مندرجات کا رخ کریں

"آیت" کے نسخوں کے درمیان فرق

74 بائٹ کا اضافہ ،  12 دسمبر 2016ء
م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 108: سطر 108:


== دیگر معانی ==
== دیگر معانی ==
آیت کیلئے ایک عام  معنا بیان ہوا ہے جس کے  مطابق آیات الہی ایسے امور ہیں جو خالق کے وجود کے ساتھ قدرت،حکمت ، عظمت اور اس کی دیگر صفات علیا کی گواہی دیتے ہیں۔ اس  لئے تمام خالقین کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
آیت کیلئے ایک عام  معنا بیان ہوا ہے جس کے  مطابق آیات الہی ایسے امور ہیں جو خالق کے وجود کے ساتھ قدرت،حکمت ، عظمت اور اس کی دیگر صفات عُلیا کی گواہی دیتے ہیں۔ اس  لئے تمام خالقین کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
اس لحاظ سے تمام موجودات کیلئے اس استعمال کیا  جاتا ہے ۔ [[قرآن]] کریم اکثر مقامات میں  آفرینشِ جہان  کی  تخلیق  کے بعد  فرماتا ہے : <font color=green>{{حدیث|إِنَّ فی ذلک لآیات}}</font><ref>[[قرآن]] شناسی، ج۱، ص۳۳</ref>
اس لحاظ سے تمام موجودات کیلئے اس استعمال کیا  جاتا ہے ۔ [[قرآن]] کریم اکثر مقامات میں  آفرینشِ جہان  کی  تخلیق  کے بعد  فرماتا ہے : <font color=green>{{حدیث|إِنَّ فی ذلک لآیات}}</font><ref>[[قرآن]] شناسی، ج۱، ص۳۳</ref>


سطر 114: سطر 114:


اصطلاحی اور لغوی معنا کے درمیان مناسبت یہ ہے کہ ایک طرف  آیات [[قرآن]]ی معجزہ ہیں چونکہ کوئی اس کی مانند نہیں لا سکتا ہے   
اصطلاحی اور لغوی معنا کے درمیان مناسبت یہ ہے کہ ایک طرف  آیات [[قرآن]]ی معجزہ ہیں چونکہ کوئی اس کی مانند نہیں لا سکتا ہے   
اس کے لانے والے کی علامت صدق کی جہت سے یہ اہل ذکر کیلئے مایہ عبرت  ،دلیل و برہان پر مشتمل کہ جو انسانوں کیلئے یدایت اور علم ہے نیز علم ، حکمت اور قدرت اور سائر صفات الہی کی بیان گر ہے ۔ <ref>مناهل العرفان فی علوم ال[[قرآن]]، ج۱، ص۳۳۹</ref>
اس کے لانے والے کی علامت [[صدق]] کی جہت سے یہ اہل ذکر کیلئے مایہ عبرت  ،دلیل و برہان پر مشتمل کہ جو انسانوں کیلئے یدایت اور علم ہے نیز علم ، حکمت اور قدرت اور سائر صفات الہی کی بیان گر ہے ۔ <ref>مناہل العرفان فی علوم القرآن، ج۱، ص۳۳۹</ref>


کسی چیز کا آیت ہونا مختلف جہات اور اعتبارا کے لحاظ سے فرق کرتا ہے اور شدت و ضعف کو قبول کرتا ہے۔ مثلا [[قرآن]] کا کچھ حصہ بشر کے مثل لانے سے عاجز ہونے کی بنا پر آیت [[خدا]] ہے۔احکام اور الہی ذمہ داریاں (واجبات و مستحبا....) تقوا کے حصول اور سبب قرب الہی ہونے کی جہت سے آیات الہی ہیں۔خارجی و عینی وجودات اپنے وجود و خصوصیات کے لحاظ سے وجود [[خدا]] پر دلالت کرتے ہیں وہ اس لحاظ سے آیات الہی ہیں ۔ انبیا اور اولیائے الہی اپنے قول و عمل میں لوگوں کی ہدایت کرنے کے لحاظ سے آیات الہی ہیں ۔جیسا کہ [[امام صادق]] اور [[امام رضا]] علیہما السلام سے: <font color=green>{{حدیث|وَعلامات وبِالنَّجمِ هُمْ یهْتَدُون}}</font> کے بارے میں سوال ہوا آپ نے ارشاد فرمایا:
کسی چیز کا آیت ہونا مختلف جہات اور اعتبار  کے لحاظ سے فرق کرتا ہے اور شدت و ضعف کو قبول کرتا ہے۔ مثلا [[قرآن]] کا کچھ حصہ بشر کے مثل لانے سے عاجز ہونے کی بنا پر [[خدا]] کی آیت ہے۔احکام اور الہی ذمہ داریاں (واجبات و مستحبا....) تقوا کے حصول اور قرب الہی کا سبب ہونے کی جہت سے آیات الہی ہیں۔خارجی اور عینی موجودات اپنے وجود اور خصوصیات کے لحاظ سے وجود [[خدا]] پر دلالت کرتے ہیں وہ اس لحاظ سے آیات الہی ہیں ۔ انبیا اور اولیائے الہی اپنے قول و عمل میں لوگوں کی ہدایت کرنے کے لحاظ سے آیات الہی ہیں ۔جیسا کہ [[امام صادق]] اور [[امام رضا]] علیہما السلام سے: <font color=green>{{حدیث|وَعلامات وبِالنَّجمِ هُمْ یهْتَدُون}}</font> کے بارے میں سوال ہوا آپ نے ارشاد فرمایا:
: نجم‌ سے  رسول [[خدا]] (صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور علامات‌ سے [[آئمہ]](ع) مراد ہیں ۔<ref> کلینی،اصول کافی، ج۱، ص۲۰۷؛ طباطبائی، المیزان، ج۱، ص۲۵۰</ref>انبیا کے معجزات اور غیر معمولی افعال کو خاص طور پر آیت کہتے ہیں ۔کیونکہ وہ واضح اور روشن تر قدرت اور عظمت الہی  اور انبیا کے ادعائے نبوت کی صداقت پر دلالت کرتے ہیں ۔<ref>[[قرآن]] شناسی، ج۱، ص۳۳</ref>
: نجم‌ سے  رسول [[خدا]] (صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور علامات‌ سے [[آئمہ]](ع) مراد ہیں ۔<ref> کلینی،اصول کافی، ج۱، ص۲۰۷؛ طباطبائی، المیزان، ج۱، ص۲۵۰</ref>انبیا کے معجزات اور غیر معمولی افعال کو خاص طور پر آیت کہتے ہیں ۔کیونکہ وہ واضح اور روشن تر قدرت اور عظمت الہی  اور انبیا کے ادعائے نبوت کی صداقت پر دلالت کرتے ہیں ۔<ref>[[قرآن]] شناسی، ج۱، ص۳۳</ref>


===  تشریعی اور تکوینی آیات ===
===  تشریعی اور تکوینی آیات ===
آیات الہی کو ابتدائی طور پر  تشریعی‌ اور تکوینی‌ دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
آیات الہی کو ابتدائی طور پر  [[ولایت| تشریعی‌]] اور [[ولایت|تکوینی‌]] دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔


[[قرآن]] کریم و دیگر آسمانی کتابیں [[آیات تشریعی]] ہیں۔<ref>[[قرآن]] شناسی، ج۱، ص۳۳</ref>البتہ بعض آیات [[قرآن]]ی آیات تکوینی کی بیانگر بھی ہیں۔جبکہ بعضی آیات معارف اعتقادی، احکام عملی  اور اخلاقیات پر مشتمل ہیں کہ جو تقرب [[خدا]] حاصل کرنے  کا مایہ ہیں۔<ref>طباطبائی ،المیزان، ج۱۸، ص۱۵۹</ref>
[[قرآن]] کریم و دیگر آسمانی کتابیں [[آیات تشریعی]] ہیں۔<ref>[[قرآن]] شناسی، ج۱، ص۳۳</ref>البتہ بعض آیات [[قرآنی]]  آیات تکوینی کی بیانگر بھی ہیں۔جبکہ بعضی آیات معارف اعتقادی، احکام عملی  اور اخلاقیات پر مشتمل ہیں کہ جو تقرب [[خدا]] حاصل کرنے  کا مایہ ہیں۔<ref>طباطبائی ،المیزان، ج۱۸، ص۱۵۹</ref>


[[آیات تکوینی]] امور عینی اور خارجی امور سے متعلق ہیں جو وجود خارجی کے لحاظ سے توحید ذاتی،توحید خالقی ،اور [[خدا]] کے صفات کمالیہ سے متصف ہونے اور اسکی ذات کے نقص و تنزیہ کی پاکیزگی پر دلالت کرتی ہیں<ref>طباطبائی، المیزان، ج۱۸، ص۱۵۸</ref> که این دسته از آیات الهی باز به دو دسته تقسیم می‌شود: عادی و خارق العاده‍. آیات تکوینی عادی شامل همه پدیده‌های جهان می‌شود، ولی خارق العاده دربردارنده امور خارج از عادات و معجزات پیامبران است.<ref>[[قرآن]] شناسی، ج۱، ص۳۴</ref>
[[آیات تکوینی]] امور عینی اور خارجی امور سے متعلق ہیں جو وجود خارجی کے لحاظ سے [[توحید]] ذاتی،توحید خالقی ،اور [[خدا]] کے صفات کمالیہ سے متصف ہونے اور اسکی ذات کے نقص و تنزیہ کی پاکیزگی پر دلالت کرتی ہیں<ref>طباطبائی، المیزان، ج۱۸، ص۱۵۸</ref> آیات الہی  کی یہ قسم بھی دو: عادی و خارق العاده، میں تقسیم ہوتی ہے. آیات تکوینی عادی جہان کے تمام ہونے والی اشیا کو  شامل ہے لیکن خارق العاده(غیر معمولی)غیر عادی اور خارجی امور اور  انبیا کے معجزات کو شامل ہے۔<ref>قرآن شناسی، ج۱، ص۳۴</ref>


=== آفاقی و انفسی آیات ===
=== آفاقی و انفسی آیات ===
سطر 141: سطر 141:


فلسفے اور علم عرفان میں آیات آفاقی اور انفسی  سے تمسک کرنا محل بحث واقع ہوا ہے۔<ref>الأسفار الأربعه، ج۷، ص۱۴ ; اسرار الآیات، ص۱۶؛ الأسفار الأربعه، ج۷، ص۱۴</ref>
فلسفے اور علم عرفان میں آیات آفاقی اور انفسی  سے تمسک کرنا محل بحث واقع ہوا ہے۔<ref>الأسفار الأربعه، ج۷، ص۱۴ ; اسرار الآیات، ص۱۶؛ الأسفار الأربعه، ج۷، ص۱۴</ref>
==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
{{حوالہ جات|3}}
{{حوالہ جات|3}}
گمنام صارف