اسلامی جمہوریت
اسلامی جمہوریت (انگریزی: Islamic democracy) اسلامی جمہوری حکومتی نظام کی ایک قسم ہے جس کی بنیاد میں دو عناصر شامل ہیں: عوام اور اسلام۔ اس قسم کے سیاسی نظام کے حامی اس طرز حکومت کی شکل کو جمہوری جبکہ اس کی بنیاد کو دینی اصولوں اور تعلیمات پر استوار سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں اسلامی جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ کسی ملک میں حکمرانی اسلامی قوانین کے دائرہ کار میں ہوگی جبکہ اس میں عوام کی مرضی بھی شامل ہوگی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے دوسرے رہبر، سید علی حسینی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریت کے بارے میں اپنے تجزیے میں دینی جمہوریت کی اصطلاح استعمال کی ہے، جس کا مطلب ہے اسلامی اصولوں کے دائرہ کار میں حکمرانی کے تمام معاملات میں عوام کی شمولیت ہوگی۔
بعض کے نزدیک اسلامی جمہوریت عوام کے حق حکمرانی سے مطابقت نہیں رکھتی ہے؛ کیونکہ اسلامی جمہوریت میں اسلام کے قوانین پر عمل درآمد ضروری ہوتا ہے چاہے وہ لوگوں کی مرضی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اسلامی مفکر مرتضی مطہری اس طرح کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جمہوریت کا مطلب یہ نہیں کہ ہر ایک کا اپنا الگ مکتب و نظریہ ہو۔ بنابرایں اگر معاشرے کے لوگ کسی خاص مکتب کی تعلیمات کو قبول کر کے معاشرے میں اس کو نافذ کرنا چاہیں تو اس مکتب کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی جمہوریت بھی وجود میں آئے گی۔
ایران، پاکستان اور موریطانیہ (موریتانیہ) جیسے کچھ مسلم ممالک میں سیاسی نظام اسلامی جمہوریت کی بنیاد پر قائم ہے۔
تعارف اور پس منظر
"جمہوری اسلامی" جمہوریت اور اسلام جیسے دو عناصر پر مبنی حکمرانی کا ایک سیاسی ڈھانچہ ہے۔[1] جمہوریت پر مبنی ایک حکومت کی تعریف ایسی حکومت کے طور پر کی جاتی ہے جس کے سربراہ کو ملک کے عوام ایک محدود مدت کے لیے منتخب کرتے ہیں۔[2] جمہوری اسلامی ایران کے بانی امام خمینی (1902-1989ء) اور شیعہ مفکر مرتضی مطہری (وفات: 1979ء) اسلامی جمہوریت کو ایک ایسا سیاسی نظام سمجھتے ہیں جس کی شکل اور قالب جمہوری اور عوامی ہو جبکہ اصول اور تعلیمات کو اسلام سے اخذ کیا گیا ہو۔[3]
سید محمد بہشتی (وفات:1981ء) نے دنیا میں رائج جمہوری اور سیاسی نظاموں کو دو قسموں میں تقسیم کیاہے: پہلی قسم وہ نظام ہیں جو صرف ایک اصول پر مبنی ہے اور وہ ہے عوام کی رائے۔ اس قسم کا سیاسی نظام ایسا ڈیموکریٹک نظام ہے جو کسی مخصوص نظریے پر مبنی نہیں ہے۔ دوسری قسم کا سیاسی نظام وہ ہے جو ایک مخصوص نظریے پر مبنی ہے۔ اس قسم کے نظاموں میں لوگوں کی مرضی اور رائے عوام کی طرف سے قبول کردہ نظریے کے دائرے میں معنی پاتی ہے۔ اسلامی جمہوریت اس قسم کے نظاموں میں سے ایک ہے۔[4]
حکومت کا اسلامی ہونے اور عوام کے حق حاکمیت کے مابین سازگاری
کچھ لوگوں کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ "اسلامی جمہوریت" کے تصور اور عوام کے حق حکمرانی کے مابین تضاد پایا جاتا ہے؛ کیونکہ اسلامی جمہوریت میں اسلامی قوانین اور اصولوں کو لازمی طور پر قبول کیا جانا چاہیے۔ لیکن جمہوریت میں لوگوں کو اپنی سرنوشت کے انتخاب کا حق محفوظ ہونا چاہیے۔ اس طرح کے اعتراضات کے جواب میں اسلامی مفکر مرتضی مطہری کہتے ہیں کہ جمہوریت کا مطلب یہ نہیں کہ ہر ایک کا اپنا الگ مکتب اور نظریہ ہو۔ اگر کسی معاشرے کے لوگ کسی خاص مکتب کی تعلیمات و اصول کو قبول کر کے معاشرے میں اس کو نافذ کرنا چاہیں تو اس مکتب کے تحقق کے ساتھ لوگوں کی یہ خواہش پوری ہوجاتی ہے۔[5] اسلامی جمہوریہ ایران کے دوسرے رہبر سید علی حسینی خامنہ ای بھی اس سیاسی ڈھانچے کی یوں تشریح کرتے ہیں کہ بیک وقت اسلامی قوانین اورعوام کی مرضی دونوں متحقق ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے اس نوعیت کے نظام کو دینی جمہوریت (Islamic democracy) سے تعبیر کیا ہے۔[6]
اسلامی جمہوری نظام کے حامل ممالک
اسلامی جمہوریت، سنہ 20 ویں صدی عیسوی کو عالمی سیاست نامے پر ایک جمہوری حکومت کے طور پر نمودار ہوئی اور اسے کئی ممالک میں حکمرانی کے ایک سیاسی نظام کے طور پر متعارف کرایا گیا: اسلامی جمہوریہ مشرقی ترکستان کو اس نام کے ساتھ پہلی حکومت کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ یہ حکومت سنہ 1930ء کی پہلی دہائی میں چین کے مغربی علاقے کاشغر میں مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ کے ذریعے قائم کی ہوئی تھی، لیکن یہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکی۔[7] 28 نومبر سنہ 1960ء کو موریطانیہ کے فرانس سے آزادی کے بعد اس ملک کے سرکاری نظام حکومت کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا۔[8]
سنہ 1973ء میں پاکستان کے آئین نے اسلامی جمہوریہ کے سیاسی نظام کو ملک کی حکمران حکومت کے طور پر متعارف کرایا اور ملکی قوانین کو اسلام کے عین مطابق لانے کے لیے "دینی عقائد و احکام کونسل" کو آئین میں شامل کیا گیا۔[9] ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی کی تجویز پر اور 1 اپریل سنہ 1979ء کو عوامی ریفرنڈم کے ذریعے، اسلامی جمہوریہ، ایران میں حکمران سیاسی نظام کے طور پر منتخب ہوا۔[10] اسلامی جمہوریت کبھی افغانستان[11] اور افریقی ملک گیمبیا[12] میں بھی موجود تھی۔
حوالہ جات
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1384شمسی، ج24، ص329-330۔
- ↑ «معنی "جمہوری" در "لغتنامۀ دہخدا"»، موسسہ لغتنامہ دہخدا۔
- ↑ خمینی، صحیفہ امام، 1378شمسی، ج5، ص398؛ مطہری، مجموعہ آثار، 1384شمسی، ج24، ص329-330۔
- ↑ حسینی بہشتی، صورت مشروح مذاکرات مجلس بررسی نہایی قانون اساسی جمہوری اسلامی ایران، 1364شمسی، ج1، ص380۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، 1384شمسی، ج24، ص330-331۔
- ↑ خامنہای، «سخنرانی تلویزیونی بہ مناسبت سیودومین سالگرد رحلت امام خمینی (رحمہاللہ)»؛ «بیانات در دیدار اعضای مجلس خبرگان رہبری»۔
- ↑ گلادنی، «کاشغر، دروازہ غربی چین»، ص133؛ «نگاہی بہ تاریخ تمدن و فرہنگ اویغورہا و ترکستان شرقی»، خبرگزاری آناتولی۔
- ↑ «دربارہ مورتانی، اطلاعات کلی»، سایت سفارت جمہوری اسلامی ایران نکشوت۔
- ↑ اسعدی، جہان اسلام، 1366شمسی، ج2، ص137۔
- ↑ امام خمینی، صحیفہ امام، 1378شمسی، ج3، ص486؛ روزہا و رویدادہا، 1378شمسی، ج1، ص81
- ↑ بہمنی قاجار، شیعیان افغانستان؛ روابط، جایگاہ، جریانہا و احزاب، 1392شمسی، ص43و44۔
- ↑ «گامبیا، جمہوری اسلامی شد»، خبرگزاری جمہوری اسلامی۔
مآخذ
- اسعدی، مرتضی، جہان اسلام، تہران، مرکز نشر دانشگاہی، 1366ہجری شمسی۔
- امام خمینی، روح اللہ، صحیفہ امام، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1378ہجری شمسی۔
- بہمنی قاجار، محمد علی، جایگاہ سیاسی و اجتماعی شیعیان در افغانستان، تہران، موسسہ مطالعات اندیشہسازان نور، 1392ہجری شمسی۔
- «تاریخچہ قانون اساسی جمہوری اسلامی ایران»، موسسہ مطالعات و پژوہشہای سیاسی، تاریخ بازدید 4 فروردین 1403ہجری شمسی۔
- حسینی بہشتی، سید محمد، صورت مشروح مذاکرات مجلس بررسی نہایی قانون اساسی جمہوری اسلامی ایران، تہران، ادارہ امور فرہنگی و روابط عمومی مجلش شورای اسلامی، 1364ہجری شمسی۔
- خامنہای، سیدعلی، «بیانات در دیدار اعضای مجلس خبرگان رہبری»، تاریخ درج مطلب 18 اسفند 1390شمسی، تاریخ بازدید 17 فروردین 1403ہجری شمسی۔
- خامنہای، سیدعلی، «سخنرانی تلویزیونی بہ مناسبت سیودومین سالگرد رحلت امام خمینی (رحمہاللہ)»؛ تاریخ درج مطلب 14 خرداد 1400شمسی، تاریخ بازدید 17 فروردین 1403ہجری شمسی۔
- «دربارہ مورتانی، اطلاعات کلی»، سایت سفارت جمہوری اسلامی ایران نکشوت، تاریخ بازدید 4 فروردین 1403ہجری شمسی۔
- روزہا و رویدادہا، تہیہ و تنظیم دفتر عقیدتی سیاسی فرماندہی معظم کل قوا، تہران، نشر رامین، 1378ہجری شمسی۔
- گلادنی، دروسی، «کاشغر، دروازہ غربی چین»، ترجمہ محسن جعفری مذہب، مجلہ فرہنگی ہنری بخارا، شمارہ36، خرداد1383ہجری شمسی۔
- مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، صدرا، 1384ہجری شمسی۔
- «معنی "جمہوری" در "لغتنامۀ دہخدا"»، موسسہ لغتنامہ دہخدا، تاریخ بازدید 4 فروردین 1403ہجری شمسی۔
- «نگاہی بہ تاریخ تمدن و فرہنگ اویغورہا و ترکستان شرقی»، خبرگزاری آناتولی، تاریخ درج مطلب 16 ژانویہ 2021ء، تاریخ بازدید 19 مارس 2024ء۔