حبل اللہ

ویکی شیعہ سے
(حبل خدا سے رجوع مکرر)

حَبْلُ اللہ کا مطلب الٰہی رسی، جو ایک قرآنی اصطلاح ہے جسے آیہ اِعتصام میں اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو مضبوطی سے اسے پکڑے رہنے اور منتشر نہ ہونے اور گروہ نہ بننے کا حکم دیتا ہے۔[1]

تفسیر عیاشی (متوفی: 320ھ) نے ایسی روایات نقل کی ہیں جن میں آل محمدؑ یا امام علیؑ کو حبل اللہ کا مصداق بیان کیا ہے۔ [2] علامہ طباطبائی کا بھی یہی کہنا ہے کہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمِیعًا میں حبل اللہ سے مراد قرآن اور پیغمبر اکرمؐ ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 101 میں "و مَنْ یعْتَصم باللہ" سے مراد آیات الٰہی اور پیغمبر اکرمؐ (کتاب و سنت) لیا ہے۔[3] تفسیر الدُرُّ المَنْثور میں بھی سیوطی (متوفی: 911ھ) نے اہل سنت علما سے کچھ روایات نقل کی ہیں جن میں جماعت، قرآن و عترت نبی، عہد و طاعت الہی کو حبل اللہ کے مصداق بیان ہوئے ہیں۔[4] اہل سنت کی تفاسیر میں سے تفسیر المنار نے حبل اللہ سے مراد امر بالمعروف اور نہی از منکر لیا ہے۔[5]

فضل بن حسن طبرسی (متوفی: 548ھ) کے مطابق حبل اللہ کے بارے میں مفسرین کی مختلف آراء ہیں۔ کچھ لوگ اسے قرآن سمجھتے ہیں، کچھ لوگ دین اسلام اور کچھ پیغمبر کے اہل بیتؑ کی روایات سمجھتے ہیں۔ طبرسی نے اسے تمام موارد پر حمل کرنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ اور اس بات کی تائید کے لئے وہ حدیث ثقلین کا حوالہ دیتے ہیں جس میں قرآن اور اہل بیتؑ کو دو رسیوں (حبل) کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ اس کی روایت میں ثقلین کے بجائے حبلین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔[یادداشت 1][6]

آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق، حبل اللہ کے لیے تجویز کردہ احتمالات ایک دوسرے سے متضاد اور متصادم نہیں ہیں، کیونکہ الہی رسی کا معنی خدا کے ساتھ رابطے کا کوئی ذریعہ ہے۔ اور یہ رابطہ ممکن ہے قرآن، پیغمبر اکرمؐ، اہل بیتؑ اور دیگر چیزوں کے ساتھ ہوسکتا ہے۔[7] ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حبل اللہ اس مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ انسان کو تاریکی، جہالت اور نادانی سے نجات کے لئے رہنما اور رسی کی ضرورت ہوتی ہے جسے پکڑ کر غفلت کے کنویں سے نکل جائے۔[8]

حوالہ جات

  1. سورہ آل عمران، آیہ 103۔
  2. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج1، ص194۔
  3. طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج3، ص369۔
  4. سیوطی، الدر المنثور، دارالفکر، ج2، ص284-288۔
  5. رشیدرضا، تفسیر القرآن الحکیم، 1990ء، ج4، ص39۔
  6. طبرسی، مجمع البیان، دارالمعرفہ، ج2، ص805۔
  7. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1373-1374شمسی، ج3، ص29۔
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1373-1374شمسی، ج3، ص32۔

نوٹ

  1. «إنی قد ترکت فیکم حبلین إن أخذتم بہما لن تضلوا بعدی أحدہما أکبر من الآخر کتاب اللہ حبل ممدود من السماء إلی الأرض و عترتی أہل بیتی ألا و إنہما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض» میں نے تمہارے درمیان دو رسیاں (ہدایت کی دو راہیں) رکھ دی ہیں کہ جب تک تم ان کو پکڑے رہو گے میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے، اور ان میں سے ایک دوسری سے بڑی (اور اس کا مقام بلند ہے)۔ خدا کی کتاب، جو آسمان سے زمین تک کھینچی ہوئی ہے اور میری عترت۔ جان لو کہ یہ دونوں میرے پاس حوض پر آنے تک ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونگے۔(طبرسی، مجمع البیان، دارالمعرفہ، ج2، ص805.)

مآخذ

  • رشید رضا، محمد، تفسیر القرآن الحکیم (تفسیر المنار)، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، 1990ء۔
  • سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، الدر المنثور، بیروت، دارالفکر، بی تا.
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، الطبعۃ الثالثہ، 1393ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، دار المعرفۃ، بی تا.
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تصحیح سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، المطبعۃ العلمیۃ، چاپ اول، 1380ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1374–1373ہجری شمسی۔