مندرجات کا رخ کریں

"جعدہ بنت اشعث" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
imported>Mabbassi
imported>Jaravi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 12: سطر 12:


اسی طرح جعدہ کا کم سے کم 10 سال تک [[حضرت امام حسن]] کے عقد میں رہنا بھی ان روایات کی تضعیف کرتا ہے جن میں امام حسن کو کثرت سے طلاق دینے والا کہا گیا ہے  کیونکہ جعدہ جیسی خاتون کہ جس کا باپ اشعث جو جنگ صفین میں امام علی کے مقابلے آیا ہو اور یہ وہی تھا جو [[معاویہ]] کے نفع میں حکمیت کے مسئلے کو اٹھانے کا باعث بنا اور  [[حضرت علی]] کو مجبور کیا کہ وہ  ابو موسی اشعری کو حکم بنائیں، کیلئے امام حسن کو قتل کرنے کے مقدمات بھی فراہم تھے اسکے علاوہ وہ امام حسن سے صاحب اولاد بھی نہ تھی ان ساری باتوں کے باوجود امام حسن نے اسے طلاق نہیں دی اور وہ انکے حبالۂ عقد میں رہی ۔اس بنا پر کسی یقینی اور قطعی دلیل کے بغیر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امام حسن اتنی آسانی سے ان خواتین کو طلاق دے دیتے تھے جو انکی اولاد کی مائیں تھیں۔
اسی طرح جعدہ کا کم سے کم 10 سال تک [[حضرت امام حسن]] کے عقد میں رہنا بھی ان روایات کی تضعیف کرتا ہے جن میں امام حسن کو کثرت سے طلاق دینے والا کہا گیا ہے  کیونکہ جعدہ جیسی خاتون کہ جس کا باپ اشعث جو جنگ صفین میں امام علی کے مقابلے آیا ہو اور یہ وہی تھا جو [[معاویہ]] کے نفع میں حکمیت کے مسئلے کو اٹھانے کا باعث بنا اور  [[حضرت علی]] کو مجبور کیا کہ وہ  ابو موسی اشعری کو حکم بنائیں، کیلئے امام حسن کو قتل کرنے کے مقدمات بھی فراہم تھے اسکے علاوہ وہ امام حسن سے صاحب اولاد بھی نہ تھی ان ساری باتوں کے باوجود امام حسن نے اسے طلاق نہیں دی اور وہ انکے حبالۂ عقد میں رہی ۔اس بنا پر کسی یقینی اور قطعی دلیل کے بغیر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امام حسن اتنی آسانی سے ان خواتین کو طلاق دے دیتے تھے جو انکی اولاد کی مائیں تھیں۔
=== جعده سے امام حسن کی اولاد ===
=== جعده سے امام حسن کی اولاد ===
تااریخ میں [[حضرت امام حسن]] کی کسی ایسی اولاد کا ذکر نہیں ہوا جن کی ماں جعدہ ہو ۔[[شیخ مفید]] نے حضرت امام کے 8 بیٹے اور 7 بیٹیوں کے نام ذکر کئے ہیں جن میں کسی ایک کی ماں کا نام جعدہ نہیں ہے ۔<ref>شیخ مفید،الارشاد، ج ۲، ص۲۰.</ref>
تاریخ میں [[حضرت امام حسن]] کی کسی ایسی اولاد کا ذکر نہیں ہوا جن کی ماں جعدہ ہو ۔[[شیخ مفید]] نے حضرت امام کے 8 بیٹے اور 7 بیٹیوں کے نام ذکر کئے ہیں جن میں کسی ایک کی ماں کا نام جعدہ نہیں ہے ۔<ref>شیخ مفید،الارشاد، ج ۲، ص۲۰.</ref>


== امام حسن(ع) کا قتل ==
== امام حسن(ع) کا قتل ==
سطر 25: سطر 26:


[[کلینی]] نقل کرتے ہیں کہ [[امام صادق]](ع) فرمایا: ''[[اشعث بن قیس]]  [[امیرالمؤمنین]](ع) کے قتل میں شریک ہے اور اسکی بیٹی جعدہ [[امام حسن]] کو مسموم کیا اشعث کا بیٹا [[امام حسین بن علی]] کے قتل میں شریک ہے ۔.<ref>کافی، ج ۸، ص۱۶۷.</ref>
[[کلینی]] نقل کرتے ہیں کہ [[امام صادق]](ع) فرمایا: ''[[اشعث بن قیس]]  [[امیرالمؤمنین]](ع) کے قتل میں شریک ہے اور اسکی بیٹی جعدہ [[امام حسن]] کو مسموم کیا اشعث کا بیٹا [[امام حسین بن علی]] کے قتل میں شریک ہے ۔.<ref>کافی، ج ۸، ص۱۶۷.</ref>
== امام حسن(ع) کی شہادت کے بعد==
== امام حسن(ع) کی شہادت کے بعد==
ابوالفرج لکھتا ہے : [[معاویہ]] نے مال دینے کے وعدے پر عمل کرتے ہوئے  ایک لاکھ درہم اسے بھجوائے لیکن [[یزید بن معاویہ]] سے اسکی شادی کرنے پر راضی نہ ہوا .<ref>ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۴۸.</ref> [[معاویہ]] اسکے متعلق کہتا :جس نے فرزند رسول کو زہر دینے سے دریغ نہیں کیا اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ یزید کیلئے بھی یہی کام نہ کرے .<ref>شرح نہج البلاغہ، ج ۱۶، ص۱۱.</ref>
ابوالفرج لکھتا ہے : [[معاویہ]] نے مال دینے کے وعدے پر عمل کرتے ہوئے  ایک لاکھ درہم اسے بھجوائے لیکن [[یزید بن معاویہ]] سے اسکی شادی کرنے پر راضی نہ ہوا .<ref>ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۴۸.</ref> [[معاویہ]] اسکے متعلق کہتا :جس نے فرزند رسول کو زہر دینے سے دریغ نہیں کیا اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ یزید کیلئے بھی یہی کام نہ کرے .<ref>شرح نہج البلاغہ، ج ۱۶، ص۱۱.</ref>

نسخہ بمطابق 11:45، 10 اکتوبر 2016ء

جعدہ بنت اشعث بن قیس کندی حضرت امام حسن علیہ السلام کی زوجہ تھی۔ اس سے حضرت امام حسن کی کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔ اس نے معاویہ کے اکسانے پر حضرت امام حسن کو زہر دیا ۔حضرت امام حسن سے اس کی ازدواج کیوں اور کیسے کے متعلق مختلف روایات مذکور ہیں ۔

نام‌، ولادت ، نسب

تاریخ میں اسکی ولادت کے متعلق کچھ ذکر نہیں ہے البتہ اس کے نسب میں اس کے باپ کا نام اشعث بن قیس کِندی مذکور ہے جو اسلام کے ابتدائی سالوں میں ایک جانا پہچانا چہرہ تھا اور اس کی ماں کا نام ام فروة آیا ہے جو ابوبکر کی بہن تھی۔[1]

ابوالفرج اصفہانی کے مطابق سکینہ'، شعثاء و عائشہاسکے نام تھے لیکن اس کا اصلی نام جُعده تھا .[2] حضرت امام حسن کی شہادت کے بعد اس کے بیٹوں کو بنی مسمہ الازواج( اپنے شوہروں کو زہر دینے والی کی اولاد) کہا جاتا تھا ۔[3]

امام حسن سے ازدواج

بلاذری اس شادی کے متعلق لکھتا ہے : امام علی(ع) نے امام حسن کیلئے سعید بن قیس کی بیٹی ام عمران کا رشتہ طلب کیا تو سعید نے اپنے بھائی اشعث بن قیس سے مشورہ کیا . اشعث نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سعید سے کہا :بہتر نہیں کہ تم ام عمران کو میرے بیٹے محمد سے بیاہ دو؟ اشعث بن قیس نے پھر حضرت علی کو حضرت امام حسن کیلئے اپنی بیٹی جعدہ کی تجویز دی .[4]

تاریخی روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام حسن(ع) کی جعده کی شادی کوفہ میں انجام پائی کیونکہ بعض روایات کے مطابق اشعث حضرت علی کو امیر المومنین کہہ کر خطاب کرتا ہے [5] نیز اشعث عثمان کے دور خلافت میں آذربایجان کا حاکم تھا اور جنگ جمل کے بعد اسے معزول کیا گیا اور وہ کوفہ میں آ گیا. ان قرائن کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ ازدواج کوفہ میں انجام پائی ۔جو ۳۶ تا ۴۰ هجری کے درمیان ہوئی کہ جب امام علی کوفہ میں تھے .

حضرت امام علی کا کوفے میں حضرت امام حسن کی شادی کیلئے کسی سے خود رشتہ طلب کرنا اس اعتراض کو نہایت کمزور کر دیتا ہے کہ حضرت امام حسن شادیاں کرتے اور پھر اپنی بیویوں کو طلاق دے دیتے اور حضرت علی اس وجہ سے امام حسن سے ناراض تھے اور کوفے کے لوگوں سے اس بات کے متمنی تھے کہ وہ حسن سے اپنی بیٹیوں کی شادی نہ کریں۔

اسی طرح جعدہ کا کم سے کم 10 سال تک حضرت امام حسن کے عقد میں رہنا بھی ان روایات کی تضعیف کرتا ہے جن میں امام حسن کو کثرت سے طلاق دینے والا کہا گیا ہے کیونکہ جعدہ جیسی خاتون کہ جس کا باپ اشعث جو جنگ صفین میں امام علی کے مقابلے آیا ہو اور یہ وہی تھا جو معاویہ کے نفع میں حکمیت کے مسئلے کو اٹھانے کا باعث بنا اور حضرت علی کو مجبور کیا کہ وہ ابو موسی اشعری کو حکم بنائیں، کیلئے امام حسن کو قتل کرنے کے مقدمات بھی فراہم تھے اسکے علاوہ وہ امام حسن سے صاحب اولاد بھی نہ تھی ان ساری باتوں کے باوجود امام حسن نے اسے طلاق نہیں دی اور وہ انکے حبالۂ عقد میں رہی ۔اس بنا پر کسی یقینی اور قطعی دلیل کے بغیر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امام حسن اتنی آسانی سے ان خواتین کو طلاق دے دیتے تھے جو انکی اولاد کی مائیں تھیں۔

جعده سے امام حسن کی اولاد

تاریخ میں حضرت امام حسن کی کسی ایسی اولاد کا ذکر نہیں ہوا جن کی ماں جعدہ ہو ۔شیخ مفید نے حضرت امام کے 8 بیٹے اور 7 بیٹیوں کے نام ذکر کئے ہیں جن میں کسی ایک کی ماں کا نام جعدہ نہیں ہے ۔[6]

امام حسن(ع) کا قتل

سنی اور شیعہ تاریخی روایات کی بنا پر امام حسن مجتبی کی شہادت کا سبب جعدہ ہے۔ ابن عبدالبر سے سخاوی نقل کرتا ہے : جعده نے اپنے سینے میں امام حسن کے خلاف موجود کینے کی وجہ سے امام حسن کو مسموم کیا .[7]

شیعہ منابع کے بقول معاویہ نے جعدہ کو اس کام کیلئے اکسایا۔اس نے درہم ودینار کا لالچ اور یزید بن معاویہ سے شادی کرنے کا چکمہ دیا [8]

بعض نے لکھا کہ امام حسن کو مسموم کرنے کیلئے خود معاویہ نے جعدہ کو زہر دیا ۔[9]

قطب راوندی نے روایت نقل کی ہے کہ زہر آلود شربت پینے کے بعد امام حسن نے جعدہ پر لعن و نفرین کیا .[10]

کلینی نقل کرتے ہیں کہ امام صادق(ع) فرمایا: اشعث بن قیس امیرالمؤمنین(ع) کے قتل میں شریک ہے اور اسکی بیٹی جعدہ امام حسن کو مسموم کیا اشعث کا بیٹا امام حسین بن علی کے قتل میں شریک ہے ۔.[11]

امام حسن(ع) کی شہادت کے بعد

ابوالفرج لکھتا ہے : معاویہ نے مال دینے کے وعدے پر عمل کرتے ہوئے ایک لاکھ درہم اسے بھجوائے لیکن یزید بن معاویہ سے اسکی شادی کرنے پر راضی نہ ہوا .[12] معاویہ اسکے متعلق کہتا :جس نے فرزند رسول کو زہر دینے سے دریغ نہیں کیا اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ یزید کیلئے بھی یہی کام نہ کرے .[13]

حضرت امام حسن کی شہادت کے بعد جعدہ کی زندگی کے متعلق مذکور ہوا ہے کہ اس نے دو دفعہ شادی کی ۔پہلی شادی یعقوب بن طلحہ بن عبیدالله سے کی۔ [14] اس سے اسماعیل، اسحاق اور ابوبکر نام کے بیٹے تھے جن میں سے سے اسماعیل اور اسحاق اپنے باپ کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے .[15] 63ق میں یعقوب بن طلحہ کے واقعہ حرہ [16] میں قتل ہونے کے بعد عبد اللہ بن عباس کے بڑے بیٹے عباس بن عبدالله بن عباس سے شادی کی اور اس سے محمد اور قریبہ نام کی بیٹی کی ماں بنی ۔ان دونوں سے اس کی نسل ہوئی لیکن وہ بھی باقی نہ رہی.[17]

نجاشی کے اشعار

شیعہ شاعر قیس بن عمرو بن مالک معروف نجاشی نے جعدہ کی نکوہش میں قصیدہ کہا جس کی طرف تاریخی کتب میں اشارہ ملتا ہے .[18]

کتابیات

  1. کتاب الفتوح، ج ۱، ص۶۸.
  2. مقاتل الطالببین، ص۳۲.
  3. الارشاد، ج ۲، ص۱۶. شرح نہج البلاغہ، ج ۱۶، ص۴۹.
  4. بلاذری ،انساب الاشراف، ج ۳، ص۱۴ و ۱۵.
  5. ر.ک: ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج ۹، ص۱۳۸-۱۳۹.
  6. شیخ مفید،الارشاد، ج ۲، ص۲۰.
  7. التحفہ اللطیفہ، ج ۱، ص۲۸۳.
  8. الارشاد، ج ۲، ص۱۶.
  9. طبرسی،الاحتجاج، ج ۲، ص۱۳.
  10. راوندی، الخرائج و الجرائح، ج ۱، ص۲۴۲.
  11. کافی، ج ۸، ص۱۶۷.
  12. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۴۸.
  13. شرح نہج البلاغہ، ج ۱۶، ص۱۱.
  14. انساب الاشراف، ج ۳، ص۱۵.
  15. طبقات کبری، ج ۵، ص۱۶۵.
  16. زرکلی ،الاعلام، ج ۸، ص۱۹۹. الثقات، ج ۵، ص۵۵۳.
  17. ابن سعد،طبقات کبری، ج ۵، ص۳۱۵.
  18. ابن عساکر ،تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۳، ص۲۸۴. تہذیب الکمال، ج۶، ص۲۵۳.

مصادر

  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ،‌دار احیاء الکتب العربیہ، ۱۳۷۸ق.
  • ابن اعثم، احمد، کتاب الفتوح، دارالاضواء، ۱۴۱۱ هـ.
  • ابن حبان، محمد، الثقات، حیدر آباد ہند، مجلس دائرة المعارف العثمانیہ، ۱۳۹۳ق.
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت،‌دار صادر، بی‌تا.
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۵ق.
  • اصفہانی، ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، نجف، مکتبہ الحیدریہ، ۱۳۸۵ق.
  • راوندی، قطب الدین، الخرائج و الجرائح، قم، مؤسسہ الامام المہدی، ۱۴۰۹ق.
  • زرکلی، خیرالدین، الاعلام، بیروت،‌دار العلم للملایین، ۱۹۸۰ م.
  • سخاوی، محمد بن عبدالرحمن، التحفہ اللطیفہ فی تاریخ المدینہ الشریفہ، بیروت،‌دار الکتب العلمیہ، بی‌تا.
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، نجف،‌دار النعمان، ۱۳۸۶ق.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران،‌دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۳ ش.
  • مزی، یوسف، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، بیروت، مؤسسہ الرسالہ، ۱۴۰۶ق.
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفہ حجج الله علی العباد، بیروت،‌دار المفید، ۱۴۱۴ق.