حسن حسن زادہ آملی

ویکی شیعہ سے
(علامہ حسن زادہ آملی سے رجوع مکرر)
حسن زادہ آملی
آیت اللہ حسن زادہ آملی
کوائف
مکمل نامحسن حسن زادہ آملی
تاریخ ولادت1928ء
آبائی شہرآمل۔
علمی معلومات
مادر علمیآمل، تہران، قم۔
اساتذہعلامہ سید محمد حسین طباطبائی، علامہ شعرانی، مہدی الہی قمشہ ای، سید ابو الحسن رفیعی قزوینی۔
اجازہ اجتہاد ازعلامہ شعرانی۔
تالیفاتدروس معرفت نفس، رسالہ لقاء الله، تصحیح و تعلیق تمہید القواعد، تصحیح نہج البلاغہ، تصحیح و تعلیق اشارات، الہی‌ نامہ۔
خدمات


حسن حسن زادہ آملی ( 1928-2021ء)، ایرانی شیعہ فلسفی و عارف ہیں۔ وہ فلسفہ، عرفان، ریاضی، نجوم اور عربی و فارسی ادب میں بہت سی تصانیف کے مالک ہیں۔ اشارات، شفا، شرح فصوص الحکم کی تصحیح اور اس پر شرح و حاشیہ، فلسفہ و عرفان کے موضوع پر ان کی اہم ترین تالیفات ہیں۔

مہدی الہی قمشہ ای، علامہ شعرانی، علامہ طباطبایی اور سید محمد حسن الہی ان کے اساتید میں سے ہیں۔ وہ شرح منظومہ، اشارات، اسفار اربعہ و شرح فصوص قیصری جیسی فلسفہ و عرفان کی اہم کتابوں کی مختلف ادوار میں متعدد مرتبہ تدریس کر چکے ہیں۔ اسی طرح سے وہ تقریبا 17 برسوں تک ریاضیات، ہیئت و قبلہ شناسی جیسے علوم و موضوعات کی تدریس میں مشغول رہ چکے ہیں۔

ان کی نظر میں فلسفہ و عرفان کا مسیر ایک ہی ہے اور دین، فلسفہ و عرفان آپس میں ہم آہنگ ہیں۔ وہ فلسفہ اسلامی کے یونانی ہونے کے دعوی کو صحیح نہیں مانتے ہیں۔ ان کے مطابق مسلمان فلاسفہ نے اسلام سے قبل کے فلاسفہ کے افکار و نظریات میں عمق و پختگی پیدا کی ہے۔ ان کے ایک شاگرد کے مطابق، حسن زادہ آملی نے سب سے زیادہ اثر ملا صدرا اور ابن عربی سے قبول کیا ہے۔

حسن زادہ آملی نے نہج البلاغہ، اسفار اربعہ، کشف المراد، کلیلہ و دمنہ و گلستان سعدی جیسی کتابوں کی تصحیح انجام دی ہے اور ان کا دیوان اشعار بھی شائع ہو چکا ہے۔

ان کے شاگرد کے مطابق، حسن زادہ آملی کے جزئی سیاسی امور میں حصہ نہ لینے کے باوجود رہبر جمہوری اسلامی ایران آیت اللہ خامنہ ای کے ساتھ ان کے اچھے روابط ہیں اور انہوں نے خود امام خمینی کے ترکی جلاوطن ہونے پہلے 1342 ھ ش میں ان کے ہاتھوں پر بیعت کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔

سوانح حیات و تعلیم

حسن حسن زادہ آملی 1307 ش کے اواخر میں آمل کے علاقہ لاریجان کے ایک دیہات میں پیدا ہوئے۔[1] ۶ برس تک مکتب میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد سن 1323 ش میں سکول اور حوزہ کی تعلیم کا آغاز کیا۔[2] ادبیات عرب اور دیگر ابتدائی دروس آمل میں محمد غروی، عزیز الله طبرسی، احمد اعتمادی، عبد الله اشراقی، ابو القاسم رجائی، میرزا ابو القاسم فرسی و دیگر اساتید سے پڑھے۔ اسی زمانہ میں انہوں نے حوزہ کے ابتدائی دروس کی بعض کتابیں تدریس کیں۔[3]

تہران کی طرف ہجرت

دائیں سے بائیں: پہلے آیت اللہ جوادی آملی اور آخر میں آیت اللہ حسن زادہ آملی ہیں۔

آیت اللہ حسن زادہ آملی نے حوزہ کے مقدماتی دروس کو تمام کرنے کے ساتھ آیت اللہ غروی کی تشویق پر لباس روحانیت کو زیب تن کر لیا اور 22 برس کی عمر میں مزید تعلیم کے لئے تہران کا سفر کیا۔ تہران میں ان کے اساتذہ میں سے ایک آیت اللہ سید احمد لواسانی تھے۔ حسن زادہ آملی نے ان سے کتاب شرح لمعہ اور قوانین الاصول کے بعض حصے پڑھے۔[4]

حسن زادہ آملی نے ایک طویل عرصہ تک علامہ شعرانی کے دروس میں شرکت کی اور بہت سارے علوم میں ان سے بہت سی کتابیں پڑھیں۔ جن میں سے فقہ اور اصول میں رسائل، مکاسب، کفایہ، جواہر الکلام کے کچھ حصے، اشارات ابن سینا پر شرح خواجہ نصیر الدین طوسی، اسفار اربعہ، ابن سینا کی کتاب شفاء کے کچھ حصے، قرآن اور تفسیر میں تفسیر مجمع البیان، شرح شاطبیہ قوشچی (قرائت میں)، ریاضی، علم ہیئت اور نجوم میں: شرح چغمینی قاضی زاده رومی، اصول اقلیدس و اُكَر مانالاؤوس تحریر خواجہ نصیرالدین طوسی، شرح علاّمہ خضری بر تذکره خواجہ، زیج بہادری، مجسطی بطلیموس تحریر خواجہ طوسی، طب میں: قانونچہ چغمینی و تشریح کلیات قانون بو علی سینا، رجال میں دو جلدوں پر مشتمل جامع الرواة حاج محمّد اردبیلی، اور درایت میں علامہ شعرانی کی تالیفات شامل ہیں۔[5]

حسن زادہ آملی نے علامہ شعرانی سے اجازہ اجتہاد و اجازہ نقل حدیث حاصل کیا۔ اسی طرح سے انہوں نے ان کی رہنمائی کی وجہ سے آیت اللہ سید ابو الحسن رفیعی قزوینی کے دروس یعنی اسفار ملا صدرا، شرح علاّمہ فناری بر مصباح الانس اور ان کے فقہ و اصول فقہ کے درس خارج میں شرکت کی۔[6]

انہوں نے 11 برس تک مہدی الہی قمشہ ای سے حکمت منظومہ سبزواری، مباحث نفس اسفار اور تقریبا نصف کتاب شرح خواجہ بر اشارات ابن سینا کے ذریعہ کسب فیض کیا۔ اسی طرح سے انہوں نے ان کے درس تفسیر میں شرکت کی اور استاد الہی قمشہ ای نے حسن زادہ آملی کے دیوان شعری پر مقدمہ بھی تحریر کیا۔[7]

آیت اللہ محمد تقی آملی تہران میں ان کے درس خارج فقہ و اصول فقہ کے استاد تھے۔[8] حسن‌ زاده آملی نے شرح قیصری بر فصوص الحکم و اوائل طبیعیات شفائے شیخ الرئیس کے بعض حصوں کو شیخ محمّد حسن فاضل تونی کے پاس پڑھا۔ اسی طرح سے انہوں نے ابو علی سینا کی شفاء کے بعض حصوں کے لئے میرزا احمد آشتیانی سے کسب فیض کیا۔[9]

قم کی طرف ہجرت

حسن زادہ آملی سن 1342 ش میں تہران سے قم منتقل ہو گئے اور انہوں نے وہاں 17 برس تک علامہ طباطبائی اور ان کے بھائی سید محمد حسن الہی کے دروس سے استفادہ کیا۔ اس مدت میں انہوں نے علامہ طباطبائی کے پاس علامہ محمد باقر مجلسی کی کتاب بحار الانوار کے کچھ حصے اور تمہید القواعد بھی پڑھی۔[10] اسی طرح سے وہ سید محمد حسن الہی کے فلسفہ و عرفان کے دروس میں شرکت کی۔ حسن زادہ آملی اس دورہ کو نیکی کے ساتھ یاد کرتے ہیں اور بعض اخلاقی تاثیر پذیری کی کی نسبت اس کی طرف دیتے ہیں۔ ان کے ایک دوسرے استاد سید مہدی قاضی طباطبائی فرزند سید علی قاضی تھے جو علوم غریبہ، حکمت اور عرفان میں مہارت رکھتے تھے۔[11]

تدریس

حسن زادہ آملی نے قم میں رہائش اختیار کرنے کے بعد سے شرح منظومہ کے چار دورے، شرح اشارات کے چار دورے، اسفار اربعہ کا ایک دورہ اور شرح فصوص قیصری کے چار دورے تدریس کر چکے ہیں۔ انہوں نے شرح تمہید القواعد اور مصباح الانس بھی تدریس کی ہیں۔ اسی طرح سے انہوں نے 17 سال تک ریاضیات، ہیئت، وقت اور قبلہ کے مباحث تدریس کئے ہیں۔ ان کی کتاب معرفت الوقت و القبلہ ان ہی دروس کا ثمرہ ہے۔[12]

وفات

آمل شہر میں تشییع جنازہ کا ایک منظر

علامہ حسن زادہ آملی نے 18 صفر 1443 ھ بمطابق 25 ستمبر 2021 ء آمل شہر کے ایک اسپتال میں قلبی مرض کے سبب وفات پائی۔ ان کے جنازہ کو نماز جنازہ کے لئے تہران منتقل کیا گیا جہاں آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ 27 ستمبر 2021 ء آمل شہر میں تشییع جنازہ ہوئی اور 28 ستمبر 2021 ء کو انہیں ان کے وطن موضع ایرا میں ان کے ذاتی مکان میں دفن کیا گیا۔

نظریات و تصنیفات

ان کے استاد علامہ شعرانی کے عطا کردہ اجازہ اجتہاد و روایت کا متن

حسن زادہ آملی فقہ، فلسفہ، اخلاق، عرفان، حکمت دینی، علم کلام، ریاضیات، نجوم، عربی اور فارسی ادب، علوم طبیعی، طب قدیم، علوم غریبہ و باطنی جیسے علوم و موضوعات پر صاحب تصنیف ہیں۔ البتہ ان کی زیادہ تر تالیفات و افکار قرآنی مرکزیت و محوریت کے ساتھ فلسفہ و عرفان سے تعلق رکھتی ہیں۔

فلسفہ

ان کے شاگرد سید ید اللہ یزدان پناہ کا ماننا ہے کہ ان کے استاد فلسفہ و عرفان اسلامی کو ایک ہی مسیر میں خیال کرتے ہیں یعنی وہ دین و فلسفہ و عرفان کو آپس میں ہم آہنگ مانتے ہیں۔ یزدان پناہ کا ماننا ہے کہ ان کے استاد نے سب سے زیادہ اثر ملا صدری اور ابن عربی سے اثر قبول کیا ہے۔[13] حسن زادہ آملی نے فلسفہ اسلامی کے یونانی ہونے کے دعوی کو رد کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ قبل از اسلام کے فلاسفہ کے افکار و نظریات سطحی ہیں۔ اسلامی فلاسفہ نے ان افکار و نظریات کو عمق عطا کیا ہے اور ان کی تعبیر میں انہیں پختہ کیا اور پکایا ہے۔[14]

حسن زادہ آملی نے فلسفہ کے موضوعات پر بہت سی کتابیں تالیف کی ہیں۔ جن میں کتاب الاصول الحکمیہ، رسالہ جعل، رسالہ رؤیا، رسالہ نفس الأمر، رسالہ نہج الولایہ، رسالہ فی التضّادّ، ترجمہ و تعلیق الجمع بین الرّأیین، ترجمہ و شرح سہ نمط آخر اشارات، تصحیح و تعلیق شفا، تصحیح و تعلیق اشارات، تقدیم و تصحیح و تعلیق آغاز و انجام کلامی شامل ہیں۔[15]

قرآن سرچشمہ معارف

علامہ حسن زادہ آملی قرآن کریم کو معارف الہی کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں نہج البلاغہ، صحیفہ سجادیہ، اصول کافی، بحار الانوار و دیگر جوامع روایی نے قرآن کریم سے سر چشمہ حاصل کیا ہے اور وہ قرآن کا ادنی مرتبہ رکھتے ہیں۔ اقوال و فرامین معصومین علیہم السلام کی بازگشت بھی قرآن کی طرف ہوتی ہے۔[16]

عرفان

حسن زادہ آملی کی نظر میں دین عرفان باللہ و معرفت خداوند کا نام ہے اور معرفت خدا وسیع و عریض مفہوم کی حامل ہے جس میں معرفت اسماء‌ اللہ، معرفت افعال‌ الله، معرفت احکام‌ الله، معرفت کتاب‌ الله، تمام معرفتیں شامل ہو سکتی ہیں۔ حقیقت عرفان ان ہی معرفتوں کو کسب کرنے کا نام ہے۔ ان کی نگاہ میں اصیل انسان ساز عرفان قرآن کریم سے تمسک ہے اور ائمہ معصومین علیہم السلام معلمین بشر اور سفیران الہی ہیں جو انسان ساز دستور العمل یعنی قرآن کو انسانوں کے لئے تبیین کرتے ہیں۔[17]

ان کی بعض تالیفات عرفان سے تعلق رکھتی ہیں۔ جن میں الہی نامہ، رسالہ لقاء الله، رسالہ آنہ الحق، شرح فصوص الحکم، عرفان و حکمت متعالیہ، تصحیح رسالہ مکاتبات، رسالہ مفاتیح المخازن و رسالہ سیر و سلوک شامل ہیں۔[18]

ادبی آثار

حسن زادہ آملی بچپن سے ہی شعر و ادب سے شغف رکھتے تھے۔ یہ شوق اور مطالعہ ان کی بعض ادبی تخلیقات کا سبب بنا۔ جن میں تصحیح کلیلہ و دمنہ، تصحیح گلستان سعدی، مصادر اشعار منسوب بہ امیر المؤمنین(ع)، تقدیم و تصحیح و تعلیق نصاب الصبیان، دیوان اشعار، ده رسالہ فارسی، ہزار و یک نکتہ و الہی نامہ قابل ذکر ہیں۔[19]

تصحیح و حواشی

آیت اللہ حسن زادہ آملی نے 40 سال سے زیادہ عرصہ حوزہ علمیہ قم میں تدریس میں صرف کیا ہے۔ تدریس کے دوران انہوں نے بعض کتابوں کی تصحیح اور ان پر حاشیے بھی لگائے ہیں۔ ان میں تصحیح‌ نہج البلاغہ، تصحیح تفسیر خلاصة المنہج، تصحیح‌ کتاب شفا، تصحیح اسفار اربعہ، تصحیح کتاب کشف المراد، تصحیح‌ و حاشیہ بر تمہید القواعد صائن الدین و شرح بر فصوص قیصری شامل ہیں۔[20]

مشی سیاسی

آیت اللہ خامنہ ای تہران کے اسپتال میں آیت اللہ حسن زادہ آملی کی عیادت کرتے ہوئے۔ (۹ مہر ۱۳۹۱ ش)

علامہ حسن زادہ آملی کے شاگرد حسن رمضانی اپنے استاد کے مشی سیاسی کے سلسلہ میں کئے گئے ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں: وہ جزئی سیاسی امور میں زیادہ دخالت نہ دیتے ہوں لیکن ان کے رہبر جمہوی اسلامی ایران آیت اللہ خامنہ ای کے ساتھ اچھے روابط ہیں۔[21]

حسن زادہ آملی نے جیسا کہ خود ہی ذکر کیا ہے: امام خمینی کے ترکی جلاوطن ہونے سے پہلے 1342 ھ ش کو قم جا کر ان کے ہاتھوں پر بیعت کی تھی۔[22] اسی طرح سے انہوں نے سن 1377 ش میں آیت اللہ خامنہ ای کے سفر آمل میں انہیں اپنی کتاب انسان در عرف عرفان مقدمہ لکھنے کی غرض سے تقدیم کی تھی۔[23] اسی طرح سے آیت اللہ خامنہ ای نے سن 1391 ش میں جب آیت اللہ حسن زادہ آملی مریض تھے اور تہران کے ایک اسپتال میں ایڈمٹ تھے تو انہوں نے ہاسپیٹل جا کر ان کی عیادت کی تھی۔[24]

حوالہ جات

  1. «آیت الله حسن زاده آملی حکیم، عارف، ادیب و ریاضی دان»، ۱۳۶۳ش، ص۴.
  2. «آیت الله حسن زاده آملی حکیم، عارف، ادیب و ریاضی دان»، ۱۳۶۳ش، ص۴.
  3. «مصاحبہ با آیت ‌الله حسن ‌زاده آملی»، ۱۳۶۶ش، ص۱۹-۲۰.
  4. «مصاحبہ با آیت‌ الله حسن‌ زاده آملی»، ۱۳۶۶ش، ص۲۱.
  5. حسن زادہ آملی، حسن، ہزار و يك كلمہ، ۱۳۸۱ش، ص۳۳۴و۳۳۵
  6. حسن زاده آملی، حسن، هزار و يك كلمه، ۱۳۸۱ش، ص۳۳۵
  7. «آیت الله حسن زاده آملی حکیم، عارف، ادیب و ریاضی دان»، ۱۳۶۳ش، ص۵.
  8. «مصاحبہ با آیت‌ الله حسن‌ زاده آملی»، ۱۳۶۶ش، ص۲۵.
  9. «مصاحبہ با آیت‌ الله حسن‌ زاده آملی»، ۱۳۶۶ش، ص۲۵.
  10. «آیت الله حسن زاده آملی حکیم، عارف، ادیب و ریاضی دان»، ۱۳۶۳ش، ص۷.
  11. «آیت الله حسن زاده آملی حکیم، عارف، ادیب و ریاضی دان»، ۱۳۶۳ش، ص۷.
  12. «مصاحبہ با استاد حسن زاده آملی»، ۱۳۶۶ش، ص۲۶.
  13. گفت‌ و گو با سید ید الله یزدان‌ پناه بہ مناسبت مراسم تجلیل از علامہ حسن‌ زاده آملی.
  14. «آیت الله حسن زاده آملی حکیم، عارف، ادیب و ریاضیدان»، ۱۳۶۳ش، ص۱۲.
  15. «آیت‌الله حسن‌زاده آملی حکیم، عارف، ادیب و ریاضیدان»، ۱۳۶۳ش، ص۱۵.
  16. «آیت الله حسن زاده آملی حکیم، عارف، ادیب و ریاضیدان»، ۱۳۶۳ش، ص۱۲.
  17. حسن ‌زاده آملی، ۱۳۸۰ش، ص۱۳.
  18. «آیت‌الله حسن‌زاده آملی حکیم، عارف، ادیب و ریاضیدان»، ۱۳۶۳ش، ص۱۵.
  19. «آیت‌الله حسن‌زاده آملی حکیم، عارف، ادیب و ریاضیدان»، ۱۳۶۳ش، ص۱۵.
  20. «آیت‌الله حسن‌زاده آملی حکیم، عارف، ادیب و ریاضیدان»، ۱۳۶۳ش، ص۱۵.
  21. «گفتگو با حسن رمضانی»، ۱۳۸۹ش، ص۴۱.
  22. «گفتگو با حسن رمضانی»، ۱۳۸۹ش، ص۴۱.
  23. حسن‌زاده آملی، ۱۳۸۰ش، ص۷.
  24. عیادت رہبر انقلاب از آیت ‌الله حسن ‌زاده آملی.

مآخذ

  • «آیت الله حسن زاده آملی حکیم، عارف، ادیب و ریاضیدان»، گفتگو با آیت‌ الله حسن‌ زاده آملی، کیہان فرہنگی، شماره ۵، مرداد ۱۳۶۳ شمسی ہجری۔
  • «مصاحبہ با آیت‌ الله حسن‌ زاده آملی»، مجلہ حوزه، شماره ۲۱، ۱۳۶۶ شمسی ہجری۔
  • «گفتگو با حسن رمضانی»، مجلہ پنجره، شماره۸۳، ۱۳۸۹ شمسی ہجری۔
  • حسن‌ زاده آملی، حسن، هزار و يك كلمه، قم، بوستان كتاب، سوم، ۱۳۸۱ شمسی ہجری۔
  • حسن‌ زاده آملی، حسن، انسان در عرف عرفان، تهران، ۱۳۸۰ شمسی ہجری۔
  • «آیت اللہ حسن زادہ آملی کی عیادت رہبر انقلاب کے توسط»، آیت اللہ خامنہ ای کی آفیشل ویب سائٹ، تاریخ مشاہدہ ۱۳۹۶/۱۰/۱۵.۱۳۹۶/۱۰/۱۵