محمد تقی شیرازی کا فتوائے جہاد
محمد تقی شیرازی کا فتوائے جہاد یا دفاع کا فتویٰ ایک مشہور فتویٰ تھا جوسنہ 1920ء میں انگریزوں کے عراق پر قبضے کی مخالفت میں جاری کیا گیا۔ اس فتوے میں انہوں نے قابضین کی جانب سے عوامی مطالبات ماننے سے انکار کرنے کی صورت میں برطانیہ کے خلاف طاقت کے استعمال کو جائز قرار دیا۔ آیت اللہ شیرازی کے فتوے کی پیروی کرتے ہوئے بعض دوسرے علما نے بھی جہاد کا حکم دے دیا۔
پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ کا عراق پر قبضہ اور اپنی تسلط کا اعلان نیز قابضین کی طرف سے خطے کی خودمختاری کی مخالفت نے جہاد کا فتوا دینے کی راہ ہموار کی۔ کہا جاتا ہے کہ اس حکم کا مقصد تمام عراقی قبائل کو انگریزوں کا مقابلہ کرنے کی ترغیب دینا تھا۔
اس فتویٰ کے بعد انگلستان کے خلاف جہاد پھیل گیا اور خطے میں ثورۃ العشرین کا باعث بنا۔ کہا جاتا ہے کہ محمد تقی شیرازی کے جہاد کے فتوے نے عراق کی آزادی میں موثر کردار ادا کیا۔ اس فتویٰ کے علاوہ آیت اللہ شیرازی نے خطے میں برطانوی مفادات کے خلاف ایک اور فتویٰ بھی جاری کیا اور مختلف مسلمان علاقوں کو خطوط بھیجے جس میں برطانیہ کے خلاف مزاحمت کی ضرورت پر زور دیا۔
اہمیت
محمد تقی شیرازی کی طرف سے جہاد کا فتویٰ عراق میں برطانوی استعمار کا مقابلہ کرنے کا ایک مشہور[1] اور تاریخی[2] فتویٰ تھا۔ یہ فتویٰ برطانوی قابضین کے خلاف سنہ 1920ء میں سب سے اہم عوامی انقلاب یعنی ثورۃ العشرین[3] اور ملکی تاریخ میں ایک بڑی تبدیلی کا باعث بنا۔[4] کہا جاتا ہے کہ یہ فتوی ایک چونکا دینے والا اور اشتعال انگیز حکم تھا جس نے عراق اور پڑوسی ممالک کے عوام کی تقدیر کو متاثر کیا اور سامراج کو خوفزدہ کردیا۔[5] یہاں تک کہ کہا گیا ہے کہ اس فتوی نے عظیم تحریک کی بنیاد ڈالی، عراقی انقلاب کی مرکزیت کو تشکیل دیا[6] اور اس ملک کی آزادی میں بہت زیادہ اثر ڈالا۔[7]
«مطالبۃ الحقوق واجبۃ علی العراقیین و یجب علیہم فی ضمن مطالباتہم رعایۃ السلم و الامن و یجوز لہم التوسل بالقوۃ الدفاعیۃ اذا امتنع انگلیز عن قبول مطالبہم»[8]
عراقی عوام پر واجب ہے کہ وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کریں اور ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے اقدام کرتے ہوئے امنیت اور آرامش کی رعایت کریں اور اگر انگریز عوام کے مطالبات ماننے سے انکار کریں تو عوام کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لئے طاقت کا استعمال کریں۔[9]
اس فتوا کو فتوائے جہاد کے علاوہ [10]دفاع کا فتویٰ بھی کہا جاتا ہے۔[11] بہت سے علماء نے آیت اللہ شیرازی کے فتوے کی پیروی کی اور ان میں سے بعض نے انگلستان کے خلاف دوسرے فتوے بھی جاری کیے۔[12] اس فتویٰ کے اجراء کے چار ماہ بعدمحمد تقی شیرازی انتقال کر گئے لیکن عراقی عوام کی تحریک اور انقلاب میں کوئی خلل نہیں پڑا۔[13]
کتاب المفصل فی تاریخ النجف الاشرف کے مصنف حسن عیسیٰ حکیم کا کہنا ہے کہ محمد تقی شیرازی نے اپنے فتویٰ میں جہاد کی حقیقت اور اس کے ضروری اصول و شرائط کو بھی واضح طور پر بیان کیا ہے۔[14] اس فتویٰ کے علاوہ مرزا تقی شیرازی نے اسلامی ممالک کے مسلمانوں کو متعدد خطوط بھیجے جن میں انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی اپیل کی اور انہیں اسلامی سرزمین سے بے دخل کرنا واجب ہونے پر زور دیا۔[15]

شخصیت شناسی
مرزا محمد تقی شیرازی (1256-1388ھ) جسے مرزائے ثانی بھی کہا جاتا ہے، عراق میں مقیم ایک مشہور شیعہ عالم اور برطانوی استعمار کے خلاف ہونے والے قیام کے سربراہ تھے۔[16] مرزائے ثانی اپنے زمانے میں شیعہ مرجع تقلید تھے۔[17]
انہوں نے اسلامی دنیا کے سیاسی واقعات؛ جیسے 1911ء میں لیبیا پر اطالوی حملہ اور 1912ء میں ایران پر روسی حملہ جیسے واقعات میں فیصلہ کن موقف اپنایا؛[18] چانچہ انہوں نے عراق میں برطانیہ کے خلاف کئی دوسرے فتوے بھی جاری کیے؛[19] مرزا محمد تقی 13 ذی الحجہ 1338 ہجری کو انگریزوں کے خلاف عراقی عوام کی تحریک کے دوران وفات پاگئے اور کربلا میں دفن ہوئے۔[20]
فتویٰ جاری کرنے کی وجوہات
پہلی جنگ عظیم شروع ہونے کے ساتھ ہی انگریزوں نے جرمن اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے ایک بڑی فوجی قوت کے ساتھ عراق پر حملہ کیا جو کہ سلطنت عثمانیہ کے ماتحت تھا، اور شہر فاؤ اور پھر بصرہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔[21] برطانوی فوجی مداخلت نے عراقی عوام کو اسلامی سرزمینوں پر کافروں کے تسلط اور دولت و ثروت نیز تیل کے ذخائر کی لوٹ مار سے پریشان کردیا۔ انہوں نے مذہبی رہنماؤں کی طرف رجوع کیا اور ان سے جہاد کا اعلان کرنے کا تقاضا کیا۔[22] عثمانی حکومت نے بھی شیعہ علماء سے مدد طلب کی۔[23]
کچھ عراقی علماء جیسے مرزا محمد تقی شیرازی،،[24] سید مصطفی کاشانی، سید محمدکاظم یزدی اور شیخ الشریعہ اصفہانی نے برطانوی قابض افواج کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور بصرہ کے اطراف کے قبائل کو خطوط بھیج کر انگریزوں کے خلاف دفاع کرنے کی درخواست کی۔ جس کی وجہ سے عراقی عوام بڑی تعداد میں محاذ جنگ پر پہنچ گئے۔[25] علمائے کرام کی قیادت میں عوامی محاذ برطانوی فوج کو 18 ماہ تک روکنے میں کامیاب رہا؛[26] لیکن جنگ عظیم میں اتحادیوں کی کامیابی، جرمنی کی شکست، اور عثمانی حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں برطانیہ نے عراق پر قبضہ کر لیا۔[27]
سنہ 1920ء میں یورپ میں سان ریمو معاہدے کے تحت عراق برطانوی سرپرستی کے تحت آیا جب کہ قابضین نے عراق کی آزادی کو تسلیم کرنے کے وعدے کیے تھے۔[28] آیت اللہ محمد تقی شیرازی، جو آیت اللہ سید محمد کاظم یزدی کی مرجعیت کے بعد شیعہ مرجع تقلید بنے تھے[یادداشت 1] نے برطانوی تسلط کی شدید مخالفت کی۔ انہوں نے تنظیم جمعیت اسلامی عراق جو برطانوی قیمومیت سے لڑنے اور عراق کی آزادی کی جدوجہد کے لیے قائم کی گئی تھی، کی حمایت میں ایک واضح فتویٰ جاری کیا، اور مسلمانوں پر غیر مسلموں کی سرپرستی کو جائز نہیں سمجھا۔[29] کربلا کے 17 علماء نے اس دستاویز پر دستخط کیے اور اسے شہروں میں تقسیم کیا اور لوگوں کو آزادی کی دعوت دی۔[30]
یہ مسئلہ کربلا سمیت مختلف شہروں میں عوامی احتجاج کا باعث بنا۔[31] مظاہروں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے برطانیہ نے مرزا محمد تقی شیرازی کے بیٹے محمد رضا شیرازی سمیت کئی دوسرے مخالفین کو گرفتار کر کے ہندوستان جلاوطن کر دیا۔[32] قبائلی سرداروں اور عرب رہنماؤں نے سید ابوالقاسم کاشانی کی دعوت پر ایک اجلاس بلایا اور انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔[33] آیت اللہ شیرازی نے بھی اپنے ایک بیان میں عراقی عوام سے مخاطب ہوکر ان سے آزادی اور اسلامی حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد کا مطالبہ کیا۔[34] برطانیہ اور بعض عراقی قبائل کے درمیان ابتدائی فوجی کشمکش کے بعد، سید ابوالقاسم کاشانی نے آیت اللہ شیرازی سے عام جہاد کا اعلان کرنے کی درخواست کی اور اس وقت محمد تقی شیرازی نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔[35]
- مزید معلومات کے لئے دیکھئے: 1920 کا عراقی انقلاب
اہداف اور نتائج
اس فتویٰ کے جاری کرنے کا مقصد تمام عراقی قبائل کو انگریزوں سے مقابلہ کرنے کی ترغیب دینا تھا۔[36] محمد تقی شیرازی کی طرف سے انگلستان کے خلاف جہاد کا حکم دینے کے بعد انگریزوں کے خلاف جہاد عام ہو گیا[37] اور قبائلی رہنماؤں نے انگلستان سے تعلقات ختم کرنے اور انقلاب شروع کرنے کا اعلان کر دیا اور آخر کار 30 جون 1920ء کو فرات اوسط کے علاقے سے انقلاب کا آغاز ہوا اور پورے عراق میں پھیل گیا۔[38] آیت اللہ شیرازی کی طرف سے جہاد کا فتویٰ اور عراق کی آزادی کے مطالبے نے شیعہ اور اہل سنت کو قابضین کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے کردیا؛[39] تاہم، بعض کا کہنا ہے کہ زیادہ تر اہل سنت قبائل اس تحریک میں شامل نہیں ہوئے۔[40] کہا جاتا ہے کہ جہاد کے فتوے کے اثرات نہ صرف عراق بلکہ بعض پڑوسی علاقوں پر بھی پڑے۔[41]
بالآخر، یہ انقلاب 170 دنوں کے بعد[42] انسانی قوت اور مالی وسائل کی کمی اور غیر ملکی امداد نہ ہونے کے باعث اور برطانوی بہت بڑی لشکر اور بھاری فوجی ساز و سامان کی وجہ سے رک گیا؛[43] لیکن کچھ عراقی قبائل نے انگریزوں کے خلاف اپنی مسلح جدوجہد جاری رکھی، جس نے دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا اور بالآخر وہ عراقی عوام کی مرضی اور عراقی آزادی کو قبول کرنے پر مجبور ہوئے۔[44]
حوالہ جات
- ↑ امین، أعیان الشیعۃ، 1403شمسی، ج9، ص192.
- ↑ عقیقی بخشایشی، فقہای نامدار شیعہ، 1372شمسی، ص236؛ جمعی از محققین پژوہشکدہ باقرالعلوم(ع)، گلشن ابرار، 1393شمسی، ص648-649.
- ↑ غروی، مع علماء النجف الأشرف، 1420ھ، ج2، ص8؛ ممند صالح و علی پرغو، «بررسی حیات سیاسی محمد تقی شیرازی (میرزای شیرازی) و نقش ایشان در انقلاب شیعیان عراق»؛ الوردی، تاریخ عراق، 1391شمسی، ج3، ص652.
- ↑ غروی، مع علماء النجف الأشرف، 1420ھ، ج2، ص40؛ دادفر، «تحول و دگردیسی در نمای جامعہ شناختی شیعیان عراق در قرن بیستم (علل - پیامدہا)»، ص162-166.
- ↑ عقیقی بخشایشی، فقہای نامدار شیعہ، 1372شمسی، ص330.
- ↑ عقیقی بخشایشی، فقہای نامدار شیعہ، 1372شمسی، ص236-237.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، طبقات أعلام الشیعۃ، 1430ھ، ج13، ص262؛ غروی، مع علماء النجف الأشرف، 1420ھ، ج2، ص8.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، طبقات أعلام الشیعۃ، 1430ھ، ج13، ص263؛ زرکلی، الأعلام، 1989م، ج6، ص64؛ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، 1427ھ، ج7، ص221.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص67.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص67.
- ↑ جمعی از محققین پژوہشکدہ باقرالعلوم(ع)، گلشن ابرار، 1393شمسی، ص650؛ «میرزا محمدتقی شیرازی»، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ؛ «کولاک میرزای شیرازی در کربلا»، ایسنا.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص67.
- ↑ عقیقی بخشایشی، فقہای نامدار شیعہ، 1372شمسی، ص237.
- ↑ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، 1427ھ، ج7، ص221.
- ↑ «کولاک میرزای شیرازی در کربلا»، ایسنا.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، طبقات أعلام الشیعۃ، 1430ھ، ج13، ص261؛ زرکلی، الأعلام، 1989م، ج6، ص63؛ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، 1427ھ، ج7، ص220.
- ↑ امین، أعیان الشیعۃ، 1403شمسی، ج9، ص192؛ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، 1427ھ، ج7، ص220.
- ↑ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، 1427ھ، ج7، ص220.
- ↑ زرکلی، الأعلام، 1989م، ج6، ص64.
- ↑ امین، أعیان الشیعۃ، 1403شمسی، ج9، ص192؛ آقا بزرگ تہرانی، طبقات أعلام الشیعۃ، 1430ھ، ج13، ص263؛ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، 1427ھ، ج7، ص222.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص19؛ الوردی، تاریخ عراق، 1391شمسی، ج3، ص650.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص19.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص19.
- ↑ الوردی، تاریخ عراق، 1391شمسی، ج3، ص650.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920میلادی عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص22.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920م. عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص27.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص35-36.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص55.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص56؛ «مروری بر مبارزات میرزای شیرازی دوم علیہ انگلیسیہا، فتواہایی کہ کمر استعمار را درعراق شکست»، موسسہ فرہنگی ہنری خراسان.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص56.
- ↑ الوردی، تاریخ عراق، 1391شمسی، ج3، ص652؛ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص61.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص61.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص61.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص63.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920میلادی عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص65-67.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص67.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص67.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص68-99.
- ↑ الوردی، تاریخ عراق، 1391شمسی، ج3، ص652.
- ↑ ویلی، نہضت اسلامی شیعیان عراق، 1373شمسی، ص35.
- ↑ الرہیمی، تاریخ جنبش اسلامی در عراق، 1390شمسی، ص215.
- ↑ الوردی، تاریخ عراق، 1391شمسی، ج3، ص653.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص99-101.
- ↑ صادقی تہرانی، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، 1390شمسی، ص114-116.
نوٹ
- ↑ کہا گیا ہے کہ دوسرے مراز کی مرجعیت کے ساتھ پہلی بار مرجعیت اور سیاسی قیادت دونوں ایک شخص کے اختیار میں آگئے، جو کہ انقلاب کی قیادت میں ایک اہم موڑ تصور کیا جاتا تھا۔ (الوردی، تاریخ عراق، 1391شمسی، ج3، ص652.)
مآخذ
- امین، محسن، أعیان الشیعۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1403ھ۔
- آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات أعلام الشیعۃ، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1430ھ۔
- جمعی از محققین پژوہشکدہ باقرالعلوم(ع)، گلشن ابرار، زندگی اسوہہای علم و عمل، قم، سازمان تبلیغات اسلامی، 1393ہجری شمسی۔
- حکیم، حسن، «وضعیت گروہہای سیاسی عراق»، نشریہ علوم سیاسی دانشگاہ باقرالعلوم(ع)، شمارہ 18، تابستان 1381ہجری شمسی۔
- حکیم، حسنعیسی، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، قم، المکتبۃ الحیدریۃ، 1427ھ۔
- دادفر، سجاد، «تحول و دگردیسی در نمای جامعہ شناختی شیعیان عراق در قرن بیستم (علل - پیامدہا)»، شیعہشناسی، شمارہ 32، زمستان 1389ہجری شمسی۔
- الرہیمی، عبدالحلیم، تاریخ جنبش اسلامی در عراق، ترجمہ جعفر دلشاد، قم، بوستان کتاب، 1390ہجری شمسی۔
- زرکلی، خیر الدین، الأعلام(قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین)، بیروت، دار العلم للملایین، چاپ ہشتم، 1989م.
- صادقی تہرانی، محمد، نگاہی بہ تاریخ انقلاب اسلامی 1920 عراق و نقش علماء مجاہدین اسلام، قم، شکرانہ، 1390ہجری شمسی۔
- عقیقی بخشایشی، عبدالرحیم، فقہای نامدار شیعہ، قم، کتابخانہ عمومی حضرت آیہ اللہ العظمی مرعشی نجفی، 1372ہجری شمسی۔
- غروی، محمد، مع علماء النجف الأشرف، بیروت، دار الثقلین، 1420ھ۔
- «کولاک میرزای شیرازی در کربلا»، خبرگزاری ایسنا، تاریخ درج مطلب: 9 تیر 1401شمسی، تاریخ بازدید: 5 مہر 1403ہجری شمسی۔
- «مروری بر مبارزات میرزای شیرازی دوم علیہ انگلیسیہا، فتواہایی کہ کمر استعمار را درعراق شکست»، موسسہ فرہنگی ہنری خراسان، تاریخ بازدید: 5 مہر 1403ہجری شمسی۔
- «میرزا محمدتقی شیرازی»، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ، تاریخ درج مطلب: 18 مہر 1387شمسی، تاریخ بازدید: 5 مہر 1403ہجری شمسی۔
- ممند صالح، پژارہ و محمدعلی پرغو، بررسی حیات سیاسی محمد تقی شیرازی (میرزای شیرازی) و نقش ایشان در انقلاب شیعیان عراق، ششمین کنفرانس بین المللی مطالعات حقوقی و قضایی، 1399ہجری شمسی۔
- الوردی، علی، تاریخ عراق، قم، سازمان تبلیغات اسلامی، 1391ہجری شمسی۔
- ویلی، جویس ان، نہضت اسلامی شیعیان عراق، ترجمہ مہوش غلامی، تہران، موسسہ اطلاعات، 1373ہجری شمسی۔