صُہَیب بن سِنَان بن خالد(مالک) بن عبد عمرو بن عقیل بن عامر،(متوفا۳۸ق بنا بر قول مشہور) صحابہ اور پہلے اسلام لانے والوں میں سے ہے جس نے عمار کے زمانے میں اسلام قبول کیا اور پیغمبر کی ہجرت کے موقع پر اپنے آپ کو قُبا پہنچایا۔

صہیب بن سنان بن خالد(مالک)
کوائف
مکمل نامصہیب بن سنان ابو یحیی
محل زندگیمکہ، مدینہ
مہاجر/انصارمہاجر
مدفنجنت البقیع
دینی معلومات
اسلام لاناعمار بن یاسر کے ہمراہ
جنگوں میں شرکتاکثر جنگوں میں شریک رہا
وجہ شہرتصحابی

تمام غزوات میں حاضر تھا۔ خلیفہ دوم کی بماری کے موقع پر نماز پڑھانے کے فرائض انجام دئے نیز خلیفے کی وصیت کے مطابق خلیفۂ دوم کی وفات کے بعد اسی نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ قتل عثمان کے بعد حضرت علی (ع) کی بیعت نہیں کی۔ کتاب الاختصاص میں اس کی مذمت میں روایت مذکور ہے۔ زرکلی نے 307 روایات اس سے نقل ہونے کا کہا ہے۔

نسب و بچپنا

نسب صہیب کا تذکرہ تین صورتوں میں آیا ہے:

  • صہیب بن سنان بن خالد بن عبد عمرو بن طفیل بن عامر بن جندلۃ بن كعب بن سعد بن خزیمۃ بن كعب بن سعد[1]
  • واقدی کے مطابق: صہیب بن سنان بن خالد بن عبد عمرو بن عقیل بن كعب بن سعد.[2]
  • ابن اسحاق کے مطابق: صہیب بن سنان بن مالك بن عبد عمرو بن عقیل بن عامر بن جندلۃ بن جذیمۃ بن كعب بن سعد[3]

صہیب بن سنان، قبیلہ نمر بن قاسط سے تھا۔[4] یہ لوگ اہل عراق تھے جو کنار دجلہ کے کنارے موصل کے نزدیک آباد تھے۔ اس کا باپ اور چچا کسری کی طرف سے أبلّہ کی سرزمین پر سپہ سالاروں میں سے تھے۔ روم و ایران کی جنگوں میں صہیب رومیوں کے ہاتھوں اسیر ہوا۔ اسے روم لے گئے وہیں بڑا ہوا،اسی مناسبت سے اسی صہیب رومی کہتے۔[5] نیز اسی وجہ سے زبان میں لکنت تھی۔ قبیلہ کلب کے افراد نے اسے غلاموں کے ساتھ روم سے خریداری کیا اور مکہ میں عبداللہ جدعان کے ہاتھوں فروخت کر دیا، عبداللہ نے اسے آزاد کر دیا۔[6] تاریخی مصادر میں اسے غلام عبداللہ بن جزعان کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔ پیامبر نے ابو یحیی نام رکھا۔[7]

دوران پیامبر

قبولی اسلام

صہیب اور عمار یاسر تیس افراد کے بعد مسلمان ہوئے۔[8] جب پیامبر (ص) کچھ لوگوں کے ساتھ ارقم کے گھر میں مخفی تھے، عمار یاسر ارقم کے گھر کے سامنے اجازت ملنے کے منتظر تھے کہ صہیب وہاں پہنچ گیا۔ عمار نے اس سے آنے کا سبب پوچھا؟ صہیب نے جواب دیا: تم کس لئے آئے ہو؟ عمار نے کہا: آیا ہوں تا کہ رسول خدا‌(ص) کی باتیں سن سکوں صہیب: میں بھی اسیلئے آیا ہوںاکٹھے گھر میں داخل ہوئے۔ پیامبر (ص) نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو دونوں نے اسے قبول کیا اور مسلمان ہو گئے۔[9] پیغمبر نے صہیب اور حارث بن صمہ کے درمیان عقد اخوت برقرار کیا۔[10]

ہجرت

ہجرت پیامبر (ص) کے بعد صہیب نے بھی مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ کفار قریش نے اسکا پیچھا کیا۔ صہیب نے تیر کو چلۂ کمان میں رکھا اور کہا تم مجھے جانتے ہو کہ میں نشانے میں مہارت رکھتا ہوں،اگر تم نے مجھ سے دوری اختیار نہ کی تو میں اسے چلاؤں گا اور ترکش میں موجود آخری تیر تک میں تیر اندازی کرتا رہوں گا اور پھر تلوار سے جنگ کروں گا۔ میں تمہیں اپنے اموال کی جگہ سے آگاہ کرتا ہوں تا کہ تم اسے اپنے قبضہ میں لے لو۔ وہ اس معاملے پر راضی ہوئے اور واپس لوٹ آئے۔ اس نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ قبا میں رسول اللہ سے ملحق ہو گیا۔[11] وہ اور حضرت علی(ع) ان آخری مہاجرین میں سے ہیں جو وسط ربیع الاول میں قبا نامی جگہ پر پیامبر(ص) سے ملحق ہوئے۔[12]

کچھ علما اس آیت وَمِنَ النَّاسِ مَن یشْرِی نَفْسَہُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـہِ ۗ [یادداشت 1] کا شأن نزول صہیب سے مربوط سمجھتے ہیں۔[13] البتہ مشہور یہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی کی شان میں لیلۃ المبیت کو نازل ہوئی۔[14][15]

صہیب نے بدر[16]، احد، خندق اور دیگر جنگوں میں شرکت کی۔[17] پیامبر اكرم(ص) نے اس کے بارے میں فرمایا: سابقون چار افراد:عربوں میں سے میں،رومیوں میں سے صہیب، فارس میں سے سلمان اور حبشیوں میں سے بلال ہیں۔[18]

پیغمبر کے بعد

خلیفہ دوم صہیب سے زیادہ لفاؤ رکھتے تھے۔[19]، اسی وجہ سے خلیفہ نے وصیت کی کہ ان کا نماز جنازہ صہیب پڑھائے[20] وفات سے پہلے زخمی ہونے کے ایام میں خلفہ نے دستور دیا کہ وہ نماز یومیہ کی امامت صہیب کروائے۔[21] پس اسی بنا پر شورای خلافت کے انتخاب خلیفہ تک وہ نماز پڑھاتا رہا۔[22]

قتل عثمان کے بعد حضرت علی (ع) کی بیعت نہ کرنے والوں میں صہیب بھی شامل ہے۔[23] اختصاص میں مذکور روایت کے مطابق اہل بیت (ع) نے اس کے بعض ناپسندیدہ اعمال کی وجہ سے سر زنش کی ہے۔[24]

وفات

اس کی وفات شوال 38ق کو مدینہ میں ہوئی[25] اور یہ بقیع میں مدفون ہوا۔[26] اس کے سن وفات میں 32[27]، 37[28] اور 39 بھی کہا گیا ہے۔[29] وفات کے وقت اس کا سن 70 سال[30]، ۷۳ اور90سال ذکر ہوا ہے۔

روایت

صہیب نے خلیفۂ دوم سے روایت نقل کی ہے:[31] زرکلی کے مطابق 307روایات اس سے مروی ہیں۔[32]

جابر[33]، سعید بن مسیب، عبدالرحمان بن ابی لیلی[34]، کعب احبار[35] اور اس کے بیٹوں: حبیب، حمزہ، سعد، صالح، صیفی، عباد، عثمان، محمد اور اس کے پوتے: زیاد بن صیفی[36] نے اس سے روایت کی ہے۔

نوٹ

  1. اور انسانوں میں سے کچھ ایسے (انسان) بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر اپنی جان بیچ ڈالتے ہیں﴿ ۲۰۷بقرہ﴾

حوالہ جات

  1. اسدالغابہ، ج۲، ص۴۱۸
  2. اسدالغابہ، ج۲، ص۴۱۸
  3. اسدالغابہ، ج۲، ص۴۱۸
  4. استیعاب، ج۲، ص۷۲۶
  5. الاصابہ، ج۳، ص۳۶۴؛ اسدالغابہ، ج۲، ص۴۱۸
  6. استیعاب، ج۲، ص۷۲۶؛ اسدالغابہ، ج۲، ص۴۱۸
  7. اسدالغابہ، ج۲، ص۴۱۹
  8. استیعاب، ج۲، ص۷۲۸؛ البدء و التاریخ، ج۴، ص۱۴۶
  9. اسدالغابہ، ج۲، ص۴۱۹؛ استیعاب، ج۲، ص۷۲۸
  10. اسد الغابہ، ج۱، ص۳۹۸، ج۲، ص۴۱۹؛ الاصابہ، ج۱، ص۶۷۳
  11. اسدالغابہ، ج۲، ص۴۱۹
  12. استیعاب، ج۲، ۷۲۹؛ اسدالغابہ، ج۲، ص۴۱۹؛ ابن سعد، الطبقات، ج۳، ص۱۷۲
  13. الاستیعاب، ج۲، ص۷۲۹؛ اسدالغابہ، ج۲، ص۴۱۹؛ الاصابہ، ج۳، ص۳۶۵؛ ابن سعد، ج۳، ص۱۷۲؛ وقعۃ الصفین، ص۳۲۴؛ واحدی، ص۶۷
  14. آلاء الرحمن، ج۱، ص۱۸۵-۱۸۶
  15. طباطبائی، ج۲، ص۱۳۵؛ حاکم نیشابوری، ج۳، ص۵؛ ابوعبداللہ شیبانی، ج۲، ص۴۸۴؛ عیاشی، ج۱، ص۱۰۱، ح۲۹۲; زرکشی، ج۱، ص۲۰۶؛ حاکم نیشابوری، ج۱، ص۱۲۳
  16. استیعاب، ج۲، ۷۲۷؛ ذہبی، تاریخ اسلام،ج۲، ص۱۲۴
  17. اسدالغابہ، ج۲، ص۴۱۹؛ ابن سعد، الطبقات، ج۳، ص۱۷۲
  18. اسدالغابہ، ج۲، ص۴۱۹؛ الاصابہ، ج۳، ص۳۶۶
  19. اسدالغابہ، ج۲، ص۴۲۱
  20. ابن سعد، الطبقات، ج۳، ص۱۷۳؛ تاریخ خلیفہ، ص۸۷؛ اسدالغابہ، ج۲، ص۴۲۱
  21. مسعودی، التنبیہ و الاشراف، ص۲۵۲
  22. اسدالغابہ، ج۴، ص۴۲۱؛ الاصابہ، ج۳، ص۳۶۶
  23. الکامل، ج۳، ص۱۹۱
  24. شیخ مفید، اختصاص، ص۷۳
  25. الکامل، ج۳، ص۳۵۱؛ البدایہ و النہایہ، ج۷، ص۳۱۸؛ استیعاب، ج۲، ۷۳۳؛ اسدالغابہ، ج۴، ص۴۲۱
  26. استیعاب، ج۲، ۷۳۳؛ ابن سعد، الطبقات، ج۳، ص۱۷۳؛ الکامل، ج۳، ص۳۷۴
  27. زرکلی، ج۳، ص۲۱۰
  28. الکامل، ج۳، ص۳۵۱
  29. ابن سعد، الطبقات، ج۳، ص۱۷۳؛ الکامل، ج۳، ص۳۷۴، ج۲، ۶۸
  30. الکامل، ج۳، ص۳۷۴، ج۲، ص۶۸؛ الاصابہ، ج۳، ص۳۶۶
  31. ابن سعد، الطبقات، ج۳، ص۱۷۳.
  32. زرکلی، الاعلام، ج۳، ص۲۱۰.
  33. الاصابہ، ج۳، ص۳۶۶
  34. ذہبی، تاریخ اسلام، ج۳، ص۵۹۸ ۔ الاصابہ، ۳، ص۳۶۶
  35. ذہبی، تاریخ اسلام، ج۳، ص۵۹۸
  36. الاصابہ، ۳، ص۳۶۶؛ ذہبی، تاریخ اسلام، ج۳، ص۵۹۸

مآخذ

  • ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دارالجیل، ط الأولی، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲م.
  • ابن سعد، الطبقات الكبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالكتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰م.
  • ابن اثیر، الكامل فی التاریخ، دارصادر، بیروت، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵م.
  • منقری، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، تحقیق عبد السلام محمدہارون، القاہرۃ، المؤسسۃ العربیۃ الحدیثۃ، الطبعۃ الثانیۃ، ۱۳۸۲ق، افست قم، منشورات مكتبۃ المرعشی النجفی، ۱۴۰۴ق.
  • ابن حزم، جمہرۃ أنساب العرب، تحقیق لجنۃ من العلماء، دارالكتب العلمیۃ، ط الأولی، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳م.
  • مسعودی، علی بن حسین، التنبیہ و الإشراف، تصحیح عبد اللہ اسماعیل الصاوی، القاہرۃ، دارالصاوی، بی‌تا(افست قم: مؤسسۃ نشر المنابع الثقافۃ الاسلامیۃ).
  • خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، تحقیق فواز، دارالكتب العلمیۃ، ط الأولی، بیروت، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م.
  • ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمری، دارالكتاب العربی، ط الثانیۃ، بیروت، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳م.
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بور سعید، مكتبۃ الثقافۃ الدینیۃ،بی‌تا.
  • ابن کثیر دمشقی، البدایۃ و النہایۃ، دارالفكر، بیروت، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م.
  • شیخ مفید،الاختصاص‏، كنگرہ شیخ مفید، قم‏، ۱۴۱۳ق‏.
  • بلاغی نجفی، محمد جواد، آلاء الرحمن فی تفسیر القرآن، تحقیق: واحد تحقیقات اسلامی بنیاد بعث بنیاد بعثت، قم، ۱۴۲۰ق.
  • ابن اثیر، أسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، دارالفكر، بیروت، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹م.
  • واحدی علی بن احمد، اسباب نزول القرآن، تحقیق: كمال بسیونی زغلول، دارالكتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۱۱ق.
  • شیبانی، ابوعبداللہ، فضائل الصحابۃ، تحقیق وصی اللہ محمد عباس، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت.
  • زرکشی، البرہان، تحقیق محمد ابراہیم، داراحیاءالکتب العربیہ.
  • عیاشی، تفسیر العیاشی، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، مکتبہ علمیہ الاسلامیہ، تہران.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، دارالكتب العلمیۃ، ط الأولی، بیروت، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م.
  • حسکانی عبیداللہ بن احمد، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمدباقر محمودی، وزارت ارشاد، تہران، ۱۴۱۱ق.
  • زرکلی، الأعلام قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین، دارالعلم للملایین، ط الثامنۃ، بیروت، ۱۹۸۹م.