احمد بن علی نجاشی

ویکی شیعہ سے
احمد بن علی نجاشی
کوائف
مکمل ناماحمد بن علی بن احمد بن عباس نَجاشی أسدی
لقب/کنیتنجاشی
تاریخ ولادتصفر 372 ہجری
آبائی شہرکوفہ
تاریخ وفات463 ہجری کے بعد
علمی معلومات
اساتذہشیخ مفید، شیخ صدوق، سید مرتضی، سید رضی و ابن غضائری
تالیفاتفہرست اسماء مصنفی الشیعہ، الجمعہ و ما ورد فیہ من الاعمال، الکوفہ و ما فیہا من الآثار و الفضائل، انساب بنی نضر بن قُعَین و ایامہم و اشعارہم، مختصر الانوار و مواضع النجوم التی سمتہا العرب، تفسیر النجاشی، اخبار بنی سنسن
خدمات


احمد بن علی نَجاشی أسدی (372-450 یا 463 ھ) نجاشی و ابن کوفی کے القاب سے معروف شیعہ علم رجال کی برجستہ ترین شخصیت ہیں۔ فہرست اسماء مصنفی الشیعہ کے نام سے ان کی کتاب شیعہ علم رجال کے منابع میں سے سمجھی جاتی ہے۔ یہ کتاب رجال نجاشی کے نام سے مشہور ہے۔

زندگی نامہ

  • نام: احمد بن علی بن احمد بن عباس نَجاشی أسدی
  • کنیت و لقب: ابو الحسین،[1] ابو العباس،[2] ابن کوفی،[3] نجاشی

رجال اور تراجم کی کتب میں ان کے مقام ولادت کی طرف اشارہ نہیں ہوا لیکن کہا گیا کہ صفر سنہ 372 ہجری کو پیدا ہوئے۔ [4] بعض اسے بغدادی اور ان کے باپ کو کوفی سمجھتے ہیں نیز کہا گیا ہے کہ نجاشی سے ابن کوفی‌ کی تعبیر منقول ہوئی ہے۔[5] انہوں نے اپنے نسب کو رسول اللہ کی بیسویں پشت عدنان تک پہنچایا ہے۔[6] ان کے اپنے کہنے کے مطابق اہواز میں ان کے جد: عبدالله والی منصور دوانیقی تھے انہوں نے امام صادق(ع) کو خط لکھا۔ جس کے جواب میں امام نے رسالہ اہوازیہ ان کیلئے لکھا۔[7]

ان کے اجداد میں سے عبدالله اہواز پر حکومت کرتے تھے اور وہ نجاشی کے نام سے مشہور تھے اسی مناسبت سے انہیں بھی نجاشی کہا جانے لگا۔[8]

نجاشی سنہ 450 ہجری میں سامرا کے نزدیک مطر یا مطیر آباد آئے اور وہیں فوت ہوئے۔ سب سے پہلے ان کی تاریخ وفات مقام وفات کی طرف علامہ حلی (متوفی 726 ہجری) نے خلاصۃ الاقوال‌ میں اشارہ کیا ہے نیز اس سے پہلے شیعہ اور اہل سنت میں سے کسی نے اس کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ لیکن یہ تاریخ درست معلوم نہیں ہوتی ہے بلکہ ان کی وفات اس کے بعد ہوئی۔ شبیری زنجانی کہتے ہیں: نجاشی نے ابو یعلی محمد بن حسن بن حمزه جعفری کی وفات رمضان سنہ 463 ہجری لکھی ہے۔ اس وجہ سے نجاشی کی وفات 450 ہجری میں ہونا ممکن نہیں ہے۔[9]

علمی زندگی

نجاشی ابتدائی علوم اپنے والد سے حاصل کی۔ تیرہ سال سے زیادہ عمر نہیں تھی کہ علم حدیث سے آشنا تھے۔ قرائت قرآن کا علم مسجد لؤلؤی کے صاحب سے حاصل کیا۔ کافی کی کتاب احمد بن احمد کوفی کے پاس پڑھی۔[10]

اساتید و مشائخ

نجاشی کے اساتذہ میں شیخ مفید، شیخ صدوق، سید مرتضی، سید رضی اور ابن غضائری جیسی شخصیات کا نام آتا ہے۔

دیگر اساتذہ:
  1. علی بن احمد بن عباس نجاشی (والد)
  2. احمد بن محمد بن عمران معروف ابن جندی، آقا بزرگ تہرانی انہیں نجاشی کا پہلا استاد سمجھتے ہیں۔[11]
  3. احمد بن محمد بن موسی معروف بنام ابن صلت اہوازی
  4. احمد بن عبدالواحد بن احمد بزاز معروف بنام ابن عبدون یا ابن حاشر‌
  5. احمد بن علی بن عباس سیرافی معروف ابن نوح سیرافی
  6. ابو اسحاق ابراہیم بن مخلد
  7. القاضی ابو عبد الله جعفی
  8. ابو الحسین بن محمد بن ابی سعید
  9. حسن بن احمد بن ابراہیم
  10. حسن بن احمد بن محمد معروف ابن ہیثم عجلی
  11. حسن بن محمد بن یحیی فحام
  12. ابو عبد الله حسین بن عبیدالله غضائری
  13. حسین بن احمد بن موسی
  14. حسین بن جعفر بن محمد مخزومی معروف ابن خمری
  15. سلامۃ بن ذکاء ابو الخیر موصلی
  16. عباس بن عمر بن عباس ابن ابی مروان
  17. عبد الواحد بن مہری
  18. عبد السلام بن حسین ادیب
  19. عبد الله بن محمد بن عبدالله معروف ابو محمد حذاء دعلجی
  20. عثمان بن حاتم منتاب تغلبی
  21. عثمان بن احمد واسطی
  22. علی بن احمد بن محمد قمی معروف ابن ابی جید
  23. ابو القاسم علی بن شبل بن اسد
  24. ابو الحسن محمد بن احمد قمی
  25. محمد بن جعفر ادیب معروف ابو الحسن تمیمی
  26. محمد بن عثمان بن حسن معروف نصیبی معدل
  27. محمد بن علی بن شاذان قزوینی
  28. محمد بن علی بن یعقوب معروف ابو الفرح قنائی کاتب[12]

انہوں نے اپنی زندگی کا اکثر حصہ بغداد میں گزاراصرف چند مرتبہ بغداد سے باہر گئے جن میں سے اکثر سفر زیارتی تھے۔ جیسے سنہ 400 ہجری میں نجف اشرف گئے کچھ مدت حرم امیر المومنین کے جوار میں رہے، سامراء میں عسکریین (ع) کی زیارت کیلئے گئے۔ مکہ اور بصره بھی گئے نیز چند مرتبہ اپنے اصلی وطن کوفہ بھی گئے وہاں حدیث سنی اور اجازہ لیا یا اجازہ دیا۔[13]

آثار

کتاب رجال نجاشی
  • فہرست اسماء مصنفی الشیعہ معروف بنام رجال نجاشی: نجاشی کی زندگی کی اہم ترین تالیف ہے۔ ہزار سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اہل تشیع کے رجالی منابع میں اسے ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ کیونکہ اس میں سینکڑوں شیعوں کی تالفات اور راویوں کے وثوق و عدم وثوق کا معیار اسی ہی سمجھا جاتا ہے۔ علم رجال، فقہا اور محدثین کے نزدیک رجال نجاشی‌ کتب رجال میں حرف اول ہے نیز معارضے کے وقت قول نجاشی دوسروں پر مقدم ہے۔
  • الجمعہ و ما ورد فیہ من الاعمال
  • الکوفہ و ما فیہا من الآثار و الفضائل
  • انساب بنی نضر بن قُعَین و ایامہم و اشعارہم
  • مختصر الانوار و مواضع النجوم التی سمتہا العرب[14]
  • تفسیر النجاشی[15]
  • اخبار بنی سنسن؛ نجاشی نے ابو غالب زراری کے نام کے ذیل میں اس کتاب کا ذکر کیا ہے۔[16]

دقت اور وثاقت

نجاشى سے متعلق قابل توجہ مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے صرف موثق اور معتبر افراد سے روایت نقل کی ہے جبکہ ضعیف اور متہم بہ طعن افراد کی اکثر روایات اختیار میں ہونے کے باوجود انہیں ذکر نہیں کیا ہے۔

اکثر جگہوں پر کہتے ہیں:
فلان موضوع سے متعلق ضعیف اور مطعون افراد سے میرے اختیار میں روایات ہیں لیکن میں نے انہیں نقل کرنے گریز کیا ہے۔

احتياط اور توجہ اس حد تک تھی کہ وہ ضعیف افراد سے روایت سننے کیلئے حاضر نہ تھے۔ اس نقطے نے نجاشی کی منقولات کو دوچندان کر دیا ہے اور یہ بات انسان کو نجاشی کی روایات کے بارے میں زیادہ اطمینان بخشتی ہے۔

اقوال علما

محمد باقر خوانساری کتاب حاوی میں شیخ عبد النبی جزائری سے نقل کرتے ہیں:

«نجاشی رجال کے احوال ضبط کرنے میں جلیل اور عظیم الشأن عالم ہے۔ علمائے متأخرین رجال کی جرح و تعدیل میں ان کی گفتار پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔[17]

محدث قمی ان کے متعلق لکھتے ہیں:

وہ علم رجال کے بزرگ تری عالم تھے۔ ہمارے بزرگ علما میں رجال کی تنظیم و تألیف اور جرح و تعدیل میں کوئی بھی نجاشی تک نہیں پہنچتا ہے۔ تمام علما نے ان پر اعتماد کیا ہے۔[18]

مزید مطالعہ

حوالہ جات

  1. محدث نوری، خاتمۃ المستدرک3/147، مؤسسہ آل البيت عليہم السلام لإحياء التراث، قم، ايران
  2. علامہ حلی، خلاصۃ الاقوال82/ش53/احمد بن علی، مؤسسہ نشر الفقاہۃ
  3. محدث نوری، خاتمۃ المستدرک 3/147،
  4. علامہ حلی، خلاصۃ الاقوال، ۱۴۱۷، ص۷۳.
  5. زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۰، ج۱، ص۱۷۲؛ کحالۃ، معجم المؤلفین، بیروت، ج۱، ص۳۱۷.
  6. نجاشی، رجال نجاشی، ۱۴۱۶، ص۲۱۳.
  7. نجاشی، رجال نجاشی، ۱۴۱۶، ص۱۰۱.
  8. جمعی از نویسندگان، گلشن ابرار، ج ۱، ص ۷۰.
  9. رک: شبیری زنجانی، ابو العباس نجاشی و عصر وی
  10. بحر العلوم، الفوائد الرجالیۃ، ۱۳۶۳، ج۲، ص۸۱-۸۲.
  11. آقا بزرگ، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، ۱۴۰۳، ج۲، ص۴۴۹.
  12. نجاشی، رجال نجاشی، ۱۴۱۶.
  13. رک: مجیدی ‌‌نسب، «تاریخ نگاری شیعہ در کتاب رجال نجاشی»
  14. نجاشی، رجال نجاشی، ۱۴۱۶، ص۱۰۱.
  15. آقا بزرگ، الذریعہ، ۱۴۰۳، ج۴، ص۳۱۷.
  16. نجاشی، رجال نجاشی، ۱۴۱۶، ص۸۴.
  17. خوانساری، روضات الجنات، قم، ج۱، ص۶۱.
  18. قمی، الکنی و الالقاب، تہران، ج۳، ص۲۳۹.

منابع

  • آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ بیروت: دار الاضواء، ۱۴۰۳ ق
  • سید محمد مہدی بحر العلوم، الفوائد الرجالیہ تہران: مکتبہ الصادق، ۱۳۶۳ش
  • جمعی از نویسندگان، گلشن ابرار: خلاصہ ای از زندگی اسوه‌ہای علم و عمل، قم، معروف، ۱۳۸۵ش
  • علامہ حلی حسن بن یوسف، خلاصۃ الاقوال فی معرفة الرجال، نشر الفقاہہ، ۱۴۱۷ق
  • محمد باقر خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات. قم: اسماعیلیان، بی‌ تا
  • شیخ عباس قمی، عباس، الکنی و الالقاب، تہران: مکتبہ الصدر، بی‌ تا
  • شبیری زنجانی، سید موسی، ابو العباس نجاشی و عصر وی، نور علم، ش ۱۱، ۱۳۶۴ش
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال نجاشی. قم: جامعہ مدرسین، ۱۴۱۶ق
  • زرکلی، خیر الدین، الاعلام، بیروت: دار العلم، ۱۹۸۰ ع
  • کحالہ، عمر رضا، معجم المؤلفین. بیروت: مکتبہ المثنی، بی‌ تا
  • مجیدی‌ نسب، نرگس، تاریخ‌ نگاری شیعہ در کتاب رجال نجاشی، نامہ تاریخ‌ پژوہان، ش۱۶، زمستان ۱۳۸۷ش