ابن ولید قمی

ویکی شیعہ سے
(محمد بن حسن بن احمد سے رجوع مکرر)
ابن ولید قمی
کوائف
مکمل نامابو جعفر محمد بن‌ حسن بن‌ احمد
لقب/کنیتشیخ القمیین
تاریخ ولادتتقریبا سنہ 270 ھ
آبائی شہرقم
تاریخ وفاتسنہ 343 ھ
علمی معلومات
اساتذہمحمد بن حسن صفار، سعد بن عبد اللہ اشعری، احمد بن ادریس قمی، عبد اللہ بن جعفر حمیری، محمد بن یحیی عطار، محمد بن ابی القاسم ماجیلویہ، علی بن ابراہیم قمی۔
شاگردابن بابویہ، ابن ابی جید، احمد بن شاذان، ابن قولویہ، ابن داوود قمی، سلامہ بن محمد ارزنی۔
تالیفاتالجامع، تفسیر القرآن، الفہرست۔
خدمات


محمد بن حسن بن احمد (270ـ343 ھ)، اِبْن وَلید قُمی کے نام سے معروف امامیہ محدث اور فقیہ ہیں۔ جو نبی اور امام سے سہو واقع نہ ہونے کے عقیدہ کو غلو کے ابتدائی درجات میں شمار کرتے ہیں۔

ولادت اور محل زندگی

ان کی تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے۔ لیکن چونکہ انہوں نے محمد بن حسن صفار قمی (متوفی 290 ھ) سے بہت زیادہ روایات نقل کی ہیں[1] اور دوسری طرف ان کے احمد بن ابی عبد اللہ برقی (متوفی 280 ھ کے بعد) سے بلا واسطہ روایت نقل نہ کرنے کے قرینہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی ولادت سن 270 ھ کے قریب ہوئی ہوگی۔

نجاشی[2] کی عبارت کے پیش نظر جس میں انہوں نے انہیں شیخ القمیین کا نام دیا ہے اور ان کے مشایخ اور شاگردوں کے سلسلہ میں تحقیق سے نتجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ابن ولید قمی نے اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ قم میں ہی گذارا ہے۔

مشایخ

ان سے روایت کرنے والے

ہارون بن موسی تلعکبری نے بھی خط کے ذریعہ ابن ولید قمی سے اجازہ روایت حاصل کیا ہے۔[5]

علم رجال میں مقام و مرتبہ

علم رجال کے مصادر میں حدیث، فقہ اور رجال میں ان کی وثاقت اور تبحر کے سلسلہ میں تاکید کی گئی ہے۔[6]

علم رجال سے متعلق نظریات

ظاہرا ابن ولید رجال و اشخاص کی جرح و تعدیل اور نقد احادیث میں خاص روش کے حامل تھے اور بعض روایات یا کتب روایی کے جعلی ماننے یا دوسرے اسباب کی بناء پر ان سے پرہیز کرتے تھے۔[7]

ابن ولید قمی غلو کے بارے میں خاص آرا و نظریات رکھتے تھے۔ انہوں نے غلو کے مفہوم کو اس حد تک وسعت دے دی کہ حتی نبی و امام کے سلسلہ میں سہو واقع نہ ہونے کے عقیدہ کو بھی غلو کے ابتدائی درجات میں شمار کرتے تھے۔[8]

اس بات کے مد نظر کہ انہوں نے نوادر الحکمہ کی نوادر روایات کو قبول نہیں کیا،[9] اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شاید وہ اس سلسلہ میں اصالۃ العدالہ کے قائل نہیں تھے۔

اس سلسلہ میں کہ کیا انہوں نے ان نظریات کو قم میں خود سے رواج دیا یا انہوں نے اسے گذشتہ علماء سے اخذ کیا ہے، یہ بات تحقیق طلب ہے۔ لیکن بہر حال بعض اہل قم نے جیسے محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی اور حتی بعض دوسرے موارد میں اہل عراق نے جیسے ابن نوح سیرافی، شیخ طوسی و نجاشی نے راویوں کی جرح و تعدیل میں ان کی پیروی کی ہے۔[10]

اولاد

ابن ولید قمی کے ایک بیٹے کا نام ابو الحسن احمد ہے جنہوں نے اپنے والد سے حدیث نقل کی ہے اور شیخ مفید، حسین بن عبید اللہ غضائری اور ابن عبدون نے ان سے روایت نقل کی ہے۔[11]

احمد ظاہرا بغداد میں رہائش پذیر تھے اور جیسا کہ ابو بکر بغدادی جنہوں نے امام زمانہ (ع) کی نیابت کا دعوی کیا تھا، سے نقل ہوا ہے کہ وہ اپنے والد اور دیگر جماعت کی طرف سے بصرہ میں بھی حاضر ہوا کرتے تھے۔[12]

آثار

ابن ولید قمی نے تین کتابیں تالیف کی ہیں جن میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے:

  • الجامع:[13] ابن بابویہ نے کتاب من لا یحضرہ الفقیہ کے مقدمہ میں[14] اس کتاب کو اپنے مصادر و مآخذ میں ذکر کرنے کے ضمن میں اس کتاب کو حدیث کے سلسلہ میں محدثین کے پاس موجود کتابوں میں سے اصلی ترین و مرجع کتاب کے طور پر متعارف کرایا ہے اور اگر چہ محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی کے آثار میں اس کتاب کا نام تصریح کے ساتھ محض چند جگہوں پر ذکر ہوا ہے[15] لیکن ممکن ہے کہ بہت سی روایات اس کتاب سے ماخوذ ہوں اور اس کے نسخے سن 7 ہجری تک اور شاید اس کے بعد بھی مدتوں تک موجود رہے ہوں۔[16]
  • تفسیر القرآن؛[17]
  • الفہرست: جو نجاشی کی کتاب رجال اور شیخ طوسی کی کتاب الفہرست میں[18] مورد استفادہ رہی ہے۔

حوالہ جات

  1. ابن بابویہ، مشیخہ، ۴۳۴
  2. نجاشی، رجال، ص.۳۸۳
  3. ابن بابویہ، الخصال، ۲۱ ؛ ابن بابویہ، مشیخہ، ص ۵۱۵؛ نجاشی، رجال، ص۸؛ طوسی، الفہرست، ص۷۶،۸۹، ۱۰۲
  4. ابن قولویہ، کامل الزیارات، ص۱۵؛ ابن بابویہ، الخصال، ص ۲۱ ؛ ابن بابویہ، مشیخہ، ص ۵۱۵ ؛ ابن شاذان، مائہ منقبہ، ص۹۷؛ نجاشی، رجال، ص۶۰، ۱۹۲؛ طوسی، الفہرست، ص۱۵۶.
  5. طوسی، الرجال، ص۴۹۵؛ طبری، دلائل الامامہ، ص۱۴۱، ۱۴۳، ۱۸۷.
  6. نجاشی، رجال، ص۳۸۳؛ طوسی، الفہرست، ص۱۵۶ ؛ طوسی، الرجال، ص۴۹۵؛ ابن داوود، الرجال، ص۳۸۳-۳۸۴.
  7. نجاشی، رجال، ص۳۲۹، ۳۵۴، ۳۷۳؛ طوسی، الفہرست، ص۷۱، ۷۶، ۱۴۳، ۱۴۶.
  8. ابن بابویہ، فقیہ، ج۱، ص۳۶۰ ؛ مفید، تصحیح الاعتقاد، ص۶۳-۶۶
  9. نجاشی، رجال، ص۳۴۸؛ طوسی، الفہرست، ص۱۴۵
  10. ابن بابویہ، فقیہ، ج ۲، ص ۹۰ ـ ۹۱ ؛ نجاشی، رجال، ص۳۱۶، ۳۲۹، ۳۴۸؛ طوسی، الرجال، ص ۴۴۷، ۴۶۹ ؛ طوسی، الفہرست، ص ۱۴۵
  11. مفید، الامالی، ص۱، ۱۱-۱۲؛ طوسی، مشیخہ، ص ۵۸، ۶۴-۶۵
  12. طوسی، الغیبہ، ص۲۵۵
  13. ابن ندیم، الفہرست، ص۲۷۹؛ نجاشی، رجال، ص۳۸۳؛ طوسی، الفہرست، ص۱۵۶
  14. ج ۱، ص ۴
  15. التوحید، ص ۲۲۶
  16. ابن طاووس، الاقبال، ص ۱۱ ؛ ابن طاووس، فرج المہموم، ص ۱۳۹ ؛ آقا بزرگ، ج ۵، ص ۲۹
  17. ابن ندیم، الفہرست، ص۲۷۹؛ نجاشی، ص۳۸۳؛ طوسی، الفہرست، ص۱۵۶
  18. ص ۳۳

مآخذ

  • آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، چاپ علی ‌نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت، ۱۴۰۳ق
  • ابن بابویہ، محمد بن علی، التوحید، بہ کوشش ہاشم حسینی طہرانی، تہران، ۱۳۸۷ق
  • ابن بابویہ، محمد بن علی، الخصال، بہ کوشش علی‌ اکبر غفاری، تہران، ۱۳۸۹ق
  • ابن بابویہ، محمد بن علی، کتاب من لایحضره الفقیہ، بہ کوشش علی‌ اکبر غفاری، تہران، ۱۳۹۰ق
  • ابن بابویہ، محمد بن علی، مشیخہ، ہمراه ج۴ فقیہ
  • ابن داوود حلی، حسن بن علی، الرجال، بہ کوشش جلال ‌الدین محدث، تہران، ۱۳۴۲ش
  • ابن شاذان، احمد بن محمد، مائہ منقبہ، بہ کوشش نبیل رضا علوان، بیروت، ۱۴۰۹ق
  • ابن طاووس، علی بن موسی، الاقبال، تہران، ۱۳۲۰ق
  • ابن طاووس، علی بن موسی، فرج المہموم، نجف، ۱۳۶۸ق
  • ابن قولویہ، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، بہ کوشش عبد الحسین امینی، نجف، ۱۳۵۶ق
  • ابن ندیم، ابو الفرج محمد بن ابی یعقوب اسحاق، الفہرست، تحقیق رضا تجدد، تہران، ۱۳۵۰ش
  • دلائل الامامہ، منسوب بہ ابن رتم طبری، نجف، ۱۳۸۳ق
  • طوسی، محمد بن حسن، الرجال، بہ کوشش محمد صادق بحر العلوم، نجف، ۱۳۸۱ق/۱۹۶۱ع
  • طوسی، محمد بن حسن، الغیبہ، نجف، ۱۳۸۵ق
  • طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، بہ کوشش محمد صادق بحر العلوم، نجف، کتابخانۀ مرتضویہ
  • طوسی، محمد بن حسن، مشیخہ، ہمراه ج۱۰، تہذیب الاحکام، بہ کوشش حسن موسوی خرسان، نجف، ۱۳۸۲ق/۱۹۶۳ ع
  • مفید، محمد بن محمد، الامالی، بہ کوشش حسین استاد ولی و علی‌ اکبر غفاری، قم، ۱۴۰۳ق
  • مفید، محمد بن محمد، تصحیح الاعتقاد، ہمراه اوائل المقالات، بہ کوشش زنجانی و چرندابی، تبریز، ۱۳۷۱ق
  • نجاشی، احمد بن علی، الرجال، بہ کوشش موسی شبیری زنجانی، قم، ۱۴۰۷ق