صوارم الہیات فی قطع شبہات عابد العزی و اللات (کتاب)

ویکی شیعہ سے

صوارم الہیات فی قطع شبہات عابد العزی و اللات، کے نام سے آیت اللہ سید دلدار علی نقوی (1166-1235ھ) نے ایک کتاب لکھی۔ اسے اختصار کے ساتھ صوارم الہیات بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کتاب مولوی عبد العزیز دہلوی کی تحفہ اثنا عشریہ کے باب توحید کے جواب میں لکھی گئی۔ اس کتاب میں عبد العزیز دہلوی کی جانب سے اہل تشیع کے عقیدۂ توحید پر کئے جانے والے تمام اعتراضات کے جوابات دیئے نیز بعض مقامات پر مؤلف کی جانب سے اہل تشیع یا ان کی کتابوں کی طرف دی گئی جھوٹی نسبتوں کا پردہ بھی چاک کیا گیا۔ اس کتاب کو لکھنے کے بعد آیت اللہ سید دلدار علی نقوی نے اسے عبد العزیز دہلوی کے پاس بھیجا لیکن زندہ رہنے کے باوجود عبد العزیز دہلوی اس کتاب کا جواب تحریر نہ کر سکا۔

مصنف

آیت اللہ سید دلدار علی نقوی 1166ھ لکھنؤ کے قریب جائس (نصیر آباد) نامی جگہ پر پیدا ہوئے۔ درس نظامی کی تعلیمات یہاں کے مقامی نامی گرامی اساتذہ سے حاصل کیں جن میں سے اکثر اہل سنت حضرات تھے۔ ابتدا سے ہی آپ نہایت ذہین افراد میں سے تھے۔ بارہویں صدی کےاواخر میں عراق و ایران زیارات کیلئے گئے جہاں اس دور کے مراجع تقلید سے کسب فیض کیا اور وہاں ان سے اجازۂ روایت و اجتہاد حاصل کئے۔ بارہویں صدی کے آخری سالوں میں وطن واپس آئے اور یہاں تبلیغ دین، شاگرد پروری اور دفاع مذہب اہل بیت علیہم السلام میں قلم اٹھایا۔ اپنی زندگی میں نہایت اہم علمی سرمایہ چھوڑا جن میں سے اہم ترین نام مرآۃ العقول جسے عماد الاسلام کا لقب دیا گیا، عربی زبان میں فخراالدین رازی کی نہایۃ العقول فی درایۃ الاصول کا علمی اور مدلل جواب 5 جلدوں میں، مسلک اخباری اور اصولی کی تحقیق کے بعد علم اصول فقہ میں اساس الاصول لکھی جو الفوائد المدنیہ کا جواب ہے، شہاب ثاقب صوفیت کے جواب میں لکھی اور صوارم الہیات تحفۂ اثنا عشریہ کے باب توحید کا جواب ہے۔ جس میں عبد العزیز دہلوی کی جانب سے اہل حق پر کئے گئے اعتراضات کا دندان شکن جواب ہے جو مؤلف کی زندگی میں لکھ کر اسے بھیجا تا کہ وہ اگر چاہے تو اس کا جواب تحریر کرے لیکن وہ اس کا جواب دینے سے اسی طرح قاصر رہا جس طرح اپنی کتاب تحفۂ اثنا عشریہ کے اکثر جوابات دینے سے عاجز رہا۔ 1235 ھ کے ماہ رجب کی 19ویں تاریخ کو آپ کی وفات ہوئی اور آپ کو آپ کے ہی تعمیر کردہ امام بارگاہ میں دفن کیا گیا جو لکھنؤ میں غفران مآب کے نام سے مشہور ہے۔[1]

کتاب

فائل:صوارم الہیات کا پہلا صفحہ(طبع لکھنؤ).JPG
صوارم الہیات ( پہلا صفحہ،طبع لکھنؤ).

کتاب کا مکمل نام صوارم الہیات فی قطع شبہات عابد العزی و اللات[2] ہے لیکن اسے اختصار کی بنا پر صوارم الہیات کہا جاتا ہے۔ فارسی زبان میں لکھی گئی ایک جوابی کتاب ہے جسے مؤلف نے عبد العزیز دہلوی کی کتاب تحفۂ اثنا عشریہ کے پانچویں باب: توحید کے جواب میں لکھا۔ اہل حق پر کئے گئے اعتراضات اور اہل حق پر لگائے گئے مولوی عبد العزیز دہلوی کے جھوٹے بہتانوں کی نشاندہی کی۔

یہ کتاب پہلی مرتبہ ہندوستان کے شہر کلکتہ سے کسی تصحیح کے بغیر چھپی۔[3]۔

یہ کتاب 1218 ھ میں لکھنؤ سے ایک جلد میں حسام الاسلام کے ساتھ 500 کی تعداد میں سنگی سائز میں چھاپی گئی جو 153 ورق پر مشتمل تھی[4] یعنی اس کے صفحات کی تعداد 306 بنے گی جبکہ حسام الاسلام 86 ورقوں پر مشتمل تھی جس کے صفحات کی تعداد 172 بنے گی۔ اگرچہ سید عبد العزیز طباطبائی اس کی طباعت کی تاریخ 1215 لکھتے ہیں۔[5]

کتاب کے ابتدا میں چند صفحات غلطنامہ پھر 153 ورقے صوارم الہیات ہے۔ اس کے بعد دو صفحے حسام الاسلام کا غلطنامہ اور 86 ورقے حسام الاسلام کے اور آخر میں خاتمۂ الطبع کے عنوان سے 2ورقے ہیں۔ خاتمۂ الطبع میں اس کتاب کا سن طبع 1218 ھ اور تعداد 500 اس تذکر کے ساتھ مذکور ہے کہ یہ کتاب تحفۂ اثنا عشریہ کے 300 کی تعداد میں چھپنے کے بعد جواب میں طبع کی گئی ہے۔

سبب تالیف

تحفۂ اثنا عشریہ کے بعد سید دلدار علی نقوی نے اس کے بارہویں باب تولا و تبرا کا جواب بنام ذوالفقار 20 دنوں کی قلیل مدت میں لکھا۔ ذوالفقار اور عماد الاسلام کی عدل سے متعلق جلد اپنے موثق شخص کے ذریعے عبد العزیز دہلوی کو بھجوائیں کہ شاید وہ اس کے ذریعے خواب غفلت سے بیدار ہو جائے لیکن 5/6 سال گزرنے کے باوجود نہ تو اس کی طرف سے اس کا کوئی جواب آیا اور نہ ہی کسی اور اہل سنت عالم دین نے اپنے مذہب کے دفاع میں قلم اٹھایا جبکہ یہ رسالہ ملک میں مختلف جگہوں تک پہچ چکا ہے۔ اب دوبارہ تحفۂ اثنا عشریہ کے باب الہیات کا جواب لکھنے کا تہیہ کیا ہے۔[6] مختصر یہ کہ صوارم الہیات تحفۂ اثنا عشریہ کے باب پنجم توحید کا جواب دینے کی غرض سے لکھی گئی۔

روش تالیف

تحفۂ اثنا عشریہ کے مؤلف نے پانچویں باب توحید کو بائیس عقیدوں کی صورت میں مرتب کیا ہے اور انہیں اہل تشیع کے باطل عقائد کے طور پر پیش کیا ہے۔ صوارم الہیات بھی اسی ترتیب کے مطابق لکھی گئی۔ پس یہ کتاب بھی بائیس عقیدوں میں تقسیم ہوئی ہے۔مؤلف ابتدا میں مخالف فریق کے ایک عقیدے کی مکمل عبارت کو من و عن نقل کرتا ہے پھر اس کے بعد اس کا جواب دیتے ہوئے اس عقیدے کے متعلق نقضی اور حلی صورت میں مکمل بحث کی صورت میں جواب دیا جاتا ہے۔ بحث مکمل ہونے کے بعد فریق مخالف کی ذکر کی گئی عبارت کو جملہ بہ جملہ ذکر کے اس کا جواب دیا گیا ہے۔ جواب دیتے ہوئے قرآنی آیات ذکر کی گئی ہیں۔ احادیث سے استدلال کرتے ہوئے کتاب اور اس کے مؤلف کا نام ذکر کیا جاتا ہے۔ نقضی جواب دیتے ہوئے اگر بحث عقلی ہو تو بھی کتاب اور اس کے مؤلف کا نام اور اگر بحث سمعی ہو تو بھی کتاب اور اس کے مؤلف کا نام ذکر کیا جاتا ہے۔ عقلی ابحاث میں فریقین کی علم کلام میں لکھی گئی تصانیف سے استفادہ کیا گیا ہے۔ تمام کتاب کی تالیف میں مناظرے کے تمام اصولوں کی رعایت کی گئی ہے۔ فریق مخالف کا کوئی ایسا حصہ نہیں جسے جواب کے بغیر چھوڑ دیا گیا ہو۔ چونکہ یہ کتاب عقیدۂ توحید سے متعلق ہے لہذا اس میں تاریخی ابحاث دیکھنے میں کم مذکور ہوئی ہیں اسی وجہ سے چند ایک مقامات جیسے قصص انبیاء وغیرہ میں تاریخی کتب سے استناد کیا گیا ہے۔ چندین مقامات ایسے ہیں جہاں مصنف نے مولوی عبد العزیز دہلوی کے ان جھوٹے دعووں کو بے نقاب کیا ہے جو اس نے اہل تشیع کی طرف منسوب کئے ہیں مثلا عقیدۂ ششم، عقیدۂ نہم، نوزدہم، بحث تحریف قرآن، مطاعن صحابہ ... معترض کے بعض مقامات پر کذب اور طعن و تشنیع کی وجہ سے جواب دیتے ہوئے بعض مقامات پر طرز تحریر میں شدت قابل ملاحظہ ہے۔

فہرست کتاب

عبد العزیز کی طرف سے تحفہ اثنا عشریہ چند عقیدوں کی ترتیب کے مطابق ہی آیت سید دلدار علی نے جوابات دیئے ہیں۔ان اعتراضات کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے:

  • عقیدہ اول: نظر در معرفت خدای تعالی
  • عقیده دوم: آنکہ حق تعالی موجود است
  • عقیده سوم: الله تعالی واحد است
  • عقیده چہارم: آنکہ الله تعالی متفرد است بقدم
  • عقیدہ پنجم در بارہ صفات ثبوتیہ
  • عقیده ششم: صفات ذاتیہ حق تعالی قدیم اند
  • عقیده ہفتم: الله تعالی قادر مختار است
  • عقیده ہشتم: آنکہ حق تعالی بر ہمہ چیز قادر است
  • عقیده نہم: آنکہ حق تعالی عالم است
  • عقیدہ دہم: تحریف قرآن
  • عقیدہ یازدہم: ارادۃ اللہ
  • عقیدہ دوازدہم: تجسیم وتشبیہ حق تعالی
  • عقیدہ سیزدہم: نفی جہت ومکان در بارہ حق تعالی
  • عقیدہ چہاردہم: حق تعالی بہیچ چیز حلول نمی کند
  • عقیدہ پانزدہم: آنکہ حق تعالی متصف بعرض از اعراض نیست
  • عقيده شانزدہم: حق تعالي در چيزي منعکس نمي شود و سايہ او نيفتد
  • عقیدہ ہفدہم: بداء
  • عقيده ہيجدہم: کفر و ضلالت بندگان خدا
  • عقيده نوزدہم: بر ذمہ حق تعالی ہيچ چيز واجب نيست
  • عقیدہ بیستم: افعال خیر و شر بندہ
  • عقیدہ بیست ویکم: نفی مکان وجہت در بارہ حق تعالی
  • عقیدہ بیست ودوم: روئت حق تعالی در روز قیامت[7]

مآخذ

کلامی ابحاث کیلئے علم کلام کی کتابیں جیسے المواقف، شرح المواقف، شرح المقاصد فی علم الکلام، نہایت العقول فی درایت الاصول، کشف المراد فی شرح تجرید الکلام، شرح سُلّم فواتح الثبوت، شرٖح سلم، شرح باب حادی عشر وغیرہ شامل ہیں ۔ تفاسیر میں فریقن کی معروف تفاسیر اور احادیث میں اہل سنت کی صحاح ستہ کی روایات ذکر کرنے کیلئے ابن اثیر کی جامع الاصول سے زیادہ استفادہ کیا گیا ہے اور شیعہ احادیث کیلئے کتب اربعہ، شیخ صدوق کی عیون اخبار الرضا، التوحید، الامالی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ لغات میں قاموس، صحاح، مصباح المنیر اور قصص انبیاء کی توضیح میں روضۃ الصفا اور حبیب السیر قابل ذکر ہیں۔

حوالہ جات

  1. سید احمد نقوی، ورثۃ الانبیاء، احوال آیت اللہ سید دلدار علی نقوی۔
  2. سید دلدار علی، صوارم الہیات،5۔سید دلدار علی،حسام الاسلام ص1۔اگر چہ بعض کتابوں میں لفظ عابد کی جگہ عابدی لکھا ہے۔
  3. سید اعجاز حسین کنتوری، کشف الحجب و الاستار،ص372 ش 2072۔
  4. سید دلدار علی نقوی، حسام الاسلام (خاتمۃ الطبع)
  5. سید عبد العزیز طباطبائی، موقف الشيعہ من ہجمات الخصوم 16۔
  6. سید دلدارعلی نقوی، صوارم الہیات،ص 5۔
  7. عبد العزیز دہلوی،تحفۂ اثنا عشریہ،

مآخذ

  • سيد إعجاز حسين (1286 ء) كشف الحجب والأستار، سال چاپ: 1409، چاپخانہ: بہمن - قم، ناشر: مكتبہ آيت الله العظمى المرعشي النجفي - قم المقدسہ۔ (سافٹ وئر مکتبہ اہل البیت)
  • سید احمد نقوی، ورثۃ الانبیاء، موئسسہ شیعہ کتاب شناسی قم۔
  • سید دلدار علی، صوارم الہیات فی قطع شبہات عابد العزی و اللات، طبع لکھنؤ۔
  • سید دلدار علی نقوی، حسام الاسلام، طبع 1218ھ لکھنؤ۔
  • سید عبد العزیز طباطبائی، موقف الشيعہ من ہجمات الخصوم، بی تا۔ (سافٹ وئر مکتبہ اہل البیت)