مندرجات کا رخ کریں

سورہ فتح آیت نمبر 2

ویکی شیعہ سے
سورہ فتح آیت نمبر 2
آیت کی خصوصیات
سورہفتح
آیت نمبر2
پارہ26
شان نزولصلح حدیبیہ کے نتائج کی طرف اشارہ
محل نزولمدینہ
موضوعصلح حدیبیہ


سورہ فتح کی دوسری آیت، صلحِ حدیبیہ کے نتائج کو رسول اکرمؐ کے لیے تین حصوں میں بیان کرتی ہے: گناہوں کی مغفرت، اتمام نعمت اور صراطِ مستقیم کی ہدایت۔

عصمت انبیاء کے عقیدے کو مدنظر رکھتے ہوئے مفسرین نے اس آیت میں "گناہ" کے مفہوم کے بارے میں مختلف آراء بیان کی ہیں۔ اہل سنت مفسرین نے اسے چھوٹی خطاؤں، ترکِ اولیٰ یا امت کے گناہوں پر حمل کیا ہے، جبکہ شیعہ مفسرین کے نزدیک اس سے مراد حقیقی گناہ نہیں، بلکہ مشرکین کی طرف سے لگائے گئے الزامات مراد ہیں۔ وہ مبارزات جو رسول اکرمؐ نے شرک اور بت پرستی کے خلاف انجام دئے، مشرکین کی نظر میں وہ "گناہ" شمار ہوتے تھے، لیکن صلح حدیبیہ کے بعد حاصل ہونے والی فتوحات نے ان تمام الزامات کو باطل کر دیا۔ امام رضا علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں بھی یہی تفسیر بیان ہوئی ہے۔

"اتمامِ نعمت" سے مراد فتح مکہ کے لیے راستہ ہموار ہونا اور اسلام کی نشر و اشاعت ہے، جبکہ "صراط مستقیم کی ہدایت" سے مراد آئندہ فتوحات کے لیے سازگار حالات کی فراہمی اور ساتھ ہی رسول اکرمؐ کے لیے مسلسل الٰہی رہنمائی ہے تاکہ آپ رسالت کی راہ میں ثابت قدم رہ سکیں۔

نتائجِ فتح مبین

تفسیر نمونہ کے مطابق سورہ فتح کی دوسری اور تیسری آیت میں "فتح مبین" یعنی صلحِ حدیبیہ کے نتیجے میں پیغمبر اکرمؐ کے لئے اللہ تعالیٰ کی چار بڑی نعمتوں: گناہوں کی مغفرت، اتمام نعمت، صراط مستقیم کی ہدایت اور شکست ناپذیر نصرت کی بشارت دی گئی ہے۔[1] ان آیات میں ان کامیابیوں کی طرف اشارہ کی گئی ہیں جنہیں سورہ کی پہلی آیت میں "فتح مبین" کہا گیا تھا۔[2]

لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَيْكَ وَيَہْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا
تاکہ اللہ ان (لوگوں کی نظر میں) آپ(ص) کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور آپ پر اپنی نعمت تام و تمام کرے اور آپ(ص) کو منزلِ مقصود تک پہنچا ئے۔



سورہ فتح: 2


گناہ کی نوعیت

سورہ فتح کی دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت "گناہوں کی بخشش" بیان کی گئی ہے۔[3] مقام عصمت نبوی کے پیش نظر، مفسرین نے اس آیت میں گناہ کی نوعیت کے بارے میں متعدد آراء پیش کی ہیں۔[4] مجمع‌البیان میں طبرسی کے مطابق بعض اہل سنت مفسرین نے اسے پیغمبر اکرمؐ کی بعثت سے پہلے اور بعد کے گناہوں یا آپؐ کے والدین کے گناہوں یا آپؐ کی امت کے گناہوں پر حمل کیا ہے۔ جبکہ شیعہ مفسرین عموما اس سے مراد یا تو آپؐ کی امت کے گناہ لیتے ہیں یا مشرکین کے وہ گناہ مراد لیتے ہیں جس کے ذریعے انہوں نے رسول اکرمؐ کو مکہ میں داخل ہونے سے منع کیا اور آپ کو آزار و اذیت پہنچائی۔[5]

علامہ طباطبائی، محمدجواد مغنیہ، ناصر مکارم شیرازی اور سید محمد تقی مدرسی جیسے شیعہ مفسرین نے پیغمبر اکرمؐ کی طرف گناہ کی نسبت دینے کو رد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہاں "ذنب" سے مراد خدا کی نافرمانی نہیں، بلکہ اس سے مراد یا وہ اعمال ہیں جو مشرکین کی نظر میں گناہ شمار ہوتے تھے، جیسے شرک کے خلاف جہاد اور غزوات۔ یا پھر وہ بے بنیاد الزامات ہیں جو دشمنان اسلام رسول خداؐ پر لگاتے تھے۔ ان کے مطابق صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے بعد اللہ نے ان تمام غلط تصورات کو مشرکین کے ذہنوں سے دور کر دیا۔[6]

امام رضا علیہ السلام سے مروی ایک حدیث کے مطابق مشرکین رسول اکرمؐ کو توحید کی دعوت اور بت پرستی سے منع کرنے کی بنا پر گناہ گار سمجھتے تھے۔[7]

اکبر ہاشمی رفسنجانی نے "تفسیر راہنما" میں اس بات پر زور دیا ہے کہ چونکہ صلحِ حدیبیہ اور گناہوں کی بخشش میں براہِ راست کوئی تعلق ظاہر نہیں ہوتا، لہٰذا آیت کا مقصود دراصل مشرکین کی اذہان میں موجود پیغمبر اکرمؐ سے متعلق "گناہ" کے تصور کو ختم کرنا تھا۔[8]

اتمام نعمت اور ہدایتِ الٰہی

سورہ فتح کی دوسری آیت میں پیغمبر اکرمؐ کے لئے اللہ کی دو اور نعمتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ اتمام نعمت اور صراط مستقیم کی طرف ہدایت ہیں۔ مفسرین کے مطابق صلح حدیبیہ کے بعد پیغمبر اکرمؐ پر نعمتوں کی تکمیل ہوئی، اسلام کے لیے نئے افق کھلے، فتح مکہ کی راہ ہموار ہوئی اور مشرکین کی دشمنی دم توڑ گئی۔[9] اسی طرح اس آیت میں صراط مستقیم کی ہدایت سے مراد وہ الٰہی منصوبہ بندی ہے جس نے رسول اکرمؐ کو آئندہ فتوحات کے لیے کامیابی کے راستے پر گامزن کیا۔[10] البتہ بعض مفسرین کے مطابق یہ عبارت اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ راہ راست پر ثابت قدم رہنے کے لئے ہمیشہ خدا کی ہدایت کے محتاج ہیں۔[11]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ،1374ش، ج22، ص18۔
  2. رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387ش، ج19، ص189۔
  3. مدرسی، من ہدی القرآن، 1419ھ، ج13، ص292۔
  4. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج1، ص86؛ معرفت،‌ «عصمت پیامبران»، ص7؛ سبحانی، منشور جاوید، 1383ش، ج6، ص48-49۔
  5. طبرسی، مجمع البیان، 1408ھ، ج9، ص168۔
  6. طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج18، ص253؛ مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ھ، ج7، ص83؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج22، ص22؛ مدرسی، من ہدی القرآن، 1419ھ، ج13، ص292۔
  7. صدوھ، عیون اخبار الرضا، منشورات جہان، ج1، ص202۔
  8. ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، 1386ش، ج17، ص388۔
  9. طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج18، ص253؛ ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، 1386ش، ج17، ص388-389۔
  10. طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج18، ص253؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج22، ص22۔
  11. طبرسی، مجمع البیان، 1408ھ، ج9، ص168؛ ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، 1386ش، ج17، ص388-389۔

مآخذ

  • رضایی اصفہانی، محمدعلی، تفسیر قرآن مہر، قم، پژوہش‌ہای تفسیر و علوم قرآن، 1387ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، موسسہ امام صادق(ع)، 1383ہجری شمسی۔
  • صدوھ، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، تہران، منشورات جہان، بی‌تا.
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1393ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، 1408ھ۔
  • مدرسی، سید محمدتقی، من ہدی القرآن، تہران، دار محبی الحسین علیہ السلام، 1419ھ۔
  • معرفت، محمدہادی، «عصمت پیامبران»، در مجلہ پژوہش‌ہای اجتماعی اسلامی، شمارہ 8، 1376ہجری شمسی۔
  • مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم، دارالکتاب الاسلامی، 1424ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1374ہجری شمسی۔
  • ہاشمی رفسنجانی، علی‌اکبر، تفسیر راہنما، قم، بوستان کتاب، 1386ہجری شمسی۔