مندرجات کا رخ کریں

"حدیث کساء" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
imported>Noorkhan
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 54: سطر 54:
[[عماد الدین طبری|طبری]] اپنی کتاب [[دلائل الامامہ|دلائل الإمامة]] میں لکھتے ہیں: "مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ [[آیت تطہیر]] کے نزول کے وقت [[رسول اللہ|پیغمبر(ص)]]؛ [[امام علی(ع)|علی]]، [[حضرت فاطمہ|فاطمہ]]، [[امام حسن|حسن]] اور [[امام حسین|حسین]] (علیہم السلام) کو مدعو کیا اور انہیں یمانی کساء اوڑھا دی اور یوں دعا فرمائی:
[[عماد الدین طبری|طبری]] اپنی کتاب [[دلائل الامامہ|دلائل الإمامة]] میں لکھتے ہیں: "مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ [[آیت تطہیر]] کے نزول کے وقت [[رسول اللہ|پیغمبر(ص)]]؛ [[امام علی(ع)|علی]]، [[حضرت فاطمہ|فاطمہ]]، [[امام حسن|حسن]] اور [[امام حسین|حسین]] (علیہم السلام) کو مدعو کیا اور انہیں یمانی کساء اوڑھا دی اور یوں دعا فرمائی:
:<font color=blue>'''اَللهُمَّ هٰؤُلاءِ أهلي فَأذهِب عَنهُم الرِّجسَ وَطَهِّرهُم تَطهِیراً'''</font>۔<br/>  بار خدایا! یہ میرے [[اہل بیت]] (اور میرے اہل خانہ) ہیں پس تو ہر قسم کی پلیدی کو ان سے دور رکھ اور انہیں پاک رکھ جس طرح کہ پاک رکھنے کا حق ہے"۔<ref>طبری، دلائل الإمامة، ص21۔</ref>
:<font color=blue>'''اَللهُمَّ هٰؤُلاءِ أهلي فَأذهِب عَنهُم الرِّجسَ وَطَهِّرهُم تَطهِیراً'''</font>۔<br/>  بار خدایا! یہ میرے [[اہل بیت]] (اور میرے اہل خانہ) ہیں پس تو ہر قسم کی پلیدی کو ان سے دور رکھ اور انہیں پاک رکھ جس طرح کہ پاک رکھنے کا حق ہے"۔<ref>طبری، دلائل الإمامة، ص21۔</ref>
==شیعہ کتب میں==
===تفاسیر===
یہ [[حدیث]] ''[[تفسیر قمی]]''،<ref>قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج2، ص193۔</ref> ''[[تفسیر فرات کوفی]]''،<ref>فرات کوفی، تفسیر فرات الکوفی، ص111 و 337 تا 332۔</ref> اور ''[[البرهان فی تفسیر القرآن]]''<ref>بحرانی، البرهان فی تفسیر القرآن، ج2، ص106۔</ref> میں نقل ہوئی ہے۔
===کتب حدیث===
حدیث کساء ''[[اصول کافی]]'' میں،<ref>کلینی،کافی، ج2، ص8۔</ref> اور ''[[امالی طوسی|امالیِ]]''  [[شیخ طوسی]]<ref>طوسی، الأمالی، ص368 و ص565۔</ref> میں نقل ہوئی ہے۔
==کتب اہل سنت==
===کتب حدیث===
حدیث کساء ''[[صحیح مسلم]]'' یوں نقل ہوئی ہے: [[عائشہ بنت ابی بکر|عائشہ]] کہتی ہیں: "ایک دن [[رسول خدا(ص)]] باہر آئے جبکہ ایک سیاہ اون سے بُنی ہوئی منقش عبا کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے۔ سب سے پہلے [[امام حسن|حسن]] آئے اور آپ(ص) نے انہیں عبا میں جگہ دی اور پھر [[امام حسین|حسین]] آئے اور آپ(ص) نے انہیں بھی عبا میں جگہ دی؛ بعدازاں [[حضرت فاطمہ|فاطمہ(س)]] آئیں اور عبا میں چلی گئیں اور آخر میں [[امیرالمؤمنین|امام علی(ع)]] آئے اور آپ(ص) نے انہیں بھی اپنی عبا میں جگہ دی اور فرمایا:
:font color=green>>'''إنّما یُریدُ اللّه‏ُ لِیُذْهِبَ عَنْکُم الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُم تَطْهِیراً'''"</font>۔<ref>مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج15، ص190۔</ref>
[[ابن حجر]] [[صواعق المحرقہ]] میں لکھتے ہیں: "سند صحیح سے ہم تک پہنچا ہے کہ [[حضرت محمد|پیغمبر اکرم(ص)]] نے ایک کساء ان چار افراد ([[امام علی(ع)|علی]]، [[حضرت فاطمہ|فاطمہ]]، [[امام حسن|حسن]] اور [[امام حسین|حسین]]) کے سر پر ڈال دی اور اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا: بار خدایا! یہ میرے [[اہل بیت]] اور میرے خاص قرابتدار ہیں، پلیدی کو ان سے دور فرما اور انہیں پاک رکھ جس طرح کہ پاک رکھنے کا حق ہے"۔<ref>ابن حجر، صواعق المحرقه، ص143۔</ref>
[[ابن اثیر]] اپنی کتاب [[اسد الغابہ]]<ref>ابن الأثیر، أسد الغابة ج4، ص29۔</ref> اور [[احمد بن حنبل]] اپنی کتاب [[مسند احمد بن حنبل|مسند]]<ref>احمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ج7، ص415۔</ref> میں اس [[حدیث]] کو نقل کیا ہے اور [[ابن تیمیہ]] نے [[منہاج السنہ<ref>ابن تیمیه، منهاج السنه، ج5، ص13۔</ref> میں لکھا ہے کہ یہ [[صحیح السند]] احادیث میں سے ہے جس کو [[احمد بن حنبل]] اور [[ترمذی]] نے [[ام سلمہ]] سے نقل کیا ہے اور [[مسلم بن حجاج نیسابوری|مسلم]] نے بھی اپنی [[صحیح مسلم|صحیح]] میں اس کو [[عائشہ بنت ابی بکر|عائشہ]] سے نقل کیا ہے۔
===کتب تفسیر===
[[زمخشری]] [[الکشاف]] میں،<ref>الزمخشری، تفسیر الکشاف، ذیل آیت 61، سوره آل عمران۔</ref>  [[فخر رازی]] اپنی کتاب [[تفسیر الکبیر]] میں اور وہ دونوں [[قرطبی]]<ref>قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج14، ص183۔</ref>، [[ابن کثیر]]<ref>ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ج6، ص 369۔</ref> اور [[سیوطی]]<ref>سیوطی، الدرالمنثور، ج5، ص376۔</ref> سے اپنی تفاسیر میں حدیث کساء کو نقل کیا ہے۔ قُرطُبیّ<ref>قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج14، ص183۔</ref> [[آیت تطہیر]] کی تفسیر کے ضمن میں [[ام سلمہ|امّ سلمہ]] سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "[[آیت تطہیر]] نازل ہوئی تو [[رسول اللہ]](ص) نے [[امام علی(ع)|علی]]، [[حضرت فاطمہ|فاطمہ]]، [[امام حسن|حسن]] اور [[امام حسین|حسین]] کو بلوایا اور انہیں خیبری کساء اوڑھا دی الی آخر۔
== حدیث کے حوالے ==
یہاں صرف ان مؤلفین کی فہرست پیش کی گئی ہے جنہوں نے حدیث کساء کو [[آیت تطہیر]] کے شان نزول میں نقل کیا ہے اور [[پنجتن پاک]] کے نام لے کر ان کے حوالے سے روایت بیان کی ہے۔ یاد رہے کہ یہ فہرست مکمل نہیں ہے۔
{{ستون آ|2}}
* ولی الدین محمد ابن عبداللہ الخطیب الامری '''تبریزی'''<ref>الامری التبریزی، مشکوۃ المصابیح۔</ref>
* فخر الدین '''رازی'''<ref>فخر رازی، تفسیر کبیر۔</ref>
* جلال الدین '''سیوطی'''<ref> سیوطی، الدر المنثور۔</ref>
* احمد بن محمد بن حنبل شیبانی المعروف بہ '''احمد بن حنبل'''<ref>ابن حنبل، مسند، ج1 ص331، ط مصر۔</ref>
* احمد ابن شعیب '''نسائی'''<ref>نسائی، الخصائص، ص4۔</ref>
* محمد ابن جریر '''طبری'''<ref>طبری، تفسیر، ج22 ص5۔ط مصر۔</ref>
* احمد بن حسین بن علی '''بیہقی'''<ref>بیہقی، سنن الکبری ج2 ص149۔</ref>
* '''حاکم''' ابوعبداللہ محمد ابن عبداللہ نیشاپوری<ref>حاکم نیشابوری، مستدرک علی الصحیحین، ج2، صص 416،146،159،172۔</ref>
* شہردار بن شيرويہ، '''دیلمی'''<ref>دیلمی، مسند الفردوس (الفردوس الكبير)، ابن حجر میں صواعق نے اس کا حوالہ دیا ہے۔</ref>
* احمد بن علی ثابت '''خطیب بغدادی'''۔<ref>بغدادی، خطیب، تاریخ بغداد، ج10۔</ref>
* محمود ابن عمر '''زمخشری'''<ref> کشاف (زمخشری) جلد اول صفحہ 193۔ از علامہ محمود ابن عمر الزمخشری۔</ref>
* علی ابن حسین ابن عبداللہ '''ابن عساکر''' دمشقی<ref>ابن عساکر، تاریخ دمشق۔</ref>
* یوسف الواعظ ابن عبداللہ المعروف بہ '''ابن جوزی'''<ref>ابن جوزی، تذکرۃ خواص الامہ۔</ref>
* محمد بن احمد '''الذہبی'''<ref>الذہبی، تلخیص المستدرک۔</ref>
* احمد '''ابن حجر المکی'''<ref>صواعق المحرقہ۔</ref>
* محمد ابن علی '''شوکانی'''<ref>الشوکانی، فتح القدیر۔</ref>
* شہاب الدین محمود '''آلوسی'''<ref>الآلوسی، تفسیر روح المعانی۔</ref>
{{ستون خ}}


==پاورقی حاشیے==
==پاورقی حاشیے==

نسخہ بمطابق 01:52، 31 اکتوبر 2014ء

حدیث کساء ایک حدیث قدسی ہے جو پیغمبر خدا، علی، فاطمہ، حسن و حسین علیہم السلامی کی فضیلت میں وارد ہوئی ہے۔ یہ واقعہ زوجۂ رسول ام المؤمنین ام سلمہ کے گھر میں رونما ہوا۔ رسول اللہ(ص) نے آیت تطہیر کے نزول کے وقت اون کا کپڑا اوڑھے ہوئے تھے اور اپنے خاندان کو بھی اس میں ڈھانپے ہوئے تھے؛ اس کپڑے کو کساء کہا جاتا تھا۔ ائمۂ شیعہ نے بارہا اپنی فضیلت اور امت مسلمہ پر ان کے حق خلافت کے اثبات کے لئے اس حدیث کا حوالہ دیا ہے۔

کساء کے لغوی معنی

کساء عربی میں ایک قسم کی عبا کو کہا جاتا ہے جو کندھوں پر ڈالی جاتی ہے، یہ لفظ اوڑھنے اور بچھونے کے معنی میں بھی آیا ہے۔ لیکن اس حدیث میں لفظ "کساء" سے مراد عبا یا چوغا جیسا کپڑا ہے جو لباس کے اوپر پہنا جاسکتا ہے۔[1]

واقعے کی کیفیت

مفصل مضمون: اصحاب کساء

کساء کے سلسلے میں واردہ احادیث میں سے کسی حدیث میں بھی اس حدیث کو مکمل طور پر نقل نہیں کیا گیا ہے اور ہر حدیث نے اس کا کچھ حصہ نقل کیا ہے۔ جو کچھ یہاں ذکر کیا جاتا ہے درحقیقت خلاصہ ہے تمام روایات کا جن کے مجموعے سے واقعہ کساء کی مکمل تصویر کشی کی گئی ہے۔

پیغمبر اسلام(ص) اپنی زوجہ جناب ام سلمہ کے گھر میں ـ اپنے بعض افراد خاندان کے بارے میں ـ اللہ کا ایک اہم پیغام وصول کرتے ہیں۔ چنانچہ اپنی زوجہ کو حکم دیتے ہیں کہ کسی کو بھی گھر میں داخلے کی اجازت نہ دیں۔ دوسری طرف سے اسی روز آپ(ص) کی بیٹی حضرت فاطمہ(س) اپنے والد ماجد(ص) کے لئے "عصیدہ"[2] نامی مناسب غذا تیار کرنے کا ارادہ کرتی ہیں؛ آپ(س) یہ غذا ایک چھوٹے سے سنگی دیگچے میں تیار کرتی ہیں اور اس کو ایک طبق (رکابی) پر رکھتی ہیں اور والد کی خدمت میں پیش کرتی ہیں۔

ام سلمہ کہتی ہیں: "میں فاطمہ(س) کو نہ روک سکی"۔

رسول اللہ(ص) اپنی بیٹی سے فرماتے ہیں: جاکر اپنے شریک حیات اور دو بیٹوں کو بھی لے کر آؤ۔

حضرت فاطمہ(س) گھر لوٹ کر جاتی ہیں اور اپنے شریک حیات اور اپنے دو اطفال حسن اور حسین کو والد ماجد کی خدمت میں حاضر کرتی ہيں۔

حضرت فاطمہ(س) اپنے خاوند اور بچوں کے ہمراہ گھر میں داخل ہوتی ہيں تو ام سلمہ رسول اللہ(ص) کے اشارے پر ایک گوشے میں نماز میں مصروف ہوئیں۔

رسول خدا(ص) علی(ع)، حضرت فاطمہ(س) اور دو بیٹوں حسن(ع) اور حسین(ع) کے ساتھ بیٹی کے بچھائے ہوئے دسترخوان کے کنار بیٹھ جاتے ہیں۔ رسول اللہ(ص) خیبری کساء (اہلیان خیبر کے ہاتھوں بُنے ہوئے کپڑے سے بنی عبا) کو اپنے داماد، بیٹی اور بیٹوں کے سر پر ڈال دیتے ہیں اور دائیں ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور رب متعال کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: بار پروردگارا! یہ میرے اہل بیت ہیں۔ پس تو ہر قسم کی پلیدی کو ان سے دور کر اور انہیں پاک رکھ جس طرح کہ پاک رکھنے کا حق ہے۔

بعدازاں جبرائیل امین نازل ہوتے ہیں اور اللہ کے بیغام پر مبنی یہ آیت (یعنی آیت تطہیر) پڑھ کر سنائی، جہاں ارشاد ہوتا ہے:

"إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا"۔
ترجمہ: اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم لوگوں سے ہر گناہ کو دور رکھے اے اس گھر والو! اللہ تمہیں پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے۔[3]

ام المؤمنین ام سلمہ آگے بڑھیں اور کساء کا ایک گوشہ اٹھایا مگر رسول اللہ(ص) نے کساء ان کے ہاتھ سے کھینچ لی اور انہیں اہل بیت(ع) کے چھوٹے مگر با عظمت اجتماع میں داخل نہیں ہونے دیا۔

ام سلمہ عرض گزار ہوئیں: [[یا رسول اللہ(ص)! کیا میں اہل بیت کے زمرے میں نہیں ہوتی؟

رسول اللہ(ص) نے فرمایا: اے ام سلمہ! تم خیر اور نیکی کے راستے پر ہو؛ تم پیغمبر کی زوجات میں سے ہو۔ [4]

واقعۂ کساء ام سلمہ کے گھر میں

علامہ حلی کہتے ہیں: آیت تطہیر کا ام سلمہ کے گھر میں نزول، ایسے مسائل میں سے ہے جس پر امت اسلام کا اجماع ہے اور یہ حدیث تواتر کے ساتھ ائمہ اطہار(ع) اور متعدد اصحاب سے نقل ہوئی ہے۔[5]

بےشک آیت تطہیر اور واقعۂ کساء ام سلمہ کے گھر میں رونما ہوا ہے۔

ابن حجر کہتے ہیں: یہ آیت (آیت تطہیر) ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے۔[6]

اصحاب حدیث سے منقول ہے کہ "اس آیت کے بارے میں عمر سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا: "اس کے بارے میں عائشہ سے پوچھو"۔ چنانچہ ام المؤمنین عائشہ سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا:

"یہ آیت میری بہن ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے چنانچہ جاؤ اور ام المؤمنین ام سلمہ سے پوچھو کیونکہ وہ اس بارے میں مجھ سے زیادہ آگہی رکھتی ہے"۔[7]

سیوطی اپنی تفسیر دُرُّ المنثور میں ابن ابن مردویہ سے نقل کرتے ہیں کہ "ام سلمہ نے کہا: آیت "إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ ... میرے گھر میں نازل ہوئی۔[8]

واقعۂ کساء کی سند

یہ واقعہ سند کے لحاظ سے کسی صورت بھی خدشہ پذیر نہیں ہے۔ بڑے اور نامی گرامی محدثین نے اس واقعے کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے؛ یہ حدیث اصطلاحاً مستفیض ہے اور حتی وسیع تحقیق کرکے اس کے بارے میں تواتر کا دعوی کیا جاسکتا ہے۔ یہ واقعہ اسلامی معاشرے میں اس قدر معروف و مشہور ہے کہ اس کے رونما ہونے کے دن کو "یوم کساء" کا نام دیا گیا اور جو خمسۂ طیبہ ـ جو اس دن اللہ کی عنایت خاصہ سے بہرہ ور ہوئے اصحاب کساء کہلائے۔[9]

طبری اپنی کتاب دلائل الإمامة میں لکھتے ہیں: "مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آیت تطہیر کے نزول کے وقت پیغمبر(ص)؛ علی، فاطمہ، حسن اور حسین (علیہم السلام) کو مدعو کیا اور انہیں یمانی کساء اوڑھا دی اور یوں دعا فرمائی:

اَللهُمَّ هٰؤُلاءِ أهلي فَأذهِب عَنهُم الرِّجسَ وَطَهِّرهُم تَطهِیراً۔
بار خدایا! یہ میرے اہل بیت (اور میرے اہل خانہ) ہیں پس تو ہر قسم کی پلیدی کو ان سے دور رکھ اور انہیں پاک رکھ جس طرح کہ پاک رکھنے کا حق ہے"۔[10]

شیعہ کتب میں

تفاسیر

یہ حدیث تفسیر قمی،[11] تفسیر فرات کوفی،[12] اور البرهان فی تفسیر القرآن[13] میں نقل ہوئی ہے۔

کتب حدیث

حدیث کساء اصول کافی میں،[14] اور امالیِ شیخ طوسی[15] میں نقل ہوئی ہے۔

کتب اہل سنت

کتب حدیث

حدیث کساء صحیح مسلم یوں نقل ہوئی ہے: عائشہ کہتی ہیں: "ایک دن رسول خدا(ص) باہر آئے جبکہ ایک سیاہ اون سے بُنی ہوئی منقش عبا کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے۔ سب سے پہلے حسن آئے اور آپ(ص) نے انہیں عبا میں جگہ دی اور پھر حسین آئے اور آپ(ص) نے انہیں بھی عبا میں جگہ دی؛ بعدازاں فاطمہ(س) آئیں اور عبا میں چلی گئیں اور آخر میں امام علی(ع) آئے اور آپ(ص) نے انہیں بھی اپنی عبا میں جگہ دی اور فرمایا:

font color=green>>إنّما یُریدُ اللّه‏ُ لِیُذْهِبَ عَنْکُم الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُم تَطْهِیراً[16]

ابن حجر صواعق المحرقہ میں لکھتے ہیں: "سند صحیح سے ہم تک پہنچا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے ایک کساء ان چار افراد (علی، فاطمہ، حسن اور حسین) کے سر پر ڈال دی اور اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا: بار خدایا! یہ میرے اہل بیت اور میرے خاص قرابتدار ہیں، پلیدی کو ان سے دور فرما اور انہیں پاک رکھ جس طرح کہ پاک رکھنے کا حق ہے"۔[17]

ابن اثیر اپنی کتاب اسد الغابہ[18] اور احمد بن حنبل اپنی کتاب مسند[19] میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور ابن تیمیہ نے [[منہاج السنہ[20] میں لکھا ہے کہ یہ صحیح السند احادیث میں سے ہے جس کو احمد بن حنبل اور ترمذی نے ام سلمہ سے نقل کیا ہے اور مسلم نے بھی اپنی صحیح میں اس کو عائشہ سے نقل کیا ہے۔

کتب تفسیر

زمخشری الکشاف میں،[21] فخر رازی اپنی کتاب تفسیر الکبیر میں اور وہ دونوں قرطبی[22]، ابن کثیر[23] اور سیوطی[24] سے اپنی تفاسیر میں حدیث کساء کو نقل کیا ہے۔ قُرطُبیّ[25] آیت تطہیر کی تفسیر کے ضمن میں امّ سلمہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "آیت تطہیر نازل ہوئی تو رسول اللہ(ص) نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بلوایا اور انہیں خیبری کساء اوڑھا دی الی آخر۔

حدیث کے حوالے

یہاں صرف ان مؤلفین کی فہرست پیش کی گئی ہے جنہوں نے حدیث کساء کو آیت تطہیر کے شان نزول میں نقل کیا ہے اور پنجتن پاک کے نام لے کر ان کے حوالے سے روایت بیان کی ہے۔ یاد رہے کہ یہ فہرست مکمل نہیں ہے۔

  • ولی الدین محمد ابن عبداللہ الخطیب الامری تبریزی[26]
  • فخر الدین رازی[27]
  • جلال الدین سیوطی[28]
  • احمد بن محمد بن حنبل شیبانی المعروف بہ احمد بن حنبل[29]
  • احمد ابن شعیب نسائی[30]
  • محمد ابن جریر طبری[31]
  • احمد بن حسین بن علی بیہقی[32]
  • حاکم ابوعبداللہ محمد ابن عبداللہ نیشاپوری[33]
  • شہردار بن شيرويہ، دیلمی[34]
  • احمد بن علی ثابت خطیب بغدادی۔[35]
  • محمود ابن عمر زمخشری[36]
  • علی ابن حسین ابن عبداللہ ابن عساکر دمشقی[37]
  • یوسف الواعظ ابن عبداللہ المعروف بہ ابن جوزی[38]
  • محمد بن احمد الذہبی[39]
  • احمد ابن حجر المکی[40]
  • محمد ابن علی شوکانی[41]
  • شہاب الدین محمود آلوسی[42]

پاورقی حاشیے

  1. عسگری، مرتضی، حدیث الکساء من طُرق الفریقین۔
  2. وہ غذا جو آٹے اور گھی کو ملا کر تیار ہوتی ہے؛ ابن منظور، لسان العرب، ج3 ص291۔
  3. سورہ احزاب آیت 33۔
  4. ری شهری، اهل بیت(ع) در قرآن و حدیث، ج1، ص38۔
  5. علامه حلی، نهج الحق وکشف الصدق، ص 174۔
  6. ابن حجر، صواعق المحرقه، ص 144۔
  7. مفید، الفصول المختارة، ص122۔
  8. سیوطی، الدر المنثور، ج5، ص376۔
  9. ری شهری، اهل بیت(ع) در قرآن و حدیث، ج1، ص38۔
  10. طبری، دلائل الإمامة، ص21۔
  11. قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج2، ص193۔
  12. فرات کوفی، تفسیر فرات الکوفی، ص111 و 337 تا 332۔
  13. بحرانی، البرهان فی تفسیر القرآن، ج2، ص106۔
  14. کلینی،کافی، ج2، ص8۔
  15. طوسی، الأمالی، ص368 و ص565۔
  16. مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج15، ص190۔
  17. ابن حجر، صواعق المحرقه، ص143۔
  18. ابن الأثیر، أسد الغابة ج4، ص29۔
  19. احمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ج7، ص415۔
  20. ابن تیمیه، منهاج السنه، ج5، ص13۔
  21. الزمخشری، تفسیر الکشاف، ذیل آیت 61، سوره آل عمران۔
  22. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج14، ص183۔
  23. ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ج6، ص 369۔
  24. سیوطی، الدرالمنثور، ج5، ص376۔
  25. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج14، ص183۔
  26. الامری التبریزی، مشکوۃ المصابیح۔
  27. فخر رازی، تفسیر کبیر۔
  28. سیوطی، الدر المنثور۔
  29. ابن حنبل، مسند، ج1 ص331، ط مصر۔
  30. نسائی، الخصائص، ص4۔
  31. طبری، تفسیر، ج22 ص5۔ط مصر۔
  32. بیہقی، سنن الکبری ج2 ص149۔
  33. حاکم نیشابوری، مستدرک علی الصحیحین، ج2، صص 416،146،159،172۔
  34. دیلمی، مسند الفردوس (الفردوس الكبير)، ابن حجر میں صواعق نے اس کا حوالہ دیا ہے۔
  35. بغدادی، خطیب، تاریخ بغداد، ج10۔
  36. کشاف (زمخشری) جلد اول صفحہ 193۔ از علامہ محمود ابن عمر الزمخشری۔
  37. ابن عساکر، تاریخ دمشق۔
  38. ابن جوزی، تذکرۃ خواص الامہ۔
  39. الذہبی، تلخیص المستدرک۔
  40. صواعق المحرقہ۔
  41. الشوکانی، فتح القدیر۔
  42. الآلوسی، تفسیر روح المعانی۔