امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن

ویکی شیعہ سے
امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن
عمومی معلومات
بانیمحمد علی نقوی
نوعیتطلبہ تنظیم
ہدفشیعہ جوانوں اور نوجوانوں کی فکری تربیت
ہیڈ کوارٹرلاہور
سربراہحسن عارف
متعلقہ ادارےالمہدی ادارہ تربیت، ادارہ پیام عمل، العارف پبلیکیشنز
ویب سائٹامامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان
دیگر اسامیآئی ایس او پاکستان
ملکپاکستان


امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان، پاکستان کی ایک شیعہ طلبہ تنظیم ہے۔ آئی ایس او کا نصب العین، تعلیمی اداروں میں قرآن و اہل بیتؑ کی تعلیمات کے مطابق شیعہ جوانوں کی فکری و عقیدتی تربیت کرنے کے ساتھ دین کی سربلندی اور پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ کرنا ہے۔ اس تنظیم کا قیام سنہ 1972ء کو علما کے زیر نگرانی عمل میں لایا گیا۔ آئی ایس پاکستان کا تصور سب سے پہلے شہید محمد علی نقوی نے پیش کیا۔ اس تنظیم سے منسلک طلبا تعلیمی امور کے علاوہ فلاحی اور عام المنفعت کاموں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ فکر امام خمینیؒ سے الہام لیتے ہوئے استعمار و استکبارِ زمان کے خلاف آواز اٹھانا اس تنظیم کا خاصہ شمار ہوتا ہے۔ آئی ایس او پاکستان نے ہمیشہ شیعہ قوم کے قائدین کا ساتھ دیا ہے۔

اہمیت اور تاریخچہ

امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد 22 مئی 1972ء کو یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور پاکستان میں مرتضی حسین صدر الافاضل، آغا علی موسوی اور سید صفدر حسین نجفی کے زیر نگرانی رکھی گئی۔[1] اس تنظیم کا تصور سب سے پہلے شہید محمد علی نقوی نے پیش کیا۔[2]

امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے قیام کا مقصد قرآن و سنت اور سیرت معصومینؑ کے مطابق جوان نسل کی فکری تربیت، تعلیمی میدان میں ان کی رہنمائی، اسلامی اقدار کے احیاء کے لیے قومی اور مذہبی مناسبتوں پر مختلف پروگرامز کا انعقاد اور پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ کرنا ہے۔[3] اس کے علاوہ پاکستان کے استحکام، ترقی، ملک کے تمام طبقوں میں ہم آہنگی اور ایک جامع خوشحالی پیدا کرنا بھی اس تنظیم کے منشور کا حصہ ہے۔[4]

تاسیس کے محرکات

کہا جاتا ہے کہ دین اسلام اور مکتب اہل بیتؑ و قرآن کی پاکیزہ، انسان ساز اور انقلابی تعلیمات امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے قیام کے بنیادی اور اہم ترین عوامل اور محرکات میں سے ہیں؛[5] چنانچہ بیسویں صدی کے اواخر میں ایک طرف سوشلزم اور کمیونزم کی یلغار تھی تو دوسری طرف اسلامی اصولوں کی خلاف ورزیاں عروج پر تھیں، اس دوران میں نوجوان نسل کی فکری، روحانی اور تعلیمی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے برجستہ علما کی نگرانی میں اہل تشیع کے نوجوانوں کی تربیت کے لیے لاہور میں ایک طلبا تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔[6] البتہ مکتب اہل بیتؑ سے وابستہ طلباء مختلف گروہوں کی شکل میں لاہور کی سطح پر تعلیمی اداروں میں مختلف ناموں سے کام کررہے تھے، اگرچہ ان تعلیمی اداروں میں متحرک مختلف گروہ فکری سطح اور اہداف کے لحاظ سے مختلف تھے لیکن مکتب قرآن و اہل بیتؑ سے وابستگی اور حسینی و کربلائی تشخص کا احیاء ان کا مشترکہ جذبہ تھا۔ یہ مشترکہ جذبہ باعث بنا کہ لاہور کے چند تعلیمی اداروں کے نمائندوں نے مشترکہ طور پر شیعہ طلبا کی منتشر قوت کو یکجا کرنے کا عزم کیا؛ یوں 22 مئی 1972ء کو آئی ایس او پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔[7] ایک عرصہ کے بعد یہ ایک ملک گیر تنظیم کی شکل اختیار کر گئی، جس نے جوانوں اور نوجوانوں کی فکری تربیت کی ذمہ داریاں نبھا لیں۔[8] آئی ایس او کے نام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آغا سید علی موسوی کے استخارے سے تنظیم کا نام امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن رکھا گیا۔[9] آئی ایس او پاکستان کو محبان اہل بیتؑ کے درمیان مادر تنظیم کی حیثیت حاصل ہے جس کے بطن سے دیگر قابل احترام اور موثر تنظیموں نے جنم لیا، یہاں تک کہ آئی او (امامیہ آرگنائزیشن) کی بھی آئی ایس او پاکستان کے سابقین نے بنیا د رکھی ہے۔[10] امام خمینی کی انقلابی فکر پر مبنی اسلامی نظام حکومت کے ”نظریہ ولایت فقیہ “ سے وابستگی اس تنظیم کا طرہ امتیاز شمار ہوتا ہے۔ اس تنظیم کے ممبران خود کو امام مہدی(عج) کے ظہور کے منتظر اور ان کی عالمی حکومت کے قیام کے لئے راہ ہموار کرنے کی تحریک کا حصہ سمجھتے ہیں۔[11] پاکستان بھر میں عزاداری کے جلوسوں میں نماز جماعت کا آغاز،[12] امام خمینی کے افکار سے الہام لیتے ہوئے پاکستان میں یوم القدس اور یوم مردہ باد امریکہ منانا آئی ایس او کی دیگر خصوصیات میں سے ہیں۔[13]

تنظیم کا ڈھانچہ

امامیہ سٹوڈنٹس پاکستان کا مرکزی دفتر لاہور میں ہے جہاں سے تنظیم کے فیصلہ جات صادر ہوتے ہیں۔[14] مرکز کے ذمہ دار فرد کو مرکزی صدر کہا جاتا ہے جو اس تنظیم کے نظم و نسق، تنظیم کی کارکردگیوں، سرگرمیوں اور تنظیمی اصولوں کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ نیز تمام مرکزی، ڈویژنل، عہدہ داران اور ممبران مرکزی صدر کے سامنے جواب دہ ہیں۔[15] تنظیمی ڈھانچے میں ہر ڈویژن میں ایک ڈویژنل کابینہ ہوتی ہے جو یونٹوں کو سنبھالتی ہے[16] جو ہر تعلیمی اداروں میں 10 افراد کی رکنیت کے ساتھ قائم ہوسکتی ہیں۔[17]

مرکزی صدر کا انتخاب

امامیہ طلبا پاکستان کے صدر کو مجلس نظارت انتخاب کرتی ہے۔ اس کے لیے مجلس عمومی کے اجلاس سے ایک مہینہ پہلے ڈویژنل صدور اور مرکزی صدر کے لیے ایک نام تجویز کیا جاتا ہے۔ مجلس نظارت وصول شدہ مجوزہ ناموں میں سے دو ناموں کا انتخاب کرے گی۔ مجلس نظارت انتخابات سے قبل مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کر کے موصول شدہ نام مجلس عاملہ کی ترجیحات کے تعین کے لیے دے گی اس کے بعد اگلے مرحلے میں مجلس عاملہ کے اراکین صدارت کے لیے اہلیت کے حامل نام کے سامنے درست کا نشان لگائیں گے۔ اس طرح مرکزی صدر کا انتخاب ہوگا۔ [18]

فعالیتیں

امامیہ سٹوڈنٹس پاکستان کی جانب سے تربیتی اور فکری امور کے علاوہ پری بورڈ ایگزام ، تعلیمی سینمارز ، کوئیز پروگرامز، اسکاؤٹ کیمپ وغیرہ کی شکل میں تعلیمی متعدد سرگرمیاں بھی سال بھر جاری رہتی ہیں۔[19] امامیہ طلبا اس پلیٹ فارم سے انسانی خدمت کے مختلف شعبوں، میڈیکل ایڈ، ضرورت مند طلبہ کی امداد، سیلاب اور زلزلے جیسی قدرتی آفات کے موقعوں پر بلا تفریق انسان دوستی کے جذبے سے مصروف خدمت رہتے ہیں۔[20]

ماتمی جلوسوں میں نماز جماعت کا اہتمام

آئی ایس او پاکستان کی تشکیل سے لیکر اب تک ان سے منسلک جوانوں کی یہ روش رہی ہے کہ وہ لوگ اپنی فعالیتوں کو سرانجام دینے کے لیے مساجد کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں جس کے ذریعے نوجوان نسل کو مسجد کی طرف ترغیب دی جاتی ہے۔[21] ان کا یہ طریقہ جلوس ہائےعزا میں نماز جماعت برپا کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں پر مجلس عزا برپا ہوتی ہے وہاں آئی ایس او سے منسلک جوان نماز جماعت کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ نعرہ ان کے اس نیک عمل کی عکاسی کرتا ہے: آئی ایس او کی ہے آواز مجلس ماتم اور نماز[22]

یوم حسین اور آئی ایس او

امامیہ سٹوڈنٹس پاکستان اپنی تاسیس سے لے کر اب تک عوام اور جوانوں میں مقصد حسینی اور فکر کربلا کو عام کرنے کے لیے پاکستان کے مختلف کالجوں، یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی و ثقافتی مراکز میں ہر سال "یوم حسینؑ" کا اہتمام کرتی ہے۔ یہ پروگرام پاکستان کے تمام علاقوں میں یونٹ، ڈویژن اور مرکزی سطح پر منعقد ہوتا ہے۔[23]

تقلید امام خمینی کی ترویج

جن علما کی نگرانی میں آئی ایس او پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا وہ تمام علما افکار و شخصیت امام خمینیؒ سے آشنا تھے لہذا پاکستان کی سطح پر تقلید کے مسئلے میں امام خمینی کی تقلید کو رواج دینے کا سہرا آئی ایس او پاکستان کے سر جاتا ہے۔[24]

شیعہ قیادت کے ساتھ تعاون

آئی ایس او پاکستان نے اب تک ملت تشیع پاکستان میں تین قیادتوں کے دور کا سامنا کیا ہے اور ان کی قیادت کو مضبوط کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ 1۔ سنہ 1980ء کو مفتی جعفر حسین کے دور قیادت میں زکواۃ آرڈننس کے زبردستی نفاذ کے خلاف کامیاب جدوجہد میں آئی ایس او نے مفتی جعفر حسین کا بھرپور ساتھ دیا۔[25]

2۔ 1984ء کو شہید عارف حسین الحسینی کے منصب قیادت پر فائز ہونے کے بعد آئی ایس او پاکستان نے شہید قائد کی قیادت کو اپنے لئے سرلوحہ مشق قرار دیا۔[26] شہید نے ایک مقام پر آئی ایس او کے بارے میں اپنے جذبات کی یوں ترجمانی: "برادران عزیز! میں آپ کے مبارک چہروں پر نظر کرتا ہوں تو مجھے آپ کے چہروں پر اسلامی عکس دکھائی دیتا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اگر صحیح معنوں میں مسلمان نوجوان ہیں، تو ہمارے یہی نوجوان ہیں، جو آئی ایس او کے پلیٹ فارم پر کام کر رہے ہیں، یہی صحیح مسلمان ہیں۔ یہ خدا، رسول (ص)، اسلام و قرآن اور اہل بیت اطہار (ع) کے لئے کام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ نہ مجھ سے اور نہ کسی اور سے شاباش کہنے کی توقع بھی نہیں رکھتے ہیں۔"[27]

3۔ شہید عارف کی شہادت کے بعد جب سید ساجد علی نقوی شیعہ قوم کے قائد بنے تو آئی ایس او نے تقریباً 8 سال تک علامہ سید ساجد نقوی کا بھرپور ساتھ دیا۔[28]

حوالہ جات

  1. تجمل شگری،آئی ایس او کا تاریخی سفر، اسلام ٹائمز
  2. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے افکار پر عمل ہی ہماری طرف سے شہید کو سب سے بڑا تحفہ ہوگا، تقریب نیوز
  3. امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیش پاکستان کا سال ِ رواں کو احیائے علم و عمل اور استحکام تنظیم کے عنوان سے منانے کا اعلانحوزہ نیوز
  4. ثاقب اکبر، مامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، ایک نگاہ بازگشت اسلام ٹائمز
  5. آغاز سفر، سلسلہ معارف اسلامی کتاب اول، المہدی تربیت اسلامی آئی ایس او پاکستان"، مقالہ "آئی ایس او پاکستان کا تاریخی ارتقاء"، ص 136، سال طبع ستمبر2023ء، طبع سوم، ناشر: المہدی پبلیکیشنز لاہور پاکستان۔
  6. انصر مہدی، مرکزی صدر آئی ایس او پاکستان، آئی ایس او پاکستان کا قیام عمل میں کیوں لایا گیا؟، ڈیلی پاکستان
  7. آغاز سفر، سلسلہ معارف اسلامی کتاب اول، المہدی تربیت اسلامی آئی ایس او پاکستان"، مقالہ "آئی ایس او پاکستان کا تاریخی ارتقاء"، ص 137، سال طبع ستمبر2023ء، طبع سوم، ناشر: المہدی پبلیکیشنز لاہور پاکستان۔
  8. انصر مہدی، مرکزی صدر آئی ایس او پاکستان، آئی ایس او پاکستان کا قیام عمل میں کیوں لایا گیا؟، ڈیلی پاکستان
  9. سید محمد تعجیل مہدی، یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں، اسلام ٹائمز
  10. آغاز سفر، سلسلہ معارف اسلامی کتاب اول، المہدی تربیت اسلامی آئی ایس او پاکستان"، مقالہ "آئی ایس او پاکستان کا تاریخی ارتقاء"، ص 137، سال طبع ستمبر2023ء، طبع سوم، ناشر: المہدی پبلیکیشنز لاہور پاکستان۔
  11. ابن آدم راجپوت، آئی ایس او کا طلبہ سیاست میں کردار، ڈیلی پاکستان
  12. ابن آدم راجپوت، آئی ایس اوکا طلبہ سیاست میں کردار، ڈیلی پاکستان
  13. انصر مہدی مرکزی صدر، آئی ایس او پاکستان کا قیام عمل میں کیوں لایا گیا؟، ڈیلی پاکستان
  14. کتاب"دستور و پالیسیاں"، ص9۔
  15. "دستور و پالیسیاں"، ص11۔
  16. "دستور و پالیسیاں"، ص9۔
  17. "دستور و پالیسیاں"، ص9۔
  18. "دستور و پالیسیاں"، ص 17۔
  19. آئی ایس او پاکستان کا تاریخی سفر اور تاریخی پس منظر، حوزہ نیوز
  20. ثاقب اکبر، امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، ایک نگاہ بازگشت، اسلام ٹائمز
  21. حسن عارف: آئی ایس او پاکستان کا قیام عمل میں کیوں لایا گیا؟؛ماہنامہ افکار العارف لاہور، جنوری 2023ء، ص43
  22. مضمون: نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں؛ سید نثار علی ترمذی، ص3
  23. ملتان-میں-سالانہ-یوم-حسین-کا-انعقاد، رسا نیوز
  24. مضمون: نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں؛ سید نثار علی ترمذی، ص6
  25. تجمل شگری،آئی ایس او کا تاریخی سفر، اسلام ٹائمز
  26. تجمل شگری،آئی ایس او کا تاریخی سفر، اسلام ٹائمز
  27. سید نثار علی ترمذی،قائد اور آئی ایس او، اسلام ٹائمز
  28. تجمل شگری،آئی ایس او کا تاریخی سفر، اسلام ٹائمز

مآخذ