حب الوطنی
حب الوطنی، وطن سے محبت کے جذبے کو کہا جاتا ہے، بعض مسلم علماء کے مطابق قرآن اور احادیث نبوی میں اس کی تاکید کی گئی ہے۔ سورہ قصص کی آیت نمبر 85 اور پیغمبر اکرمؐ کی حدیث: «حُبُّ الوَطَنِ مِنَ الایمان» (وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے) اس دعوے کی روشن اور واضح دلائل میں سے ہیں۔ تاہم اسلام کی نگاہ میں وطن سے محبت اُس وقت تک قابل ستائش ہے جب تک وہ دینی اقدار کے مخالف نہ ہو اور معاشرے میں تفرقہ اور ظلم و ستم کا ذریعہ نہ بنے۔
کہا گیا ہے کہ وطن کی آبادکاری اور تعمیر و ترقی، قومی اتحاد، وطن کا دفاع، حکومت میں شمولیت اور استبداد کی مزاحمت حب الوطنی کے مصادیق میں شمار کئے جاتے ہیں۔ تاہم ان میں افراط و تفریط کے ذریعے حب الوطنی اگر قوم پرستی یا قومی اور ملی تعصبات کی شکل اختیار کر جائے، تو یہ اسلام کی نظر میں مذموم ہے۔ امام خمینیؒ کے مطابق قوم پرستی میں افراط و تفریط دراصل مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ایجاد کرنے کے لئے اسلام دشمن عناصر کی چال ہے۔ آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی بھی قومی اور ملی تعصبات کو ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔
مسلمان شعرا و ادبا نے بھی حب الوطنی کے مفہوم پر اظہار خیال کیا ہے؛ شاہنامہ میں قومی وطن جبکہ علامہ اقبالؒ کے اشعار میں اسلامی وطن کا مفہوم نمایاں نظر آتا ہے، اسی طرح مولانا رومی اور شیخ بہائی کے ہاں وطن ایک ملکوتی اور معنوی حقیقت کے طور پر سامنے آتا ہے۔
مفہوم شناسی
وطن سے محبت ایک فطری جبلت ہے جسے خدا نے انسان کی فطرت میں ودیعت کر رکھی ہے تاکہ انسان صرف بہترین اور خوشگوار آب و ہوا کے حامل مقامات میں جمع ہونے کی بجائے دنیا کے مختلف خطوں میں آباد ہوں اور آپس میں کشمکش اور نزاع پیدا نہ ہو۔[1] دینی نصوص کی روشنی میں وطن دوستی کے متعدد مثبت آثار اور نتائج بیان ہوئے ہیں؛ جیسے شہروں کی آبادی،[2] قومی اتحاد و یکجہتی، وطن اور اس کے اثاثوں کی حفاظت اور دفاع،[3]حکومتی امور میں شراکت داری اور استبداد کا روک تھام۔[4]
"اسلامیت اور ایرانیت دو متضاد حقیقتیں نہیں، بلکہ ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں۔ جو اسلام کا سپاہی اور سرباز ہوگا وہ لازماً ہر اخلاقی اقدار کی پاسداری کرے گا، جن میں حب الوطنی بھی شامل ہے۔ کیونکہ «حُبُّ الوَطَنِ مِنَ الایمان»؛ یہ ایمان ہی کا حصہ ہے۔"
شیعہ فقیہ اور مفسر آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق جب مادی و جسمانی وطن، معنوی اور روحانی وطن کے ساتھ جمع ہو اور دار الاسلام کا مصداق بنے تو اس سے محبت و احترام دو چنداں ہو جاتا ہے اور دفاع کا جذبہ بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔[5] عباس علی عمید زنجانی کے نزدیک دار الاسلام اور دائمی وطن سے محبت، ایمان کا حصہ ہے۔ ان کے مطابق عشق و محبت کا سرچشمہ دراصل ہر انسان کے عقیدے اور باطن میں موجود ہوتا ہے اور جب وطن انسان کے عقیدے کے ساتھ ہم آہنگ ہو تو یہ بھی انسان کے لئے محبوب اور محترم شمار ہوتا ہے۔[6]
وطن دوستی کی دینی حیثیت
امام خمینیؒ کے مطابق اسلام میں وطن اور ہم وطنوں سے محبت اور دوستی کی نہ صرف کوئی ممانعت نہیں،[7] بلکہ وطن کو اسلامی تعلیمات میں احترام حاصل ہے۔ البتہ اسلام کی خدمت ہر سرزمین میں سب سے مقدم ہے۔[8] شیعہ مفسر قرآن محسن قرائتی وطن سے محبت اور دوستی کے حق کو قرآنی مسلمہ حقوق میں سے ایک حق شمار کرتے ہیں اور انسان سے اس حق کو سلب کرنا ظلم کے مطادیق میں شمار کرتے ہیں۔[9]
حب الوطنی اور وطن سے محبت کی سچائی پر قرآن و سنت نیز انسانی فطرت سے مختلف دلائل پیش کی جاتی ہیں۔[10]
قرآنی شواہد
- سورہ قصص کی آیت نمبر 85 وطن سے دوستی کی تائید میں پیش کئے جانے والے دلائل میں سب سے اہم دلیل ہے۔ کتاب روضۃ الواعظين میں مقاتل بن سلیمان اور تفسیر نمونہ سے نقل کیا ہے کہ ابن عباس کہتا ہے کہ جب پيغمبر اکرمؐ ہجرت مدینہ کے موقع پر مکہ سے ہجرت کر کے جُحفہ پہنچے تو وطن سے جدائی کا غم آپ کے چہرہ مبارک پر نمایاں ہوا۔ اس موقع پر جبرئیل حاضر ہوئے اور آپ سے سوال کیا: کیا آپ اپنے وطن اور محل پیدائش سے محبت کرتے ہیں؟ پیغمبر اکرمؐ نے ہاں میں جواب دیا۔ اس وقت جبرئیل نے سورہ قصص کی 85ویں آیت کے اس حصے کی تلاوت کی: «إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ» (جس نے تم پر قرآن لازم کیا وہی تمہیں واپس لائے گا) اور مستقبل قریب میں آپ کی مکہ واپسی کی بشارت دی۔[11] کہا گیا ہے کہ خدا نے اس آیت کو نازل کرکے اپنے رسول کو تسلی دی۔[12] حضرت فاطمہ(س) سے بھی منقول ہے کہ پیغمبر اکرمؐ 10 موضوعات کے بارے میں فکر مند تھے، لیکن خدا نے آپ کو ان کے بارے میں تسلی دی، ان میں سے ایک مکہ سے دوری تھی جس کے متعلق خدا نے سورہ قصص کی آیت نمبر 85 کے ذریعے آپ کو دوبارہ مکہ واپس آنے کی بشارت دی۔[13]
- شیعہ فقیہ اور مفسر آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق قرآن مختلف آیات جیسے سورہ ممتحنہ آیت نمبر 8 و 9 اور سورہ بقرہ آیت نمبر 246 میں انسان کی جبری جلا وطنی کو ایک اخلاقی اقدار کے منافی (anti-value) امور میں شمار کیا گیا ہے، لھذا ان آیات سے وطن کی قدر و قیمت اور حب الوطنی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔[14]
- مسلمان مصنف اور ادیب جاحظ کے مطابق سورہ نساء آیت نمبر 66 اور سورہ بقرہ آیت نمبر 246 میں وطن سے محبت کی تائید موجود ہے۔[15]
احادیث
- شیعہ اور اہل سنت حدیثی منابع میں بیشمار احادیث موجود ہیں جو پیغمبر اکرمؐ اور اہل بیتؑ کی وطن سے محبت اور دوستی کی نشاندہی کرتی ہیں؛ منجملہ پیغمبر اکرمؐ سے مروی ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے مکہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: تم خدا کے نزدیک بہترین اور محبوبترین زمین ہے، اگر مجھے تم سے جلاوطن نہ کرتے تو میں اپنی مرضی سے کبھی یہاں سے باہر نہ جاتا۔[16]
- بعض فقہاء جیسے آیت اللہ مکارم، آیت اللہ خامنہای اور عمید زنجانی نے «حُبُّ الوَطَنِ مِنَ الایمان» کی عبارت کو جو پیغمبر اکرمؐ سے منسوب ہے، آپ کی حب الوطنی کی دلیل قرار دیا ہے۔[17] آیت اللہ مکارم شیرازی کے نزدیک وطن سے محبت ایک فطری امر ہے جس کا سرچشمہ انسان کی حقیقت پسندانہ روح اور فطرت ہے، اور حقیقت پسندی ایمان کی نشانی ہے۔[18]
- کتاب پیام امام علی میں امام علیؑ سے ایک حدیث نقل کی ہے[19] جس کے مطابق ضائع شدہ عمر پر گریہ کرنا اور وطن سے محبت اور دوستی کا اظہار انسان کی شخصیت کی علامت ہے۔ اس طرح ایک اور حدیث[20] کے مطابق شہروں کی آبادانی وطن دوستی سے مشروط ہے۔[21]
فطرت
شیعہ مفسرین میں سے علامہ عبد الاعلی سبزواری اور محسن قرائتی سورہ طہٰ آیت نمبر 63 کی روشنی میں اس بات کے معتقد ہیں کہ انسان فطری طور پر اپنے وطن سے محبت کرتا ہے۔[22]
شرائط اور تقاضے
وطن سے محبت کے دائرے کار کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ یہ جذبہ دینی تعلیمات کی روشنی میں قابل تصدیق ہے، لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ یہ خود بینی اور نسل پرستی کا موجب نہ ہو؛ لہٰذا قوم پرستی جو اپنی قوم اور قبیلے کو برتر سمجھنے اور دوسری اقوام کو کمزور کرنے کی کوشش سے تعبیر ہے، وطن دوستی سے مختلف ہے۔ نیز کہا گیا ہے کہ متعصبانہ قوم پرستی تفرقہ پیدا کرتی ہے اور آخر کار کینہ اور دشمنی پر منتج ہوتی ہے۔[23] امام خمینیؒ نے بھی قوم پرستی میں افراط و تفریط کو مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی سازش قرار دیا ہے اور اسے اسلام، قرآن اور پیغمبر اکرمؐ کے فرامین کے خلاف قرار دیا ہے۔[24]
شیعہ فقیہ سید محمد مہدی موسوی خلخالی (1304-1398ھ.ش) نے اپنی کتاب الحاکمیۃ فی الاسلام میں، اسرائیل کے قیام اور سلطنت عثمانیہ کے تجزیہ کو لفظ وطن کے غلط مفہوم کی ترویج [25]اور متعصبانہ قوم پرستی کی تبلیغ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔[26] حوزہ علمیہ قم کے استاد محسن غرویان قوم و ملت سے محبت اور دوستی کو اصل قرار دینا اور اس میں افراط کو نسل پرستی سے تعبیر کرتے ہیں جس کا آغاز وطن اور سرزمین سے محبت ہو سکتا ہے۔[27]
اسی طرح وہ حب الوطنی جو ہجرت کرنے سے روکے جس کے نتیجے میں انسان پسماندگی یا ظالمانہ حکومت کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہو تو اسے ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ آیت اللہ مکارم شیرازی نے نہج البلاغہ میں امام علی علیہ السلام کی اس عبارت "تمہارے لیے بہترین شہر وہ ہے جو تمہیں قبول کرے" [28] کے ذیل میں اس بات پر زور دیا ہے کہ انسان کے لئے بہترین جگہ وہ ہے جہاں ترقی اور سکون کا امکان موجود ہو اور اگرچہ دینی تعلیمات میں حب الوطنی پر زور دیا گیا ہے، لیکن اگر وطن کی محبت متعصبانہ اور غیر منطقی جذبات کا باعث بنے جو ترقی یافتہ اور باعزت زندگی کی ضروریات میں رکاوٹ بنے تو یہ جذبہ اسلام کی نظر میں قابل قدر اور قابل تصدیق نہیں ہو گا۔[29]
شیعہ مفسر قرآن محمد علی رضایی اصفہانی اور شیعہ فقیہ و قانون دان محمد جواد ارسطا کی نظر میں، وطن کی محبت اس وقت تک قابل قدر اور اسلام کی نظر میں قابل تصدیق ہے جب تک کہ وہ دین اور مذہب کی تعلیمات کے مخالف نہ ہو۔[30]
اشعار میں وطن دوستی کا ارتقاء
محمد رضا شفیعی کدکنی کے مطابق فارسی شاعری میں وطن اور وطن سے محتب کا تصور تاریخی اور ثقافتی ادوار کی تبدیلی کے ساتھ بدلتا رہا ہے؛ چنانچہ ابو القاسم فردوسی کی شاعری میں زیادہ تر قومی اور نسلی پہلو، حافظ شیرازی، سعدی اور ناصر خسرو کی تصانیف میں محض سرزمین کی طرف توجہ مرکوز کی گئی ہے؛ جبکہ پانچویں صدی ہجری سے پہلے کے شعراء کی تصانیف خاص کر ایران پر مغلوں کے حملے کے دور میں، اسلامی وطن سے محبت زیادہ مد نظر تھی، اور یہ اسلامی وطن سے محبت علامہ اقبال اور سید جمال الدین اسدآبادی کی پیروی میں عصر مشروطہ کے بعض شعراء کی شاعری میں بھی نظر آتی ہے۔[31]

شیخ بہایی اور مولوی[32] نے اپنی شاعری میں حدیث "حب الوطن من الایمان" کا حوالہ دیتے ہوئے وطن سے مراد ملکوتی اور معنوی وطن لی ہے۔ شیخ بہایی نے کتاب نان و حلوا میں یوں کہا ہے:
|
مونوگرافی
وطن سے محبت کے موضوع پر حمیدہ سادات موسویان کی کتاب "محبّتِ وطن از دیدگاہ اسلام" (اسلام کی نظر میں حب الوطنی) جسے یزد یونیورسٹی پبلشرز نے شائع کی ہے۔ اس کتاب میں قرآن کی آیات اور روایات کے حوالے سے حب الوطنی، حب الوطنی اور دین داری میں رابطہ، ہجرت اور وطن سے محبت کا دائرہ اور اس کے نتائج جیسے مباحث کا جائزہ لیا گیا ہے۔ [34]
حوالہ جات
- ↑ ابنفقیہ ہمدانی، البلدان، 1416ھ، ص487۔
- ↑ ابنشعبہ حرانی، تحف العقول، 1404ھ، ص207۔
- ↑ میرجلیلی و ہمکاران، «وطندوستی از دیدگاہ قرآن و روایات»، ص28؛ عباسی مقدم، «وطندوستی یا وطنپرستی؟/ وطندوستی؛ از ادعا تا واقعیت»، خبرگزاری مہر۔
- ↑ موسوی خلخالی، الحاکمیۃ فی الاسلام، 1425ھ، ص86۔
- ↑ مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، 1375ش، ج2، ص220-222۔
- ↑ عمید زنجانی، وطن و سرزمین و آثار حقوقی آن، 1364ش، ص25 ـ 26۔
- ↑ خمینی، صحیفہ امام، 1389ش، ج13، ص209۔
- ↑ خمینی، صحیفہ امام، 1389ش، ج13، ص168۔
- ↑ قرائتی، تفسیر نور، 1388ش، ج1، ص680؛ ج5، ص359۔
- ↑ میرجلیلی و ہمکاران، «وطندوستی از دیدگاہ قرآن و روایات»، ص8-28۔
- ↑ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، 1375ش، ج2، ص406؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج16، ص184-185۔
- ↑ مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، 1375ش، ج2، ص221۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1404ھ، ج43، ص34۔
- ↑ مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، 1375ش، ج2، ص220-221۔
- ↑ جاحظ، الحنین الی الاوطان، 1402ھ، ص11-12۔
- ↑ محمدی ریشہری، میزان الحکمۃ، 1384ش، ج13، ص236۔
- ↑ خامنہای، «بیانات در دیدار دستاندرکاران برگزاری دومین کنگرہ ملی بزرگداشت شہدای استان ہمدان»، سایت دفتر حفظ و نشر آثار آیتاللہ خامنہای؛ مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، 1375ش، ج15، ص509-510؛ عمید زنجانی، وطن و سرزمین و آثار حقوقی آن، 1364ش، ص25۔
- ↑ مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، 1375ش، ج15، ص509-510۔
- ↑ کراجکی، کنز الفوائد، 1410ھ، ج1، ص94؛ مجلسی، بحار الانوار، 1404ھ، ج71، ص264۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1404ھ، ج75، ص45۔
- ↑ مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، 1375ش، ج15، ص510۔
- ↑ قرائتی، تفسیر نور، 1388ش، ج5، ص359؛ سبزواری، مواہب الرحمن، 1409ھ، ج7، ص182۔
- ↑ «علاقہ بہ وطن از دیدگاہ اسلام بررسی شد»، خبرگزاری حوزہ۔
- ↑ خمینی، صحیفہ امام، 1389ش، ج13، ص209۔
- ↑ مظفر، المنطھ، 1366ش، ج1، ص112۔
- ↑ موسوی خلخالی، الحاکمیۃ فی الاسلام، 1425ھ، ص87۔
- ↑ غرویان و قوامیان، «ملیگرایی (ناسیونالیسم) از دیدگاہ اسلام»، ص105۔
- ↑ نہجالبلاغہ، تصحیح صبحی صالح، حکمت 442، ص554۔
- ↑ مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین، 1375ش، ج15، ص508۔
- ↑ رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387ش، ج4، ص266؛ ارسطا، «وطندوستی مخالف دین و مذہب ارزشی ندارد»، خبرگزاری مہر۔
- ↑ شفیعی کدکنی، «تلقی قدما از وطن»، ص25 و 45۔
- ↑ مولوی، مثنوی معنوی، 1373ش، ص451۔
- ↑ شیخ بہایی، کلیات اشعار و آثار فارسی شیخ بہایی، 1352ش، ج1، بخش3، ص10۔
- ↑ موسویان، وطندوستی از دیدگاہ اسلام، 1393ش، مقدمہ کتاب۔
مآخذ
- نہجالبلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، مرکز البحوث الاسلامیۃ، 1374ہجری شمسی۔
- ابنشعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول(ص)، تحقیق و تصحیح علیاکبر غفاری، قم، دفتر نشر اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ دوم، 1404ھ۔
- ابنفقیہ ہمدانی، احمد بن محمد، البلدان، بیروت، عالم الکتب، 1416ھ۔
- ارسطا، محمدجواد، «وطندوستی مخالف دین و مذہب ارزشی ندارد»، سایت مہرنیوز، تاریخ درج مطلب: 11 اردیبہشت 1390ش، تاریخ اخذ: 5 مرداد 1404ہجری شمسی۔
- جاحظ، عمرو بن بحر، الحنین الی الاوطان، بیروت، دار الرائد العربی، 1402ھ/1982ء۔
- خامنہای، سید علی، «بیانات در دیدار دستاندرکاران برگزاری دومین کنگرہ ملی بزرگداشت شہدای استان ہمدان»، سایت دفتر حفظ و نشر آثار آیتاللہ خامنہای، تاریخ درج مطلب: 5 مہر 1402ش، تاریخ اخذ: 31 فروردین 1404ہجری شمسی۔
- خمینی، سید روحاللہ، صحیفہ امام، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1389ہجری شمسی۔
- رضایی اصفہانی، محمدعلی، تفسیر قرآن مہر، قم، انتشارات پژوہشہای تفسیر و علوم قرآن، چاپ اول، 1387ہجری شمسی۔
- سبزواری، عبدالاعلی، مواہب الرحمن فی تفسیر القرآن، بیجا، دفتر آیتاللہ سبزواری، چاپ دوم، 1409ھ۔
- شفیعی کدکنی، محمدرضا، «تلقی قدما از وطن»، در مجلۂ بخارا، شمارہ 75، فروردین و تیر 1389ہجری شمسی۔
- شیخ بہایی، محمد بن حسین، کلیات اشعار و آثار فارسی شیخ بہایی، تہران، کتابفروشی محمودی، 1352ہجری شمسی۔
- عباسی مقدم، مصطفی،«وطندوستی یا وطنپرستی؟ | وطندوستی؛ از ادعا تا واقعیت»، خبرگزاری مہر، تاریخ درج مطلب: 24 بہمن 1396ش، تاریخ اخذ: 1 اردیبہشت 1404ہجری شمسی۔
- «علاقہ بہ وطن از دیدگاہ اسلام بررسی شد»، خبرگزاری حوزہ، تاریخ درج مطلب: 23 مرداد 1395ش، تاریخ اخذ: 3 اردیبہشت 1404ہجری شمسی۔
- عمید زنجانی، عباسعلی، وطن و سرزمین و آثار حقوقی آن از دیدگاہ فقہ اسلامی، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1364ہجری شمسی۔
- غرویان، محسن، و شاکر قوامیان، «ملیگرایی (ناسیونالیسم) از دیدگاہ اسلام»، مجلہ معرفت، شمارہ 50، 1380ہجری شمسی۔
- فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضۃ الواعظین، قم، الشریف الرضی، 1375ہجری شمسی۔
- قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درسہایی از قرآن، 1388ہجری شمسی۔
- کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، قم، دارالذخائر، چاپ اول، 1410ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیا التراث الاسلامی، 1404ھ۔
- محمدی ریشہری، محمد، میزان الحکمۃ، قم، دارالحدیث، 1384ہجری شمسی۔
- مظفر، محمدرضا، المنطھ، قم، اسماعیلیان، 1366ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمؤمنین، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1375ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1371ہجری شمسی۔
- موسوی خلخالی، سید محمدمہدی، الحاکمیۃ فی الاسلام، قم، مجمع اندیشہ اسلامی، چاپ اول، 1425ھ۔
- موسویان، حمیدہسادات، وطندوستی از دیدگاہ اسلام، یزد، انتشارات دانشگاہ یزد، 1393ہجری شمسی۔
- مولوی، جلالالدین محمد، مثنوی معنوی، بہ کوشش توفیق ہاشمپور سبحانی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، 1373ہجری شمسی۔
- میرجلیلی، علیمحمد و کمال صحرائی اردکانی و حمیدہسادات موسویان، «وطندوستی از دیدگاہ قرآن و روایات»، در فصلنامہ کتاب قیم، شمارہ 5، 1391ہجری شمسی۔