تو گرد و غبار ہے اور نہ ہی شور و غل، اور نہ سواریوں کی لگام کی آواز، اور نہ ہی گھوڑوں کی ہنہنانے کی آواز!... افسوس بصرہ کی گلیوں اور آراستہ گھروں پر...».[33]

صاحب زنج کو اعتقاد اور عمل کے اعتبار سے خوارج سے مشابھ جانا ہے۔[34] عورتوں ، بچوں اور دوسرے بے گناہ لوگوں کے قتل کرنے کے لحاظ سے وہ خوارج کی طرح تھا۔ [16] اسی طرح وہ گناه کبیره کے مرتکب انسان کو مشرک جانتا تھا یہ عقیدہ خوارج کے اہم اعتقادات کا حصہ تھا۔[16] صاحب زنج کا خوارج کی پیروی کرنا اس بات کا سبب بنا کہ قرامطہ نے ان سے قطع تعلق کر لیا جب کہ ان کا اتحاد خلافت کے لئے بہت بڑا خطرہ ہو سکتا تھا۔[35]

حوالہ جات

  1. 1.0 1.1 ابوالفداء، المختصر فی أخبار البشر، مصر، ج۲، ص۴۶.
  2. ابن‌خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ھ ، ج۳، ص۳۷۷.
  3. مسعودی، مروج الذهب، ۱۴۰۹ھ ، ج۴، ص۱۰۸.
  4. زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹ھ ، ج۴، ص۳۲۴.
  5. 5.0 5.1 5.2 روحانی،‌ «نهضت صاحب الزنج»، ص۸۳.
  6. ابن‌اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ھ ، ج۷، ص۲۰۵.
  7. ابن‌عنبه حسنی، عمدة الطالب فی أنساب آل ابی طالب، ۱۴۱۷ھ ، ص۲۶۸.
  8. علی‌بیگی، «صاحب الزنج؛ چالشی دیگر در برابر دستگاه خلافت عباسی»، ص۷۸.
  9. ابن‌خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ھ ، ج۳، ص۳۷۷.
  10. جعفریان، از طلوع طاهریان تا غروب خوارزمشاهیان، ۱۳۷۹ہجری شمسی، ص۵۸.
  11. علی‌بیگی، «صاحب الزنج؛ چالشی دیگر در برابر دستگاه خلافت عباسی»، ص۷۶.
  12. علی‌بیگی، «صاحب الزنج؛ چالشی دیگر در برابر دستگاه خلافت عباسی»، ص۸۳.
  13. زیدان، تاریخ تمدن اسلام، ۱۳۷۲ہجری شمسی، ج۲، ص۸۸۷.
  14. 14.0 14.1 ابن‌جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۱۲، ص۲۳۵.
  15. 15.0 15.1 15.2 جعفریان، از طلوع طاهریان تا غروب خوارزمشاهیان، ۱۳۷۹ہجری شمسی، ص۵۹.
  16. 16.0 16.1 16.2 مسعودی، مروج الذهب، ۱۴۰۹ھ ،، ج۴، ص۱۰۸.
  17. ابن‌اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ھ ، ج۷، ص۲۰۶.
  18. جعفریان، از طلوع طاهریان تا غروب خوارزمشاهیان، ۱۳۷۹ہجری شمسی، ص۵۹.
  19. ابن‌العمرانی، الإنباء فی تاریخ الخلفاء، ۲۰۰۱م، ج۱، ص۱۳۷.
  20. ابن‌کثیر، البدایة و النهایة، ۱۴۰۷ھ ، ج۱۱، ص۳۲.
  21. طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ھ ، ج۹، ص۴۷۲.
  22. علی‌بیگی، «صاحب الزنج؛ چالشی دیگر در برابر دستگاه خلافت عباسی»، ص۸۵.
  23. 23.0 23.1 مقدیش، نزهة الأنظار، ۱۹۸۸عیسوی، ج۱، ص۲۶۰.
  24. ابن‌الطقطقی، الفخری، ۱۴۱۸ھ ، ص۲۴۶.
  25. زرین کوب، تاریخ ایران بعد از اسلام، ۱۳۶۸ہجری شمسی، ص۴۷۶.
  26. ابن‌العمرانی، الإنباء فی تاریخ الخلفاء، ۲۰۰۱عیسوی، ج۱، ص۱۳۸.
  27. زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹عیسوی،‌ ج۱، ص۱۴۰.
  28. ابن‌خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ھ ، ج۳، ص۴۱۰.
  29. جعفریان، از طلوع طاهریان تا غروب خوارزمشاهیان، ۱۳۷۹ہجری شمسی، ص۵۰.
  30. جعفریان، از طلوع طاهریان تا غروب خوارزمشاهیان، ۱۳۷۹ہجری شمسی، ص۶۰.
  31. 31.0 31.1 مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ھ ، ج۶۳، ص۱۹۷.
  32. ابن‌شهر آشوب، مناقب آل أبی طالب، ۱۳۷۹ھ ، ج۴، ص۴۲۹.
  33. سید رضی، نهج البلاغة، ۱۴۱۴ھ ، ص۱۸۵.
  34. مسعودی، مروج الذهب، ۱۴۰۹ھ ، ج۴، ص۱۰۸.
  35. زرین کوب، تاریخ ایران بعد از اسلام، ۱۳۶۸ہجری شمسی، ص۴۷۸.

مآخذ

  • ابن‌العمرانی، محمد بن علی،‌ الإنباء فی تاریخ الخلفاء، محقق، قاسم السامرائی، القاهرۃ، دارالآفاق العربیة، ۲۰۰۱عیسوی۔
  • ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، دارصادر، بیروت، ۱۳۸۵ھ ۔
  • ابن‌الطقطقی، محمد بن علی بن طباطبا، الفخری، تحقیق، عبدالقادر محمد مایو، بیروت، دارالقلم العربی، چاپ اول، ۱۴۱۸ھ ۔
  • ابن‌جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم، محقق، محمد عبدالقادر عطا، مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیة، چاپ اول، ۱۴۱۲ھ ۔
  • ابن‌خلدون، عبدالرحمن بن محمد، تاریخ ابن‌خلدون، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت، دارالفکر، چاپ دوم، ۱۴۰۸ھ
  • ابن‌شهر آشوب مازندرانی، مناقب آل أبی‌طالب، قم، انتشارات علامہ، چاپ اول، ۱۳۷۹ھ
  • ابن‌عنبہ حسنی، سیداحمد بن علی، عمدۃ الطالب فی أنساب آل أبی‌طالب، قم، انتشارات انصاریان، ۱۴۱۷ھ
  • ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النهایۃ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷ھ
  • أبوالفداء، إسماعیل بن علی، المختصر فی أخبار البشر، مصر، المطبعۃ الحسینیۃ المصریۃ، بی‌تا.
  • جعفریان، رسول، از طلوع طاہریان تا غروب خوارزمشاہیان، تہران، اندیشہ معاصر، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • روحانی،‌ سید کاظم، «نهضت صاحب الزنج»، کیہان اندیشہ، شمارہ ۲۲، بہار و اسفند ۱۳۶۷ہجری شمسی۔
  • زرکلی، خیرالدین، الاعلام، بیروت، دارالعلم للملایین، چاپ ہشتم، ۱۹۸۹عیسوی۔
  • زرین‌کوب، عبدالحسین، تاریخ ایران بعد از اسلام، تہران، امیرکبیر، ۱۳۶۸ہجری شمسی۔
  • زیدان، جرجی، تاریخ تمدن اسلام، ترجمه علی جواہرکلام، تہران، امیرکبیر، ۱۳۷۲ہجری شمسی۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، نهج البلاغۃ، محقق صبحی صالح، قم، ہجرت، چاپ اول، ۱۴۱۴ھ ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، تحقیق، محمد أبوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، چاپ دوم، ۱۳۸۷ھ ۔
  • علی‌بیگی، حسین، «صاحب الزنج؛ چالشی دیگر در برابر دستگاہ خلافت عباسی»، نامہ تاریخ پژوہان، شمارہ۱۱، پاییز ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دارإحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ ۔
  • مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق، اسعد داغر، قم، دارالہجرۃ، چاپ دوم، ۱۴۰۹ھ ۔
  • مقديش، محمود، نزهۃ الأنظار فی عجائب التواریخ والأخبار، تحقیق، علی الزواری، محمد محفوظ، بیروت، دار الغرب الاسلامی، ۱۹۸۸عیسوی۔